تقویٰ کی حقیقت :
تقویٰ سے یہ مراد نہیں کہ ذکر و شغل اور مراقبات کیا کرو ، یہ تو تقویٰ کی زینت ہیں ۔ اللہ نے تقویٰ کی حقیقت بھی بیان فرمائی ہے ۔ {الذین یومنون بالغیب -یوقنون}اس جگہ حق تعالیٰ نے عقائد اورعباداتِ بدنیہ ومالیہ کے اصول بیان فرمائے ہیں۔ پس حاصل یہ ہوا کہ متقی وہ لوگ ہیں، جو دین میں کامل ہوں ان کے عقائد بھی صحیح ہوں اورعبادات بدنیہ ومالیہ میں بھی کوتاہی نہ کرتے ہوں ۔
شرعاً تقویٰ کی حقیقت کمال فی الدین ہے ،جس پر دوسری آیت دال ہے ۔ وہ یہ کہ{ لَیسَ الْبِرُّ ان تولوا وجوہکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن باللہ والیوم الآخر والملائکۃ والکتاب والنبیین }یہاں تک تو عقائد کا ذکر ہے ۔ تو بِرّ کامل کا ایک جز تو تصحیحِ عقائد ہے ۔ آگے فرماتے ہیں : {واتی المال علی حبہ تا فی الرقاب } اس میں عبادات بدنیہ ومالیہ کا ذکر ہے اور {والموفون بعہدہم اذا عاہدو ا والصابرین فی الباساء والضراء وحین الباس }اس میں اصول اخلاق کا ذکر ہے ۔ غرض اعمال ظاہرہ اور طاعاتِ مالیہ وبدنیہ اور اعمالِ قلبیہ وغیرہ سب اس آیت میں موجود ہیں ۔ ان سب کا بیان ہوکر ارشاد ہوتا ہے ۔ {اولئک الذین صدقوا واولئک ہم المتقون }اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ متقی وہ ہے ،جو ان سب اوصاف سے متصف ہو۔ پس ثابت ہوا کہ تقویٰ کی حقیقت کمال فی الدین ہے اور تصحیح عقائد وادائے طاعاتِ بدنیہ ومالیہ واصلاح ِمعاملات ومعاشرات اس کے اجزا ہیں ۔ (التبلیغ ص۳۴ج۲ کوثر العلوم )
اصل تقویٰ:
تقویٰ کے لیے تمام معاصی سے اجتناب ضروری ہے اور وہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ مامورات کو بھی بجا لائے؛ کیوں کہ ترک مامور بہ بھی معصیت ہے اس کا ترک بھی تقویٰ کے لیے ضروری ہے ۔
میں تقویٰ کے لیے آپ کو ایک گر بتلاتاہوں ،اس کو یاد رکھیے وہ یہ کہ گو نوافل اور ذکر وشغل زیادہ نہ ہو،مگر ورع یعنی ترکِ معاصی و مناہی کا ( یعنی گناہوں سے بچنے کا ) زیادہ اہتمام کرو ۔ حدیث میں ہے : ’’ لا یعدل بالرعۃ (لیس الورع کالکف) گناہوں سے رکے رہنا سب سے بڑا تقویٰ ہے ۔ (التبلیغ ص ۱۳۲-۱۴۱)
طلبہ کو اس کا بالکل اہتمام نہیں اور اس میں وہ بے حد کوتاہیاں کرتے ہیں ۔ ان کوتاہیوں کی تفصیل میں کہاں تک کروں میں اور کس کس بات کو بتاؤں ؟ طلبہ میں جو تقویٰ کی کمی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ خداتعالیٰ سے خوف نہیں ۔ (التبلیغ ص ۱۳۴)