انوار قرآنی دوسری قسط:
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد(صاحب)وستانویؔ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بندہ جب قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو شیطان سے بچنے کے لیے بہ طور سیفٹی بیلٹ کے اعوذ باللہ کا اہتمام ضرور کرتا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بسم اللہ کیا ہے ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے معنی: شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اوررحمت والا ہے ۔ یہ بھی گویا دعا ہی ہے ۔ اللہ رب العزت نے انسان کو کمزور بنایا ؛ مگر اسے عقل وذہانت اور فراست عطا کی اور کائنات کو اس کے لیے مسخر کردیا ۔ اب جب ان دیکھی شریر طاقت سے اس نے اپنے کو اعوذ باللہ کے ذریعہ اللہ کی پناہ میں دے دیا ،تو اس کے ساتھ جو دوسری طاقت ہے اور وہ بھی شرکی داعی ہے اور وہ اس کا اپنا نفس ہے؛ تو شیطان سے پناہ میں آنے کے بعد یہ ڈر تھا کہ کہیں اس کا نفس اسے اپنے علم یا قوت تسخیر کی وجہ سے فخر اور کبر میں مبتلا نہ کردے ۔ تو ’’بسم اللہ ‘‘کیا،کہ میرا اپنا کوئی کمال نہیں، کہ ہم کار خیر کریں،جوہم کرنے جارہے ہیں وہ محض اللہ کی توفیق سے کررہے ہیں ۔
بسم اللہ بھی گویا دعا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ہر بڑا کام جو بسم اللہ کے بغیرکیا جائے ناقص اور ادھور ا رہتا ہے ۔ آج ہمارے معاشرے میں ’’بسم اللہ‘‘ کا استعمال بالکل ترک ہوچکا ہے ، اسی لیے ہمارے بڑے بڑے کام پورے نہیں ہوپاتے۔
’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ ہدایت کی طرف یہ مشعل راہ ہے ، اندھیروں کو دور کرنے والی اور اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کا فارمولا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ جو شخص اپنے کام کا آغاز اس آیتِ مبارکہ سے کرے گا ان شاء اللہ برکات اس کے شاملِ حال ہوںگی ، وہ گمراہی سے بچ جائے گا اور کام آسان ہوجائے گا ۔ در اصل یہ آیت ہمارے پیارے رب کی طرف سے برکت کی کنجی ہے ، جس کام کو ہم صد قِ دل کے ساتھ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے شروع کریںگے ، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت شامل ہوجائے گی ۔ چاہیے کہ ہم بسم اللہ کو اپنی عادت بنالیں۔
’’اللہ‘‘۔ رب تعالی کی ذاتِ پاک:
خالقِ کون و مکان کاذاتی نام ’’اللہ‘‘ ہے، جس کے معنی اس کی خاص اپنی ذات مبارک ہے،اس لیے اسکا ترجمہ نا ممکن ہے۔ بعض لوگ ’’اللہ ‘‘کا اردو میں ترجمہ ’’خدا‘‘ سے اور انگریزی میں گاڈ(God) سے کرتے ہیں؛ لیکن ایسا کرنا غلط ہے اگرچہ بعض فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے مگر افضل پہلی رائے ہے۔ عام لوگوں کے سلسلہ میں بھی کسی کے نام کا ترجمہ کرنا اور اسے ترجمہ کے نام سے پکارنا بہت غیر مناسب بات ہے، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ اللہ تعالی کا نام ہر زبان میں ’’ اللہ ‘‘ ہی ہے۔
اللہ تعالی وہ عظیم ہستی ہے، جو ہر چیز کا سبب (Primordial Cause)، اسکا موجد، خالق، رب اورسمیٹنے والا ہے، اس کی شان یہ ہے کہ سارا زمان و مکان اس کی رحمت سے بھرا پڑا ہے ،جس کا شاہد کائنات کا ذرہ ذرہ ہے۔ ایٹم ایٹم اپنے خالق کا شعور رکھتا ہے، اس کی تسبیح کرتاہے اور سبھی اس کی قدرت کے قوانین (Scientific Laws) کے دائرہ ٔکار میں رہ کر اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ زمان اور مکان اسی کی صفات ہیں۔ وہی الاول اور الآ خر ہے یعنی ٹوٹل وقت (Total Time)اس کی حقیقت کا ایک اظہار ہے۔ وہی’ الظاہر‘ اور ’الباطن‘ یعنی ٹوٹل مکان (Total Space) بھی اس کی حقیقت کی شان ہے۔ یوں وہ بیک وقت ہر چیز کو جانتا ہے، دیکھتا اور سنتا ہے۔ تمام کائنات اور اس میں موجود ہر چیز اس کے گھیرے میں ہے ۔
وہ ہر چیز سے الگ ہے ؛لیکن اس سے کنارہ کش نہیں۔ وہ ہر چیز کا فاعل ہے لیکن اس کافعل حرکات اور آلات کا نتیجہ نہیں ۔ وہ بصیر ہے جب اس کی مخلوق نہ تھی۔ وہ منفرد ہے، کیوںکہ اس کا کوئی اپنا ساتھی نہیں، جس سے وہ اپنا جی بہلائے اور جس کے نہ ہونے سے اسے الجھن ہو۔اس نے دنیا کو پیدا کیا اور پہلے پہل بنایا، بغیر اس کے کہ فکرکو کام میں لاتایا تجربہ سے فائدہ اٹھاتا اورنہ اپنے نفس میں کوئی حرکت پیدا کی، نہ پہلے سے کوئی اہتمام کیا کہ جس کے لئے بے چین ہوا ہو۔ وہ چیزوں کو ٹھیک وقت پرعدم نیستی سے وجودکی طرف لایا، اور گونا گوں چیزوں میں موافقت اور سازگاری پیدا کی اور ہر چیز کو اس کی طبیعت اور مزاج عطا کیا اور ان طبائع کے لیے شکل و صورت معین کی۔ وہ ان کی ابتدااور آغاز سے پہلے ان سے واقف تھا ،اس کا علم ان کی حدود اور انتہاپر محیط تھا۔ ان کی حالت اور پوشیدہ کیفیت سے آشنا تھا۔
دین کی پہلی بنیادخدا کی معرفت ہے اور معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے اور کمالِ تصدیق توحید ہے اور کمالِ توحید اس کو ہر چیز سے برتر ماننا ہے۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم:
’’رحمن ‘‘اور’’ رحیم‘‘ اللہ تعالی کے صفاتی نام ہیں، جس طرح یہ نام بار بار قرآن پاک میں آتے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صفاتی نام اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔ ان دونوں کامادہ ’’رحم‘‘ ہے، جواپنے معنی میں بہت وسعت رکھتا ہے۔ عربی زبان میں ’’رحم‘‘ کا تعلق ماں سے ہے۔ اپنے بچوں کے لیے وہ سب سے زیادہ محبت کرنے والی اور رحمت سے سرشار ہستی ہے۔ وہ غیراختیاری طور پرایک جرثومہ کونہایت پیارے معصوم اور مطمئن بچہ کی شکل میں پرورش کرتی ہے، لیکن اللہ تعالی جو’’رحمن‘‘ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی محبت کے سامنے ماں کی محبت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ماں کو صرف اپنے بچوں سے محبت ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اپنے ہر بندہ سے ان کی ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ عیسائی کہتے ہیں خدا محبت ہے(God is Love) لیکن مسلمانوں کے نزدیک اللہ تعالی کی ذاتِ پاک ’’رحمن ‘‘اور’’ رحیم‘‘ ہے، محبت اس کی صفتِ رحمت کا محض ایک جز ہے، اس کی رحمت نے تمام کائنات کا احاطہ کیا ہوا ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔
اس کی رحمت کی ایک شان لفظ ’’ رحمن‘‘ کی اٹھان اور صوتی اثرات سے ظاہر ہوتی ہے ۔یوں معلوم ہوتا ہے جیسے الرحمان کے رحم کی اٹھان نے پوری کائنات کوگھیر رکھا ہے اور وہ ہر سمت سے اس کے اندر ڈوبی ہوئی ہے، جیسے مچھلی سمندر کے اندر پانی میں ڈوبی ہوتی ہے۔ یوں’’رحمن‘‘ اللہ تعالی کاکل صفاتی(Superset) نام ہے، جس کی کوئی مثل نہیں اور کوئی دوسرا رحمن کے سپرسیٹ(Superset) والی صفات کا احاطہ نہیںکر سکتا ،اس لیے یہ صفاتی نام صرف اور صرف اللہ تعالی کے لئے مخصوص ہے اور کوئی غیراللہ’’ رحمن‘‘ نہیں ہوسکتا۔
لفظ ’’رحیم‘‘ کا مادہ بھی ’’ رحم ‘‘ہے، لیکن اس کی اٹھان ’’رحمن‘‘ سے مختلف ہے ، اس کے صوتی اثرات سے ایک نہ ختم ہونے والاتاثر ملتا ہے۔ توگویا ’’ رحیم ‘‘ وہ ذاتِ پاک ہے، جس کارحم وقت کی تمام سمتوں میں جاری وساری ہے رحم دررحم ۔یعنی اللہ تعالیٰ ازل سے ابد تک’’ رحیم ‘‘ ہے؛ چوں کہ زندگی کی حد تک کسی انسان میں بھی رحم کی صفت بدرجہ اولیٰ ہوسکتی ہے اس لیے ایک محدود معنوں میں وہ ’’رحیم ‘‘ہے۔ اس لحاظ سے قرآن ِکریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی’’ رئوف الرحیم ‘‘کے لقب سے یاد کیا گیا ہے، لیکن ’’رؤف الرحمن‘‘کبھی نہیں کہا جاتا؛تاہم کلی طور پر یہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات عالیہ ہے۔اس کی رحمت ازل سے ابد تک کائنات کے ذرہ ذرہ میں کارفرما ہے اور ہم مچھلیوں کی مانندا س کی رحمت کے سمندر کے اندر رہتے ہیں۔
وہ ہمارا بہترین رفیق قریب ترین ساتھی اور پرور دگار ہے ، جس کی محبت ، قربت ، رسائی ، ہمدردی اور مدد لازوال ہے ،وہ ہرحال میں ہمارے ساتھ ہے ؛قابل بھروسہ دوست بشرط یہ کہ ہم اس پر بھروسہ کریں ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ’’ رحمن‘‘ اور ’’ رحیم ‘‘ کے نام کی نسبت سے زمان و مکان کو اپنی رحمت سے بھر دیا ہے اور فرمایا : ’’ ان رحمتی غلبت علی غضبی ‘‘ بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔‘‘ یوں مالکِ کل نے خود ہی اپنے آپ کو اپنی رحمت کا پابند کرلیا ہے ۔ سبحان اللہ ! وہ اللہ ہے ۔ بے مثل ، عقل جس کا ادراک نہیں کرسکتی، لیکن وہ سدا ہمارے ساتھ ہے ، وہ وہی ہے۔ اور بس ۔
جب ہم صدق ِدل سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کسی بھی کام کا آغاز کریںگے، تو کائنات کی ہر سمت (Dimension )میں اس کی رحمت ہمارے شامل حال ہوجائے گی ، جس کی وجہ سے ہر کام آسان ہوجائے گا ۔ اس لیے ہر کام سے پہلے بسم اللہ کی ہماری عادت ِثانیہ ہونا چاہیے اور بچوں کو بچپن ہی سے اس طرف متوجہ کرانا والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے ۔ (مستفاد:کتاب زندگی ص: ۲۵-۲۸)(جاری……)