خصوصیاتِ قرآن

مولانامحمد مرشد صاحب قاسمی

استاذِ حدیث و تفسیر جامعہ اکل کوا

                قرآنِ کریم ایک محکم کتاب ہے، اللہ جلّ شانہ کا لازوال قانون اور انسانیت کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے، جس کتاب نے وحشی عربوں کی زندگی بدل دی ، کیسے کیسے گمراہوں کی زندگی میں انقلاب پیدا کردیا۔ قرآنِ کریم کی اسی انقلابی تاثیر کی بنیاد پر کفارِ مکہ نے باہم مشورہ کرکے یہ طے کیا : لَا تَسْمَعُوا لِہَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُونَ ۔(سورة الفصلت)

                (تم سبھی اس قرآن کو سنا مت کرو، اس کی تلاوت کے وقت شور و غل کیا کرو؛ تاکہ تم غالب آجاوٴ۔

                اس طرح کے ہزاروں تدبیریں کی، جس کا نقشہ قران ِکریم نے ان الفاظ میں کھینچا ہے۔ یُرِیدُونَ أَن یُطْفِئُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَی اللَّہُ إِلَّا أَن یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔(التوبة:32)

                وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے پھونکوں سے بجھا دیں، اللہ تعالی اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا خواہ کافروں کو ناگوار ہو۔

                قران ِکریم سے لوگوں کو روکنے کی ساری تدبیریں مکڑی کا جالا ثابت ہوئیں، سارے عزائم خاک میں مل گئے اور قران عرب میں نہیں بلکہ عرب سے متجاوز ہو کر عجم تک پہنچا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق ہر کچے اور پکے گھر میں داخل ہوا۔

                اس کتاب ِمقدس کی بہت سی خصوصیات ہیں چند مشہور خصوصیات پر ہم روشنی ڈالتے ہیں۔

                ۱۔یہ واحد کتاب ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے لی ہے۔إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون۔ (سورة الحجر)

                ”ہم نے اس قرآن کو اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں “۔دوسری آسمانی کتابوں کی حفاظت قوم کو سونپی گئی تھی۔بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ کِتَابِ اللَّہِ لیکن قوم نے اس ذمہ داری کو ادا نہیں کیا؛ بلکہ اس میں تحریف کی ،خرد برد کی، اپنے من اور خواہش کے مطابق احکام بنائے۔

                ۲۔یہ واحد کتاب ہے، جو لاکھوں نہیں بل کہ اربوں کھربوں انسانوں کے سینوں میں محفوظ ہے، جس سے نصیحت پکڑنا بھی آسان اور اسے سینے میں محفوظ رکھنا بھی آسان، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ۔(سورہٴ قمر:۲۲)

                ہم نے قران کو نصیحت اور حفظ کے لیے آسان کیا، تو ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا اور یاد کرنے والا۔

                ۳۔وہ کتاب، جس کی زبان نہایت محبوب ہے، شیریں ہے،ا سلوب لذیذ ہے، نثر میں ہونے کے باوجود نظم اور اشعار سے زیادہ انسان کو لذّت محسوس ہوتی ہے۔

                ۴۔ واحد کتاب ،جو عبادت اور سیاست دونوں کا جامع ہے، اگرقرآن ایمان و عبادت کا حکم دیتاہے تو امانت داری کے ساتھ سیاست اور خلافت کا بھی حکم دیتا ہے۔

                وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ۔ (سورة النّور)

                اللہ تعالی نے وعدہ کر رکھا ہے ان حضرات سے جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے کہ ضرور ایسے لوگوں کو زمین میں خلافت و حکومت عطا کرے گا؛ جیسا کہ پہلے لوگوں کو عطا کیا۔

                ۵۔واحد کتاب، جو دین و دنیا دونوں کا جامع ہے ،جس میں یہ دعاہے۔رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (سورة البقرة)

                ”اے ہمارے رب ہم کو دنیا میں بھی اچھائی عطا کیجئے اور آخرت میں بھی اچھائی عطا کیجیے“۔وہ جہاں نماز جمعہ کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے وہیں جمعہ کے بعد تجارت اور فضل ِالٰہی کی تلاش کا بھی حکم دیتا ہے۔”فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّہِ ۔(سورة الجمعہ)

                جب نماز ِجمعہ ادا کر لی جائے ،تو زمین میں پھیل جاؤ اور فضل ِالٰہی کو تلاش کرو۔ مسجد سے نکلنے کی یہ دعا سکھائی جاتی ہے۔اللہم انی اسألک من فضلک ۔اے اللہ ہم آپ سے آپ کے فضل کا سوال کرتے ہیں۔

                ۶۔واحد کتاب، جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے، عرب کے ادبا، فصحا، بلغاکو باربار چیلنج کیا گیا۔فَاْٴتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِہ؛لیکن وہ اس کی نظیر نہیں پیش کر سکے ہیں،ایک چھوٹی سی سورت خانہٴ کعبہ پر لٹکا دی گئی۔إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ (۱) فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (۲) إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ (۳)تو وقت کا بڑا شاعر اپنے عجز کا اظہار کرتے ہوئے یہ لکھ دیتا ہے۔لیس ھذا من کلام البشر۔یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے ۔

                عبداللہ بن مقفع جیسے ادیب کو قرآنِ کریم کے مانند کلام پیش کرنے پر اُبھارا گیا، چھ مہینے کی مہلت دی گئی ،لیکن ایک آیت بھی اس کے مانندنہیں بنا سکا ،کاغذ کے ٹکڑوں کا ڈھیر جمع ہو گیا۔

                ۷۔واحد کتاب ہے، جس کی بطور عبادت تلاوت کی جاتی ہے ،پڑھی جاتی ہے ،کوئی کتاب بطور عبادت نہیں پڑھی جاتی ہے ؛ہاں حالات و مصائب کے وقت بخاری شریف وغیرہ کا پڑھنا بطور برکت کے اکابر کا معمول رہا ہے ؛لیکن برکت اور چیز ہے عبادت اور چیز ہے۔ برکت مخلوق میں ہو سکتی ہے۔وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنت۔ُ (سورةالمریم)مجھے بابرکت بنایا جہاں بھی رہوں؛ لیکن عبادت صرف خالق کی ہوگی۔

                ۸۔واحد کتاب، جس کی زبان آج تک محفوظ ہے، عبرانی، سریانی زبان ختم ہو گئی؛ لیکن آج تک قرآن کی زبان اسی شان اور آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

                ۹۔واحد کتاب، جس کی دعوت انسانوں سے متجاوز ہو کر جنّاتوں تک پہنچی اور جنّات بھی اس کو سن کر ایمان لے آئے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تہجد یا فجر کی نماز بطنِ نخلہ میں ادا فرما رہے تھے، جو مکہ اور طائف کے بیچ ایک وادی کا نام ہے ،جنات حاضر ہوئے اور قرآن سن کر ایمان لے آئے ،اسی پر پوری سورت سورہٴ جن نازل ہوئی ہے اور سورہٴ احقاف کی اس آیت میں اشارہ ہے۔وَ اِذْ صَرَفْنَا اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ-فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْا اَنْصِتُوْا-فَلَمَّا قُضِیَ وَ لَّوْا اِلٰی قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِیْنَ۔(سورة الاحقاف:۲۹)

                جب کہ ہم نے آپ کی طرف جناتوں کی ایک جماعت بھیجی جو قرآن کو سن رہی تھی، جب وہ حاضر ہوئے تو کہا خاموش ہو جاؤ، جب انہوں نے قرآن سن لیا تو اپنے قوم کے ڈرانے والے بن کر لوٹے۔

                ۱۰۔واحد کتاب، جو لوگوں کے قلوب کو نرم کر دیتی ہے، کیسا بھی سنگ دل انسان ہو، گناہ کرتے کرتے دل سخت اور سیاہ ہو چکا ہو، لیکن جب توجہ کے ساتھ اس کتاب کی تلاوت کو سنتا ہے ،پڑھتا ہے، تو دل نرم ہو جاتا ہے ،موم ہونے لگتا ہے، سچ ہے قرآن دلوں میں بھی راستہ بنا لیتا ہے، قلبی اور قالبی اثر رکھتا ہے۔أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ امَنُواْ أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُم لِذِکْرِللَّہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ(سورة الحدید)

                کیا ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل نرم ہو جائیں اللہ کے ذکر اور اس سچی اور واقعی کتاب کے لیے ،جس کو اللہ تعالی نے اتارا۔