مفتی دانش اشاعتی مظفر پوری/استاذ جامعہ اکل کوا
ایمان کی بنیاد اور اس کے ارکان میں سے ہے کہ تمام آسمانی کتابوں پرایمان لایا جائے، اس لیے کہ سب آسمانی کتاب منزل من اللہ ہیں، اس کے سچے اور برحق ہونے میں ذرہ برابر شک وشبہ نہیں؛البتہ تمام آسمانی کتابوں پر بالاجمال اور قرآنِ کریم پربالتفصیل ایمان لانا ضروری ہے۔آج اس کائنات کے اندر اگر کسی کتاب کو کتابِ الٰہی اور کسی کلام کو کلام ِ الٰہی ہونے کا شرف حاصل ہے، تو وہ کتاب صرف اور صرف” کلام مجید“ ہے، من جانب اللہ انسانوں کی ہدایت اور اس کی رہنمائی کے لیے بہت ساری کتابیں نازل کی گئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ سب کتابیں انسانوں کی غفلت، گمراہی اورشرارت کا شکار ہوکر بہت جلد کلام ِ الٰہی کے اعزاز سے محروم ہوگئیں۔مگر قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو اب تک صحیح سالم اور ہر طرح کے ردوبدل سے محفوظ ہے اور ان شاء اللہ رہتی دنیاتک اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے لے رکھی ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے : ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الَّذِکْرَ وَإِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ﴾۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قرآن ہی وہ کتاب ہے، جس نے اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کو ضلالت وگمراہی سے نکال کرروشنی کی طرف لایا اور جن لوگوں نے قرآنِ کریم کو اپنا مشعلِ راہ بنایا ان لوگوں نے اس دنیا کے اندر ایک بڑا انقلاب برپا کردیا، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی زندگی کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہی لوگ واقعتا قرآنی انسان تھے، جن کی بدولت دیگر انسانوں نے صحیح معنی میں زندگی گزار نے کا طریقہ اور دنیا وآخر ت میں کامیابی کا سلیقہ سیکھا۔
قرآنی انسان بننے کے اعمال:
ایک انسان کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے قرآنِ کریم پر ایمان لائے، اس کو پڑھے، اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرے، اس کے ساتھ تعلقات قائم کرے ۔یہ تمام مراحل اس لیے ہیں کہ قرآنی پیغام اور اس میں دیے گئے احکام وہدایات پر عمل کیا جائے۔اگر کوئی شخص قرآنی احکام پر عمل نہیں کرتاتو اس کاقرآن پر ایمان لانا اور اس کی تلاوت کرنااس کو کچھ بھی نفع نہیں دے گا اور یہ سب چیزیں بے سود غیر نفع بخش ہوں گی۔اگر قرآن سے آگاہی نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ترجمہ وتفسیر کے ذریعے اس کے احکامات وتعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اگر قرآنی احکام کو سمجھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے، قرآنِ مجید انہیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتاہے اور انھیں اس گدھے کے مانندقرار دیتا ہے، جس پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو، مگر وہ گدھا ہونے کی وجہ سے اپنے اوپر لدی کتابوں کو سمجھنے سے قاصر ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا ِبآیٰتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ لَایَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ﴾۔(سورة الجمعہ:5)
ترجمہ: جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا، پھرانہوں نے اس پر عمل نہیں کیا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے، جو بہت سی کتابیں لادے ہو۔ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ ایسی ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔“
قرآنی انسان بننے کا فائدہ!
اس میں شک نہیں کہ تلاوتِ قرآن پاک بھی بہت اجروثواب کا حامل ہے، مگر اس سے زیادہ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ قرآنِ مجید کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کیا جائے، اس لیے کہ تلاوتِ قرآن کا اجر وثواب بھی اسے ہی ملے گا، جو قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرتاہو،جیسا کہ حدیث شریف سے یہی بات معلوم ہوتی ہے:
”عن أبی موسی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المومن الذی یقرأ القرآن ویعمل بہ کالأترجة طعمہا طیب وریحہا طیب والموٴمن الذی لایقرأ القرآنُ ویعمل بہ کالتمرة“۔
(بخاری ومسلم)
ترجمہ:حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: جو مومن قرآن پڑھتاہے اور اس کے مطابق اس پرعمل کرتاہے، اس کی مثال سنگترے کی سی ہے کہ جس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور ذائقہ بھی عمدہ اور جومومن قرآن نہیں پڑھتا ،لیکن اس پر عمل کرتاہے، اس کی مثال چھوہارے (خشک کھجور) کی سی ہے کہ جس کی خوشبو تو نہیں ہوتی مگر ذائقہ لذیذ ہوتاہے۔“
اس روایت سے معلوم ہواکہ تلاوتِ قرآن کا اصل فائدہ تب ہے، جب قرآنی احکام پر عمل بھی کیا جائے، بل کہ عمل کی اہمیت تلاوت سے بڑھ کر ہے، اس لیے بغیر عمل کے تلاوت کا کچھ فائدہ نہیں، مگر عمل کا فائدہ تلاوت کے بغیر بھی ثابت ہے۔
عن النواس بن سمعان قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول:”یوتی بالقرآن یوم القیامة وأہلہ الذین کانوا یعملون بہ تقدمہ سورة البقرة آل عمران کأنہا غَمَامَتَانِ أوْ ظُلَّتانِ سَوْدَاوَانِ بینہما شرق أوکأنہما فِرْقانِ مِن طَیْرٍ صوافَّ تُحَآجَّانِ عن صاحبہما“۔(مسلم)
ترجمہ: حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناہے:کہ قیامت کے روز قرآن ِمجید اور وہ لوگ جو اس پر اس کے مطابق عمل کیا کرتے تھے لائے جائیں گے اور ان کے آگے آگے سورہٴ بقرہ اور آلِ عمران ہوں گی۔ اس طرح کہ گویا وہ دوبادل ہیں یا دو سائبان ہیں، جن کے اندر چمک اور روشنی ہے یا وہ پرندوں کے دو جھنڈ ہیں ،جو اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کے حق میں حجت پیش کریں گی۔“
اس حدیث میں بھی یہی وضاحت ہے کہ قیامت کے روز قرآن مجید ان لوگوں کے حق میں نور، رحمت اور گواہ بن کر آئے گا، جو اس کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ کے گھروں (مسجدوں) میں سے جس کسی گھرمیں کچھ لوگ جمع ہوکر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے اور ایک دوسرے کو پڑھتے پڑھاتے ہیں، وہاں (اللہ کی طرف سے) سکینت نازل ہوتی ہے اور انھیں اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کے گرد گھیراڈال لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر ان (فرشتوں) کے پاس کرتے ہیں، جو اللہ کے ہاں موجود ہوتے ہیں۔(اور سنو!) جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے رکھا، اسے اس کا حسب ونسب آگے نہیں بڑھا سکے گا۔
اس حدیث میں بھی قرآن ِمجید پڑھنے پڑھانے کی فضیلت کے ساتھ اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا کہ اللہ کے ہاں معیارِفضیلت نیک اعمال کی کثرت ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن ِمجید پڑھنے پڑھانے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتا، تو پھر اس کی تلاوت یا اس کا حسب ونسب یا مال ودولت وغیرہ اللہ کے ہاں اس کی قدرو منزلت نہیں بڑھاسکتے۔
عن جابر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:”القرآن شافع مشفع وماحل مصدق من جعلہ أمامہ قادہ إلی الجنة ومن جعلہ خلف ظہرہ ساقہ إلی النار“۔(ابن حبان،وبہیقی)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید(روزِ قیامت اپنے پڑھنے والوں کی) سفارش کرے گا اور اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔ اور(اپنے پڑھنے والے کے حق میں یہ جھگڑا کرے گا اور اس کی بات مانی جائے گی، جس نے اس قرآن کو اپنا رہبر ورہنما بنالیااسے یہ جنت میں لے جائے گا۔اور جس نے اسے پس پشت ڈال دیا، اسے یہ جہنم میں لے جائے گا“۔
نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے کہ آج ہم قرآنی انسان بننا تو دور کی بات، قرآن ِمجید کی طرف توجہ بھی نہیں دیتے ، قرآن پر عمل ہماری زندگی سے غائب ہوچکاہے۔ ہم نے قرآنِ مجید کو محض جھاڑپھونک، تعویذ گنڈا اور ایصالِ ثواب کی کتاب سمجھ رکھاہے۔آفات وبلیات اور نزع کی سختیاں دور کرنا مقصود ہو یا میت کی بخشش اور اسے ثواب پہنچانا مطلوب ہو، ہم چند پیسے اور سکے دے کر دوسروں سے قرآن پڑھوالیتے ہیں؛ لیکن ہم اپنے آپ کو قرآنی انسان نہیں بناتے ، جس کا قرآنِ مجید اصلاً ہم سے مطالبہ کرتاہے۔
قرآنی انسان نہ بننے کے اسباب ووجوہات:
آج ہماری گھریلو(خانگی) زندگی قرآنی احکام سے خالی ہے، تجارت ومعیشت میں ہم قرآنی احکام کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں، ہماری سیاست قرآنی اصولوں کی دھجیاں بکھیر رہی ہے، ہماری تعلیمی پالیسیوں میں قرآن سے استفادہ نہیں کیا جارہاہے، ہمارا رہن سہن اور طرزِ معاشرت قرآن کے مطابق نہیں رہا؛گویا قرآن مجید کی موجودگی کے باوجود ہم اس سے فیض اٹھانے سے محروم ہیں، تو ہم کیسے قرآنی انسان بن سکتے ہیں؟ یہ ہماری بد بختی ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو اپنی عملی زندگی سے خارج کر رکھا ہے؛ جب کہ قرآنی انسان بننے کے لیے قرآن مجید کے احکام کا عملی زندگی میں ہونا اشد ضروری ہے ؛ورنہ دنیا میں ذلت ورسوائی اور تنزلی وپستی ہمارا ٹھکانہ ہے اور آخرت میں بھی خسارہ اٹھانے والے لوگوں میں ہمارا شمار ہوگا۔(العیاذ باللہ)
حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ ہی فرمایا تھا: (اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہ آخَرِیْنَ)۔(مسلم)
”اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے بعض لوگوں کو بلندی عطاکرتے ہیں اور اسی کے ذریعے بعض لوگوں کو ذلت اور پستی میں دھکیل دیتے ہیں“۔
یعنی جو لوگ اس قرآن مجید کو انفرادی واجتماعی ہر لحاظ سے کتابِ ہدایت سمجھتے ہوئے ،اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کرکے اپنے آپ کو قرآنی انسان بنالیں، تو یقینا اللہ رب العزت ہر اعتبار سے دنیا وآخر ت میں بلندی اور عزت عطافرمائیں گے۔(اللّٰہُمَّ اجْعَلْنَا مِنْہُ)