مسئلہ: بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کریڈٹ کارڈ (Credit Card) سے خریداری کی صورت میں اگر بلوں کی قیمت مقرر ہ مدت میں ادا نہ کرنے پر سود لاگو ہوتاہے، تو کیا سود کی شرط سے عقد فاسد ہوگا یا نہیں؟ تو واضح ہو کہ کریڈٹ کارڈ ہولڈر کے ساتھ بینک کا عقد قرضے کا ہوتا ہے، کہ بینک کی طرف سے دی ہوئی رقم کارڈ ہولڈر کے ذمے قرض ہوتی ہے، اور قرض کے ساتھ سود کی یہ شرطِ فاسد لگی ہوتی ہے کہ اگر متعین مدت میں رقم ادا نہ کی گئی، تو سود ادا کرنا ہوگا، لیکن قرض عقودِ تبرع میں سے ہے(۱)، عقدِ معاوضہ نہیں، اور حنفیہ کے نزدیک اصول یہ ہے کہ عقودِ معاوضہ میں شرطِ فاسد لگانا عقد کو فاسد کردیتا ہے، عقودِ تبرع میں شرطِ فاسد خود بخود لغو ہوجاتی ہے، اور عقد فاسد نہیں ہوتا(۲)، البتہ شرطِ فاسد لگانے کی خرابی لازم آتی ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس بات کا مکمل عہد وپیمان کرلے کہ اس شرطِ فاسد پر کبھی بھی عمل نہ ہوگا، اور وہ بلوں کی قیمت مقررہ مدت کے اندر ادا کردے گا، اور سود کی ادائیگی کی نوبت نہیں آنے دے گا، تو اِن شاء اللہ تعالیٰ اس شرطِ فاسد کا گناہ بھی نہیں ہوگا۔(۳)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : أما عقد القرض فہو عقد لا یصدر إلا مؤقتا ، وذلک لأنہ عقد تبرع ابتدائً ، ومعاوضۃ انتہائً ، أو دفع مال إرفاقا لمن ینتفع بہ ویرد بدلہ ۔ (۲/۲۵ ، أجل ، توقیت القرض)
(۲) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : وما لا یبطل بالشرط الفاسد القرض ۔۔۔۔۔۔۔ بأن قال : أقرضتک ہذہ المائۃ بشرط أن تخدمني شہرًا مثلا فإنہ لا یبطل بہذا الشرط ، وذلک لأن الشروط الفاسدۃ من باب الربا وأنہ یختص بالمبادلۃ المالیۃ ، وہذہ العقود کلہا لیست بمعاوضۃ مالیۃ فلا تؤثر فیہا الشروط الفاسدۃ ، ذکرہ العیني ۔۔۔۔ وفي البزازیۃ : وتعلیق القرض حرام والشرط لا یلزم ۔ (۶/۱۸۷ ، کتاب البیوع ، باب المتفرقات ، ط : رشیدیہ کوئٹہ ، تبیین الحقائق : ۴/۱۳۳ ، الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الفتاوی الہندیۃ : ۴/۴۲۶)
ما في ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : وما لا یبطلہ الشرط الفاسد وہو سبعۃ وعشرون شیئًا علی ما ذکرہ المصنف ، الأول : القرض ۔۔۔۔ اہـ ۔ (۳/۱۵۸ ، مسائل شتی في البیع ، ط : دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وفي الخلاصۃ : القرض بالشرط حرام ، والشرط لغو ۔ (۷/۳۹۴ ، ۳۹۵ ، کتاب البیوع ، باب المرابحۃ والتولیۃ ، مطلب کل قرض جرّ نفعا حرام)
(۳) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : إن الدیون تقضی بأمثالہا علی معنی أن المقبوض مضمون علی القابض ؛ لأن قبضہ بنفسہ علی وجہ التملک ، ولرب الدین علی المدیون مثلہ ۔ (۵/۶۷۵)
ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : القرض : ۔۔۔۔۔۔ في الاصطلاح : دفع مال إرفاقا لمن ینتفع بہ ویرد بدلہ ۔
(۳۳/۱۱۱، قرض ، التعریف)
ما في ’’ بحوث فقہیۃ قضایا معاصرۃ ‘‘ : القرض یجب في الشریعۃ الإسلامیۃ أن تقضی بأمثالہا ۔۔۔۔۔۔ والذي یتحقق من النظر في دلائل القرآن والسنۃ ، ومشاہدۃ معاملات الناس أن المثلیۃ المطلوبۃ في القرض ہي المثلیۃ في المقدار والکمیۃ دون المثلیۃ في القیمۃ والمالیۃ ۔ (ص/۱۷۴)
(فتاویٰ دار العلوم زکریا افریقہ: ۵/۳۸۸، بینک کارڈ کی اقسام اور اُن کا شرعی حکم، ط: زمزم پبلی شرز ،کراچی)