انوار قرآنی : مولانا مرشد صاحب قاسمیؔ بیگوسرائے
{وَاَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰی }
ترجمہ:جوشخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ہوگااورنفس کوخواہش سے روکا ہوگا، سوبالیقین جنت اُس کاٹھکانا ہوگا۔(النازعات)
تشریح وفوائد:
خوف وخشیت کی اہمیت:
نہایت خوش نصیب ہے وہ،جسے خشیتِ خداوندی حاصل ہوجائے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعافرماتے تھے :’’اللٰہم اقسم لنا من خشیتک ماتحول بہ بینی وبین معاصیک‘‘کہ اے اللہ! ہم کو اپنااس قدر خوف نصیب فرمادیجیے کہ وہ میرے اورآپ کی نافرمانی کے درمیان حائل ہوجائے ۔ہربندے کے اندراللہ تعالیٰ کااتناخوف ہوناضروری ہے ،جواُس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روک دے۔
خوفِ خداایمان کاجزولازم ہے:
خوف خداوندی ایمان کاایک حصہ ہے ۔علمائے متکلمین کا قول ہے کہ ’’الایمان بین الخوف والرجاء‘‘ یعنی ایمان خوف اورامیدکے بیچ کی کیفیت کانام ہے ۔ایمان کاتقاضایہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ اوراس کے عذاب سے ڈرتارہے ۔کبھی بھی اس کے عذاب اوراس کی پکڑسے بے خوف اورنڈر نہ ہو۔ایما ن والا کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف نہیں ہوتا،یہ توکافروں کاشیوہ ہے اللہ تعالیٰ کاارشادہے: {فَلَایَاْمَنُ مَکْرَاللّٰہِ اِلَّاالْقَوُمُ الْخٰسِرُوْنَ}( الاعراف)اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیرسے بے خوف نہیں ہوتے ،مگر خسارہ اٹھانے والے (یعنی کفار)۔
دوسری طرف ایمان کاتقاضا یہ ہے کہ اُس کی رحمت ومغفرت کی امیدبھی ہو ۔یاس اورناامیدی والی حالت نہ ہو،اس لیے کہ یہ بھی کفرہے ۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے {ومن یقنط من رحمۃ ربہ الاالضالون}اپنے رب کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی ناامیدہوتے ہیں ۔(الحجر)
الغرض ایمان خوف اورامیددونوں کی بیچ کی کیفیت کانام ہے ،کبھی خوف اورکبھی امیدہو۔
جوانی میں خوف کاغلبہ:
جوانی میں نفس کے خواہشات وجذبات جوان ہوتے ہیں ،اُس کانفس ہمیشہ اس کو گناہوں پر ابھارتاہے ،ایسے وقت میں خوف کوغالب رکھنے کی ضرورت ہے ؛تاکہ نفس کی شرارت اورگناہوں سے بچ سکے ۔ہاں بڑھاپے میں امیدکاغلبہ ہو،چوں کہ اِس عمر میں سارے جذبات وخواہشات مرجھاجاتے ہیں ،اس لیے گناہوں کااندیشہ کم رہتاہے ۔اس وقت رحمتِ الٰہی کی امیدزیادہ رکھے ،موت کے وقت امیدغالب ہو؛اسی طرح جب موت کے آثار نظرآنے لگیں ،توخواہ کتناہی گنہ گارکیوں نہ ہو؛مگر اس وقت رحمت الٰہی کی امیدزیادہ ہو۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے :’’لایموتن احدکم الاوہو بحسن الظن باللہ تعالیٰ‘‘ تم میں سے ہرایک کی موت اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی حالت میں ہو۔یہ امیدرکھے کہ اللہ تعالیٰ فضل وکرم اورعفودرگذرکامعاملہ فرمائیںگے ۔
حساب وکتاب کاڈر:
اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ڈرکے ساتھ انسان ہمیشہ اِس بات سے بھی ڈرے کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوکر پوری زندگی کاحساب دیناہے ۔اسی لیے آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خوف کے ساتھ ’’مقام ربہ‘‘ فرمایا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’لاتزول قدماعبدحتیٰ یُسئل عن اربع: عن عمر فیماافناہ وعن علم ما عمل بہ وعن مالہ من این اکتسبہ وفیم انفقہ وعن جسم فیم ابلاہ ۔بندے کے قدم نہیں ہٹ سکیںگے ،جب تک کہ اس سے چارچیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیاجائے کہ عمراُس نے کہاں بِتائی ،علم پرکس قدرعمل کیا،اورمال کہاں سے کمایااورکہاں خرچ کیااوراپنے جسم کوکس کام میں لگایا؟(ترمذی)
خوف خداپر اللہ تعالیٰ کاوعدۂ صادقہ:
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خوفِ خداوندی اورمخالفتِ نفس پرجنت کی گارنٹی لی ہے ۔اسی طرح سورۂ رحمن کی ایک آیت میں ارشادہے :{وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّّّہٖ جَنَّتٰنِ } جوشخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دوجنت ہے ۔
اللہ تعالیٰ ایسے معززحضرات کو دوجنت عطافرمائیںگے ۔جیساکہ دنیاکے لوگ بہ طورِ فخرکے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تودوبنگلے ہیں ،اس میں اعزازوافتخارمقصودہوتاہے ۔اہل خشیت کے اکرام کوظاہرکرنے کے لیے دوجنت کاتذکرہ کیا؛بعض اہل علم سے منقول ہے کہ ایسے حضرات کے لیے دوجنت کاوعدہ دوکمالات کی بنیادپرہے ،ایک تویہ کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت کی بنیادپر،یہ حضرات اوامر‘ نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ اوردیگراعمال کی پابندی کرتے ہیں ۔اوردوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سارے نواہی یعنی زنا،چوری،لواطت،غیبت اوربدزبانی اِن تمام معاصی سے رکتے ہیں ،توایک جنت اوامرکے بجالانے اوردوسری جنت نواہی سے بچنے کی بنیادپر ملے گی ۔
مخالفت نفس:
آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نفس کی مخالفت کرنے والوں کی تعریف کی ہے ۔شیخ بہاء الدین نقشبندیؒ فرماتے تھے کہ: اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا سب سے قریبی راستہ نفس کی مخالفت ہے ۔حضرت مجددالف ثانیؒ فرماتے ہیں :بندہ جب تک خواہشِ نفس میں لگارہتاہے تووہ بندۂ نفس اورمطیعِ شیطان ہوتاہے ۔
مخالفت نفس کے تین درجے ہیں :
(۱)پہلادرجہ یہ ہے کہ نفس اورشیطان کے پیداکردہ تمام غلط عقائدسے بچاجائے ،اللہ تعالیٰ کی شان میںہرگزکوئی ایساعقیدہ نہ رکھاجائے ،جواس کی شانِ عظمت اورتوحیدکے خلاف ہو۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہرگزایسے عقیدے نہ رکھے جائیںکہ وہ خداکے درجے میں پہونچ جائیں۔مثلاً:عالم الغیب ہونا،مختارِکل ہونااورحاضروناظرہونا؛یہ سب ذاتِ باری کی خصوصیات ہیں ۔ایسے عقیدے کسی پیغمبریاولی کے لیے ثابت کرنا اپنے ایمان کوضائع اورخراب کرنا ہے ۔
تقدیرپرایمان کہ ہرخیروشر اورہرنفع ونقصان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔کسی مہینے یازمان ومکان اوروقت کومنحوس سمجھنا، کسی نقصان اورخسارے کویاحادثے اوربیماری کواپنے اعمال کی نحوست نہ سمجھ کر کسی پڑوسی یادشمن کی طرف منسوب کردینا یہ عقیدۂ تقدیرکوبگاڑنے والی چیزیں ہیں ۔
عذابِ قبرکے برحق ہونے ،جنت کی نعمتیں ،جہنم کی سزائیں ،چھوٹے چھوٹے اعمال پربڑے بڑے اجرکے وعدوں پریقین رکھنایہ بھی ایمان اورعقیدے کاحصہ ہے ،نہ کہ ضعیف حدیث کہہ کرٹال دیناکہ اتنی چھوٹی نیکی پر اتنابڑااجروثواب کیوںکرمل سکتاہے ؟ہم کویہ سوچناہے کہ دینے والابڑاوہاب اوربڑاداتاہے ۔وہ تونوازناہی چاہتاہے اورعطاکرنے کے لیے بہانے ڈھونڈتاہے ؎
فضلِ حق بہانہ می جوید فضل حق بہا‘نمی جوید
اللہ تعالیٰ کی رحمت بندوں کودینے اوراُن کوبخشنے کے لیے بہانے تلاش کرتی ہے ،وہ کسی قسم کے خزانے اوردولت کی متلاشی نہیں ہواکرتی ہے ۔
مخالفتِ نفس کادوسرادرجہ یہ ہے کہ تمام حرام چیزوں،معصیتوں اورخصوصاًتمام بدعات وخرافات سے بچاجائے ۔ حرام سے بچنے میںیہ بھی شامل ہے کہ شبہ والی چیزوں سے بچاجائے ؛چوںکہ شبہ والی چیزوں میں پڑنے والاایک دن حرام میں مبتلاہوجاتاہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شبہات والی چیزوں سے بھی بچنے کی تاکیدکی ہے ۔ ’’ان الحلال بیّن وان الحرام بیّن وبینہما مشتبہات، لایعلمہن کثیرمن الناس فمن اتقیٰ الشبہات استبرألدینہ وعرضہ ومن وقع فی الشبہات وقع فی الحرام‘‘ یقیناحلال واضح ہے اورحرام بھی واضح ہے اوراِن دونوں کے درمیان شبہ والی چیزیں ہیں ،جن کواکثرلوگ نہیں جانتے؛ پس جوشخص شبہ والی چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اورعزت کی حفاظت کرلی اورجوشبہات میں پڑگیاوہ حرام میں پڑسکتاہے ۔( متفق علیہ)
حسن بن علیؓ کی ایک روایت ہے کہ’’حفظت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دع مایربیک الیٰ مالایربیک ‘‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات محفوظ کی کہ شک والی چیزوں کوچھوڑ کر بغیرشک والی چیزوں کو اختیارکرو۔(ترمذی)
ایک موقع پر حضرت حسنؓ نے راستہ میں گری ہوئی ایک کھجوراٹھالی اورکھاناچاہا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مت کھاؤ ۔ہوسکتاہے کہ وہ کھجورصدقہ کی ہو اورصدقہ ہمارے لیے حرام ہے ،جس مال کے سلسلے میں حرام ہونے کاشبہ ہوجائے یاعمل کے سلسلے میں ناجائز اورغلط ہونے کا شبہ ہوجائے ،توفوراًاسے چھوڑ دیاجائے ؛بل کہ اگر دل میں کھٹکے ‘کہ نہ جانے دیکھنے والے کیاکہیںگے؟ ایسے عمل سے بھی پرہیزکیاجائے۔ ایسے موقع پرانسان کادل بھی صحیح رہنمائی کرتاہے ۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے: ’’استفت قلبک ‘‘ اپنے دل سے پوچھ لیاکرو ۔خیر پر دل مطمئن ہوتا ہے اور شر اسے کھٹکتا ہے ۔
مخالفتِ نفس کاتیسرااوراعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ذکر کی کثرت اورمجاہدے کے ذریعے نفس کوایسامزکیٰ اورمصفیٰ کرلیاجائے کہ گناہ کی طرف میلان ہی نہ ہو۔ایسے ہی نفس کونفسِ مطمئنہ کہاجاتاہے ،جس کوموت کے وقت پکارکرکہاجاتاہے :{یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْ اِلیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃ،ً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ }اے نفس مطمئنہ !اپنے رب کی طرف خوشی خوشی لوٹ آؤ اورمیرے بندوں میں شامل ہوکر میری جنت میں داخل ہوجاؤ۔
مخالفت نفس اورگناہوں سے بچنے پرایک عظیم انعام :
جوشخص نفس کی مخالفت کرکے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچ جائے، اُس کے لیے یقینی طورپرجنت ہے ،اللہ تعالیٰ نے نہایت تاکیدی اندازمیں فرمایا{فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰی }بالیقین اس بندے کاٹھکانا جنت ہی ہے ۔
کہاجاتاہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشیدکی بیوی زبیدہ نے غصہ میںخلیفہ کو جہنمی کہہ دیا ۔خلیفہ نے بھی پلٹ کرکہاکہ اگرمیں جہنمی ہواتوتجھے تین طلاق ،اب سارے علما پریشان ہوئے کہ طلاق ہوئی یانہیں ؛آپ جنتی ہیں یاجہنمی ۔دنیامیں توکسی کوقطعی طورپرجنتی یاجہنمی نہیں کہاجاسکتا؛بالآخر قاضی ابویوسف ؒ کے پاس یہ مسئلہ پہونچا،توقاضی صاحب نے پوچھاکیاآپ کے دل میں کبھی گناہ کی خواہش پیداہوئی ؟کہابہت مرتبہ ،پھرآپ نے کیاکیا؟خلیفہ نے کہاکہ اللہ کے ڈر اورخوف کی وجہ سے چھوڑ دیا،فوراً امام ابویوسفؒنے فرمایاکہ طلاق نہیںہوئی ۔قرآن ِکریم کی اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ ایسے شخص کاٹھکانا جنت ہی ہے ۔
ایک علمی اشکال اوراس کاجواب :
یہاں یہ سوال ہوسکتاہے کہ جنت توہرایمان والے کے لیے ہے ، بالیقین ہرمومن کاٹھکاناجنت ہے ۔خوفِ خدااورمخالفتِ نفس پر جنت کے وعدے کاکیامطلب ہے ؟اِس کاجواب یہ ہے کہ یقینا ہرایمان والے کے لیے جنت ہے ؛بشرطیکہ دنیاسے ایمان کے ساتھ رخصت ہواورایمان اس دنیاسے سلامت لے جائے ؛لیکن اِس کی کیاگارنٹی کہ اس کاایمان دنیاسے سلامت گیااورایمان محفوظ رہا،اس کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا، یہ آیتِ کریمہ حدیث’’مَنْ زَارَقَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِیْ‘‘کہ جوشخص میری قبرکی زیارت کرلے اس کے لیے میری شفاعت واجب ہے کی طرح ہے ۔اس حدیث میںبھی روضۂ اطہر کی زیارت کرنے والے کے لیے وجوبِ شفاعت کاذکرہے ؛حالاں کہ شفاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم توہرایمان والے کوہوگی ؛لیکن ایمان ہی پرخاتمہ ہواِس کی کوئی گارنٹی نہیں ،ہاں جس نے روضۂ اطہر کی زیارت کی اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ ایمان کی حفاظت فرمائیںگے اوراس کاخاتمہ ایمان ہی پرہوگا۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میںگارنٹی دے رہے ہیں کہ جوشخص خوفِ خداپیداکرلے اورنفسانی خواہشات کی مخالفت کرلے،توبالیقین اس کاخاتمہ ایمان ہی پرہوگا؛لیکن جونڈرہواورہمیشہ نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑارہے، تواندیشہ ہے کہ کہیں اخیرمیں ایمان سلب نہ ہوجائے اوربغیرایمان کے دنیاسے رخصت ہوجائے ۔ مسلسل گناہوں میں ملوث رہنے خصوصاً بدنگاہی ،زناوغیرہ میں اندیشہ ہے کہ ایمان سے بندہ محروم ہوجائے؛ جیسے زندگی بھر اذان کی خدمت انجام دینے والامؤذن ایک بدنگاہی کے سبب دھتکاردیاجاتاہے اورعیسائیت پر اس کی موت ہوجاتی ہے ۔اعاذنااللہ منہ۔
آئیے !ہم نے سال نوکے موقع پر زندگی کے بدلنے کافیصلہ کیاہے تویہ بھی طے کریں کہ اپنے اندرخوف خداپیداکرکے نفسانی خواہشات سے بچ کرابدی راحت کی جگہ‘ جنت میں اپناٹھکانابنائیںگے۔