وستان کاایک مستان

تحریر:مفتی عبدالقیوم مالیگانوی

بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا مستانہ

بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستورِ میخانہ

یہ دریادلی کادورہے:          

            ہمارے زمانہ میں چوں کہ الفاظ والقاب کے استعمال میں بڑی سخاوت اوردریادلی کا مظاہرہ بڑی بے دردی سے ہوتاہے، بسااوقات حاتم طائی جیسی یہ سخاوت؛مبالغہ آرائی کی اس حدکوپارکرجاتی ہے،جوموصوف وممدوح کوبھی شرمندہ کردے۔اس مذکورہ شعرکے استعمال میں بھی کچھ ایساہی ظلم ہوتارہاہے اورشایدیہ سلسلہ کبھی رک بھی جائے ،فی الحال اس کے کوئی آثار نظرنہیں آ تے ہیں ۔

دستورِ میخانہ بدل ڈالا:

            لیکن!!!دورحاضرمیں اس شعربالاکاحقیقی مصداق اورصدفی صدموزوں اگرکوئی نامِ نامی اوراسم گرامی ہوسکتاہے تووہ قریہٴ” وستان“ کی زرخیزسرزمین سے ۱۳۷۰ھ مطابق یکم جون ۱۹۵۰ء کوطلوع ہونے والاوہ آفتابِ جہاں تاب اورمستانہ ہے، جو اپنے نام سے زیادہ اپنی نسبتِ وطن سے معروف ومشہورہوا۔یعنی بیانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی:”خیرالناس من ینفع الناس“کاجیتاجاگتانمونہ، رئیس الجامعہ،خادم القرآن، عامر المساجد اور سلطان المدارس حضرت مولاناغلام محمد صاحب وستانوی اطال اللہ عمرہ بالعافیة والسلامة! موصوف محترم نے مدت قلیلہ میں بگڑے ہوئے دستورِ میخانہ کو ایسے حیرت انگیز طریقے سے بدلاہے،جس کی نظیر تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔

بے نظیرکارنامہ:

            کیوں کہ مدت دراز،طویل محنتوں اوربے انتہاجفاکشی کے بعدکارہائے نمایاں کاوجودپاناتومعتاداور ایک معمول کی بات ہے،لیکن تھوڑی مدت میں ایساکام؛بلکہ زندہ جاوید کارنامہ،جس کی جہتیں،نوعیتیں اور شکلیں مختلف ہوں، بے مثال اوربے نظیر ہے۔

۴۳/سال پہلے:

            آج سے تقریباً۴۳/ سال قبل اللہ تعالیٰ کی توفیق اورنیک لوگوں کی دعاوٴں کے ثمرہ سے اس مرد قلندر کا اکل کوا کی بنجراوربے آب وگیاہ سرزمین ”ست پُڑا“کی سنگلاخ وادیوں میں وعظ وبیان کی نسبت پرآناہوا۔ان کے قدوم میمنت لزوم کوبارگاہِ صمدی میں ایسااعزازاورقبولیت کاوہ معیارملا،جس کی زندہ مثال ہمارے سامنے”جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم“اوراس کے تمام حیرت انگیزنظارے ہیں،جنھیں پہلی مرتبہ دیکھنے والاورطہٴ حیرت میں ڈوب کربرملایہی کہتا ہے کہ یہ حضرت وستانوی کی کرامت سے کچھ کم نہیں 

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

قدرت کی فیاضی:  

            آپ کواللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خزانہٴ لامحدودسے جہاں سیرت وکردارکی آفاقی،فکروعمل کی جولانگی، محنت وکاوش کی ہمہ جہتی اورسب سے بڑھ کرقلب وجگرکی بے کلی اوراضطراب سے نوازاہے تووہیں پرحلیہٴ ظاہرہ بھی بڑاہی دل کش ،خوب رواورحسن وجمال کی رعنائیوں سے معموردیاہے۔رنگ گورا،قدمناسب،ڈیل ڈول متوازن اور ہر وقت مسکراتاہواحسین چہرہ عنایت کیاہے۔

اکل کواکی تقدیربدل رہی ہے:

            اپنے وطن”قریہ وستان“سے ہجرت کرکے اکل کوا؛جیسی ویران بستی کووطن بناکر،اس کی تقدیربدلنے ، اس کے الجھے ہوئے گیسووٴں کوسنوارنے والاہی نہیں،بلکہ افق ہندکاایسادرخشندہ ستارہ ہے،جس کوملک وبیرون والے خادم القرآن کے لقب سے ملقب کرتے ہیں۔ جوجنیدوقت حضرت قاری صدیق احمدباندوی کاسچاجانشین اورمحبوب رہااورسفروحضرکی ۲۵/سالہ رفاقت باسعادت کاشرف حاصل کیا۔جس نے محدث کبیرعلامہ شیخ محمدیونس جون پوری سے اکتسابِ فیض کرکے نہ صرف شرفِ تلمذحاصل کیا،بلکہ اپنی تقدیروسعادت سے حضرت کاچہیتابھی بن گیا۔ مفکر گجرات حضرت مولاناعبداللہ کاپوروی کابڑاہی منظورنظراورامیدوں کامرکزرہا،جس نے اپنے اخلاص وعمل اوربے مثال کارناموں سے اپنے عظیم استاذحضرت مولاناسیدذوالفقاراحمدنروری کویہ کہنے پرمجبورکردیاکہ ”غلام محمد ایک فرد نہیں،بلکہ ایک انجمن کانام ہے اورجس کی فکروں اورکاموں کی وسعتوں سے ہماراذہن بہت دور ہے“۔

            جس نے قطب الاقطاب حضرت شیخ زکریا کی صحبت عظیمہ اورناظم اعلیٰ مظاہرعلوم سہارن پورحضرت مولانا اسعد اللہ رام پوری کی خدمت سے اپنے قلب کوایسامنوراورمزکیٰ کیاکہ پھرہزاروں لوگوں کی باطنی صفائی اورتزکیہ کا ذریعہ بن گیا۔

منعم حقیقی کاانعام:

            منعم حقیقی رب العالمین نے آپ کوعلم وعمل کے ساتھ مخلص ومتقی اورخداترس وپارساوالدین عنایت کیے تھے،جن کی تربیت وتوجہ اوردعائے سحرنے آپ کومحبوب المشائخ والصلحا اورمخدوم الخلائق بنادیا۔اسی کے ساتھ مشائخین واکابرین کی ایسی محبت ،توجہ اورتربیت ملی کہ خال خال ہی کسی کوملاکرتی ہے۔چناں چہ اس کی کچھ جھلکیاں ہم پیش کرتے ہیں۔

مظاہر علوم میں آ پ کے اساتذہ:

            جب آپ جامعہ فلاح دارین ترکیسرسے فراغت کے بعدمزیدعلوم وفنون اورتشنگی بجھانے مظاہرعلوم سہارن پور،جیسی مرکزی وروحانی تربیت گاہ پہنچے تواس وقت اپنے زمانہ کی انتہائی نابغہٴ روزگارشخصیات اوراہل اللہ کی جماعت کوپایا۔جن میں سرفہرست قطب الاقطاب حضرت شیخ زکریا ،حضرت مولاناشاہ اسعداللہ رام پوری، حضرت محدث کبیرشیخ یونس جون پوریاورحضرت مفتی مظفرحسین صاحب ہیں۔

شاہی حکم ٹال نہیں سکتا:

            آپ اِن اولیائے عظام اوراساطین فضل وکمال سے اکتسابِ علم کے ساتھ قوت روحانیہ کوبھی لیتے رہے ۔ خاص طورپراولاًحضرت شاہ اسعداللہ رام پوری کی سفارش پرحضرت شیخ زکریا سے بیعت واصلاح کاتعلق قائم کیا۔ حضرت شیخ نے یہ کہتے ہوئے قبول کرلیاکہ” میں بچوں کوبیعت نہیں کرتا،لیکن شاہ صاحب کاحکم ٹال بھی نہیں سکتا“۔ چناں چہ بعدالعصرسرمیں تیل لگانے کی سعادت بھی مقدرکاحصہ بنی ۔ناظم اعلیٰ اورشاہ اسعداللہ رام پوری سے توبے تکلفی کاتعلق رہا،جس نے آپ کوحضرت شاہ کابیٹابنادیا۔یہ سلسلہٴ اصلاح حضرت شیخ کے بعدجنیدوقت اور ولی کامل حضرت قاری صدیق صاحب باندوی سے قائم ہوااورتاحیات باقی رہا۔حضرت قاری صاحب کی وفات کے بعدآپ حضرت الاستاذ،محدث کبیرحضرت شیخ یونس جون پوری سے منسلک ہوئے اوراپنی قوت روحانی کو پروان چڑھاتے ر ہے۔

آپ کی ذات میں بڑوں کاعکس جمیل:

            ادھرآپ کے اولین اساتذہ میں حضرت مولاناعبداللہ کاپودروی ،حضرت مولاناسیدذوالفقاراحمدنروری ، حضرت مولاناشیرعلی افغانی،حضرت مولاناسیدابراراحمددھولیوی،حضرت مولاناعلی یوسف کاوی ؛جیسے آفتاب وماہتاب نے آپ کوتراش کرہیرے کی چمک،پہاڑکی استقامت ،عزائم کی بلندی،سمندرکی گہرائی،جہدمسلسل کی عادت،خلق خداکی محبت اورامت مسلمہ کی خدمت اورماہیٴ بے آب کی طرح تڑپنا،سِسکنااورسحرکی آہ وزاری جیسی بیش قیمت صفاتِ عالیہ اوراوصافِ غالیہ سے آراستہ کردیا،جس کے نتیجہ میںآ پ کے اندراپنے بڑوں کاعکس جمیل نظر آتا ہے۔اس لیے بجاطورپرآپ کواسلاف کی یادگاراوراپنے بزرگوں اوراساتذہ کاپَرتوکہاجاسکتاہے،جس کے لیے زمانہ کے منتخب اوراللہ کے چنندہ بندوں نے بیک وقت اپنے ہاتھوں کواٹھاکردعائیں کی ہو۔میرااشارہ اُس واقعہ کی طرف ہے،جس کواہل علم میں بھی بہت کم ہی لوگ جانتے ہیں،جومجھ کوبہت ہی مستنداورمعتبرذریعہ سے موصول ہوا ہے۔یقینااِس واقعہ کاذکرمذکورہ تمام باتوں کے لیے ایک حوالہ بن کرسندِ عالی ہوگی۔

تھیلی میں شَکرپایا:

            مظاہرعلوم سے فراغت کے بعدحضرت نے تقریباً۱۲/سال تک دارالعلوم کنتھاریہ میں ابتداسے متوسطات کی کتابوں کابڑی محنت اوردل چسپی سے اسباق کاسلسلہ جاری رکھا۔بہرحال ایک مرتبہ کچھ لوگ حضرت شیخ کے پاس سہارن پورجارہے تھے اورمولاناوستانوی مدظلہ کومعلوم ہواتوآپ نے ان کے لیے بہ طورِ ہدیہ ایک تھیلی حضرت شیخ زکریا کی خدمت میں روانہ کیا۔جب یہ قاصدحضرت شیخ کی خدمت میں پہنچا،اس وقت حضرت شیخ کے پاس بڑے بڑے علماومشائخین ؛مثلاً:حضرت مولانامنظورصاحب نعمانی اوراکابرین سہارن پورکسی غرض سے جمع تھے۔حضرت شیخ نے جب اس تھیلی کوکھولااوراس میں تھوڑی شَکرپایاتوفرمایاکہ آج توغلام محمدنے میرے بڑوں کی یادزندہ کردیا۔آوٴاُس کے لیے دعاکرتے ہیں اورہاتھ اٹھالیے اورتمام اکابرین نے بھی دعاکے لیے ہاتھ اٹھالیے۔حضرت شیخ دعائیں دے رہے ہیں اوربزرگانِ دین کی یہ جماعت آمین کہہ رہی ہے۔ظاہرہے کہ مجلس کی روحانیت اورمقبولیت کاکیاعالم ہوگا؟اندازہ کرنابھی بہت مشکل ہے۔

مقبولیت کایہ رازہے:

            یہ وہ رازسربستہ ہے،جس نے آپ کومقبول خاص وعام اورموفق من اللہ بنادیا۔پھرجب میدان عمل میں اترے تواپنے اقران ومعاصرین ؛سبھی کوپیچھے چھوڑگئے ۔گویایہ کہتے گئے کہ

میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے

مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حدِ پرواز سے

جامعہ کاقیام اورقرآنی خدمات:

            چناں چہ فضل الٰہی اورخاصان خداکی دعاوٴں وتوجہات سے۱۴۰۰ھ مطابق ۱۹۸۰ء میںآ پ نے اکل کوا کی بنجر اورویران زمین پرعلمائے کباراورمشائخین عظام کے سایہ میں”جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم“اکل کواکی بنیاد ڈالی،جس نے چندسالوں کی قلیل مدت میں ارشادقرآنی:﴿کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ۔﴾کوایک ن مٹ حقیقت کارنگ دے دیا۔پھراس کو اپنے خون پسینہ سے سینچااورجنگل کو منگل میں تبدیل کر دیا۔ تادم تحریراُن کی روشن خدمات کا فیض عام جاری وساری ہے اوراِن شاء اللہ آگے بھی جاری رہے گا۔ ۸۵/ ایکڑ اراضی پرپھیلاہواوسیع وعریض جامعہ آپ کی زندہ دلی،بلندہمتی،کوہ ”ست پڑا“ کی سی استقامت کی تصویر پیش کر رہا ہے ،جس کی آغوش تربیت میں اِس وقت ۱۴/ہزارسے زائدتشنگان علوم ومعرفت دین ودنیاکی منزلیں پانے میں ہمہ تن مصروفِ عمل ہیں۔اس کے فیضانِ نظرنے یہاں کے باشندوں کوجینے کا ہنر، شرم وحیا کا لباس،زبان وادب کی چاشنی،اخلاق وکردارکی حقیقت،نرم خوئی وخوش روئی اوراِن سب سے بڑھ کر اپنے دین ومذہب سے آشنائی اوروارفتگی ؛نیزقرآن عظیم کی عظمتوں سے وابستہ کرکے ان کی ہستی کوعظیم کردیا۔پھرکیا تھا؟ کوہ ”ست پڑا“کی وہ وادیاں؛جوزمانہٴ درازسے ویران،کفروشرک کی آلودگیوں سے آلودہ اور بدبودار تھیں، جس کی سماعتوں کوکلمات خیر نصیب نہیں ہوئے تھے۔رب کائنات کی کبریائی اوراس کے کلام کے زمزموں اور صداوٴں سے گونج اٹھیں اوراس کا سویاہوامقدرایساجاگاکہ جاگتاہی چلاگیا۔جودوسروں کے لیے باعث رشک اور سرمایہٴ افتخار بن گئیں۔

مکاتب قرآنیہ کاجال پھیلادیا:

            جس کی ہمہ جہتی قرآنی خدمات کادائرہ ملک بھرمیں ایسادرازہوااورپھیلتاچلاگیاکہ دیکھتے ہی دیکھتے قرآن کریم کی یہ صدا؛اس کی تجوید وترتیل،اس کاحفظ وفہم،اس کی تشریح وتفسیرکے مراکزومدارس؛ملک بھر میں ایسی تیز رفتاری سے بنتے چلے گئے کہ صوبہ صوبہ،شہرشہر،قریہ قریہ،بستی بستی،بلکہ یوں کہہ لیجیے توبھی غلط نہیں ہوگاکہ گلی گلی، کوچہ کوچہ اللہ کاکلام صحت وتجوید اور اس کے تمام حقوق کی رعایت کے ساتھ پڑھاپڑھایا، سمجھاسمجھایا اور لکھا لکھوایاجانے لگا۔ اب حال یہ ہے کہ پورے ملک واسیوں کی زبان پرجامعہ اکل کوااورحضرت وستانوی دامت برکاتہم کا نام بڑی عظمتوں اورتشکروامتنان کے ساتھ لیاجانے لگا۔بالخصوص مکاتب قرآنیہ کاجوجال حضرت نے پھیلایا تو تقریباًتین ہزار مکاتب چلنے لگے، جس کے ماتحت دو لاکھ سے زائد معصوم بچے اوربچیاں ان کی آغوش تربیت میں آ کرشادکام ہو رہے ہیں۔

حضرت کی مسابقتی تحریک:

            صحت قرآن اورتجویدقرآن کی جوتحریک حضرت والامدظلہ نے ملک کے گوشے گوشے میں چلائی ،اس کو مزیدطاقتور اورفعال بنانے اوراس کوجِلابخشنے کے لیے مسابقات قرآنیہ کاسنہراسلسلہ جاری فرمایا،جوداخلی مسابقات سے لے کرکل ہند پیمانہ تک جاپہنچا۔اسی سال حضرت دامت برکاتہم العالیہ نے اساتذہ ٴ جامعہ کے مابین یہ ارادہ بھی ظاہرفرمایاتھاکہ آئندہ ہم ”مسابقات القرآن الکریم “ کو اِن شاء اللہ العزیزعالمی پیمانے پر منعقد کریں گے۔اللہ اُن کی اِس آرزوئے خیرکے اسباب آسان فرمائے ۔آمین!

دیگرمدارس نے سیکھا:

            اس مسابقاتی تحریک نے حضرت وستانوی کوخادم القرآن بنادیا۔ملک وبیرون کے نام ورعلمااوردانش وران قوم وملت نے بھی حضرت والادامت برکاتہم کے اس اقدام کوخوب سراہا،دل کھول کرپذیرائی کی اوراس کی تقلید میں اکثر مدارس ومکاتب نے مسابقة القرآن کاطریقہ سیکھا اور اسے مفیدترپاکراپنے اداروں میں بھی اس سلسلہ کوجاری کیا۔

نگاہِ دوربیں کاکرشما:

            ویسے توحضرت وستانوی کی محنتوں اورکاموں کی جہتیں بہت مختلف اورکثیربھی ہیں،لیکن ایک پہلو ایسا بھی ہے جوناقابل فراموش ہے۔وہ علوم عصریہ کودینی ماحول میں جاری کرنے کاہے،جس کی طرف اللہ نے اس بندہٴ داناکوتقریباً۳۰/سال پہلے رہ نمائی فرمادی تھی۔اس مرددرویش اورنباض زمانہ نے مستقبل کے حالات کواپنی نگاہ دوربیں سے پرکھ کراس وادیٴ پُرخارمیں اپنے بڑوں کے مشورہ سے قدم رکھا۔اورکہتے ہیں ناکہ مٹی کوسونابنا دیا؛ بالکل اسی مثل کے مطابق آپ نے جہاں اورجس وقت جیساہاتھ بڑھایا،اس مٹی کوسونابنادیا۔پھرکڑی محنتوں اور فکر مسلسل کے بعد جامعہ کااحاطہ علوم عصریہ کے مراکزاوراداروں سے آبادہوگیا۔یہ سلسلہ بیرون جامعہ بھی چلا اور ہنوز چل رہاہے ۔ چناں چہ آج پوری دنیادیکھ رہی ہے کہ حفاظ وعلما،مفتیان وقراکے ساتھ امت کی اہم ضرورتیں، ڈاکٹرس،انجینئر، پروفیسر اور فارمیسیسٹ وغیرہ کی شکلوں میں پوری ہونے لگیں۔اور”ملاکی دوڑمسجدتک“اس ناروا جملہ کی معنویت کویکسرغلط ثابت کردیا۔ ساتھ ہی اپنے جذبہٴ جنوں سے یہ بھی بتلادیاکہ ایک فکرمندانسان؛ایک دل دردمندکیاکچھ نہیں کر سکتا ہے ۔

            شایداسی موقع کے لیے کہا گیاہے کہ

یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم

جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

کسی کی سمجھ میں نہیںآ تی تھی:        

            اگرچہ اس راہ میںآ پ کوبڑی کٹھنائیوں اورمخالفتوں کاسامنابھی کرناپڑا۔کیوں کہ یہ اچنبھے اور چونکا دینے والی بات شروع دورمیں کسی بھی دانش کدہ کے ارباب فکرونظراوراہل مدارس کی سمجھ میں نہیںآ تی تھی کہ مدارس کے احاطہ ؛جس کی پُرنورفضاوٴں میں ہروقت قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلندکی جاتی ہیں اوردل کش ترانے گونجاکرتے ہیں، اس میں علوم عصریہ اورفنون وقتیہ کو کیسے شروع کرسکتے ہیں؟لیکن آپ نے بلاخوف لومة لائم کسی کی ملامت اور مخالفت کی پرواہ کیے بغیراپنے مشن کو جاری رکھااوراپنے ہدف کی طرف بہت تیزرفتاری سے بڑھتے اوربزبان حال یہ کہتے رہے کہ

تندیٴ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

سیاسی منظرنامے بدل گئے:

            اس سلسلے کاایک عظیم جال جامعہ اوراس کے ماتحت چلنے والے اداروں میں پھیلادیا۔زمانہ اپنی رفتا ر سے گذرتارہا، ملک کے حالات اورسیاسی منظرنامے میں تبدیلی ہوئی تواب ہرکسی کویہ احساس؛بلکہ یقین ہوچلاکہ حضرت وستانوی مدظلہ کی سوچ وفکر مبنی برصواب اوردرست تھی۔اب ہرکوئی اِس مشن کاحصہ داربنناچاہتاہے اوربن رہاہے۔مطلب واضح ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کوایسی غیرمعمولی فراست اورقوتِ فیصلہ عطافرمائی ہے، جس کے نتائج وثمرات امت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ۔

اتناہی نہیں،بلکہ آگے بھی دیکھ لیجیے:

            اسی پربس نہیں،بلکہ امت کی فلاح وبہبوداورتعمیروترقی کے لیے ،بلکہ امت کی زبوں حالی اورشکستگی کوختم کرنے کے لیے بھی آپ ہمیشہ کوشاں اورفکرمندرہے اورامت کے مخیرین واصحاب ثروت کواس طرف متوجہ کیا، جس کے نتیجے میں۷۰۰۰/سے زائد مساجدتعمیرہوئیں،کئی ہزاربورنگ اورسیکڑوں بیواوٴں کے ماہانہ وظائف جاری ہوئے ۔ نیز سیکڑوں مسلم وغیرمسلم طلبہ وطالبات کی تعلیمی فیس کی سہولتیں،ایمرجنسی آسمانی وزمینی حالات کے بگڑنے پربروقت امدادی ورفاہی جیسے عظیم کارنامے وجودمیںآ ئے۔یہ سب حقیقت میںآ پ کے سوزدروں اورقلب مضطرب کی علامت اورمیزان عمل میںآ پ کی حسنات ہیں۔

وہ ذات میں ایک انجمن ہیں:

            الغرض!آپ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں یاکسی سدابہارگل دستہ سے کچھ کم نہیں ہیں۔اپنے اِنہیں عظیم تاریخی، تجدیدی اوربے مثال کارناموں سے آپ امت کے عام وخاص کے ہردل عزیز اورمحبوب ہوچکے ہیں۔ آپ کے اخلاص وللہیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کم وقت میںآ پ کواورآپ کے ادارہ ”جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا“کو شہرت وترقی کے اس بام عروج تک پہنچادیاہے،جہاں لوگ اورادارے صدی دوصدی کے بعدپہنچ پاتے ہیں۔آپ ایک عالمی شخصیت ہیں اورآپ کاجامعہ بین الاقوامی یونیورسٹی کی شکل اختیارکرگیاہے،جوآیت کریمہ ﴿تُوْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْن ٍ م بِاِذْنِ رَبِّھَا ﴾ کامکمل مصداق ہے ۔

آپ کے فرزندارجمند:        

     ان تمام احوال وکوائف کے ساتھ بڑی خوش آئنداورفخروانبساط کی بات یہ بھی ہے کہ آپ کے تین سپوت؛جن میں سے ایک میرے رفیق درس وتدریس حضرت مولاناسعیداحمدوستانوی اللہ کوپیارے ہوچکے ہیں۔اللہ غریق رحمت فرمائے!ابھی آپ کے دوفرزندارجمند؛جوآپ کے مشن کے فعال ومتحرک رکن اور شریک کارواں ہیں۔ایک حضرت مولانامحمدحذیفہ اشاعتی وستانوی مدظلہ ،دوسرے مولانااویس اشاعتی وستانوی سلمہ۔ اللہ انہیں صحت وعافیت سے نوازے۔بالخصوص آپ کے خلف الرشید، جانشین حقیقی اورمدیرتنفیذی حضرت مولانا محمد حذیفہ وستانوی نے والد گرامی کی نگاہ وتوجہ ومشورہ سے تمام کاموں کوبہ حسن وخوبی تیزرفتاری سے آگے بڑھایااوراپنی تخلیقی صلاحیتوں اورفکرمسلسل سے جامعہ کوہرمیدان میں ترقیات کی راہوں پرلے جانے اورطلبہ کوہرمیدان کاآدمی بنانے کی سعیٴ مشکورمیں لگے ہوئے ہیں۔اللہ ان کومزیدہمت وحوصلہ عطاکرے اورحضرت وستانوی مدظلہ اوران فرزندان کوبہ عافیت وسلامت رکھے۔خصوصاًحضرت کے سایہٴ عاطفت کوامت کے لیے عافیت کے ساتھ درازفرمائے ۔آمین یارب العالمین!