مدارس اسلامیہ میں عصری تعلیم کتنی کیسے اور کیوں؟

اداریہ: 
(مولانا)حذیفہ بن غلام محمد(صاحب) وستانوی
اللہ رب العزت نے ہمیں اس دنیا میں انتہائی عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ ہے رب ذوالجلال کی بندگی اور اطاعت؛ البتہ اس کے امتحان کے لیے دنیا کو دل کش اور دل ربا بنایا، اس کے ساتھ ہی دنیوی ضرورتوں کو بھی وابستہ کیا۔ فرشتوں کی طرح نہیں رکھا ،جنہیں کسی قسم کی کوئی ضرورت ہی نہیں؛ نہ خواہش نہ حاجت ، لہٰذا وہ مکمل یکسوئی کے ساتھ خالق و مالک کی اطاعت میں منہمک رہتے ہیں۔البتہ انسان کے ساتھ یہ تمام ضروریات اور خواہشات وابستہ ہیں اور یہی اس کا اصل امتحان ہے کہ خواہشات سے بچ بچاکر اور ضرورتوں سے بقدر ضرورت وابستہ رہ کر اصل مقصد ِحیات کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے، اللہ کی رضا والے راستہ کو اختیار کرے اور ہمیشہ ہمیش کی کام یابی سے ہم کنار ہوکر سرخ رو ہوجائے۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے، جتنا تصور کیا جاتا ہے، اس کے لیے بہت جتن کرنے اور پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؛ تب جاکر یہ کام یابی حاصل ہوتی ہے۔ 
دائمی کام یابی کے حصول کے لیے صحیح سمجھ حاصل کرنا، علم کے بغیر ممکن نہیں اور علم بھی مطلق نہیں، بل کہ علم دین کا حصول ضروری ہے، جو محض کتاب وسنت سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

مدارس کا مقصد اور پس منظر:

دنیا میں جتنے بھی تعلیمی ادارے ہیں، ان میں سب سے اشرف اور برتر نسبت اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ ہمارے یہی مدارسِ اسلامیہ ہیں ، ان کو چاہے اکسویں صدی کے مسلمانوں کا بڑا طبقہ کتنی ہی گھٹیا نگاہ سے کیوں نہ دیکھتا ہو اور اسے بے وقعت ہی کیوں نہ سمجھتا ہو ، اس کے بے وقعت سمجھنے سے مدارسِ اسلامیہ کی شرافت، عظمت،ضرورت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ؛ کیوں کہ ان کا تعلق ذات باری تعالیٰ سے ہے ۔ان کا اصل مقصد قرآن کے مقصد ِنزول سے وابستگی ہے۔ ”ہدی للمتقین “ یعنی متقیوں کو آخرت کی اصل کام یابی کی راہ دکھانا ہے؛اگر چہ” کورونا “کے بعد امت کا بڑا طبقہ، عوام تو عوام بعضے خواص بھی مدارس کو اپنے اصل مقصد سے دور لے جانے میں مصروف ِعمل ہیں۔

بر صغیر میں مدارس کا پس منظر:

بر صغیر میں مدارس اسلامیہ کا پس منظر کیا ہے؟ 
امت مسلمہ کی تاریخ پر نظر رکھنے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسباب ِظاہر یہ کے درجہ میں بر ِصغیر میں دین اسلام کی موجودہ بقا ہمارے انہیں مدارس کی مرہون ِمنت ہے۔ ۱۸۳۵ء کے آس پاس لارڈمیکالے نے ہندستان کا دورہ کیا اور یہ اعلان کیا تھا کہ ” اگلے پچاس سال میں ہم پورے ہندستان کو عیسائی بنادیں گے “ اور پھر انگریز وں نے پوری قوت کے ساتھ تعلیم کے ذریعہ ہندستان کے تمام باشندوں کو اپنے دین سے بیزار کرکے عیسائیت کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہر قسم کے وسائل کو استعمال کیا۔
ایک طرف پادریوں کو میدان میں اتار کر مسلمانوں سے مناظرے کروائے۔ دوسری طرف تعلیم کو سیکولر روپ دینے کے نام پر امت محمدیہ ہی نہیں؛بل کہ پوری انسانی تاریخ کو مسخ کرنا شروع کیا۔ خاص طور پر انسانی عقائد کی تاریخ ، اسی طرح کائنات اور انسان کی حقیقی تاریخ کو اس کے اصل مصادر، کتاب و سنت سے کاٹ کر سائنس اور جغرافیہ سے جوڑ کر گمراہی اور تزویر کو رائج کیا۔یعنی حقیقت کو ایسا بدل دیا کہ پچھلی صدی کے اچھے اچھے بعض مفکرین بھی اس جال میں بری طرح پھنس گئے۔
سائنسی نظریات؛ جن کا دور دور تک سچائی اور حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا، انہیں عقیدہ، صداقت اور حقیقت ِمسلمہ کے طور پر باور کرواکر ابتدائی یعنی پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک نصابی مواد میں شامل ہی نہیں بلکہ اس جھوٹ کے پلندے کو سائنسی تحقیق کے طور پر ثابت کردیا گیا، اگر اس موضوع کو تفصیل سے پڑھنا چاہتے ہیں تو ”اخطاء یجب ان تصحح فی التاریخ“ کے سلسلے کو ” موسوعة تاریخ العقائد والکون والانسان بین الحقیقة والتزویر“ نامی انسائیکلو پیڈیا میں پڑھ سکتے ہیں ۔ اسی طرح اردو میں ”سرسید اور حالی کا نظریہٴ فطرت“ میں بھی پڑھ سکتے ہیں، جس میں ہندستان میں اسکول کیسے شروع ہوئے، کالج اور یونیور سٹیوں کی تاریخ کیا ہے؟ اور فطرت ، نیچر کے نام پر حقائق کو مسخ کرنے کی کیسے کوشش کی گئی؟ کا تفصیلی جائزہ لے سکتے ہیں۔
یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے، البتہ چند ضروری پہلو کی وضاحت ناگزیر ہے۔

دینی ودنیوی تعلیم کی تفریق کا ذمہ دار کون؟ علما یا انگریز؟

مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہمیشہ دینی ودنیوی تعلیم کی تفریق کا ذمہ دار علمائے کرام کو ٹھہراتا رہاہے ، وہ اس لیے کہ سر سید کی تحریک کی علمائے کرام نے مخالفت کی !! مگر حقیقت وہ نہیں ہے جوتصور کیا جاتا ہے۔ یہ تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ تو آئیے ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انگریز اس کا کیسے ذمہ دار ہے اور سر سید کی تحریک کی مخالفت کی اصل وجہ کیا ہے؟؟؟

دینی ودنیوی تعلیم کی تفریق کا ذمہ دار انگریز:

  اسلامی تاریخ اٹھاکر آپ جائزہ لے سکتے ہیں کہ اسلام کی غالبیت کے دور میں، علوم کی تفریق کا نظام نہیں تھا، یعنی دینی تعلیم کے لیے الگ اور دنیوی تعلیم کے لیے الگ نظامِ تعلیم یا ادارے آپ کو کہیں نہیں ملیں گے، اس لیے کہ اسلام کامل ومکمل نظامِ حیات کا نام ہے، وہ انسان کی زندگی کے ہر موڑ پر ایسی رہ نمائی کرتا ہے کہ جس میں آخرت کا ہر پہلو مقدم ہوتا ہے اور دنیا کی ضرورت ومنفعت کو بھی فراموش نہیں کیا جاتا ؛اسی لیے اسلام نے رہبانیت کو ناجائز قرار دیا ،اس لیے کہ جس دنیا میں انسان زندگی گزارتا ہے، اس میں اس کی بہت ساری ضرورتیں پائی جاتی ہیں، اس سے کلی طور پر کٹ کر وہ کیسے زندگی گزار سکتا ہے!!!
انگریز وں کو جن علاقوں میں تسلط حاصل ہوا، اپنے مفاد کو باقی رکھنے کے لیے جہاں طاقت کا استعمال کیا، وہیں فکری اعتبار سے وہاں کے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے ایسا نظام ِتعلیم نافذ کیا اور تیار کیا جو ایک طرف انہیں اپنے عقیدہ وفکر اپنی تاریخ اور اپنے دین سے دور کردے۔ اور دوسری جانب وہاں کے باشندوں کو محض ان کاکلرک بنائے رکھا ، اس طرح ایک تیر سے دو شکار کا منصوبہ بنایا، ایسے سنگین حالات میں جب ارتداد کا فتنہ منڈلانے لگا اور دائمی غلامی کی زنجیر میں جکڑے جانے کا امکان بڑھنے لگا،تو علمائے اسلام نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے محض اللہ کی توفیق سے (جب کہ مسلمانوں کی حکومت کے زوال کے ساتھ مدارس بند کردیے گئے تھے)یہ بیڑا اٹھایا کہ بر صغیر کے مسلمانوں کی موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کے ایمان واسلام کی حفاظت کے لیے امت سے ایک ایک پیسہ جمع کرکے دینی مدارس کا جال بچھا دیا ،جس نے الحمدللہ بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے صرف بر صغیر ہی نہیں ؛بل کہ پوری دنیا میں صحیح طور پر اسلام کی حفاظت میں بڑا رول ادا کیا۔
اس حقیقت کا چاہے کوئی کتنا ہی انکار کرے انکار ممکن نہیں۔ انہیں مدارس نے ہندستان کو اندلس ہونے سے بچایا اور اگر وہ اب بھی حالات کے مطابق اپنے مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر کام کریں گے، تو ان شاء اللہ آئندہ بھی اپنے اس عظیم کردار کو ادا کرنے میں کام یاب ہوں گے۔ 
معلوم ہوا کہ انگریزوں نے جب کلی طورپر دین کی تعلیم کو نظام ِتعلیم سے کنارے لگا دیا ،تب ضرورت کے پیش نظر علما نے مدار س ومکاتب کے ذریعے امت کی اس اہم ترین ضرورت کی حفاظت کی؛ لہٰذا علما ئے کرام تو امت کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے امت کی سب سے قیمتی گراں مایہ دولت، ایمان واسلام کی حفاظت ،ان مدارس کے ذریعے کی اور ان پر جو یہ الزام بل کہ بہتان ڈالا جاتا ہے کہ انہوں نے تفریق کی ، سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔

تحریک ِسر سید کی مخالفت کی وجہ:

دوسرا الزام علما پر یہ ڈالا جاتا ہے کہ علمائے کرام نے تحریک ِسرسید کی مخالفت کی ، وہ بھی محض اس لیے کہ انہوں نے دنیوی تعلیم کو امت میں رائج کرنے کا بیڑا اٹھایا، یہ الزام بھی بے بنیاد اور غلط ہے ، اس لیے کہ علما نے انگریزی یا دنیوی تعلیم کی وجہ سے سرسید کی مخالفت نہیں کی؛ بل کہ سر سید مغربی تہذیب سے مرعوب ہوکر دنیوی تعلیم کے نام پر اسلامی تہذیب پر جو شب خون ماررہے تھے، اس کی مخالفت کی۔
در حقیقت سر سید کی خدمات کا ایک ہی پہلو امت کے پیش ِنظر ہے اوروہ ہے امت میں دنیوی تعلیم کے رواج کے لیے سعی، مگر ان کی دین ِاسلام کی تعلیمات کو باطل تاویلات کے سہارے غلط اور عقلی اصول وضع کرکے فطرت اور نیچر کے مطابق کرنے کی جو نا مسعود سعی کا منفی اور تاریک پہلو ہے، امت کے عام افراد ہی نہیں ،خواص کا بھی اچھا خاصا طبقہ اس سے واقف نہیں یاتو اسے ہلکا سمجھتا ہے یا تجاہل ِعارفانہ سے کام لیتا ہے۔ علمائے کرام نے اس تاریک پہلو کی شدت سے مخالفت کی ۔ اگر علمائے کرام اسے نظر انداز کردیتے تو امت کو بہت بڑا فکری نقصان اٹھانا پڑتا اور آج جیسے ہم منکرین حدیث، قادیانی اور جدت پسندوں کو دیکھ رہے ہیں، ان کی تعداد بھی امت میں بہت زیادہ ہوتی۔
اگر آپ اس حقیقت سے واقف ہونا چاہتے ہیں تو حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی  کی کتاب ”تصفیة العقائد“ اور ”امداد الفتاوی“ حضرت تھانوی  جلد۶/کا ضرور مطالعہ کریں اور اگر اختصار کے ساتھ جاننا چاہتے ہیں تو بندہ کا مضمون ” معرکہٴ تجدید و تجدد“ کا مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائیں۔ 

مدارس میں عصری تعلیم کتنی ہونی چاہیے؟ 

دینی ودنیوی تعلیم کے تاریخی منظر نامہ کے بعد آئیے ہم جانتے ہیں کہ مدارس میں عصری تعلیم کتنی ہونی چاہیے؟ 
مذکورہ تعلیم کے بارے میں حقیقی منظر نامہ جاننا ضروری ہے؛ تاکہ حالات کی تبدیلی کے پیش ِنظرموجودہ حالت کے تناظر میں مدارس میں کتنی عصری تعلیم ضروری ہے ، اس پر روشنی ڈالی جاسکے ۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ معلوم کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ میں نونہالانِ امت کی کتنی تعدادآتی ہے اور عصری تعلیم کے اداروں میں کتنی جاتی ہے؟
تو معلوم ہونا چاہیے کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طلبہ کی تعداد سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دو فیصد ہے،مگر ”کورونا“ کے بعد اب وہ بھی گھٹ کر ایک یا ڈیڑھ فیصد ہوگئی ہے۔ اورعصری تعلیم میں ۶۰/ سے ۷۰/ فیصد ہے ۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امت کے متمولین اور روشن خیالوں کو دینی تعلیم کے بچوں کو عصری تعلیم دلانے کی اتنا زیادہ فکر ہے اور عصری تعلیم کے بچوں کو دین سکھانے کی فکر کیوں نہیں؟جب کہ فکری وتہذیبی گمراہی سے دوقدم آگے بڑھ کر اب ہمارے وہ نوجوان نام نہاد دانشور کھلے عام ارتداد ہی نہیں ، بل کہ انٹی اسلام اور ایکس مسلم تحریک میں پیش پیش ہیں !!!جتنی فکر دینی تعلیم کے طلبہ کو عصری تعلیم دینے کے لیے کی جارہی ہے، اس سے کہیں زیادہ عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو دینی تعلیم کس طرح دی جائے ؟ اس فکر کی ضرورت ہے۔
دین کی حفاظت مسلمان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، لہٰذا سب سے پہلے اس کی فکر ہو کہ مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ،حالات کے تقاضوں کے مطابق امت میں دین کو زندہ رکھنے میں کیسے کلیدی کردار ادا کریں اور کس طرح کے نئے مضامین موٴ ثر اسلوب میں انہیں پڑھائے جائیں، اس کی فکر کرنی چاہیے۔ مثلاً: امت پر فکری یلغار ہے، تو علم ِکلام کو صحیح، عقلی واسلامی اصول کی روشنی میں جدید مثالوں کے ساتھ کیسے پڑھایا جائے؟
الحمدللہ ! بندے نے حکیم فخر الاسلام صاحب کو اس کام کے لیے آمادہ کیا ہے اور” مجمع الفکر القاسمی الدولی“ کے پلیٹ فارم سے یہ کام ہورہا ہے۔ ہمارے آخری دور کے وہ متکلمینِ اسلام؛ جن سے اللہ نے سائنس سے مرعوبیت کے ابتدائی دور ہی میں اسلام کے فکری پہلو کو محفوظ رکھنے کی کام یاب کوشش کی، ان کی کتابوں پر کام جاری ہے۔ میری مراد حجة الاسلام حضرت الامام مولانا قاسم نانوتوی  اور حکیم الامت مجدد ِملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہما کی قلمی شاندار کاوشوں پر اب تک مندرجہ ذیل کتابیں جدید حاشیوں اور ترتیب کے ساتھ منظر عام پر آچکی ہیں۔

افادات الامام محمد قاسم نانوتوی:

۱-انسانیت اور مذہب 
۲-نصوص کی فہم و تفہیم میں معقولات اور فلسفہ کی اہمیت 
۳-بینتھم کی افادیت اور افادیت قاسم 
۴-بین المذاہب ڈائیلاگ 
۵-منہاج علم و فکر -فکر نانوتوی اور جدید چیلنجز
۶-الامام محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی ترجیحات
۷-حجة الاسلام -تحقیق و تشریح
۸-تصفیة العقائد-تحقیق و تشریح
۹-مذاہب کا تقابلی جائزہ(خطباتِ شاہ جہاں پور، ازالامام نانوتوی ) 
۱۰-تقریر دل پذیر (تحقیق و تشریح جاری)
۱۱-اہل الحاد کا اصل روگ 
۱۲-معرفت حق 
۱۳-اسباب گمراہی 
۱۴-اصول مذہب عقلی ہیں 
۱۵-کیا مذہب موروثی غیر عقلی ہے؟ 
۱۶-نفع و نقصان -خیر و شر 
۱۷-ہدایت عقل- تقاضائے عقل 
۱۸-نفع و نقصان -رغبت طبعی اور نفرت طبعی 
۱۹-قواعد طب -ماہرین طب 
۲۰-دین حق کی طرف دل کو کشش 
۲۱-طب بدنی اور طب روحانی 
۲۲-خیر و شر کا آفاقی معیار 

افادات حکیم لامت:

۱-علم کلا م جدید-شر ح الانتباہات المفیدة۔
۲-خلاصہ دعاة الامة وہداة الملة۔
۳-Answer to modernism۔
۴-الانتباہات المفیدہ عن الاشتباہات الجدیدہ (متن)۔
۵-نصوص قرآنی کی توجیہات میں اصولوں سے انحراف ۔
۶-احسن الاشارات الی تدریس الانتباہات۔
۷-دراسة الانتباہات ۔
۸-اسلام اور اعتزال نو -اسلام کی تشکیل جدید۔
۹-تعارف :التلخیصات العشر۔
۱۰-علم کلام جدید کی پانچ اساس۔
۱۱-مقاتلہ حربین (جہاد )عقل کا فیصلہ ۔
۱۲-مذہب کے عقلی دلائل اور صوفیانہ نقد۔
۱۳-دین اسلام میں تنگی نہیں۔
اور مزید پر کام جاری ہے۔ آپ حضرات سے دعا کی درخواست اور علما وطلبہ سے ان کتابوں کے مطالعہ اور مذاکرہ کی موٴدبانہ درخواست ہے۔
اسلام پر ہورہے جدید شبہات سے ہمارے علماکیسے نمٹیں ؟
اسلام کی صحیح تاریخ امت کے سامنے کیسے آئے؟ 
علما و طلبہ کو موٴثر کردار ادا کرنے کے لیے کیا کیا جائے ؟ تو یہ سب اس وقت مدارس کی ترجیحی ضرورتیں ہے۔ 

آمدم بر سر مطلب:

طلبہٴ مدارس کو عصری تعلیم دی جائے ، اس سے انکار نہیں! البتہ مستقبل میں امت کی دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ان کا رول کیسے باقی رہے ؟ یہ سب سے زیادہ ضروری ہے؛ تاکہ جیسے ہمارے سلف ِصالحین اور آبا واجداد نے ہماری دینی فکر کی، ہماری آنے والی نسلیں بھی ہمیں کہیں کہ ہم نے ان کے دین کی حفاظت کی ،سلامتیٴ فکر کا بندو بست کیا ، جیسے وہ لوگ اللہ کی رضا مندی کے اہل ہوئے ۔ ہم بھی اس کے اہل ہوسکیں۔
سب سے پہلے تو اس بات کی فکر کی جائے کہ مدارس کے طلبہ اس طرح دنیوی تعلیم حاصل کریں کہ وہ اپنے اصل میدان خدمت ِدین وخدمت ملت ِاسلامیہ کو ہر گز ترک نہ کریں۔ دین ان کے یہاں مقدم ہو اور دنیا ثانوی حیثیت رکھتی ہو، اس کا طریقہ یہ ہو کہ محض حفظ کے ساتھ دسویں اور بارہویں نہ کروایا جائے ، اس لیے کہ اس صور ت میں کم بخت دنیا غالب آجائے گی اور یہ طلبہ جو بہت کم مقدار میں مدار س میں آتے ہیں، حفظ کے بعد دین کی تعلیم چھوڑ کردنیا کی تعلیم کی جانب مائل ہوجائیں گے ؛ لہٰذا عربی سوم میں انہیں دسویں پاس کروایا جائے ، اس کا بھی طریقہ یہ ہو کہ ان کے لیے مستقل ایک ایسا نصاب ہو ، جو اسکولی نصاب میں شامل الحادی افکار کا رد کرتا ہو؛ تاکہ طالب علم کامیاب داعی بنے ۔ علی وجہ البصیرت مادی وسائنسی افکار کی حقیقت سے واقف ہوں۔ پنجم تک اسے بارہویں کروائی جائے اور اس کے بعد کی تعلیم کو اختیاری رکھا جائے ۔
الحمد للہ جامعہ میں مدارس کے طلبہ کے لیے عصری نصاب پر کام جاری ہے ؛ دعا فرمائیں اللہ خیر کے ساتھ پایہٴ تکمیل کو پہنچائے۔آمین یارب

 مدارس کے طلبہ کو کن میدانوں میں کام کی ضرور ت ہے؟

۱- مدارس ،مکاتب ، امامت یہ اصل ہے، مگر علماان ذمے داریوں کے ساتھ اگر تجارت یا کوئی پیشہ اختیار کریں، یا کسی اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے کام کریں تو زیادہ مفید ہوگا، وہاں نسل ِنو کی تربیت بھی کرسکتے ہیں۔ 
۲- علما کو عصری تعلیم کے میدان میں B.A اور D.Ed B.ed- کرنا بھی امت کے لیے نفع بخش ہوگا، تاکہ پروفیشنل انداز میں ٹیچنگ کرسکیں۔
۳- امت کی قیادت کے لیے مطلوبہ اوصاف پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہونا چاہیے۔
۴- نوجوانوں سے وابستہ رہنے کے لیے انگریزی بھی سیکھنی چاہیے؛ تا کہ عصری تعلیم سے وابستہ افراد کی بھی رہ نمائی کرسکے۔
شیخ الاسلام فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی یہ بات بڑی پتے کی ہے کہ دارالعلوم دیوبند ، ندوة العلماء اور علی گڑھ یہ تینوں ادارے انگریز کے سیکولر تعلیم کے نظام کے ردِ عمل کے طورپر وجود میں آئے تھے، لہٰذا ہمیں اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے؛ جیسے جامعہ قزوین ، جامعہ زیتونہ اور جامعہ ازہر کا نظام ِتعلیم ماضی میں ہوتا تھا، ہمیں بھی اپنے نظام کو اس نہج پر لے جانے کی آج ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اب ڈیڑھ سو سال کے بعد حالات یکسر بدل چکے ہیں ، مسلمان سر جوڑ کر بیٹھیں اور دین کا مضبوط نصاب، اس کے ساتھ عصری علوم کا بنیادی نصاب ،دسویں بارہویں تک کا ایسا تیار ہو کہ کوئی بھی طالب علم سچا پکا مسلمان ہو اور وہ دین کی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں؛ جیسے: ہمارے اسلاف ہوتے تھے۔ اس کے بعد تخصص میں جس کا ذہن جس جانب مائل ہو، اس میں تخصص حاصل کرے کوئی عربی زبان وادب میں، کوئی فقہ میں، کوئی تفسیر میں ،کوئی حدیث میں، کوئی سائنس میں، کوئی تاریخ میں، کوئی جغرافیہ میں، کوئی حساب میں وغیرہ۔
شیخ الاسلام نے بڑی تجربے کی بات کہی ، مگر اس پر عمل کون کرے گا؟ ! یہ سب سے بڑا سوال ہے؟
حافظ بننے کے بعد عالم بننے اور اس کے ساتھ دسویں بارہویں وغیرہ کی ضرورت ہے ، اس لیے کہ صرف حافظ طلبہ کو عصری میدان میں لے جانا دانش مندی نہیں۔ حافظ ہو عالم ہو اور اس کے ساتھ کوئی عصری علم میں تخصص کرے ،تو وہ امت کے لیے مفید ہوگا۔ ورنہ وہ بھی دوسروں کی طرح ڈاکٹر بن کرصرف اپنا ہی پیٹ پالے گا، امت کے کام نہیں آئے گا، جو صرف حافظ اور ڈاکٹر بنے گا۔
دوسری جو سب سے بڑی ضرورت ہے وہ یہ کہ عصری اداروں کے طلبہ کو دین کی مضبوط تعلیم دینے کی سخت ضرورت ہے ، انہیں جو غیروں کے حوالہ کردیاجارہا ہے یہ سب سے اہم غلطی ہے ، جگہ جگہ ہمارے ہاسٹلز ہونے چاہیے کہ طالب علم کہیں بھی پڑھے، لیکن ہمارے ہاسٹل میں رہے ، جہاں اس کو دینی تعلیم وتربیت اور ماحول فراہم کیا جائے۔ ہندوستان میں ہم مسلمانوں کو ۲/ لاکھ پچاس ہزار اسکولوں کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کو اپنی یونیور سیٹیاں کھڑی کرنے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کو اپنے کالجز بنانے کی ضرورت ہے ، اپنا نصاب ِتعلیم ،اپنا ماحول، اپنی نسل کو فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ لڑکیوں کے لیے (Only For Girls ) صرف لڑکیوں کے ادارے ہونے چاہیے۔ ہمارے متوملین ،علما اور دانش وروں کو ریاستی ، ضلعی اور ملکی؛ بل کہ عالمی سطح پر ایک پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت ہے،جو امت کے مسائل کو اجتماعی طور پر حل کرے۔ باطل فرقے اورباطل مذاہب سب منظم ہوکر کام کررہے ہیں اور ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے، ایک دوسرے پر تنقید کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ مفاد پرستوں اور آستین کے سانپوں کی وجہ سے پوری امت خسارہ اٹھارہی ہے، کب تک یہ انتشار چلتا رہے گا؟ اتنے بدتر حالات کے باوجود بھی ہمیں اب تک سمجھ نہیں آرہی ہے؟
بہر حال مستقبل بڑا پر خطر ہے۔ دینی ودنیوی ہر اعتبار سے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اللہ کی جانب رجوع کرنے،دین پر استقامت ، دعاوٴں کا اہتمام ، اخلاق ِحسنہ کی عادت اور اسباب کو مکمل پلاننگ کے ساتھ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مصروفیت کی وجہ سے اداریہ لکھنے میں تاخیر ہوئی اور یہ اداریہ بھی سفر کے دوران ہوائی جہاز میں لکھنا پڑا،مگر الحمد للہ سوچ سمجھ کر صحیح رہنمائی کی کوشش کی ہے۔اللہ نفع بخش بنائے۔

مدارس ، مکاتب، اسکولز ،کالجز،یونیور سیٹیز کے طلبہ پر کس طرح کے کام کی ضرورت ہے؟

امت مسلمہ موجودہ حالات میں کیا کرے؟

            ۱- مدارس اسلامیہ کو مضبوط کرنے کی علما بھرپور کوشش کریں، اس طور پر کہ تعلیمی معیاراور طریقہٴ تعلیم کی جانب خاص توجہ دی جائے؛ حالات کامقابلہ کرنے کے لیے طلبہ کو بھرپور انداز میں تیار کیا جائے ۔سب سے پہلے انہیں عربی و دینی علوم میں پختہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، ساتھ ہی تربیت کی جانب خاص توجہ دی جائے، موبائل سے طلبہ کو دور رکھا جائے اور تزکیہٴ نفس پر آمادہ کیا جائے؛ اس لیے کہ علم ِدین کتنا ہی ہو، اگر نفس کا تزکیہ نہیں تو بجائے اصلاح کے افساد کا اندیشہ زیادہ ہے اور عالم اگر فتنہ پروری پر اتر آئے تو اس سے زیادہ معاشرہ کے لیے اور کوئی نقصان دہ نہیں ہوتا ۔ اسی لیے حدیث میں ہے:

             عن الأحوص بن حکیم، عن أبیہ قال: سأل رجل النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن الشر فقال:لا تسألونی عن الشر، واسألونی عن الخیر، یقولہا ثلاثا ثم قال: ألا إن شر الشر، شرار العلماء، وإن خیر الخیر، خیار العلماء۔

 (سنن دارمی باب: التوبیخ لمن یطلب العلم لغیر اللہ (حدیث رقم: 382)

            حضرت احوص بن حکیم اپنے والد حکیم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دوہراتے ہوئے ارشاد فرمایا:

             ”مجھ سے شر کے بارے میں سوال نہ کیا کرو،بل کہ خیر کے بارے میں پوچھتے رہو“، اس کے بعد فرمایا:”بدترین شر علما کا شر ہے اور بہترین خیر بھی علماہی میں ہے۔“

             یعنی عالم اگر درست، سب کچھ درست؛ عالم اگر بگڑا تو بیڑا ہی غرق ہوجاتا ہے۔ اس بات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری جگہ مزید وضاحت فرمائی۔

             عنہ صلی اللَّہ علیہ وآلہ- لَمّا سُئلَ عَن شَرِّ النّاسِ -: العُلَماءُ إذا فَسَدوا“.علما جب بگڑ جائے تو ان سے برا کوئی نہیں ۔

            حضرت علی سے بھی جب دریافت کیا گیا کہ انسانی معاشرہ کا بہترین طبقہ کونسا ہے؟تو کہا علما جب صلاح کے حامل ہوں۔

             اور پوچھا گیا ابلیس فرعون اور نمرود کے بعد سب سے بدترین کون لوگ ہوسکتے ہیں؟ تو آپ نے کہا علما جب فساد کا شکار ہوجائیں، اس لیے وہی حقائق کو لوگوں سے چھپاکر اور باطل کو مزین کرکے پیش کرتے ہیں ۔

            لہٰذا طلبہٴ مدارس کی تربیت کی جانب خاص توجہ ہونی چا ہیے۔

            قال الطیبی: إنما کانوا شر الشر وخیر الخیر ،لأنہم سبب لصلاح العالم وفسادہ، وإلیہا تنتمی أمور الدین والدنیا، وبہم الحل والعقد اہ. أو لأن عذاب شرارہم فی العقبی شر العقاب، ومراتب خیارہم فی المنازل الجنة خیر مآب۔

            علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علما کو فساد و اصلاح کی جڑ قرار دیاگیا، اس لیے کہ فسادِ عالم اور صلاحِ عالم کا مدار علما ہی ہے، سارے معاملات کا انجام دینا اور حل کرنا انہی پر موقوف ہوتا ہے، دینی و دنیوی تمام امور کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اسی لیے جہنم میں سخت عذاب بھی علمائے سوء کو ہوگا اور جنت میں اعلیٰ درجہ پر بھی مخلص علما فائز ہوں گے۔

            ۲- امت کے ہر طبقہ میں گھس کر علما کو کام کرنے کی سخت ضرورت ہے، لہٰذا بعض ایسے ہوں جو دینی ِعلم اور اسلامی فکر میں تصلب اور مہارت کے ساتھ انگریزی لکھنے بولنے پر قادر ہوں؛ تاکہ جو بڑا طبقہ انگریزی کا دلدادہ ہے ان پرمضبوطی کے ساتھ موٴثرانداز میں دعوت کا کام کرسکیں، بعض دیگر علاقائی زبان کے ماہر ہوں، بعض عالمی دوسری زبان پر دسترس رکھتے ہوں؛ تاکہ کوئی میدان ہماری کوشش سے چھوٹنے نہ پائے۔

            ۳ – درجہٴ مشکوة اور دورہ کے طلبہ کو فرقِ باطلہ، ادیانِ باطلہ، افکار ِزائغہ ،مادی و مغربی تھذیب، الحادی افکار، محاسن ِاسلام، علم ِکلام جدید، دشمنوں کی سازشوں سے، اسلامی صحیح تاریخ سے، حضارة اسلامیہ، حاضر العالم الاسلامی، مقاصد ِشریعت ،اسرار و حکم شریعت، دعوت کے موٴثر طریقے، تربیتِ اسلامیہ ،علومِ اسلامیہ کی تدریس کے طریقے، مرتد مسلمان جو ایکس مسلم کے نام سے کام کررہے ہیں، ان کے اسلام پر اعتراضات کے جوابات، ہندتو وا کے اعتراضات کے جوابات، مستشرقین سے متعلق تفصیلات اور جدید تجارتی وفقہی مسائل وغیرہ مضامین کو بہترین انداز میں پڑھایا جائے ؛تاکہ خوب اعتماد کے ساتھ میدان میں اتریں۔

            ۴- طلبہ میں کتابوں کے مطالعہ کا شوق پیداکرنے کی سخت ضرورت ہے کہ وہ ہمارے اکابرین کی اردو عربی کتابیں خوب پڑھیں، اس لیے کہ مطالعہ کے ذوق کے بغیر کسی بھی معاشرہ میں موٴثر کام ناممکن ہے۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی مطالعہ کثرت سے کریں اور طلبہ کی بھی رہبری فرمائیں ۔

            (۱) …صبر و استقامت کے پیکر۔ صفحات من صبر العلماء۔

            (۲)…وقت کی اہمیت۔ قیمة الزمن عند العلماء۔

            (۳)…متاعِ وقت و کاروان علم۔

            (۴)…آداب المتعلمین۔

            (۵)…العلماء العذاب الذین آثروا العلم علی الزواج ۔

            (۶)…تحفة العلماء ۔

            طلبہ کے درمیان یہ کتابیں اور ان جیسی دیگر کتابوں کی تعلیم کروائی جائے ،یا طلبہ کو ابتدائی مرحلہ میں ان کتابوں کے مطالعہ کا مکلف کریں ؛تاکہ ذوق بیدار ہو۔ کتب خانوں میں جانے کا عادی بنائیں، ہر مسجد میں دینی تعلیم کے کتب خانے قائم کریں ،ہر فردِ امت مطالعہ کا دیوانہ ہو، اس کی مکمل کوشش ہونی چاہیے۔ گویا” مطالعہ کلچر“ زندہ کیا جائے ؛جیساکہ اسلام کے عروج کے دور میں تھا، ”اسلامی علوم کی ڈیجیٹل دنیا“ مضمون کا مطالعہ اس پر روشنی ڈالتا ہے، اس کو پڑھیں۔

            ۵- طلبہ کو سائنسی معلومات اس طور پر دی جائے کہ وہ سائنسی حیرت انگیز معلومات کے ذریعہ اللہ کی قدرت کی معرفت حاصل کریں اور اس جانب انسانیت کو متوجہ کریں، جس الحاد کوسائنس کے ذریعہ عام کیا گیاہے،اسی سائنس سے اللہ کی عظمت کو بھی عام کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً:

             DNA کیا ہے؟

            دماغ میں Neuron کیسے کام کرتے ہیں؟

             انسان کی دماغی صلاحیت کا تعارف؟

            دل کیسے کام کرتا ہے؟

            بچہ ماں کے پیٹ میں کیسے پرورش پاتا ہے؟

            قرآنِ کریم میں مذکور جانور، کیڑے مکوڑے کے بارے میں جو حیران کن سائنسی معلومات ہیں؛ مچھر، مکھی، ہدہد، چیونٹی، زمین، چاند، سورج، ستارے اور کہکشاں کے محیر العقول انکشافات وغیرہ؛ تاکہ طلبہ کے لیے یہ چیزیں اللہ کی خالقیت کو سمجھانے میں معین ہوسکیں۔

مدارس کے طلبہ کے لیے پرائمری سیکنڈری کا نصاب کیسا ہونا چاہیے؟

            ۶ – پرائمری، سیکنڈری، ہائی سیکنڈری کا نصاب اس طور پر تیار کیا جائے کہ اس میں سائنسی ، تاریخی، معاشرتی ، اقتصادی، سیاسی معلومات، اسکولی نصاب میں جو ہے، وہ بھی مختصراً ہو اور ساتھ ساتھ حقائق اور اسلام سے متصادم چیزوں کی بھی نشاندہی ہو؛ تاکہ طالب علم ڈنکے کی چوٹ پر چھاتی ٹھوک کر کسی کے بھی سامنے اس کی تردید کرسکے، گو داعیانہ اسلوب ہو۔ جیسا نصاب ہے ویسا پڑھا کر کوئی فائدہ نہیں، یہ تو مفید ہونے کے بجائے مضر ہوگا! اس لیے اس پہلو کو ملحوظ رکھنا ہمارے مدارس کے بنیادی مقاصد کے پیش نظر ازحد ضروری ہے۔

            ۷- طلبہ کو اسلامی اخلاق پڑھایا جائے، اس پر عمل درآمد کرنے کی شکل بنائی جائے، اس لیے کہ اخلاق کے بغیر دعوت اور معاشرہ پر اثر ناممکنات میں سے ہے۔

            ۸ – طلبہ میں لکھنے بولنے اور ڈیبیٹ کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچا جائے، تاکہ تقریر و خطابت اور سوشل میڈیا پر دعوت اور دفاع کے لیے افراد تیار ہوسکیں۔

            ۹- طلبہ کو صحافت ، قانون، دستور اور ملک کے مختلف نظاموں کی بنیادی معلومات سے دی جائے۔ مثلاً:

             نیوز کیسے تیار کیا جائے؟

             دستور اور ملک کا قانون کیا ہے؟

             ریل کا نظام، ٹیکس کا نظام، پولیس کا نظام اور پارلیمنٹ کا نظام ۔ یہ سب بھی پڑھایا جائے؛ تاکہ جس ملک میں ہیں اس کے قوانین و نظام سے مکمل واقفیت ہو۔

            ۱۰ – عالمی منظر نامہ بھی طلبہ کے سامنے آنا چاہیے ۔

             دنیا کی بڑی طاقتیں کون ہیں؟

             وہ کیوں بڑی ہیں؟

             مستقبل کی ٹیکنالوجی کیا ہوگی؟

             عالمی مالی میڈیائی ادارے کیسے کام کرتے ہیں؟! ان کا مقابلہ کیسے کیاجائے؟ تاکہ طلبہ گھبرائے بغیر جرأت و ہمت ،حوصلہ اور کانفیڈنس کے ساتھ میدان عمل میں اتریں ۔

            ۱۱- مکاتب کو مؤثر بنانا سب سے اہم ہے۔ اس کے نصاب کو اس طور پر تیار کیا جانا چاہیے کہ بچہ اسکول میں کوئی غلط موضوع پڑھنے سے پہلے اس کا صحیح اسلامی پہلو پڑھ لے، تاکہ وہ غلط چیز اس پر اثر انداز نہ ہونے پائے مثلاً :

            ”ڈاروین“ کی تھیوری تیسری کتاب میں پڑھنے سے پہلے، اس کا رد اور اسلام کا مستحکم نظریہٴ تخلیق، اس طور پر پڑھ اور جان لے کہ بچہ خود ہی اسے غلط قرار دے دے۔

            ۱۲- مسلمان اپنے اسکولس، کالجز اور یونیورسٹیز اپنے علاقوں میں تعمیر کرنے کی مہم چلائیں۔ شادیوں میں اچھے کھانیں،ڈکوریشن اور فیشن؛ اسی طرح سیر و تفریح پر فضول خرچی نہ کرتے ہوئے دوسروں پر ڈیپینڈ ہونے کے بجائے خود قائم کریں اور اس میں اسلامی ماحول کی بھرپور سعی کریں، ان اسکولوں میں دین کی بنیادی تعلیم کا معقول انتظام کریں، تاکہ ہمارے بچے غیروں کے گندے ماحول کے بجائے اپنے پاکیزہ ماحول میں تعلیم حاصل کریں۔ الحمدللہ عصری تعلیم دینی ماحول کی بہترین مثال ”جامعہ اکل کوا“ ہے۔

            ۱۳ – اسکول اور مدارس کے اساتذہ کے لیے وقتاً فوقتاً تربیتی ورکشاپ رکھے جائیں، جس میں فکرمندی کے ساتھ موٴثر طریقوں کی تعلیم دی جائے ۔

            ۱۴- مسلمان والدین کو اسلامی تربیت اور اپنے گھر کو اسلامی ماحول کا حامل کیسے بنایا جائے؟ اس پر ورک شاپ رکھے جائیں، اس لیے کہ سب سے بڑا رول ماحول ہی کا ہوتا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں : ”الام تصنع الامة“ کہ مائیں ہی عمدہ امتوں کو وجود بخشتی ہیں ۔

            ۱۵ – نیک اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اس کے لیے والدین صالحین سے مربوط رہیں، گھر میں دینی تعلیم کے لیے اچھی کتاب کا انتخاب واہتمام کریں، خود والدین نیک بنیں، نماز، روزہ، حج اور عمرہ کا اہتمام کریں۔ گالی گلوچ، میاں بیوی کے آپسی جھگڑوں سے دور رہیں۔

            بچوں سے پیار کریں، انہیں پُر اعتماد بنائیں، حوصلہ دیں ،بددعا نہ دیں طعنہ نہ دیں، ذلیل نہ کریں، ان کو وقت دیں، ان کی باتیں سنیں، ان پر اعتماد کریں، انہیں بزرگوں اور سلف ِصالحین کے واقعات سنائیں، مجرموں کے بارے میں بھی بتائیں، پچھلی امت کے ہلاکت کے وجوہات سے واقف کریں، بداعمالی اور بداخلاقی کے انجامِ بد پر مطلع کریں، اس کی سخت ضرورت ہے۔

            ۱۶ – بروں کی صحبت سب سے ہلاکت خیز ہے، لہٰذا اپنے بچوں پر مکمل نظر رکھیں کہ وہ کسی برے دوست کے ساتھ تو نہیں رہتا ۔ والدین خود بھی بے نمازی ، بداخلاق افراد سے دور رہیں، اپنے بچوں کے سامنے فلم بینی، کرکیٹ، سیریل وغیرہ دیکھنے سے کلی اجتناب برتیں؛ ورنہ بچوں پر آپ کی نصیحت کا اثر نہیں ہوگا۔

            ۱۷ – فیشن کی وبا سے دور رہیں۔ خاص طور پر ماں میک اپ، تنگ لباس سے بچے۔ اور ماں باپ دونوں پُرلذت کھانے اور عیش وعشرت کی زندگی کے بجائے جفاکشی کو اختیار کریں؛ تاکہ بچے بھی دیکھ کر ویسی ہی زندگی گزاریں اور ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہیں۔

            ۱۸ – سیرتِ رسولﷺ کی کسی اچھی کتاب کی تعلیم گھر میں ضرور ہونی چاہیے، تاکہ اس کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ” اسوہٴ رسول اکرم“ﷺ( ڈاکٹر عبدالحئی رحمہ اللہ) بہت مفید ہوگی یا کوئی بھی اچھی کتاب۔

            ۱۹- گھر میں قرآنِ کریم کی تلاوت کا ہر ایک کو عادی بنایا جائے، ہوسکے تو قرآن کی تفسیر بھی کرے، اس لیے کے قرآن ہی تمام انسانی مسائل کا صحیح حل پیش کرتا ہے۔

وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہوکر

اور ہم ذلیل و خوار ہوئے تارکِ قراں ہو کر

            ۲۰- گھر میں حدیث کی کسی عمدہ کتاب کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے مثلاً” معارف الحدیث“ تاکہ اسلام کی تفصیلی معلومات ہر گھر کے فرد کو ہو۔