معارفِ تھانویؒ

شرعی وضع قطع کی ضرورت علما اور طلبہ سے اہم خطاب:

            آپ لوگ اہل علم ہیں جاہل و عوام نہیں ، ’’العاقل تکفیہ الاشارۃ‘‘  اگرہم لوگ فکر صحیح سے کام لیں تو دیکھیں گے کہ ہم لوگوں کے ضمیر میں ضرور تفاخر ہے الا ما شاء اللہ کوئی فردایسا ہو گا جو اس وبائے عام میں مبتلا نہ ہو۔ رفتار میں تفاخر، نشست و برخاست میں تفاخر، معاشرت و معاملہ میں تفاخر، خوراک و پوشاک میں تفاخر ،محض تفاخر وریا کے لیے قیمتی گراں بہا لباس پہنا جاتا ہے۔ روٹی تو کھاویں مسجدوں کی، خر چ کر یں زکوۃ وغیرہ کا مال، مگر لباس قیمتی ہی ہوگا ،گو قرض لے کر ہو ،مگرشان میں فرق نہ آئے ۔ یہ تو اچھا خاصا لباس زور (جھوملا) ہے۔ ہر کپڑے میں یکتائی سوجھتی ہے رضائی کے لیے چھینٹ لیں گے ،وہ جو محلہ بھر میں کسی کے پاس نہ ہو بل کہ شہر بھر میں بھی کسی کے پاس نہ ہو۔ اور گوہو چھینٹ لیکن مخمل نما ہو ،پھر مشورے ہوتے ہیں کہ اس کی گوٹ کیسی خوب صورت رہے گی۔ مغزی کیسی خوش نما معلوم ہوگی، استر کیسا ہونا چاہیے، جیسا کرتا ہے ویسی ہی ٹوپی ہے، یہ تو وہ لوگ ہیں ،جو اپنی شان کے موافق شرعی لباس پہنتے ہیں۔ وضع علما کی اختیار کرتے ہیں، مگر اس میں تفاخر اور بعض حضرات طلبہ مزید برآں نئے فیشن پر مٹے ہوئے ہیں۔ ٹوپی دیکھے تو ٹرکی پاجامہ ، پتلون ، اچکن ، شیروانی ، جوتا ہمیشہ گرگابی ، کالر نکٹائی لگی ہوئی ہے ،جو کہ فی الحقیقت ناک کٹائی ہے نام ہی بڑا خوب صورت ہے، مگر لوگ ان پر مرے ہوئے ہیں ۔(آج کل طلبہ میں تو لباس کی تمیز ہی اٹھ گئی ہے، بعض نے تو اس قدر غلو کر رکھا ہے کہ عورت اور مرد کے لباس میں ہی تمیز ختم کر ڈالی ہے،ایسے ایسے کلر اور ڈیزاین کے کپڑے پہنتے ہیںکہ بعض کلر کی وجہ کر عورتوں سے مشابہ اور بعض سلائی کے اعتبار سے نسوانی اور پتلونی معلوم ہوتے ہیں۔اچھے خاصے سفید کپڑے میں کالے ،نیـلے پیلے کلر لگا کر اسے داغدار کر دیتے ہیں۔م۔ہ۔ن۔ا)بعض دفع لباس قیمتی نہیں ہوتا، لیکن اس کو ایسے طرز سے تراشا جا تا ہے اور ایسے طور پر سلوایا جا تا ہے جس سے بہت قیمتی معلوم ہو۔ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ طالب علم نہیں کوئی نواب صاحب ہیںیا کوئی امیر زادے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میلے کچیلے رہو، اپنے لباس و بدن کو پاک و صاف نہ رکھو، بل کہ یہ کہتا ہوں کہ اپنی حیثیت سے نہ بڑھو، جتنی چادر ہے اتنے ہی پیر پھیلا ؤ۔اپنی اپنی وسعت کا خیال رکھو،علمی و شرعی وضع کونہ چھوڑو۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ تم عالم ہوکر جاہلوں کا اتباع کرو، ان کی تقلید کرو۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جاہل تمہاری تقلید کرتے نہ کہ وہ الٹا امام و مقتدا بن جائیں۔

            یوں تاویلیں تو جیہیں کر کے نہ مانو تو اس کا علاج تو کچھ نہیں ،ذرا تم غور کر و!خوض و تاویل سے کام تو لو کہ تم نے طریقہ کہاں سے اخذ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ تم نے اس کو اہلِ باطل سے سیکھا ہے ،اس لباس میں کفار کو اپنا پیشوا بنایا ہے، اس سے مقصد بجز تفاخر و ریا وغیرہ کے اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جس وضع کو تم نے دوسروں سے لیا ہے وہ تمہارے تحمل سے بھی باہر ہے اور عقلاً و شرعاً انسان کو وہ کام کر نا چا ہیے، جس کی برداشت وتحمل کر سکے ،تحمل بقدرتحمل ہونا چاہیے۔

             میں تم کو ایک معیار و قاعدہ بتاتا ہوں اس سے اس وضع کے جواز و عدمِ جواز کا اندازہ کر لیا کرو کہ قیمتی وخوش وضع لباس پہننے کے بعد تمہارے قلب میں کچھ تغیر و تبدل ہوتا ہے ،کچھ عجب وفخر معلوم ہوتا ہے یا نہیں ۔اگر تمہاری حالت ویسے ہی ہے جیسے پہلے تھی تو بے شک قیمتی و خوش وضع لباس میں حرج نہیں ہے؛ بشرطیکہ اور کوئی مانع شرعی نہ ہو اوراگر کچھ خود داری و عجب کی بو آئے تو حرام ہے ۔باقی وہ وضع ہر حال میں حرام رہے گی جو کفارسے اخذ کی گئی ہے؛ کیوںکہ اس میں منشائے حرمت صرف تفاخر نہیں ،بل کہ تشبہ بھی علت ہے ۔پس صرف تفاخر کی نفی سے حرمت کا انتفا نہ ہو گا جب کہ دوسری علت باقی رہے۔ نیز ہروقت لباس کی فکر ویسے بھی تو مضر ہے۔ جو شخص ہر وقت اسی دھن میں رہتا ہے وہ کسی کام کا نہیں ہے۔

            حضرات آپ کا کمال آپ کا جمال تو صرف علم وعمل ہے اس کا خیال رکھیے ۔اس میں مشغول ہو جائیے اس لباس سے زینت حاصل کیجئے۔{ وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون} آپ کو علم و عمل کے ہوتے ہوئے کسی دوسری شئ کی ایسی احتیاج نہیں ہے، جس کے لیے تشویش اور ذلت میں مبتلا ہوں اس کا حصول تمام اشیا سے مستغنی و بے نیاز بنادیتا ہے ۔کسی امر کی ضرورت نہیں رہتی بس ان زنانے پن کی زینت کو چھوڑنا چاہیے اور سادگی سے بود باش کرنا چاہیے۔

صرف چار باتوں کے التزام سے یقینا استعداد بن جائے گی :

            حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا : کہ بس تین چیزوں کا التزام کرلیں پھر چاہے کچھ یاد رہے یا نہ رہے میں ٹھیکہ لیتا ہوں کہ علمی استعداد پیدا ہوجائے گی ۔

            (۱)  سبق کا مطالعہ کریں (۲) پھر استاذ سے سمجھ کر پڑھیں(۳) پھر ایک مرتبہ اپنی زبان سے تقریر کرلیں اور ایک چوتھی بات درجہ احسان میں یہ ہے کہ آموختہ بالالتزام پڑھتے رہا کریں ۔ بس پھر نہ رٹنے کی ضرورت ہے نہ محنت کرنے کی۔ (انفاس عیسیٰ : ۲/۵۷۲)