انوارِ قرآنی: پانچویں قسط
کراماتِ اولیاء برحق ہے!
مفتی عبد المتین صاحب اشاعتی کانڑ گانوی
(استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)
آیت: ۱۷، ۱۸:
﴿ وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَہْفِہِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُہُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَہُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنْہُ ط ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ ط مَنْ یَّہْدِ اللّٰہُ فَہُوَالْمُہْتَدِج وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہ وَلِیًّا مُّرْشِدًا﴿۱۷﴾ وَتَحْسَبُہُمْ اَیْقَاظًا وَّہُمْ رُقُوْدٌصلے ق وَّنُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِصلے ق وَکَلْبُہُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِط لَوِاطَّلَعْتَ عَلَیْہِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْہُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا﴿۱۸﴾ ﴾
ترجمہ: اور (وہ غار ایسا تھا کہ) تم سورج کو نکلتے وقت دیکھتے تو وہ اُن کے غار سے دائیں طرف ہٹ کر نکل جاتا، اور جب غروب ہوتا، تو اُن سے بائیں طرف کتراکر چلا جاتا، اور وہ اُس غار کے ایک کشادہ حصے میں (سوئے ہوئے) تھے۔ یہ سب کچھ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جسے اللہ ہدایت دیدے، وہی ہدایت پاتا ہے، اور جسے وہ گمراہ کردے، اُس کا تمہیں ہرگز کوئی مددگار نہیں مل سکتا جو اُسے راستے پر لائے۔
تم اُنہیں (دیکھ کر) یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالاں کہ وہ سوئے ہوئے تھے، اور ہم اُن کو دائیں اور بائیں کروَٹ دِلواتے رہتے تھے، اور اُن کا کتا دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے (بیٹھا) تھا۔ اگر تم اُنہیں جھانک کر دیکھتے، تو اُن سے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے، اور تمہارے اندر اُن کی دہشت سما جاتی۔
تفسیر: ”ام حسبت“ میں تمہید قصہٴ اصحابِ کہف، ”إذ اوی الفتیة“میں اجمال قصہٴ اصحابِ کہف، اور ”نحن نقص علیک نباہم“سے تفصیل قصہٴ اصحابِ کہف کو شروع کیا، اور اب”وتری الشمس“ سے یہ بتارہے ہیں کہ جب اصحابِ کہف آپسی صلاح ومشورہ کے بعد پہاڑی غار میں جابیٹھے، اور تھکے ماندے سوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے اُن پر خاص عنایت فرمائی۔
اِن آیتوں میں اُن پر آنے والے تین عجیب وغریب احوال کا بیان ہے، جو اِن حضرات کی کرامت سے بطورِ خرقِ عادت ظاہر ہوئے تھے۔ وہ تین احوال یہ ہیں:
(۱)پہلا حال: ﴿وتری الشمس إذا طلعت﴾إلخ۔ دھوپ اُن کے جسموں پر نہیں پڑتی تھی۔
(۲)دوسرا حال: ﴿وتحسبہم ایقاظًا وہم رُقود ونقلبہم﴾إلخ۔یعنی اُن کے سونے کی حالت عجیب تھی کہ اجسام پر نیند کے آثار وغیرہ نہیں تھے، تاکہ کوئی اُن کو سوتا سمجھ کر اُن پر حملہ نہ کردے۔
(۳) تیسر احال:﴿لو اطلعت علیہم لولیت منہم فرارا﴾إلخ۔بغرضِ حفاظت اُن پر یہ کیفیت طاری کی گئی تھی کہ دیکھنے والوں پر اُن کی ہیبت طاری ہوجائے۔
#…”کلب“: کتا، بھونکنے والا جانور۔ اس کی موٴنث کلبة اور جمع کلاب واکلب آتی ہے۔اسی سے اکلَب بفتح اللام بھی مشتق ہے، جس کے معنی شدتِ حرص کے ہیں، کہا جاتا ہے: ”ہو احرص من کلب“ وہ کتے سے زیادہ حریص ہے۔ اور ”رجل کلب“ کے معنیٰ سخت حریص آدمی کے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے: ”دہر کلب“ سخت زمانہ۔ اور ”ارض کلبة“ اس زمین کو کہا جاتا ہے، جو سیراب نہ ہونے کی وجہ سے خشک ہوجائے۔ (مفردات القرآن)
پیغام واحکام:
#…جب انسان اللہ پر مکمل یقین واعتماد کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہر طرح کے شرور وفتن، اور حاسدین کے حسد سے اُس کی حفاظت فرماتے ہیں؛لہٰذا ہمیں اپنے ایمان کو مستحکم کرنا چاہیے، بصیرت، قوت کے ساتھ ہمارا ایمان اللہ پر اور اس کی صفات پر مستحکم ہونا چاہیے، اگر ہم طالبِ علم ہیں تو علمی انداز کے ساتھ، اور اگر ہم عوامی مسلمان ہیں، تو بھی پوری صداقت کے ساتھ ہمارا ایمان خدا پر قائم ہونا چاہیے۔
#…اُس سرچشمہٴ ہدایت سے ہمارا تعلق ہونا چاہیے، جہاں سے ہدایت کا فیضان ہوتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ کتاب وسنت کے مطالعہ، اسوہٴ رسول، صحابہ اور مجاہدینِ اسلام کے حالات سے طاقت حاصل کرتے رہا کریں، جس طرح بیٹری چارج کی جاتی ہے، سیل ختم ہونے پر بدلے جا تے ہیں، ایسے ہی اپنے ایمان کی چارجنگ کرتے رہیں؛ اس لیے کہ زمانہ اتنا ظالم وجابر واقع ہوا ہے، اس کے تقاضے اتنے قاہر ہیں کہ اگر ان کے مقابلہ میں ایمان کی طاقت نہ ہو، اور وہ نمونے آپ کے سامنے نہ ہوں،جو سیرت کے اندر ہم کو ملتے ہیں، تو ہم زمانہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
#…”وکلبہم باسط ذراعیہ“سے معلوم ہوا کہ صالحین کی مجانست اگرچہ نہ ہو، مجالست ومجاورت بھی غنیمت ہے، کہ حق تعالیٰ نے اصحابِ کہف کے ساتھ ان کے کتے کا بھی ذکر فرمادیا۔
(بیان القرآن،تفسیر منیر)
عَملیات :
#…﴿وکلبہم باسط ذراعیہ بالوصید﴾اگر کسی کے اوپر کتا حملہ کرے، تو گیارہ (۱۱) مرتبہ یہ آیت پڑھ لے، اِن شاء اللہ اس کے شر سے محفوظ رہے گا۔
(گنجینہٴ اسرار:ص/۱۰۸، از بیاضِ کشمیری، ط: بیت الحکمت دیوبند)
#…اگر راستہ میں کوئی شیر یا کتا حملہ کردے، اور شور مچائے، تو فوراً اس آیتِ کریمہ کو پڑھ لے، ان شاء اللہ چپ ہوجائے گا۔ (اعمالِ قرآنی)
عِلمیات :
کرامات کے سلسلے میں علمائے اہلِ سنت والجماعت کا موقف:
کرامات حق ہیں، اور اہلِ سنت والجماعت کے اصول میں سے ہیں، اصحابِ کہف کے واقعہ سے کراماتِ اولیاء کے برحق ہونے پر استدلال کیا جاسکتا ہے، جو ظاہر ہے۔اس میں کئی کرامتوں کا ذکر ہے، مثلاً:
- تین سو نو برس تک بغیر کھائے پیئے سوتے رہنا۔
- وسیع غار میں ہر وقت سائے میں رہنا۔
- کسی وقت دھوپ کا نہ آنا۔
- آفتاب کا طلوع وغروب کے وقت اُن سے کترا جانا۔
- بھوک وپیاس کی تکلیف سے محفوظ رہنا وغیرہ۔
یہ سب خداداد رحمتیں وعنایتیں ہیں۔
کراماتِ اولیا کے صحیح اور درست ہونے پر آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ متواترہ شاہد ہیں۔
(معارف القرآن کاندھلوی، گلدستہٴ تفاسیر، التبرک انواعہ واحکامہ؛للدکتور ناصر بن عبد الرحمن بن محمد الجَدیع، ط: مکتبہ الرشد ریاض)
کرامت کی چند مثالیں قرآن وحدیث کی روشنی میں:
کرامتِ قصہٴ اصحابِ کہف۔(سورہٴ کہف)
کرامتِ مریم علیہا السلام بصورتِ وجودِ رزق در محراب۔(سورہٴ آل عمران: ۳۷)
کرامتِ قصہٴ اصحابِ غار؛تین لوگوں پر غار کے منہ کا بند ہوجانا۔ إلخ (صحیح بخاری ومسلم)
کرامتِ قصہٴ جُریج؛ جو بنی اسرائیل میں ایک عابد وزاہد بزرگ تھے، اور ان پر زنا کی تہمت لگائی گئی تھی، جس کی برأت شیرخوار بچہ کی زبانی ہوئی تھی۔ (صحیح بخاری)
اُسید بن حُضیر اور عَبّاد بن بِشر رضی اللہ عنہما دربارِ نبوی سے رخصت لے کر نکلے، رات بالکل تاریک تھی، اُن کے ہاتھ میں جو عصا تھا وہ قندیل کی طرح روشن ومنور ہوگیاتھا۔(صحیح بخاری ومسلم)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مستجاب الدعا ہونا، خاص طور پر ظالم کے خلاف آپ کی دعا قبول ہوجاتی تھی۔ (صحیح بخاری)
جب مشرکینِ مکہ نے حضرت خُبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قید کر رکھا تھا، تو اُن کے پاس بے موسم انگور پائے گئے، جو غیب سے آئے تھے۔ (صحیح بخاری)
(اس کے علاوہ وقتِ حاضر اور ماضی قریب میں بھی، امارتِ افغانستان کے مجاہدین مومنین کی کرامات کے متعلق متواتر خبریں ثقہ راویوں کے ذریعے موصول شدہ ہیں۔
(التبرک انواعہ واحکامہ؛ لدکتور الجدیع، ط: ریاض)
اور باقاعدہ اس پر ایک کتاب بنام”یہ تیرے پُر اسرار بندے“(موٴلفہ: مفتی رفیع عثمانی رحمہ اللہ)بھی منظر عام پر آئی تھی)۔
معجزہ، کرامت اور استدراج میں فرق:
ہر ایسا خرقِ عادت فعل جس کا صدور نبی سے ہو، وہ”معجزہ“ کہلاتا ہے۔
ہر ایسا خرقِ عادت فعل جس کا صدور ولی سے ہو، وہ”کرامت“کہلاتا ہے۔
اور اگر وہ خرقِ عادت فعل کسی فاسق وفاجر یا کافر سے ظاہر ہو،تو وہ ”استدراج“ہے۔نیز معجزہ دعویٴ نبوت کے مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے، اور نبی کے ساتھ مختص ہوتا ہے، جب کہ کرامت ولی کے ساتھ مختص ہے، اور اس میں دعویٴ نبوت ضروری نہیں، اور استدراج صرف فاسق وفاجر یا کافر ہی کے ساتھ خاص ہے۔
(احکام القرآن تھانوی، رد المحتار: ۵/۱۹۸، النبراس: ص/۲۹۵، ۲۹۶، فتاوی حدیثیة:ص/۳۹۶، شرح الفقہ الأکبر:ص/۸۰) (فتاویٰ محمودیہ: ۱/۵۱۸، ط: کراچی)
وہ حضرات جن کے اجسام قبر میں محفوظ رہتے ہیں،مثلاً:
انبیاء علیہم الصلاة و السلام۔
ثواب کی خاطر اذان دینے والا۔
شہید، جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو۔
حاملِ قرآن؛ یعنی حفاظِ قرآنِ کریم۔
اور اولیائے کرام وغیرہ۔ (فتاویٰ محمودیہ: ۱/۵۳۷)
(شرح الصدور:ص/۳۰۸ – ۳۰۹، التذکرة للقرطبی:ص/۱۸۵)
کلبِ اصحابِ کہف کا نام،تحقیق اور فوائد:
بقولِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما: ”قطمیر“۔
بقولِ حضرت علی رضی اللہ عنہ: ”ریان“۔
اکثر اہلِ تفسیرکی تحقیق کے مطابق: اصحابِ کہف کا کتا، واقعی ”کتا“ہی تھا۔
بحیثیتِ حیوانی، کلب (کتا)؛ گیدڑ، بھیڑیے اور لومڑی کے خاندان کا جانور ہے، اس کی مشہور ۶۲/ قسمیں ہیں۔ ۱۴/ سے۰ ۲/ سال اس کی اوسط عمر ہوتی ہے۔ (حیواناتِ قرآنی:ص/۱۷۴)…احکام الحیوان میں ہے: ”کتا بستیوں میں رہنے والا مشہور ومعروف جانور ہے، کتے کی اصلاً دو قسمیں ہیں: اصلی، سلوقی۔ سلوقی ملکِ یمن کے شہر سلوق کی طرف منسوب ہے۔ (احکام الحیوان: ص/۱۲۰)
#…ہر قسم کا کتا حرام ہے، مگر شکار اور پاسبانی کے لیے اس کی خرید وفروخت جائز ہے۔
#…ایک کلب الماء(پانی کا کتا)ہوتا ہے، اس کے ہاتھ، پیروں کی بہ نسبت لمبے ہوتے ہیں۔ اس کا کھانا بھی عند الاحناف ناجائز ہے، بعض حضرات شوافع اس کی حلت کے قائل ہیں۔
(احکام الحیوان: ص/۱۲۳،۱۲۴)
#…اگر کتے کا دانت کسی بچے کے گلے میں ڈال دیا جائے، تو اس کے دانت آسانی سے نکل جاتے ہیں، نیز اگر کتے کا اگلا دانت اس شخص کے گلے میں لٹکا دیا جائے، جس کو کتے نے کاٹ لیا ہو، تو اِن شاء اللہ اس کے درد میں سکون ہوگا، اگر کوئی شخص اس دانت کو اپنے پاس رکھے، تو اس پر کتے نہ بھونکیں گے۔
(احکام الحیوان: ص/۱۲۳)
شوقیہ کتا پالنا:
آج کل مغربی تہذیب کے دل دادہ حضرات اپنے گھروں میں شوقیہ کتے پالتے ہیں، اور بچوں کی طرح اُن کی حفاظت ونگہداشت کرتے ہیں، جب کہ حدیث شریف میں ہے:
عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، عن النبی ﷺ قال:”لا تدخل الملائکة بیتًا فیہ صورة ولا کلب“۔ (سنن أبی داود)
وفی بذل المجہود: والمراد منہ ما یحرم اقتنائہ، وأما ما لا یحرم من کلب الصید والزرع والماشیة فلا یمنع دخول الملائکة، وقال: الأظہر انہ عام فی کل کلب وانہم یمنعون من الجمیع لإطلاق الحدیث۔ اہ (بذل المجہود فی حل سنن أبی داود)
اس سے معلوم ہوا کہ شکار یا حفاظتی اغراض کے علاوہ محض شوقیہ کتا پالنا ممنوع ہے، اور ایسے گھر میں ملائکہٴ رحمت داخل نہیں ہوتے۔
کتے سے متعلق ممنوع اُمور:
۱- کتے سے بالکل اس طرح کھیلا جائے، جیسے بلیوں، مرغیوں، کبوتروں سے کھیلتے ہیں، یہ ناجائز ہے، جس کا گھر میں ہونا اس قدر محرومی کا باعث ہے، اس کو گود میں لے کر کھیلنا، تو بہت بڑی محرومی ہے۔
۲- کتے کے خشک جسم کے مس کرنے سے نجاست کا حکم شریعت نے نہیں لگایا، لیکن بلا ضرورتِ معتبرہ عند الشرع مسّ کرنا ممنوع ہے۔
۳- الکلب إذا خرج من الماء وانتفض فأصاب ثوب انسان أفسدہ۔
(حلبی کبیر:ص/۱۵۶)
اس سے معلوم ہوا کہ کتے کا گیلا جسم جب کہ وہ پانی میں غوطہ لگا کر نکلے، جس چیز کو لگے گا وہ چیز ناپاک ہوجائے گی۔ وہو اختیار اکثر من المشائخ۔ مسّ کی ممانعت مستقل ہے۔
۴- کتے کا لعابِ دہن بالاتفاق نجس ہے، جو حکم پاخانہ پیشاب کا ہے وہی لعاب کا ہے۔
۵- جسم گیلا ہونے کی صورت میں مسّ کروانے والے کا جسم یاکپڑا جس کو بھی اس کی تری لگی ہو، وہ ناپاک ہے، اس سے نماز درست نہیں، جسم اور کپڑا پاک کرنے کے بعد نماز درست ہے۔کما مر فی الجواب الثالث۔ ناپاک ہاتھ یا ناپاک کپڑا قرآن مجید کو لگانا بھی جائز نہیں۔
۶- خشکی کی حالت میں اشیا ناپاک نہ ہوں گی، تری کی حالت میں ناپاک ہوجائیں گی، لعابِ دہن لگنے سے ناپاک ہوجانا قطعی ہے۔ برکاتِ ملائکہ سے محرومی ہر حال میں ہے۔ کتے جیسی نجس اور ذلیل چیز کو کرسی وغیرہ پر بٹھاکر اعزاز کرنا، ناجائز ہے، نیز یہ اہلِ اسلام کا طریقہ نہیں؛ بل کہ انگریزوں یا دوسرے کفار کا طریقہ ہے،ان کے ساتھ تشبُّہ ناجائز ہے۔
(مستفاد از:کتاب المسائل، در ماہ نامہ المحمود، اکتوبر ۲۰۱۷ء، حضرت فقیہ الامت قدس سرہ کے فتاویٰ کی روشنی میں)
شکاری کتا پالنا اور اس کی خرید وفروخت:
اگر کتا شکاری ہو، یاکھیتی وغیرہ کی حفاظت کے لیے رکھا جائے، تو شرعاً اس کی اجازت ہے، اور اِس مقصد کے لیے اُس کی خرید وفروخت بھی جائز ہے، او راگر کتا ان مقاصد کے لیے نہ ہو، تو چوں کہ کتا ایک نجس جانور ہے، اس لیے اس کو گھر میں رکھنا، اس کے ساتھ محبت کا برتاوٴ کرنا، اس کو اپنے ساتھ گھمانا پھرانا، جیسا کہ مغرب زدہ طبقے میں رائج ہے، شرعاً ممنوع ہے، اور اس مقصد کے لیے کتے کی خرید وفروخت بھی ناجائز ہے، اِس سے اجتناب ضروری ہے۔ (صحیح البخاری:۲/۸۸۰، رقم: ۵۹۴۹، مشکوة المصابیح: ص/۳۵۹، تکملة فتح الملہم: ۷/۴۹۳، ۴۹۴، عمدة القاری:۵/۶۱۰، المغنی لإبن قدامة: ۴/۲۵۱،۲۵۲، شرح معانی الآثار:۲/۲۰۱، بدائع الصنائع: ۴/۳۳۴) (فتاویٰ دار العلوم دیوبند، رقم الفتویٰ: ۵۳۱۵۷، المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة: ۸/۲۲۴، مسئلہ نمبر:۱۴۶)
ڈوگ بریڈنگ (Dog Breeding) کا طریقہٴ کار اور اُس کے بزنس کا شرعی حکم:
آج کل بہت سے لوگ مویشیوں کی افزائشِ نسل یا پولٹری فارم کی طرح ڈوگ بریڈنگ(Dog Breeding) یعنی کتوں کی افزائشِ نسل کا بزنس کررہے ہیں، اور یہ بزنس بہت منافع بخش ہے، جس میں واچ ڈوگ(Watch Dog) یعنی گھر، کھیت اور جائداد وغیرہ کی حفاظت کرنے والا کتا، شو ڈوگ(Show Dog) یعنی وہ کتا جو صرف تفریح کے لیے پالا اور بیچا جاتا ہے، اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ کتے کی بیع (خرید وفروخت) فی نفسہ جائز ہے، اور اس سے حاصل شدہ آمدنی بھی حلال ہے، البتہ اس بزنس کو مستقل پیشہ بنالینا مناسب نہیں ہے۔
(الموسوعة الفقہیة:۹/۱۵۴، و:۵ ۳/۱۲۸، و:۴۰/۱۰۱) (فتاویٰ دار العلوم دیوبند، رقم الفتویٰ: ۵۸۷۶۴، المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة: ۹/۲۳۹،۲۴۰، مسئلہ نمبر:۱۵۶)
(جاری…)