قصۂ اصحابِ کہف کے ایجابی پہلو!

انوار قرآنی:                                                                      چھٹی قسط:

مفتی عبد المتین صاحب اشاعتیؔ کانڑ گانویؔ

(استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)

قدرتِ خداوندی کا کرشمہ!

جس چیز کا صحیح اِدراک نہیں اُسے اللہ کے حوالہ کیا جائے!

 اکل وشرب وغیرہ میں حلال وحرام کا پاس ولحاظ!

کل کے جلا وطن آج کے ہیرو!

آیت: ۱۹- ۲۰:

            {وَکَذَٰلِکَ بَعَثْنَاہُمْ لِیَتَسَائَلُوا بَیْنَہُمْ ، قَالَ قَائِلٌ مِّنْہُمْ کَمْ لَبِثْتُمْ ، قَالُوا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ، قَالُوا رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا اَحَدَکُم بِوَرِقِکُمْ ہٰذِہِ إِلَی الْمَدِینَۃِ فَلْیَنظُرْ اَیُّہَا اَزْکَیٰ طَعَامًا فَلْیَاْتِکُم بِرِزْقٍ مِّنْہُ وَلْیَتَلَطَّفْ وَلَا یُشْعِرَنَّ بِکُمْ اَحَدًا(19) إِنَّہُمْ إِن یَظْہَرُوا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوکُمْ اَوْ یُعِیدُوکُمْ فِی مِلَّتِہِمْ وَلَن تُفْلِحُوا إِذًا اَبَدًا (20)} (سورۃ الکہف:۱۹-۲۰)

            ترجمہ: اور اس طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ تم (یہاں) کتنی مدت رہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ انہوں نے کہا کہ جتنی مدت تم رہے ہو تمہارا پروردگار ہی اس کو خوب جانتا ہے۔ تو اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کو بھیجو وہ دیکھے کہ نفیس کھانا کون سا ہے تو اس میں سے کھانا لے آئے اور آہستہ آہستہ آئے جائے اور تمہارا حال کسی کو نہ بتائے۔(جالندھری)

            تفسیر:اس جگہ دو واقعوں کی باہم تشبیہ بیان کرن مقصود ہے، ایک واقعہ اصحابِ کہف کی نومِ طویل اور زمانۂ دراز تک سوتے رہنے کا ہے، جس کا تذکرہ گزشتہ آیات میں ہوا، اور دوسرا واقعہ زمانۂ دراز کی نیند کے بعد صحیح سالم اور باوجود غذا نہ پہنچنے کے قوی اور تن درست اُٹھنے اور بیدار ہونے کا ہے، یہ دونوں واقعات اللہ تعالیٰ کی آیاتِ قدرت ہونے میں متماثل ہیں، اسی لیے لفظ ’’کذلک‘‘ سے اشارہ کردیا کہ جس طرح اُن کی نیند عام انسانوں کی عادی نیند کی طرح نہیں تھی، اسی طرح اُن کی بیداری بھی عام عادتِ طبعی سے ممتاز تھی۔

پیغام واحکام:

            {ازکٰی طعامًا} سے معلوم ہوا کہ ذبیحہ مسلمان سے خریدے، کافرسے نہیں۔ (آیت میں اہلِ کتاب سے خریدنے کی طرف اشارہ ہے، کہ مشرک اور اہلِ کتاب دونوں گوشت فروخت کرتے تھے)۔ 

(تفسیرات احمدیہ)

            مسلمانوں کو ہمیشہ کھانے پینے کی چیزوں میں حلال وحرام کا خیال رکھنا چاہیے، اور جس شہر میں یا جس بازار میں یا جس ہوٹل میں زیادہ تر حرام کھانے ہوں، وہاں تحقیق کے بغیر کھانا جائز نہیں، اسی طرح جو اقوام پاکی وناپاکی کی تمیز نہیں رکھتیں، بل کہ بعض جانوروں کے پیشاب کو تبرک سمجھتی ہیں، اُن کے کھانوں سے احتراز اَولیٰ ہے؛جیسا کہ ہندوستان کے مشہور یوگ گُرو ’’بابا رام دیو‘‘ کی ’’پَتَنْ جَلی‘‘ کمپنی کی مصنوعات کی خرید وفروخت سے احتراز اَولیٰ ہے، کہ ان میں (سے بعض میں) گاؤ مُتر(گائے کے پیشاب) کا استعمال ہوتا ہے۔             اسی طرح عروس البلاد شہر بمبئی کی نوخیز کمپنی’’کاؤ پیتھی‘‘ جو جانوروں کے پیشاب، پاخانہ وغیرہ ناپاک چیزوں کی مصنوعات تیار کرکے اوپن مارکیٹ میں فروخت بھی کررہی ہے۔

            اسلام دشمن عناصر کے درمیان رہتے ہوئے مسلمانوں کو نہایت درجہ احتیاط برتنا چاہیے، اور مسلمانوں کو مسلمانوں کی جاسوسی کرنے سے باز رہنا چاہیے۔اگر کوئی کسی وجہ سے دشمن کے نرغے میں پھنس بھی جائے، تو دیگر ساتھیوں کا اَتا پتا ہرگز نہ بتائے۔

            دین کی خاطر اگر قتل بھی کردیا جائے، تو عین خدمتِ دین ہے، لیکن اگر (مسلمان ہونے کے بعد) جبر واِکراہ سے گھر واپسی کرائی جائے، یعنی مرتد بنادیا جائے، تو نہ دنیا میں کامیابی ہے نہ آخرت میں، اس لیے کہ دنیا تو چند روزہ ہے، کامیابی کا کوئی اعتبار نہیں، اور آخرت میں اس لیے نہیں کہ وہاں کی کامیابی کے لیے اِیمان شرط ہے۔

            مسلمان! دنیا کی فانی زندگی بنانے کی فکر نہ کریں، آخرت کی دائمی زندگی کی فکر کریں، کہ اس کی کامیابی اصل کامیابی ہے۔

            فسادات کے زمانے میں خاص طور پر(آج کل سوشل میڈیا کا زمانۂ فساد ہے، اکثر وبیش تر خبریں غلط اور افواہیں ہوتی ہیں)، کوئی غلط بات، یا غلط خبر نقل یاارسال کرنے سے حد درجہ احتیاط کریں، ورنہ دشمنوں کو نہتے مسلمانوں پر ظلم کا ایک بہانہ ہاتھ لگ جاتا ہے۔

            ’’فابعثوا احدکم بورقکم‘‘میںاشارہ ہے کہ طالبانِ حق کی شان کے لائق یہ ہے کہ مخلوق سے سوال کرنا ترک کردیں، اور ہمتِ عالی رکھیں، جیسا اصحابِ کہف نے داموں سے کھانا خریدنا تجویزکیا، یہ نہیں کیا کہ کسی سے مانگ لاویں۔

            بوقتِ فرار اصحابِ کہف کا چاندی یا چاندی کے سکے اپنے ہمراہ لے جانا، اس امر کی دلیل ہے کہ سفر میں دو چیزوں کا خیال رکھا جائے:

            (۱) شَدُّ الْہِمْیَانِ (جیب خرچ ساتھ لینا)۔

            (۲) والتَّوَکُّلُ عَلَی الرَّحْمٰنِ (رحمن؛ یعنی خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا)۔

             بعض لوگ محض اتفاقات پر بھروسہ کرتے ہوئے، زادِ راہ لیے بغیر سفر میں نکل پڑتے ہیں، اور ان کی نظر دوسروں کی جیبوں پر ہوتی ہے،یہ توکل علی اللہ کے خلاف ہے۔ ایک عالم کے متعلق منقول ہے کہ وہ بیت اللہ شریف کی زیارت کے بڑے شائق تھے، اور کہا کرتے تھے: ’’ما لہذا السفر إلا شیئان: شد الہمیان، والتوکل علی الرحمن‘‘(اس سفر میں دو چیزیں ضروری ہیں: جیب میں دام ہو، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہو)۔اللہ پر توکل کرنے والوں کا طریقہ یہی ہونا چاہیے۔ 

(تفسیر النسفی ’’مدارک التنزیل وحقائق التاویل‘‘)(تفسیرات احمدیہ فی بیان الآیات الشرعیۃ، بیان القرآن، تفسیر ماجدی)

            اگر کوئی شخص اخلاص وللہیت کے ساتھ ہجرت کرے، ریا ونمود مقصود نہ ہو، اور محض اللہ کی رضا جوئی اور اپنے دین وایمان کو بچانے کے لیے،جلاوطنی اور عزلت اختیار کرے، تو اللہ تعالیٰ اس ’’کل کے جلا وطن کو آج کا ہیرو‘‘ بنا دیتا ہے۔

 (معرکۂ ایمان ومادیت)

علمیات:

             ’’ازکی‘‘ بمعنی اطیب ولذیذ، یعنی طعامِ لذیذ ولطیف کھاوے، مصلحت یہ تھی کہ مدتِ دراز سے کھانا نہ کھایا تھا، تو طعامِ غیر لطیف وغیر لذیذ مضر ہوسکتا تھا، اسی طرح بعض مصالحِ دینیہ کی وجہ سے بھی طعامِ لطیف ولذیذ اور لباسِ لطیف کو استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ شیخ عبد القادر گیلانی رحمہ اللہ کیا کرتے تھے۔

            ایک قول کے موافق ازکی طعامًا سے چاول مراد ہیں، کیوں کہ یہ پک کر زیادہ ہوجاتے ہیں، ایک سیر سے پانچ سیر ہوجاتے ہیں؛یعنی برکت مراد ہے۔  (تفسیرات احمدیہ)

             حروف کی تعداد کے اعتبار سے کلمہ {ولیتلطَّف} کے حرف ’’تا‘‘ تک قرآنِ پاک کا نصفِ اول پورا ہوتا ہے۔اور درمیانی ’’لام‘‘ سے نصفِ ثانی شروع ہوتا ہے، اسی وجہ سے مصاحف میں عام طور پر اس کلمہ کو قدرے جلی لکھا جاتا ہے۔

            ’’ولیتلطَّف‘‘:  خوش تدبیری وحسن تدبیر سے کاموں کی انجام دہی ہونی چاہیے۔

            تلطُّف یعنی بائع (فروخت کرنے والے) کے ساتھ حسنِ اخلاق ونرمی سے پیش آئے۔اس میں لطف وحسنِ معاملہ کا درس ملتا ہے۔

            ابدًا: کا ترجمہ کلامِ مثبت میں ’’ہمیشہ‘‘ ہوتا ہے، جیسے ’’ماکثین فیہ ابدا‘‘ (وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے)۔

             اور کلامِ منفی میں ’’کبھی بھی‘‘، ’’قطعًا‘‘، ’’ہرگز‘‘ ہوتا ہے، جیسے: ’’واللّٰہ لا اکلمک ابدًا‘‘ (بخدا میں آپ سے کبھی بھی نہ بولوں گا، یا ہرگز نہ بولوں گا)۔

            {ایہا ازکی} میں ’’ہا‘‘ کی مراد میں تین احتمال ہیں:

            (۱) ’’ایہا‘‘ المأکل: بھوک دور کرنے، پیٹ بھرنے یا تغذیہ کے لیے جو چیزیں بھی استعمال کی جائیں۔ ’’اکل‘‘ میں طعام، اناج، پھل یا گوشت کی تخصیص نہیں ہوتی۔ اگر تخصیص نہ کی جائے، تو اکل سے عموماً گوشت روٹی مراد ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ اچھی یا سستی قابلِ خورد ونوش اور حلال چیزیں جس کسی کے یہاں ملے لے آئے۔

            (۲) ’’ایہا‘‘ أی؛ الاطعمۃ: کون سا کھانا۔ طعام سے مراد عموماً اناج کی قسم کی غذا ہوتی ہے۔ یعنی سب سے اچھا یا زیادہ سستا اناج؛ غذا (روٹی گیہوں کی خمیری یا فطیری) جس کسی کے پاس ہو۔

            (۳) ’’ایہا‘‘ ای؛ المدینۃ، مضاف محذوف۔ تقدیر یہ ہے: ای اہل المدینۃ۔ یعنی اپنے میں سے کسی کو شہر بھیجیں، اہل شہر میں سے کسی شہری کے یہاں اچھا اور سستا کھانا ملے گا۔

{برزق منہ} میں منہ کی ضمیر میں تین احتمال ہیں:

            (۱) ’’منہ‘‘ أی؛ من الطعام من الأکل۔کچھ روٹی اور خوردنی شئی میںسے کچھ۔

            (۲) ’’منہ‘‘ أی؛ من الورق۔ ان سکوں کے بدل یعنی یہ رقم دے کر۔

            (۳) ’’منہ‘‘ أی؛ من احدٍ من اہل المدینۃ۔اچھا کھانا فروخت کرنے والوں میں سے کسی ایک کے یہاں سے۔

            {فابعثوا أحدکم: أی اترکوا ما لیس بضروری، فأتوا ما ہو ضروری۔ یعنی کتنی مدت سوئے وغیرہ یہ سب باتیں چھوڑو، اور پہلے ضروری چیز کھانے کی فکر کرو!(الاہم فالاہم یعنی ضروریات کا لحاظ پہلے کیا جائے!)

فقہیات:

            زبان سے کلمۂ کفر کہنے کی اجازت ہے،تو پھر اصحابِ کہف کو مؤاخذہ اور عدم فلاح کا خوف چہ معنی دارد؟…اس کا جواب یہ ہے کہ جبر واِکراہ کی حالت میں اگرچہ زبان سے کلمۂ کفر کہہ لینا جائز ہے، لیکن بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ ابتدا میں جان بچانے کے لیے بادلِ نخواستہ زبان سے کفریہ کلمہ کہہ لیتا ہے، مگر جب دن رات کافروں کے ڈر سے کفر کے اقوال واعمال کرنے پڑتے ہیں، تو رفتہ رفتہ دل سے کفر کی کراہت ونفرت کم ہوتی جاتی ہے، بالآخر دِل پر کفر جم جاتا ہے، کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ: ’’الإنسان ابن البیئۃ‘‘– انسان ماحول کا بیٹا ہوتا ہے۔یعنی اُس کا اثر جلد قبول کرلیتا ہے۔

            {فابعثوا احدکم بورقکم}میں احدکم کی جگہ واحدکم  نہیں کہا…اس لیے کہ انہوں نے کسی ایک کو متعین کرکے نہیں کہا، بل کہ ان میں سے کسی ایک کو بھیجنے کا کہا۔ اگر ’’واحدکم‘‘ کہتے تو اشارہ ہوتا کہ اپنے رئیس اور بڑے کو بھیجو، اس لیے کہ اہلِ عرب کسی قوم میں سے کسی فرد کو دیکھ کر کہتے ہیں:’’رأیت واحد القوم‘‘(میں نے قوم کاایک فرد دیکھا)۔ قوم کے رئیس یا کسی بڑے معظم آدمی کو دیکھ کر کہتے ہیں: ’’رأیت واحد القوم‘‘۔

 (نکات القرآن)

وکالت در معاملات:

            {فابعثوا احدکم بورقکم الخ}سے مسئلہ فقہیہ’’وکالت فی المعاملات کا ثبوت فراہم ہوا‘‘، نیز زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام میں بھی وکالت معروف ومشروع تھی، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ام سلمہ رضی اللہ عنہ کو نکاح کا، عروہ بارقی اور حکیم ابنِ حزام رضی اللہ عنہما کو شرائِ اضحیہ(قربانی کے جانور خریدنے) کا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بھائی عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاملہ کا وکیل بنایا تھا۔

(احکام القرآن للطحاوی، سورۂ کہف)

مسئلۂ نہد/ مُناہدہ (مشترکہ کھانے میں کمی بیشی):

            آیتِ مذکورہ سے’مسئلہ نہد/ مُناہدہ‘‘)مشترکہ کھانا خریدنے کا جواز اور تناوُل میںکمی زیادتی)کا مسئلہ بھی مستخرج ہوتا ہے، مثلاً:  بعض دوست واحباب مل کر مشترکہ طور پر پیسے جمع کرکے ہوٹل میں کھانا تیار کرواکے کھاتے ہیں، اس میں سب کی رقم برابر ہوتی ہے، دستر خوان پر جب مختلف اجناس کا کھانا تیار ہوکر آتا ہے، تو ہر چیز میں ہر ایک برابر شریک ہوتا ہے، لیکن جب کھانا کھایا جاتا ہے، تواس میں کمی زیادتی ہونا لازمی امر ہے، اس لیے کہ ہر ایک شخص کے کھانے کی مقدار مختلف ہوتی ہے، تو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ربوا اور سود کی شکل ہے، کہ بعض احباب زیادہ اور بعض کم کھاتے ہیں، اُن کی یہ بات درست نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ یہ تفاضُل (کمی بیشی) باہمی رضامندی سے ہوتا ہے، جو جائز ہے، چناں چہ سب احباب نے مل بیٹھ کر کھانا کھایا، تو ہر شخص جتنا کھارہا ہے وہ اس کا حصہ سمجھا جائے گا، بشرط یکہ تمام شرکا راضی ہوں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اِس قسم کے اشتِراک کو ’’نَہْد‘‘[] قرار دیا ہے(۱)، اور عہدِ رسالت میں اس کی کئی مثالیں پیش کی ہیں(۲)، علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ تسامُح وتعامُل کے قبیل سے ہے، عہدِ نبوت سے لے کر آج تک اس پر تعامُل ہوتا چلا آرہا ہے، لہٰذا یہ صورت جائز ہے۔(۳)


[] ’’النہد‘‘: نفقہ جو شرکائے سفر برابر نکالیں۔  (مصباح اللغات)

(۱) (صحیح البخاری:ص/۴۳۷، فیض الباری: ۴/۴)

(۲) (صحیح البخاری: ص/۴۳۷، حدیث: ۲۴۸۶)

(۳) (فیض الباری:۴/۴، ط: بیروت، و:۳/۳۴۲، ط: رشیدیہ کوئٹہ، عمدۃ القاری:۱۳/۵۶/،۷ ۵،۸ ۵، فتح الباری:۵/۱۶۰، ط: دار السلام الریاض) (تفسیر ماجدی،احکام القرآن للطحاوی، سورۂ کہف)

(فتاویٰ عثمانی: ۳/۴۵،۴۶، کتاب الشرکۃ، ط: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، المسائل المہمۃ فیما ابتلت بہ العامۃ: ۹/۳۱۴، مسئلہ نمبر:۲۰۳)