نزولِ قرآن کا مقصد اورانسانی دنیا پر اس کے ہمہ گیر اثرات

محمد صادق اشاعتی تونڈاپوری

 استاذ:جامعہ اکل کوا

                قرآن مجید کا مخاطب انسان ہے اور اس کی غرض وغایت انسان کو سعادت ابدی سے ہمکنار کرنا ہے۔ وہ انسان کے ظاہر و باطن کی ایسی تعمیر کرنا چاہتا ہے کہ حیات اخروی میں وہ سرخرو اور سرفراز ہو جائے۔ قرآن مجید نے اسی غرض و غایت کو سامنے رکھ کر اپنا تعارف کرایا ہے۔ اس سلسلہ کی چند آیات ملاحظہ فرمائیں:

                ذلک الکتاب لا ریب فیہ ہدی للمتقین۔

(سورة البقرة: ۲)

                 إن ہذا القرآن یہدی للتی ہی أقوم۔

(الاسراء:۹)

                 وننزل من القرآن ما ہو شفاء ورحمةللمؤمنین۔

 (الاسراء:۱۹)

                اہل علم کی ایک جماعت جس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ہیں، نے اس کو   قرآن کا اصل ہی نہیں بلکہ اس کا اعجاز قرار دیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے الفوز الکبیر (ص ۲۹) میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے نزول کا اصلی مقصد انسانوں کو تہذیب و تربیت اور انسان کے عقائد باطلہ اور اعمال فاسدہ کی اصلاح ہے۔

                مولانا اویس صاحب ندوی نزول قرآن کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ بے شک قرآن مجید نے دنیاوی زندگی کے تمام اصول و قواعد مرتب فرمائے ہیں، مگر ان تمام امور میں بنیادی نقطہ نظر اخروی سعادت ہے اور قرآن کریم کا اصل موضوع انسان کی رہنمائی ہے جس سے دنیا میں وہ ایسی زندگی گزارے جو آخرت میں اس کے لیے نفع بخش ہو اور رضاء الہی اس کے نصیب میں آئے۔

                متذکرہ بالا عبارتوں کا حاصل یہ ہے کہ قرآن مجید کے احکامات، تعلیمات، ارشادات اور ہدایات ہی اس کے وہ اوصاف خصوصی ہیں جو اس کی دعوت کا اصل موضوع ہیں۔

                بلا شبہ قرآن حکیم خدا تعالی کی وہ آخری کتاب ہے جو مخلوق کی ہدایت اور اس کی اصلاح و تربیت کے لیے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ یہی وہ خدائی دستور اور ابدی قانون ہے جو انسان کی تمام دینی و دنیوی ضروریات کا کفیل اور اس کے فلاح و بہبود کا ضامن ہے اور یہی وہ آخری آسمانی صحیفہ اور مکمل نظام حیات ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی پر حاوی ہے۔ عقائد و عبادات سے لے کر اخلاق و معاملات تک سیاست و حکومت سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک، حقوق اللہ سے لے کر حقوق العباد تک اور قیامت تک پیش آنے والے جملہ مسائل کا شافی و کافی حل پیش کرتا ہے۔

                ۲۳/ سال کی مدت امدت میں اس عظیم کتاب کا نزول دیکھتے ہی دیکھتے اس نے تاریخ عالم میں وہ بے مثال اور حیرت انگیز انقلاب برپا کیا جس نے اذہان و افکار کی کایا پلٹ دی۔ صدیوں پر محیط انسانیت کی غیر فطری خدا بیزار تہذیب اور قانون کا خاتمہ کر دیا۔ تمام سابقہ آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر خط نسخ پھیر دیا۔ فکر و عمل کی نئی بنیادیں استوار کریں اور جاں بلب انسانیت کو نئی زندگی نئی طاقت، نیا تمدن اور نیا عزم و یقین عطا کیا۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ کفر و ضلالت کے صحرا میں بھٹکنے والے اس کتاب کی برکت سے عظیم ہادی اور رہنما بن گئے۔ مشرک، موحد اور بت فروش و بت پرست، بت شکن بن گئے۔ جاہلانہ حمیت و عصبیت نے دم توڑ دیا۔ تہذیب و شائستگی کا درس و تمدن کا سبق سکھایا۔ اخلاق حمیدہ کے زیور سے آراستہ کیا۔ حکومت و سیاست میں رہتے ہوئے زہد وقناعت کا سبق پڑھایا اور جوہر انسانیت کو گوہر اخلاق سے مالا مال کر دیا، جو ساربان تھے ان کو جہاں بان بنا دیا۔

       بلاشبہ قرآن حکیم خدا تعالی کی وہ آخری کتا ب ہے جو مخلوق کی ہدایت اور اس کی اصلاح وہ تربیت کے لئے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔یہی وہ خدائی دستور اور ابدی قانون ہے جو انسان کی تمام دینی وہ دنیاوی ضروریات کا کفیل اور اس کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے اور یہی وہ آخری آسمانی صحیفہ اورمکمل نظام حیات ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی پر حاوی ہے ۔عقائد و عباد ات سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک ،حقوق اللہ سے لے کر حقو ق العباد تک اور قیامت تک جملہ مسائل کا شافی و کافی حل پیش کرتا ہے ۔

                انسانیت دنیا پر قرآن کریم کے ہمہ گیر اثرات کے تمام پہلوؤں کا استفادہ کرنا اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں ہے، اس لے قرآن کے ان تین بنیادی عناصر عوامل کی نشان دہی کریں گے جن کا نوع انسانی کی رہنمائی اور تعمیر و ترقی میں اہم کردار رہا ہے۔ وہ قرآنی عوامل ومحرکات درج ذیل ہیں:

                 (۱) قرآن کا اعلان توحید:

چھٹی صدی مسیحی میں بت پرستی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی، صرف ہندوستان میں اس صدی میں معبودوں کی تعداد ۳۳ کروڑ تک پہنچ گئی تھی، ضلالت و جہالت کے ایسے تاریک دور میں قرآن نے اللہ کی وحدانیت کا اعلان کیا: ” تمہارا معبود صرف ایک اللہ ہے۔ مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رقم طراز ہیں کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے ذریعہ انسانیت کو توحید خالص کا قیمتی عطیہ دیا جو معبودان باطل کا تختہ پلٹ دینے والا ایسا عقیدہ ہے کہ نہ انسانیت نے اس سے پہلے ایسا کوئی عقیدہ پایا تھا اور نہ قیامت تک پاسکے گی۔ مشہور ہندوستانی فاضل پانیکر اسلامی عقیدہٴ توحید کے ہندوستانی ذہن فلسفہ کے اثرات سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ ایک مسلم بات ہے کہ ہندو مذہب پر اسلامی عہد میں اسلام کا بڑا گہرا اثر پڑا۔ ہندوؤں میں اللہ کی عبادت کا تصور اسلام کا نتیجہ ہے۔ مشہور مصری فاضل ڈاکٹر اہرامن اپنی شہرہ آفاق کتاب

”ضحی الاسلام“ میں لکھتے ہیں:مسیحی دنیا میں کچھ ایسے اختلافات رونما ہوئے جن میں اسلام کا اثر صاف نظر آتا ہے۔ یہی حال سکھ فرقہ کا ہے، اس مذہب کے بانی گرو نانک اسلامی تعلیمات سے بہت متاثر تھے۔

                (۲) نزول قرآن سے قبل انسانی مساوات کا تصور:

انسان پر ایسا دور بھی گزرا ہے جب اس کے ذہن پر بعض اقوام و قبائل کے افضل و مافوق البشر ہونے کا خیال حاوی و طاری تھا، چنانچہ بعض خاندان اور نسلوں کے افراد اپنا نسب سورج، چاند اور خدا سے ملاتے تھے۔

                قرآن نے یہود و نصاری کے اس تصور برتری کو اس طرح ذکر کیا ہے۔ یہود و نصاری نے بزعم خود یہ کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں، فراعنہٴ مصر کا خیال تھا کہ سورج دیوتا راع کا مظہر و مجسمہ ہیں۔ ہندوستان میں دو خاندانوں کو سورج بنسی اور چندر بنسی کہا گیا، ایران کے کسری کو یہ زعم تھا کہ ان کی رگوں میں الہی خون گردش کر رہا ہے۔ کسری پرویز کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ وہ خداؤں میں انسان لافانی اور انسانوں میں خدائے لاثانی ہے۔ قیصر روم بھی خدا سمجھے جاتے تھے اور ان کا لقب Aucest (عظیم و جلیل) ہوتا تھا۔ چینی اپنے شہنشاہ کو آسمان زادے سمجھتے تھے۔ عرب اپنے سوا سب کو عجم سمجھتے تھے۔ قبیلہ قریش اپنے تمام قبائل ِعرب سے افضل سمجھا جاتا تھا۔ قرآن کریم کی دوسری بڑی دولت و عطیہ وحدت انسانی کا تصور ہے۔ قرآن کے اس واضح اعلان نے قبائل و اقوام کو اونچے نیچے طبقات تک نسلی دائروں اور باہم فرق و امتیاز کی حد بندیوں سے نکال کر وحدت انسانی کی لڑی میں پرو دیا۔

قرآن کے پیام مساوات کا اثر:

                 جواہر لال نہرو ہندوستان میں اسلامی مساوات کے اثر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسلامی اخوت و مساوات نے جس پر مسلمانوں کا عمل و ایمان تھا، ہندوستانیوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالا۔ مشہور مستشرق پروفیسر گپ عالمی تہذیب کے لیے اسلام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لکھتا ہے: اسلام کو ابھی انسانیت کی ایک اور خدمت انجام دینی ہے لوگوں کے مراتب و مواقع اور عمل کے لحاظ سے مختلف نسلوں کے درمیان مساوات قائم کرنے میں کسی سوسائٹی نے اس جیسی کامیابی نہیں حاصل کی ہے۔

(۳) نزول قرآن سے بیشتر طبقہ نسواں کی حالت:

                نزول قرآن سے قبل دنیا کے مذاہب و معاشروں میں عورت کا کیا مقام تھا اس پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیں۔ یونان میں عورت کو شیطان کی بیٹی اور نجاست کا مجسمہ سمجھا جاتا تھا۔ سقراط نے اسے فساد کی جڑ بتایا ہے۔ افلاطون نے برے لوگوں کی روح سے تعبیر کیا ہے۔ ارسطو نے سبب زوال گردانا ہے اور عام یونانیوں نے اس کے زہر کو لا علاج اور اس کے وجود کو غیر ضروری بتایا ہے۔ مجوس فارس کی اخلاقی حیثیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایران کا بادشاہ یزدگرد ثانی اپنی بیٹی سے اپنا عقد کرتا ہے اور پھر اس کو قتل کر ڈالتا ہے۔ ہندوئیت میں عورت کو غلامی و محکومیت کا درجہ دیا گیا ہے۔ عورت ان کے یہاں مال و جائیداد سے زیادہ معمولی چیز تھی۔ عورتوں کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات کی ہمہ گیریت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید پر ایک سرسری نظر بھی عورت کے بارے میں جاہلی نقطہ نظر اور اسلامی زاویہ نگاہ کے کھلے فرق کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ قرآن کا فرمان ہے: مومن مرد و عورت جنت میں داخل ہوں گے اور ذرہ برابر ظلم نہیں ہو گا اور اللہ کے رسول نے فرمایا: دنیا کی بہترین نفع بخش شئے صالح عورت ہے۔ ان ہی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ مسلمان عورتوں نے عہد نبوی سے لے کر آج تک اور بالخصوص ابتدائی عہد میں جس کردار کا ثبوت دیا اس کی کوئی قوم نظیر نہیں رکھتی۔ مسٹر.N.L coulsen لکھتے ہیں: بلا شبہ عورتوں کی حیثیت کے معاملہ میں قرآنی قوانین افضلیت کا مقام رکھتے ہیں۔ مذہب و اخلاق کے انسائیکلو پیڈیا کا مقالہ نگار لکھتا ہے: پیغمبر اسلام نے یقیناً عورت کا درجہ اس سے زیادہ بلند کیا جو اسے قدیم عرب میں حاصل تھا۔

                یہ ہیں نزول قرآن کے وہ بنیادی مقاصد، جس کسی نے اس پر ایمان لانا قبول کیا اور دستور حیات کی حیثیت سے اس سے روشنی پائی تو اس کی دنیاوی واخروی زندگی میں انقلاب آگیا اور جس نے اس پر ایمان لانا پسند نہیں کیا، کم و بیش قرآنی تصورات سے وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا۔