حیات وخدمات اور محاسن
از:مولانامحمدصادق صاحب اشاعتی تونڈاپوری/ استاذجامعہ اکل کو
ابھی جام ِعمر بھر ا نہ تھا کف ِدست ساقی چھلک پڑا
رہی دل کی دل میں ہی حسرتیں کہ نشاں قضا نے مٹادیا
سالِ رواں یعنی ۲۰۲۰ء میں” کورونا“ وبا نے پوری دنیا کواپنے شکنجے میں کس لیااوراب تک لاکھوں انسانوں کو اپنی زد میں لے چکا ہے ۔اس دوران جہاں بہت سارے انسانوں کو موت کامزہ چکھنا پڑا،تو سیکڑوں اہلِ علم وفضل،صالحین و علمائے ربانیین بھی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اس فانی دنیا سے کو چ فرماکر دارِباقی اور آخرت کی طرف رواں دواں رہیں۔ واقعی اس ویرانہ ٴدنیا کی تاریکی میں روز بروز شدت سے اضافہ ہورہا ہے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ِمبارک کا منظر آنکھو ں کے سامنے آرہا ہے:”یذہب الصالحون الاول فالاول ویبقی حفالة کحفالة الشعیراوالتمرلایبالیھم اللّٰہ“۔(مشکاة :۴۵۸)
نیک لوگ یکے بعد دیگرے اٹھتے جائیں گے اور پیچھے تلچھٹ رہ جائے گی جیسے جَویاکھجور کی تلچھٹ ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ کو ان کی کچھ بھی پرواہ نہ ہوگی۔
دوسری حدیث ہے:”ان اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء“۔(مشکاةص:۳۳)
بے شک اللہ تعالیٰ اس علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گا کہ بندوں کے سینوں سے چھین لے، بل کہ قبض ِعلم کی صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ علمائے ربانیین کو اٹھا تا رہے گا۔
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ:علم صحیح اور عمل صحیح یہ دونوں چیزیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہیں،اجل(موت)کاہاتھ انسانیت کے دسترخوان سے قیمتی دانوں کوبتدریج اٹھاتاجارہاہے،بالخصوص۲۰۲۰ء یعنی اسی سال سیکڑوں صالحین اورعلمائے ربانیین نیز دیگر اہل علم وفضل اپنے مالک حقیقی سے جاملے اوریہ کہنا صحیح ہے کہ
اٹھتے جاتے ہیں اس بزم سے ارباب ِنظر
گھٹتے جاتے ہیں میرے دل کو بڑھانے والے
انہیں اصحاب علم وعمل اور صاحب فضل وکمال میں سے میرے مشفق ، محسن اور مربی حضرت الاستاذ مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی# رحمة اللہ علیہ بھی ہیں،جوحضرت مفتی عبد اللہ صاحب کے منجھلے برادر اور خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمدصاحب وستانوی کے نسبتی بھائی ہیں۔
حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کی حیات ِمبارکہ کے چند قابل ِرشک پہلووٴں پر زیر نظر مضمون میں راقم نے روشنی ڈالی ہے:
مختصر سوانح حیات:
آپ کا نام: عبد الرحیم بن حاجی ابراہیم پٹیل۔ پیدائش:۱۸/اگست ۱۹۶۳ء بہ مقام” رویدرا“ گجرات
زمانہٴ طفولیت اورتربیت:
حضرت اقدس کا دورِ طفولیت،والدین کی نگرانی میں مربیانہ اور روحانی ماحول میں بہت صاف ستھرا گزرا، سنداور ثبوت کے لیے آپ رحمة اللہ علیہ کا ایک وقیع مضمون ”میر ی جنت،جاوداں ہوگئی “کامطالعہ کیا جا سکتاہے، جس میں آپ نے اپنی والدہ مرحومہ کے امتیازات وخصوصیات تحریر کر نے کے بعد تحریر فرمایا ۔ کہ”یوں تو ہم مجموعی طورپر۱۳/ بھائی بہن ہیں۔والد بزرگوار نے علما کے مشورہ سے سب بیٹیوں کے نام نبی کی بیٹیوں یا ام الموٴمنین کے ہم نام اور بیٹوں کے نام میں” احب الاسماء الی اللّٰہ“ کا اہتمام کیا اور نیک فالی کا جذبہ رکھا۔جس کی برکت سے تقریباً ًتمام بہنوں کی نسبت صاحب ِ فضل وکمال یا اصحابِ صلاح وتقویٰ کے ساتھ مقدر ہوئی۔اللہ نے ان ناموں کے صدقہ خدامِ دین بننے کی سعادت نصیب فرمائی۔جس میں والدمحترم کے جذبہ ٴ صادقہ کے ساتھ ساتھ والدہٴ محترمہ کی نیکی ، پارسائی ، آہِ سحر گاہی ،دوامِ صوم وصلاة اور اولاد کے لیے فکر ِمسلسل ، مجاہدہٴ پیہم کا بڑا دخل ہے۔ والدہ محتر مہ نے تربیت اولاد کے سلسلہ میں بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کی بھی ایسی تربیت فرمائی کہ صبح فجر کے فوراًبعد ہمارے گھرمیں تلاوت ِقر آن کی آواز گونجتی تھی ۔ کوئی سبق پڑھ رہا ہے، کوئی کسی کو سبق یاد کرا رہا ہے۔ جو چیزگھرمیں اچھی بنتی اس کولے کرہمیں استاذکے گھربھیجاجاتا۔اپنی اولاد کے دل میں استاذ کی عظمت وخدمت کا جذبہ پیدا کیاجاتا۔تو کبھی اعزا ورشتہ داروں میں کسی بہن کے ذریعہ کوئی چیز پہنچائی جارہی ہے تو کبھی بیمار دادی اماں کی خدمت کے لیے کسی بہن کو بھیجاجارہا ہے ۔گویا صلہ رحمی کا سبق عملی طور پر دیا جارہا ہے۔
شکل وصورت:
آپ کا قد درمیانہ ،رنگ سفیداور انتہائی صاف وشفاف،کشادہ پیشانی ،آنکھیں بڑی اور خوب صورت، ناک سیدھی ،داڑھی گھنی اور چہرہ روشن وباوقار تھا۔ذہانت وذکاوت ، فراست اور دور اندیشی کے آثار نمایاں تھے۔
ابتدائی تعلیم:
آپ کی ابتدائی مکتب کی تعلیم اپنے ہی وطن رویدرامیں ہوئی۔ پھر حفظِ قرآن مظاہر علوم سہارن پورمیں اپنے بڑے بھائی حضرت مفتی عبد اللہ صاحب کی زیر نگرانی، حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوری ناظمِ مظاہر علوم کے پاس ۲۰ /پارے مکمل کیے ۔بقیہ ۱۰/ پارے مٹواڑضلع نوساری گجرات میں مولانا اسماعیل صاحب سدیوٹ کے پاس رہ کر اپنا حفظ ِ قرآن مکمل فرمایا۔
عا لمیت و فضیلت:
آپ کے رفیق ِدرس حضرت مولانااحمدصاحب ٹنکاروی نے حضر ت کی وفات پر لکھے گئے تعزیت نامہ میں یوں تحریر فرمایاکہ” صدیقم مولاناعبد الرحیم صاحب سے پہلی دیدوملاقات شوال ۱۳۹۶ھ مطابق اکتوبر۱۹۷۶ء میں فلاح دارین ترکیسر کے کتب خانہ میں ہوئی، جب مولانا داخلہ کے بعد درسی کتب کی حصول یابی کے لیے آئے تھے۔ مرحوم کی فلاح دارین ترکیسر میں طالب علمی کا آغاز فارسی دوم سے ہوا۔فلاح دارین میں دورہٴ حدیث تک کی رفاقت آٹھ سال پر مشتمل رہی ۔ فراغت کے بعد مظاہر علو م سہارن پور میں ایک سالہ مزید رفاقت مقدر ہوئی وہاں دورہٴ حدیث سے منسلک ہوئے۔ حضرت الاستاذ شیخ یونس صاحب رحمة اللہ علیہ کی بارگاہ میں خصوصی مقام حاصل کیا نیز حضرت ناظم صاحب مولانااسعد اللہ رامپوری کی خدمت فرماکر دعائیں اور برکتیں حاصل کیں۔
آپ کے چند اساتذہ:
فلاح دارین کے اساتذہ میں:حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی، حضرت مولانا ذوالفقار احمدصاحبقاسمی نروری،حضرت مولانا ابراراحمدصاحب دھولیوی، مولانا شیر علی افغانی صاحب،امیر شریعت گجرات مفتی احمدبیمات صاحب ،مولانا ایوب صاحب ،قاری بندہ الٰہی سورتی اور حضرت مفتی عبداللہ رویدروی۔ مظاہر علوم سہارن پورمیںآ پ کے اساتذہ حضرت شیخ محمدیونس صاحب،حضرت مفتی مظفر حسین صاحب،مفتی یحییٰ صاحب ،مفتی عبد العزیزصاحب رائے پوریاورحضرت مولانامحمد عاقل صاحب مدظلہ ہیں۔
بیعت ونسبت اوردعوت وتبلیغ
آپ کو بیعت و نسبت ِباطنی حضرت مولانامحمدالیاس صاحب قاسمی مفتاحی دامت برکاتہم خلیفہ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی وبانی مدرسہ بیت العلو م پپلی مزرعہ یمنا نگر ہریانہ سے حاصل تھی۔ ۱۹۸۵ء میںآ پ نے جماعت ِ تبلیغ میں ایک سال وقت لگایا۔
نکاح واولاد:
فراغت کے بعد۱۹۸۶ء میں رشتہٴ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ آپ کی اولادمیں۳/بیٹے اور ۵ / بیٹیاں ہیں۔بڑے بیٹے مفتی ریحان صاحب جامعہ اکل کوامیں شعبہٴ عا لمیت کے استاذہیں ۔دوسرے فرزند حافظ محمد ریان متعلم درجہٴ عربی اول اور تیسرے محمد رضوان متعلم شعبہٴ حفظ ہیں۔
تعلیمی وتدریسی خدمات اورجامعہ میں آ پ کی آمد:
بڑے بھائی حضرت مفتی عبد اللہ رحمہ اللہ کے بقول: فراغت کے بعد ایک سال میں نے مولانا مرحوم کو ۱۹۸۶ میں اپنے ہی پاس؛ جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ میں بہ حیثیتِ مدرس رکھا۔
بعدازاں۱۹۸۷ء میںآ پ بہ حیثیت استاذ تفسیر وحدیث جامعہ اکل کوا میں تشریف لائے اورتاحیات استقامت کے ساتھ جامعہ اکل کوا میں مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھائیں، جن میں ہدایہ اولین ، مشکوة شریف، مسلم شریف اورتفسیر بیضاوی بھی شامل ہیں۔ جامعہ اکل کو ا میں آپ کی گونا گوں خدمات تقریباً ۳۳/ سال کا عرصہ ہوتاہے۔
بخاری شریف کی عارضی تدریس:
آپ نے دو مرتبہ عارضی طور پر بخاری شریف کا درس دیاہے ۔ پہلی مرتبہ جس زمانہ میں جامعہ اکل کو ا کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدسلیمان صاحب شمسی کا وصال ہوا توتقریباًششماہی تک آپ نے جامعہ اکل کو ا میں بخاری شریف (کتاب المغازی)کا درس دیا۔(بقول مفتی رفعت صاحب اورنگ آبادی)
دوسری مرتبہ جامعہ اکل کوا کے زمانہٴ تدریس کے دوران آپ ۲۰۱۴ء میں مدرسہ رشیدیہ نانی نرولی (گجرات) ہفتہ میں ایک دن بروزجمعرات بخاری شریف کا درس دینے ایک سال تک تشریف لے گئے۔
محاسن و محامد:
ہر شخص میں اللہ تعالیٰ نے کچھ محاسن رکھے ہیں۔ ضابطہ کے تحت حضرت استاذ مرحوم بھی کئی سارے محاسن کا مجموعہ تھے۔مشت نمونہ از خروارے کے طور پر ہم حضرت کے چند محاسن و محامد سپردِقرطاس کرتے ہیں۔
جامعیت و ہمہ گیریت:
آپ بیک وقت قابل استاذ،زبردست منتظم ، بہترین مشیر،شیریں بیاں خطیب ،تصنیف و تالیف کے میدان میں بہترین قلم کاراورمضمون نگار تھے۔مختلف موضوعات پر آپ کی تصنیفات موجودہیں۔اسی طرح سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہوئی ریکارڈنگ آپ کی خطابت اور کتابت کے تابندہ نقوش ہیں۔
جلسوں کی نظامت کے بے تاج بادشاہ تھے۔جامعہ اکل کو ا میں ہر چھوٹی بڑی تقریب چاہے وہ خو شی کی ہو یا غمی کی، سالانہ اجلاس ہو یامسابقاتِ قرآنیہ کے پروگرام،تکمیل حفظ کی مجلس ہو یا کوئی علمی اورادبی نشست، ۱۵/اگست کاپروگرام ہویا۲۶ / جنوری کا۔ سب آپ کی نظامت اور اناوٴنسری سے کام یابی کی منازل طے کرتے ہوئے بہ حسن وخوبی پایہٴ تکمیل کو پہنچتے۔دوران ِنظامت ، موقع و محل کے مطابق آیات واحادیث اوراشعارکی تطبیق کے ذریعے بڑے بڑے پروگراموں کو کام یابی سے ہم کنارکرنا آپ کے لیے بہت آسان تھا۔سالانہ جلسوں اور یوم آزادی اور۲۶ / جنوری کے پروگراموں میں تو آپ کی نظامت دیکھنے اور سننے لائق ہوتی تھی۔
اندازِ تدریس :
آپ کا انداز تدریس بھی مثالی، نرالا،سہل الفہم اوراطمینان بخش ہوا کرتا تھا ۔ ہرطالب علم آپ کی درسی تقریرکوسمجھ کراپنی کاپی میں لکھ سکتاتھا۔آپ علیہ الرحمةاپنے درس کااولاًاجمالی خاکہ پیش فرماتے پھر اسی اجمال کی تفصیل ادبی، علمی اور تحقیقی لیکن آسان بناکر پیش کرتے ۔مثلاً: باب کے شروع میں مجموعی طور پر ایک عنوان قائم فرماتے ” مسائل مہمہ مایتعلق فی الباب “یا ”روایات مایتعلق فی الباب“ یا ”سبع سیارات ما یتعلق فی الباب“۔ پھر لف ونشر مرتب کے طور پر ہر ایک کی تفصیل فرماتے۔
دوران ِدرس یا پھر درس کے اختتام پر مناسب موقع دیکھ کر آپ بہ طور تربیت ونصیحت اکابرین اوراہل اللہ کے واقعات یا پھر نصیحت پر مشتمل اپنے ملفوظات سے طلبہ کی رہبری اور رہ نمائی فرماتے ۔
شانِ خطابت اور درس ِقرآن:
اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ کو بہت سارے محاسن و کمالا ت سے نوازا تھا۔وہیں آپ رحمة اللہ علیہ شانِ خطابت میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ شادی بیاہ کی تقریب ہو یا تعزیتی مجلس ہو ،طلبا ئے مدارس ہوں یا نظما واساتذہ ٴ مدارس یا دینی اور دعوتی اجتماع ،ہرجگہ نہ صرف فٹ ہوتے ؛ بل کہ ایک نئی روح پھونک دیتے۔
حضرت مرحوم مدرسہ کے اوقات اور طلبا کے اسباق کا ناغہ کیے بغیر قرب وجوار اور دور درازمقامات پر تشریف لے جاتے اور اپنے وعظ وخطاب او ر ارشادا ت و ملفوظات سے حاضرین وسامعین کی اصلاح وتربیت فرماتے بالخصوص نکاح کی تقریب میں آپ کا خطاب نرالا اور دل موہ لینے والا ہوتا۔ دولہا اور دلہن کے نام کے درمیان ایسی مناسبت اور نیک فالی بیان کرتے کہ مجمع خوشی سے جھوم جاتا۔
تصنیف و تالیف:
تدریسی فرائض ، کثیرمصروفیات اور خدمات کے باوجود ہر وقت آپ کی کسی نہ کسی تصنیف یا تالیف کا سلسلہ جاری رہتا۔آپ کی تصنیفات وتالیفات کے چند نام یہ ہیں:
(۱) اورادِ سعادت دارین(آیات قرآنیہ میں آپ کی پریشانیوں کا حل)(۲)تحفہٴ تراویح(اردو/ انگلش) (۳)تحفہٴ بیٹی(ایک بیٹی کے بوقت رخصتی اوراگلی زندگی گزارنے کے لیے اہم اورقیمتی نصیحتوں کامجموعہ)(۴)تحفہٴ حفاظ( قرآنی آیات متشابہات کا بہترین حل)(۵)تحفہٴ اذان و موٴذنین مع مسائل اذان و اقامت(۶)ہدیةالمتسابقین فی کلام سید المرسلین(چالیس احادیث کی دل نشیں تشریح وتوضیح)(۷)المذکرات التفسیریہ بہ موقع کل ہندمسابقةالقرآن(سورہٴ موٴمنون،نور،سورہٴ یونس،ہود،یوسف، آل عمران اورسورہ ٴبقرہ) (۸)قطرہ قطرہ سمندر(مختلف مقالات ومضامین اورقلبی تاثرات کا مجموعہ،جسے استاذمحترم مولاناقاری حسین احمد صاحب معروفی نے مرتب کیاہے۔)
مضمون نگاری ،اور قلم کاری:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو زبان و بیان کی فصاحت و سلاست اور تاثیر کی دولت کے ساتھ مضمون نگاری اور قلم کاری میں بھی کمال درجہ کا ملکہ اور مہارت عطا فرمایا تھا۔ خواہ کتابوں پر تقریظات اور حوصلہ افزا کلمات ہوں یا دعائیہ کلما ت یا کسی علمی مشہور شخصیت کے سانحہٴ ارتحال پر تعزیتی کلمات لکھناہو ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ہر تحریر میں ایسی سحر آفرینی اور جادوئی تاثیر رکھی تھی کہ ہر تحر یر اور مضمو ن کا حق ادا ہوجاتا۔آپ کے قلم میں بلا کی روانی ، تعبیرات میں عجب فصاحت ، معانی میں تاثیر کی ایک دل پذیر کشش پائی جاتی تھی۔آپ نہایت اَنوکھے اور اچھوتے انداز میں لکھتے ؛جس کی شہادت کے لیے حضرت کی کتاب”قطرہ قطرہ سمندر“کامطالعہ کافی ہوسکتاہے۔
علمی اشتغال و انہماک:
یہ امربھی مسلم ہے کہ جب تک کسی نے اپنی تمام تر توجہات اورقوتیں اپنے مقصود پر صر ف نہیں کردیں اس وقت تک اسے کوئی مقام حاصل نہیں ہوا۔حضرت رحمة اللہ علیہ میں اللہ تعالیٰ نے تحصیل علم کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کی خاصیت رکھی تھی۔حضرت الاستاذنے بچپن ہی سے قربانیا ں دینی شروع کردی تھیں ۔راقم الحروف حضرت کی ایک مجلس میں حاضر تھا آپ نے اپنے حفظ قرآن کی خاطر ایک طویل سفر کی داستان سنائی کہ جس وقت میر ی عمر ۸/یا ۹/ سال رہی ہوگی میرے والد محترم نے مجھے ایک تبلیغی جماعت کے ہمراہ دِلی ّجانے والی ایک ٹرین میں سوار کردیا اور جماعت کے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ اس کو سہارن پور جانے والی ٹرین میں بیٹھا دینا ،جہاں آپ کے بھائی پہلے ہی سے مظاہر علوم سہارن پور میں زیر تعلیم تھے۔
حضرت الاستاذ کا مزاج ومذاق:
(۱)طلبہ ، اساتذہ ، اور دوست و احباب کی مختلف ہدایا کے ذریعہ دل جوئی کرناان کی طبیعت تھی
(۲)صلہ رحمی کا حد درجہ اہتمام فرماتے ،جس کا اقرار آپ کے رشتہ دار اور اقربا کھلے دل سے کرتے تھے۔
(۳)متانت و سنجیدگی کو ملحوظ رکھ کر پر لطف طنز ومزاح فرماتے تھے۔(۴) طلبہ ، اساتذہ اور اپنے تمام وابستگان کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتے تھے ۔ (۵) آپ جب بولتے تو دلوں کو موہ لیتے ،متواضعانہ وضع رکھتے ، رحم دل و سخی انسان تھے ، مرنجاں مرنج تھے ، کسی کا دکھ درد دیکھتے تو اس کی مدد فرماتے اور بچشم خود کہ تو دیدہٴ است کا مصداق تھے۔
(۶)آپ دوران ِسفر ایک متواضع اور فراخ دل رفیق ِسفر ہوتے رفقاء کی خدمت اور ضرورت کا پورا خیال رکھتے۔
الغرض!حضرت الاستاذاس شعرکے مصداق تھے
جب کبھی اہل وفا یاد کریں گے ہم کو
جانے کیا کیا میری روداد کے عنواں ہوں گے
طلبہ کی ہمدردی ،شفقت،تربیت اور حوصلہ افزائی:
آپ طالبان ِعلوم نبوت کے سروں پر دست شفقت رکھنے والے تھے۔یتیم طلبا کے لیے تڑپ جاتے تھے۔ طلبہ کے لیے سخاوت ، ہمدردی اور دریا دلی کی اعلیٰ اور ارفع شخصیت کے مالک تھے۔محنتی اور غریب طلبہ کا پیسوں اور کتابوں کی شکل میں کثرت سے تعاون اور حوصلہ افزائی فرماتے۔
حضرت الاستاذ جہاں ایک طرف کام یاب مدر س تھے تو وہیں ایک بامقصد مربی بھی تھے۔ آپ کے تربیتی مزاج کی جھلکیاں جس طرح دوران ِدرس دیکھنے کو ملتیں ایسے ہی در س کے علاوہ خارجی اوقات میں بھی آپ طلبہ کے لیے مربیانہ شان رکھتے تھے۔
آپ الگ الگ طریقوں سے طلبہ کی تربیت فرماتے تھے۔ مثلا دورانِ درس اگر کسی مخصوص طالب علم کی اصلاح مقصود ہوتی تو نام لیے بغیر ایسے انداز میں تنبیہ فرماتے کہ طالب علم متنبہ ہوجاتا ۔ کبھی اکابرین، صالحین اور بزرگان دین کے واقعات ، ملفوظات اوراپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں حکیمانہ اقوال بیان فرماتے، جن سے طلبہٴ کرام مانوس اور متأ ثر ہو تے چلے جاتے ، نیز آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ عربی اردو زبان کی تاریخی ، ادبی اوراصلاحی کتابوں کے نام اور ان کا تعارف بھی وقتاً فوقتاً فرماتے تاکہ طلبہ میں مطالعہ وکتب بینی کا شوق پیدا ہو۔
الغرض!حضرت الاستاذکی ایک ایک اداا وربات شفقت وعطوفت سے بھر پور تھی۔ آپ کبھی کسی چھوٹے سے چھوٹے اور کسی اجنبی انسان کو بھی نظر انداز نہ فرماتے؛ بل کہ اپنی نرم گفتاری اور پرخلوص ملنساری سے اپنا گروید ہ بنالیتے ۔یہ سب دیکھ اورسوچ کر بے اختیاردل پکاراٹھتاہے
بجھا چراغ ، اٹھی بزم، کھل کے رو ، اے دل!
وہ چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
صلہ رحمی اور حسن سلوک :
یہ وصف اور خوبی آپ کی شخصیت میں روز روشن کی طرح عیاں اور کامل تھی۔ آپ کے ایک بھتیجے آپ کی اس خوبی اور بھلائی کو اس طر ح لکھتے ہیں:”پیارے چچا محترم کا اپنے بھتیجوں کے ساتھ بھی بڑا نرالا تعلق تھا،جب بھی ملتے خندہ پیشانی کے ساتھ، ہمیشہ ہنس مکھ چہرے کے ساتھ ہر ملاقات میں آپ کا انداز بہت ہی شفقت و مہربانی والا ہوتا۔ یہ حالت و کیفیت تو اس وقت تھی جب والد بزرگوار اور ہم جامعہ ہانسوٹ میں تھے۔ (لیکن ) اس کے بعد سے لے کر تادم حیات یعنی آخر ی تین سالوں میں حضرت کا تعلق ہمارے ساتھ ایسا ہو گیا کہ جس کو بیان کرنے سے ہماری زبانیں عاجز و قاصر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اس کا بدلہ عنایت فرمائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز!کبھی بھی والد بزرگوار کی عدم موجودگی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ چھوٹی بڑی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ، بل کہ میرا ناقص خیال ہے کہ آپ جیسے باوفا و مخلص چچالوگوں کو خال خال ہی ملتے ہیں۔
رورہی ہے آج ایک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
مہمانوں کی ضیافت اور میزبانی کا پرخلوص انداز:
( حضرت الاستاذ کے ایک عقیدت مند اور میر ے شاگرد مولانا شہزاد صاحب اندھاری فاضل جامعہ تعلیم الدین ڈھابیل نے حضرت کی حسنِ ضیافت اور میزبانی کا تذکرہ اپنے طالب علمانہ انداز میں یوں کیا ہے۔
راقم الحروف جامعہ ڈابھیل میں درجہ عربی چہارم میں زیر تعلیم تھا۔ جامعہ میں معمول کے مطابق یوم جمہوریہ کے دن چھُٹیّ تھی اس لئے ہم چندرفقاء ِدرس جامعہ اکل کو ا کی زیارت اور وہاں کے اساتذہ سے شرف ملاقات کی غرض سے اکل کواآئے ۔چناں چہ جب ہم وہاں پہنچے تو اساتذہ کی ملاقات کا نظا م بنایا گیا، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب سے بھی وقت لیا گیا۔ حضرت نے اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود ہمیں ایک متعینہ وقت پر اپنے دولت کدہ پر بلایا جب ہم وہاں پہنچے تو خندہ پیشانی سے ہم خردوں کا پر تپاک استقبال کیا اور انتہائی ادب و احترام کے ساتھ ہم کو اپنے گھر کے عمدہ قالین پر بیٹھنے کا حکم دیا۔ پھر علیک سلیک کے بعد ہر ایک کاتعارف پوچھنے کے بعد ہم تمام مہمان طلبہ کے سامنے اس عظیم میزبان کی طرف سے مکہ کا سب سے عمدہ مشروب زم زم اور مدینہ کی سب سے عمدہ خوراک کھجور پیش کی گئی۔ مذکورہ دونوں چیزوں کوہم نے اپنی سعادت سمجھ کر نوش کیا۔ اس کے بعد حضرت نے ڈابھیل سے اکل کوا آنے کی کار گزا ری لی ۔ہمارے یہ بتانے پر کہ اتنے کرایہ پر فلاں کی گاڑی لے آئے ہیں تو آپ نے ڈرائیور کے زیادہ پیسے لینے پر افسوس کا اظہار فرمایا اور اپنے جیب خاص سے ۱۵۰۰/ روپے نکال کر امیر سفر کو دیئے ۔ پھر حضرت نے اپنے ایک خادم کو بلایا اور ان سے کہا کہ کل صبح آپ ہماری طرف سے ان آنے والے مہانوں کو ناشتہ کرائیں ۔ حضرت کے حکم و ایماء پر خادم محترم نے ہمیں شاہی ناشتہ کرایا ۔ اللہ تعالی حضرت کو خوب سے خوب بدلہ عطا فرمائے اور حنت الفردوس میں آپ کو ٹھکانہ نصیب کریں۔
قارئین کرام : واقعی آپ نے اپنے سلوک ، صلہ رحمی ، ہمدردی، شفقت ، حوصلہ افزائی، اور ضیافت و میزبانی وغیرہ اوصاف سے یہ تاثر اور پیغام دے رکھا تھا کہ۔
میر ی زندگی کا مقصد ،کہ ہر ایک کو فیض پہنچے
میں چراغ رہ گز ر ہوں ، مجھے شوق سے جلاوٴ
قرآنی خدمات(۱):(قرآن کریم سے شغف )
حضرت اقدس فلاحی رحمة اللہ علیہ کو اوائل عمر ہی سے تلاوت قرآن پاک سے بے حد شغف اور تعلق تھا۔آپ قرآن کریم کے عاشق تھے۔ آپ نے ۸/ تا ۱۰/ سال کی عمر ہی میں قرآن کریم حفظ مکمل کرلیاتھااور زندگی کے آخر ی لمحات تک آپ نے قرآن کریم سے اپنا رشتہ اور لگاوٴ قائم رکھا۔آپ نے مختلف حیثیت سے قرآن پاک کی خدمات انجام دی ہے ۔ مشت نمونہ از خروارے کے طور پر یہاں چند خدمات کا تذکرہ قلم بند کرتے ہیں ۔
قرآنی خدمات(۲):(بہ حیثیت ِتدریس )
آپ نے تقریباً ۲۰ / سال سے زائد تفسیر بیضاوی کا درس دیا ہے۔تفسیر بیضاوی کی تدریس کی بابت بڑی اہم بات یہ کہ سال بھر آپ بیضاوی پڑھاتے ۔ لیکن سال کے اخیر میں آپ طلبہ سے دو کام کرواتے:
(۱)… ممتاز طلبہ سے بیضاوی کی تدریس تمام طلبہ کے سامنے کرواتے اور خود سن کر اصلاح فرماتے
(۲)…تمام طلبہ ٴ دورہٴ حدیث کو آپ بیضاوی شریف کا درسی خلاصہ کاپی میں لکھ لانے کا مکلف بناتے
پھر کاپیاں جمع فرماتے اور ان کاپیوں کا بہ نظر غائرمطالعہ کرتے اور ان میں ممتازواعلیٰ نمبر لانے والے طلبہ کو کتبِ تفسیر حدیث یا دوسرے علم وفن کی قیمتی کتابوں کے انعام سے نوازتے یا نقد رقم سے بھی حوصلہ افزائی فرماتے۔
قرآنی خدمات(۳):(بہ حیثیت تصنیف وتالیف )
آپ کی ایک کتاب” تحفہٴ تراویح“ ہے ۔کتا ب مذکور میں تراویح میں پڑھے گئے قرآن کریم کا خلاصہ سوا پارے کی ترتیب سے بزبان ِاردو عام فہم اور موٴثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
الحمد للہ نماز تراویح میں پڑھا گیا سوا پارہ کا خلاصہ بعد نماز تراویح حفاظ اور علمائے کرام مصلیان کو پڑھ کر سناتے ہیں، جس کو سامعین بڑی توجہ اور اہتمام سے سنتے ہیں۔ تحفہٴ تراویح انگریزی زبان میں بھی چھَپ چکی ہے ۔
دو سری تالیف :(المذاکرات التفسیریہ)
قرآن کریم کی چند سورتوں کی تفسیر پر آپ نے ایک ایسا علمی ، تحقیقی اورسنہرا کام کیا ہے،جومیری نظرمیں اردوزبان میں منفرداورپہلاکام کہاجا سکتاہے۔
المذاکرات التفسیریہ کی تالیف اور ترتیب کا سبب خود حضرت رحمة اللہ علیہ کی تحریر سے پتہ چلتا ہے ،جوآپ نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھاہے۔کہ: ”حضرت رئیس الجامعہ کی یہ تمنارہی کہ مسابقةالقرآن کی ایک اہم فرع تفسیر کے لیے کوئی مذکرہ یا نشان منزل تیار کرلیا جائے ، جو طلبا کو تفسیر کی فرع میں سہولت اور آسانی کا سامان پیدا کرے ۔ چناں چہ زیر ِ نظر تحفہٴ مسابقات (مذکرہ تفسیریہ)آپ کے مخلصانہ جذبہ کا عکس ہے ۔ اگر آں محترم کی طرف سے بار بار حکیمانہ وحاکمانہ طر زسے بہ شدت مطالبہ نہ ہوتا تو اتنی سرعت سے شاید یہ کام نہ ہوپاتا۔
مری کاوش کسی کے کرم کا صدقہ ہے
قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں ، اٹھا ئے جاتے ہیں
مولانا احمد صاحب ٹنکاروی استا ذ فلاح دارین ترکیسر نے المذاکرا ت التفسیریہ پر کچھ یوں تبصرہ تحریر فرمایا:”جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے زیر اہتمام ملک کے طول وعرض میں منعقد ہونے والے مسابقات قرآنیہ کے خاص خاص پس منظر میں یہ کتاب تحریر کی گئی ہے۔جس میں مخصوص سورتوں کی تعداد ِآیات و رکوع ترتیب ِنزول باعتبار تلاوت کے سورت کا نمبر ربط بین السورتین والآیات ، خلاصہ مضامین ، اسباب نزول فضائل وخصوصیات سوال وجواب اورسوال وجواب کے تحت اہم پہلو کا حل ، حل لغات ، نیز فصاحت وبلاغت کے قواعد کو بہترین اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔
قرآنی خدمات(۴): (بہ حیثیت ِناظم ِمسابقات ِقرآنیہ)
آپ کی خدمات اور کارہائے عظیمہ میں عظیم کارنامہ خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی اطال اللہ عمرہ کی تحریک مسابقات کو پروان چڑھاکر بام عروج تک پہنچانا بھی شامل تھا۔چناں چہ ۱۹۸۹ء سے اب تک جامعہ اکل کواکے زیر اہتمام ، داخلی ، صوبائی اور ملکی پیمانے پر تقریباً ۲۱۴ /مثالی ، تاریخی ”قرآنی مسابقا ت “منعقد ہوکر بے انتہا مقبول بھی ہوئے ۔ہر تین سال کے وقفے سے اب تک ۹/ مسابقات کاانعقاد کیا گیا۔ان تمام مسابقات کی ذمہ داریاں،کاروائیاں اور ترتیب و تنظیم وغیرہ امور کا بارحضر ت خادم القرآن نے آپ رحمة اللہ علیہ کے مضبوط کا ندھے پر رکھا تھا۔ آپ نے حضرت خادم القرآن کے اعتماد کوسوفی صد قائم رکھ کر مسابقات قرآنیہ میں اپنی قرآنی خدمات کو بحسن و خوبی سرانجام دیا۔
قرآنی خدمات(۵):(بہ حیثیت مجالسِ درس قرآن)
تقریباً۲۰/ سال سے شہر اکل کو ا کی مرکزی اور جامع مسجد میں ہفتہ میں ایک دن بعد نماز مغرب آپ نے عوام الناس کو اپنے مقبول در س اور تفسیر ِ قرآن کے ذریعہ پیغام خدا وندی پہنچایا ،اوران کی زندگیوں میں قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ پیدا فرمایا۔
برطانیہ میں درس قرآن اوررمضان المبارک میں برطانیہ کے مختلف شہروں میں مہینہ بھر مختلف مساجد میں آپ کے دروس ِقرآن کا مقبول سلسلہ اہتمام سے چلتا رہااور لوگوں کو آپ کے درس قرآن سے بہت فائدہ ہوا۔
حکمت و دانائی اورجوہرِمردم شناسی:
حدیث پاک میں ہے”الکیس من دان نفسہ وعمل لمابعدالموت“کہ عقل مند انسان وہ ہے، جو موت سے پہلے موت کی تیاری کرلے ۔ اس معاملے میں حضرت رحمة اللہ علیہ بھی بڑے دانا اور درویش صفت انسان تھے۔ انتقال سے کچھ دن پہلے آپ کی چند باتیں اور کام ایسے تھے، جن سے آپ اپنی موت کی تیاری کرتے نظر آرہے تھے۔انتقال سے دودن پہلے جب ہم چند اساتذہ آپ کے دار المطالعہ میں آپ کی خدمت میں حاضر تھے ۔ہمارے ایک استاذ،جناب قاری افضل الحسن صاحب مدظلہ نے حضرت سے جب یوں کہا کہ حضرت! آپ نے اپنی مسنداور بیٹھنے کی جگہ کا رخ اور سمت بدل لیا ہے۔ اب آپ دیکھنے والوں کوباہرسے نظر نہیں آئیں گے تو آپ نے برملا فرمایا کہ ”ہا ں! اب چھپنا ہی ہے“۔
نیز آپ نے اپنی وفات سے تین دن پہلے شعبہ ٴ عالمیت کے منتخب طلبہ کو ”قرآنی آیت”اِنَّ لِلْمُتَّقِینَ مَفَازًا حَدائِقَ وَاَعنَابَا۔حَدَائِقَ وَاَعنَابا“۔کی روشنی میں ”آوٴ جنت کی سیر کرے “اس عنوان پر مضمون لکھنے کا مکلف کیا
آپ رحمة اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے مردم شناسی کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا ۔اور”خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر“کے مصداق تھے ۔
حضرت مرحوم کوکام لینے کا ایساملکہ حاصل تھا کہ شایدوبایدکسی کو حاصل ہو۔کسی بھی کام کے لیے کسی ایک کو مکلف نہیں کرتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ سارے کام بروقت اوربرمحل ہوا کرتے تھے۔لیکن افسوس: ع ایساکہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے۔
روز نامچہ نگاری:
روز نامچہ یہ شخصی تعارف کا یومیہ محاسبہ ہوتاہے، اس میں روزانہ کے اعمال اور واقعات لکھے جاتے ہیں
حضرت فلاحی رحمة اللہ علیہ نے روز نامچہ لکھنے کا بڑا اہتما م فرمایا تھا ۔ اس کا تذکرہ آپ نے براہ راست راقم سے فرمایا تھا کہ: میں اپنے یومیہ معمولات اور پیش آمدہ اقوال وا فعال کو اپنی ذاتی ڈائری میں لکھ لیتا ہوں اور میں اپنی جیب میں ہمیشہ ایک ڈائری رکھتا ہوں ، پھر اسی وقت حضرت نے ہم حاضرین کو بھی ایک ایک ڈائری عنایت فرمایا۔آپ کے روزنامچوں پر مشتمل ڈائری کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
(یہ روز نامچہ احقر نے حضرت کی ذاتی ڈائری سے نقل کیا ہے ،جو حضرت کے فرزند مفتی ریحان صاحب سے راقم نے حاصل کیا ہے ۔)
(۱)…آج بحمد اللہ ۱۵:۴ کو بیدار ہوکر رجوع الی اللہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ مدرسہ میں اذان فجر سے ۱۵/ منٹ قبل حاضری ہوئی اوردورہٴ حدیث کے طلبا،فارسی اور مشکوة کے طلبا کو نماز کے لیے بیدارکیا۔بعداذان حافظ عبد الصمد صاحب کے ساتھ چائے نوشی کرکے مسجد میمنی میں ۱۵:۵منٹ پر پہنچے ۔نماز فجرقاری عمران ترکیسری نے پڑھائی، بعد نماز حضرت رئیس جامعہ کی معیت میں مجلس ذکر ہوئی بفضلہ تعالیٰ ذکر سے فراغت کے بعد بیٹی رضوانہ کی چائے اور تلی روٹی کھا کربیٹے ریحان کے ساتھ حجرہٴ مطالعہ میں آکرتفسیرِ بیضاوی کا مطالعہ کیا اور اب مشکوة کا مطالعہ جاری ہے ۔
اکابر علمااور اہل علم سے محبت اور ان کی قدر ومنزلت:
اکثر ہم نے دیکھا کہ جب بھی حرم ِجامعہ اور اس کی چہار دیواری میں عرب وعجم سے کسی بڑی اور بزرگ علمی شخصیت کی حاضری و تشریف آوری ہوتی تو حضرت فلاحی رحمة اللہ علیہ ان حضراتِ اکابر کی خدمت اور مجالس میں پیش پیش رہتے ۔ ان کا تعارف اور ترجمانی فرماتے،اساتذہ اور طلبہ کی اکابرین اور مشاہرین سے ملاقات اور تعارف کراتے، ان کے وعظ ونصیحت کو بہت ہی قدر اور ادب واحترام سے سماعت فرماتے۔ اہل اللہ اور بز رگان دین سے آپ کی عقیدت اور محبت دیکھنے لائق ہوتی ۔ اور حال وقال سے یہ بتلاتے کہ
گرچہ از نیکا نیم لیکن بہ نیکاں بستہ ام
در ریاض آفرینش رشتہٴ گلدستہ ام
بالخصوص آپ تین شخصیات سے محبت و عقید ت اور ان کے احسانات کا تذکرہ بڑی فراخ دلی سے فرماتے ۔
(۱)…جامعہ اکل کوا کے سابق شیخ الحدیث حضر ت مولانامحمدسلیمان صاحب شمسی رحمة اللہ علیہ ۔ تحریری ثبوت کے طور پر آپ کی مایہٴ ناز تالیف ”قطرہ قطرہ سمندر“میں آپ نے حضرت کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقم فرمایا۔ ”کیسے فراموش کروں اپنے محسن (جامعہ اکل کوا کے شیخ اول) شمس المشائخ حضرت مولانا محمد سلیمان صاحب شمسی اعظمی کو ، جنہوں نے جامعہ کے پر سکون ماحول میں اعلانات ، سر کیولر ، امتحانی خاکے اور تعلیمی نقشوں سے لے کر خوشی ، غمی تعزیتی اور سالانہ رپورٹ تک کی نو ک وپلک سنوارنے اور اس کو تعبیرات کے سانچے میں ڈھالنے اورصحیح قالب میں اتارنے کی ایسی شفقت کے ساتھ رہ نمائی فرمائی جو آج بھی قدم قدم پر رہ نمائی اور رہبری کا کام کرتی ہے“۔
(۲)…دوسرے آپ کے بڑے بھائی حضرت مفتی عبد اللہ صاحب (جو ابھی کچھ ہی د ن پہلے انتقال فرماگئے) کا بھی اکثر ذکر خیر اوران کے احسانات، حسن عقیدت و محبت کے ساتھ ذکر فرماتے رہتے ۔چناں چہ لکھتے ہیں کہ:” میرے بڑے بھائی جو صرف میرے بھائی اوراستاذ ہی نہیں ،بل کہ بچپن سے لے کر آج تک جن کے روحانی اور مادی احسانات تلے جی رہا ہوں اورتمام تر لسانی اور قلمی خدمات کاسہرا ان ہی کے سر باندھا جاسکتا ہے ۔
(۳)… جن حضرات ِ فضل وکمال سے آپ محبت وعقید ت اور ادب واحترام کا معاملہ فرماتے ان میں حضرت خادم القرآن مولاناغلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم ہیں۔ آپ حضرت خادم القرآن کا بے انتہا ادب واحترام اور عزت فرماتے ۔ چا ہے بالمشافہ گفتگو ہو یا بذریعہ فون ہو۔
حضرت خادم القرآن کے منشا اور مطلوب کو فوراً سمجھ کر اس پر عمل در آمد فرماتے۔حضرت خادم القرآن اگر کسی کام کی ذمہ داری دیتے تو اپنا ذاتی ضروری سے ضروری کام یا سفر موقوف اور ملتوی فرمادیتے ۔ حضرت خادم القرآن اگر بیمار ہوجاتے توآپ بے چین اور فکر مند ہو جاتے۔ نماز کے بعد طلبہ میں آپ کی شفا یابی اور صحت و تن درستی کے لیے دعا کرواتے۔
عزم وحو صلہ اوراعمال واوقات کی حفاظت:
یوں توہمارے اکابر علما میں یہ بات پائی جاتی تھی کہ کثرتِ مشاغل اور اسفار؛ بل کہ پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود بھی خدمت دین کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جاتے تھے ۔حضرت استاذ محترم کا عزم وحوصلہ بھی اپنے اکابر علما و اساتذہ کے نقش قدم پر تھا ۔
وصال کے کچھ دن بعد جب ایک مجلس میں احقر راقم نے آپ کے بڑے فرزند مفتی ریحان صاحب کو اپنی ایک تالیف بنام” بیانات رمضان“ پیش کیا(جوحضرت الاستاذ رحمہ اللہ کی زیرسرپرستی اور ترغیب پر زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ہے، تو دورانِ گفتگو مفتی ریحان صاحب نے اپنے والدصاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ” ہماری والدہ ایک دن کہنے لگیں، تم اپنے والدکی طرح کام نہیں کرسکتے ہو، تمہارے والد صاحب رحمة اللہ علیہ کتنے بھی تھکے ماندے ہوتے، کتنی ہی دور دراز کا سفر کرکے آئے ہوتے ،لیکن صبح سویرے اپنے معمول کے مطابق فجر سے پہلے بیدار ہوجاتے اورجامعہ کی طرف چل دیتے ۔
حضرت اقدس کو اللہ تعالیٰ نے متعدد اورگونا گوں محاسن اور خصائص میں کمال واستحکام عطافرمایا تھا۔ انہی میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نماز کے لیے اذان سے پہلے ورنہ اذان کے فورا ًبعد جامعہ کی عظیم مسجد”مسجد میمنی“میں تشریف لے آتے اور طلبہ کی صفوں کے درمیان نگرانی فرماتے۔اسی طرح حیات کے آخری لمحات تک آپ نے مکمل پابندی کے ساتھ نماز ظہر اور عصر کی امامت فرمائی ا ِلاّ یہ کہ آپ سفر میں ہو تے یا اگر خادم القرآن حضرت رئیس الجامعہ امامت فرماتے ۔نماز فجر میں بوقت تہجد آپ جامعہ کے احاطہ میں حاضر ہو جاتے اور طلبہ کو بھی نماز تہجد کے لیے بیدار فرماتے ۔
جامعہ اکل کو سے لگاوٴ اور عقیدت:
حضرت مرحو م نے جامعہ اکل کواکی تعمیر وترقی میں اپنی محبت ، خدمت اور وقت؛ بل کہ اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ لگاکر اور حضرت خادم القرآن کی امیدوں پر کھرے اتر کر جامعہ سے اپنی عقیدت اور وارفتگی کا پورا پورا ثبوت دیا۔بہت ساری سرگرمیوں اور ذمہ داریوں کو انتظامیہ کے شانہ بشانہ دیوانہ وار ہو کر جامعہ اکل کوا پر اپنے آپ کو ایسا نچھاور کیا کہ بھلایا نہیں جاسکتا۔گویا آپ اس شعر کا مصداق بن گئے تھے
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت ، یہی آرزو ہے
بیرون ملک اسفار اور سفر آخرت
آپ نے تین سفر حج فرمایا۔اس کے علاوہ آپ نے چند بیرونی ممالک کاسفر فرمایا، جن میں سے چند یہ ہیں: موزمبیق ، برما ، کینیڈا ،افریقہ ،برطانیہ، سعودی عرب، کویت اور موریشش وغیرہ۔
۱۵/ شعبان مطابق ۱۰/ اپریل ۲۰۲۰ بروز جمعہ قے ہوجانے پر طبیعت ناساز اور علیل ہو جانے کے بعد جب جامعہ اکل کوا کے ”السلام ہاسپیٹل“ میں علاج ومعالجہ کے باوجود آپ کو افاقہ نہ ہوا تو دوسرے دن آپ سفر کرکے بغرض علاج گجرات کے کھروڈ ہسپتال میں شریک ہوگئے ۔آپ کے ساتھ آپ کے بڑے فرزند مفتی ریحان بھی شریک سفر اور والد صاحب کی خدمت وصحت کے لیے تگ و دو کرتے رہے۔
ابھی علاج و معالجہ میں ایک ہی د ن گذرا تھاکہ ۱۲/ اپر یل ۰۲۰ ۲ ء بروز اتوار بوقت صبح ۸/ بج کر ۲۵ / منٹ پر” ویل کیئرہاسپیٹل“ کھروڈ بھروچ گجرات میںآ پ نے یہ کہتے ہوئے اپنی جان جاں آفریں کے حوالہ کردی کہ
لائی حیات آئے ، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
اخیرکار چند ہی افراد کی موجودگی میں بعدنمازظہر ،عصر سے پہلے آپ کے داماد اور بھتیجے مولاناعبید اللہ سعادتی نے نماز جنازہ پڑھائی۔پھر دوسری نمازجنازہ آپ کے فرزند مفتی ریحان صاحب استاذ جامعہ نے پڑھائی۔اورآپ کے آبائی وطن رویدرامیں؛قبرستان کے اس حصہ میں جہاںآ پ کے والدین مدفون ہیں، تدفین عمل میں آئی۔اللّٰہم برد مضجعہ۔
زمینِ رویدرہ میں بنا آپ کا مزار
پہنچی وہیں پہ خاک ، جہاں کا خمیر تھا
آخری بات:
آخر ی بات یہ ہے کہ رئیس جامعہ اکل کوا نے نہ صرف اپنا نسبتی بھائی کھویا ،بل کہ ترجمان جامعہ ، استاذ تفسیر و حدیث ، نیک صالح اور مربی ٴطلبا کھودیا ہے۔جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، جن کی نس نس اور روئیں روئیں میں جامعہ بسا ہواتھا۔اللّٰہم اغفرلہ وارحمہ وسکنہ فی الجنة۔
ابھی جام ِعمر بھر ا نہ تھا کف ِدست ساقی چھلک پڑا
رہی دل کی دل میں ہی حسرتیں کہ نشاں قضا نے مٹادیا