قرآنی پیشین گوئیاں اور واقعاتِ عالم

 تحریر:محمد صادق تونڈاپوری/استاذجامعہ اکل کوا

                زندگی کے سفر میں یقین کا اہم ترین رول ہوتا ہے۔ (تذبذب)سفر کو کھوٹا اور زندگی میں تشکیک کا زہر گھول کر اسے بے لطف بنا دیتا ہے۔دنیوی زندگی میں یقین اور اطمینان کا تو عمل دخل ہوتا ہی ہے،لیکن ما بعد دنیا کی زندگی اور اس کے وجود کا مدار یقین اور اطمینان پر ہوتا ہے۔ایمان کا تعلق دیکھی چیزوں سے زیادہ اَن دیکھی چیزوں سے ہوتا ہے اور اِس سطح پر واحد کتاب الٰہی ہے ،جس نے یقین کی زمین پر حیاتِ انسانی اور حقائقِ کائنات کی بنیاد رکھی ہے،قرآن کریم کے سوا وحی الٰہی سے پرے ،دنیا کے تمام مصنفین بیان حقیقت کے سلسلے میں غالباً’’ہو سکتا ہے‘‘ اور’’ہو نا چاہئے‘‘ سے آگے جانے کی ہمت و جرأت نہیں کر سکے ہیں۔کیوںکہ وہ ظن و تخمین اور قیاس سے کام لینے کے لیے مجبور ہوتے ہیں ۔کوئی بھی مخلوق تمام تر حقائق کائنات سے واقفیت اور ان کے احاطہ کرنے کا دعوی نہیں کرسکتی ہے۔جب کہ قرآن حکیم کل اشیا و حقائق کے جاننے والے علیم و خبیر کاکلام ہے۔اس نے اس دنیامیں جہاں قرآن کے مثل لانے کا چیلنج دے کر قرآن کے بے مثل ہونے اور اتمام حقائق اور واقعات جاننے کی طرف اہل عالم کو توجہ دلائی ہے، آئندہ پیش آنے والے واقعات کی اطلاع اور پھر ان کے یقینی وقوع سے قرآن کے کلامِ خداوندی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی صداقت کو بدرجہ اتم و اکمل ثابت کر دیا ہے۔قرآن کی پیشین گوئیاں بھی اس کے کتاب الٰہی ہونے کے ناقابل تردید دلائل میں سے ہیں،اس کی پیشین گوئیوں کی سو فیصد صداقت و وقوع اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے ۔وہ اسی ابتدائی صورت میں مکمل و محفوظ ہے،جیسا کہ وہ پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔بعد میں رونما ہونے والے واقعات کے تعلق سے جو پیشین گوئیاں کی ہیں،اگر ان سب کو متعلقہ مباحث کے ساتھ جمع کر دیا جائے تو ایک مستقل کتاب تیار ہو جائے گی ۔قرآنیات کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں قرآن پیشین گوئیوں کو عنوان بنایا گیا ہے ،ہم سر دست چند کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ۔آئندہ کے واقعات کے سلسلے میں پیشین گوئیوں کے ذیل میں فرعون کے وجود کا معاملہ ہے ، جسے آج بھی پوری دنیاسرکی لکھی آنکھوںسے مشاہدہ کررہی ہے ۔سورۃ یونس کی آیت ۹۲؍ میں قرآنِ حکیم نے اس حقیقت کی نشان دہی اس طرح کی ہے ۔

                ’’ آج ہم بچائے دیتے ہیں تیرے بدن کو تاکہ بعد والوں کے لیے نشانی بن جائے اور بے شک بہت سے لوگ ہماری قدرتوں پرتوجہ نہیں دیتے‘‘۔

                یہ قرآن کا عجیب حیرت انگیز انکشاف اور پیشین گوئی ہے،جب قرآن کا نزول ہوا تھا ،اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ فرعون کامحفوظ جسم کہاں ہے ؟البتہ یہ یقین تھا کہ کہیں ضرور عہدموسیٰ علیہ السلام میں خدائے قدیر نے فرعون کو مع لشکر دریا میں غرق اور پھر ساحل پر ڈال کر موجودہ لوگوں کے لیے عبرت اور نشانی کا باعث تو بنا دیاتھا۔’’لمن خلفک‘‘ کا اعلان کر کے ایک ایسی حقیقت کا انکشاف کیا ہے ،جس نے پوری دنیا کے متلاشیانِ صداقت کو حیرت میں ڈال دیا اور اس کے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ہے۔اس سلسلے میں موریس بوکائے نے کتاب’’ بائبل ،قرآن اور سائنس‘‘میں حقیقت افروز روشنی ڈالی ہے۔ فرعون کی غرقابی کا ذکر تو دیگر آسمانی کتب میں بھی ہے،لیکن اس کے بدن کو برائے نشانی و عبرت بعد والوں تک کے لیے محفوظ رکھنے کی اطلاع صرف قرآن حکیم میں ہے،اس لیے موریس بوکائے مسرت واہتزاز کے عالم میں لکھتے ہیں: جو لوگ مقدس صحائف کی صداقت کے لیے جدید معلومات میں ثبوت تلاش کرتے ہیں،وہ مصری عجائب گھر، قاہرہ کے شاہی ممی خانہ کا معائنہ کر کے فرعون کے جسم سے متعلق قرآنی آیات کی ایک شان دار مثال کامشاہدہ کر سکتے ہیں۔اس میں تو اختلاف کی گنجائش ہے کہ فرعون کا ذاتی نام کیاتھااور اس کانمبر کیا تھا ؟کیوںکہ مصر کے حکمران کا لقب فرعون تھا، لیکن یہ واضح ہے کہ قرآن نے جس فرعون و موسیٰ کاذکربہ طورِعبرت و نشانی کیا ہے،اس کے وجود کی بقا کی جو پیشین گوئی کی ہے،وہ  واقعات عالم میں سے ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔اب تک کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے پہلے پروفیسر لاریٹ نے  1898میں مصر کے ایک قدیم مقبرہ میںداخل ہو کر دریافت کیا کہ اس میں فرعونِ موسیٰ کی ممی کی ہوئی  لاش موجود ہے،موریس بوکائے کی تحقیق کے مطابق 8/جولائی 1908کو الیٹ اسمتھ نے اس لاش کے اوپر لپٹی ہوئی چادر کو ہٹایا، اس نے اس کی باقاعدہ سائنسی تحقیق کی اور 1912میں ’’شاہی ممی‘‘ نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں بتایا گیا کہ یہ ممی کی ہوئی لاش اس فرعون کی ہے جو ۳؍ ہزار سال پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں غرق کیا گیا تھا ۔استمھ نے واضح الفاظ میںلکھا ہے کہ فرعون کا مادی جسم خدا کی مرضی سے تباہ ہونے سے بچا لیا گیاتاکہ وہ لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بنے،جیساکہ قرآن کریم میں ہے ۔خود موریس بوکائے بھی پوری تحقیق اور ممی کی سائنسی جانچ پڑتال سے اس حتمی نتیجہ تک پہنچے کہ یہ اس شخص کی ممی شدہ جسم کی مادی طور پر موجودگی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے واقفیت رکھتا تھا۔ جس نے ان کے دلائل کو رد کیا اور جب انہوںنے خروج کیا ان کے تعاقب میں گیا اور جس نے اسی عمل میں اپنی جان سے ہاتھ دھوئے(مزید دیگر تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہوں: ’’بائبل ،قرآن اور سائنس‘‘ کا باب خروج)فرعون موسیٰ کے وجود کو بچائے رکھنے کی قرآن کی پیشین گوئی مشاہداتی طور پر قرآن کے کتاب خداوندی ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔

                پیشین گوئیوں کے سلسلے کی ایک حیرت انگیز پیشین گوئی وہ ہے، جس کا تعلق فتح مکہ سے ہے۔یہ پیشین گوئی ایک ایسے وقت میں کی گئی تھی جب کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے تھوڑے سے اصحاب تھے، جو بہت ہی کسمپرسی کی حالت سے گزر رہے تھے۔

                چاروںطرف کا ماحول سب کو نگلنے والامسلمانوںکوختم کرنے پر تُلا ہوا تھا اور دشمن بنا ہوا تھا۔اور اہل مکہ کا ظلم ستم یہاں تک بڑھ گیا کہ آں حضرت کو مجبور ہو کر ہجرت کا ارادہ کرنا پڑا ۔ حدیث اور تفسیر کی مستند کتابوں میںاس سلسلے کی جو تفصیلات ملتی ہیں ،ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے نکل کر غارِ ثور میں تین دن قیام کے بعد مدینہ طیبہ کے لیے نکلے ۔جب مقام جحفہ کے قریب پہنچے تو وہاں سے مکہ مکرمہ جانے کی سڑک نظر آئی تو طبعاً وطن کی یاد آئی اور اسے مستقلاًچھوڑ دینے کے خیال سے بڑا قلق اور افسوس ہوا۔ایسے موقع پر قرآن کریم نے پیشین گوئی کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ اس مقام پر لوٹا دیا جائے گا۔ قرآن کی سورۃ القصص کی آیت85میں کہا گیا ہے جس نے حکم بھیجا تجھ پر قرآن کا وہ پھر لانے والا ہے ،تجھ کو پہلی جگہ ،علامہ شبیر احمد عثمانی  ؒاپنے تفسیری نوٹ میں لکھتے ہیں؛دیکھو آج کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر تم کو مکہ چھوڑنا ہے۔مگر جس خدا نے آپ کو پیغمبر بنایا اور قرآن جیسی کتاب عطا فرمائی وہ یقیناآپ کو نہایت کام یابی کے ساتھ اس جگہ واپس لائے گا۔حضرت شاہ عبد القادر ’’موضح القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:یہ آیت اتری ہجرت کے وقت،اسی وقت یہ تسلی فرمادی کہ پھر مکہ میں آؤ گے سوخوب طرح آ ئے پورے غالب ہوکر۔(حاشیہ ترجمہ شیخ الہند، ص 526 )

                کتب تفسیر میں لفظ معاد کی تفسیر موت،جنت سے بھی کچھ حضرات نے کی ہے،لیکن بخاری شریف کی روایت اورمستندمفسرقرآن ابن کثیر نے ’’معاد‘‘کی تفسیرمکہ مکرمہ سے کی ہے اوریہی صحیح بھی ہے۔فتح مکہ اورآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ کے غلبے سے متعلق پیشین گوئیوں کی دیگرآیات کو بھی اس سلسلے کے تحت رکھا جاسکتا ہے۔مثلاً اللہ کا فیصلہ ہے کہ اپنی روشنی کو مکمل کرکے رہے گا۔(الصف:8)

                ہم نے آپ کو مکمل فتح دی ہے (الفتح:۱)

                جن حالات میں اور جن واقعات کے سلسلے میں یہ سورت نازل ہوئی اور جو دیگر آیات ہیں بہ ظاہر اسباب فتح مکہ کا کوئی امکان نہیں تھا ۔سالوں سے قریش نے مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا۔صلح حدیبیہ کے بعد کسی مسلمانوں کوانہوں نے حدودِحرم کے قریب تک پھٹکنے نہیں دیا تھا ،لیکن خداکے فیصلے کے تحت قرآن کی پیشین گوئی کے بالکل مطابق سارا عرب آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے آگیا۔مادی اسباب واصطلاحات میں اس کی توجیہ نہیں ہوسکتی ہے کہ تھوڑے سے بے سروسامان اور نہتے لوگ ان پر کیسے غالب آگئے ،ؒ؟جو تعداد میں بہت زیادہ تھے اور تما م سامانوں سے لیس اور ہتھیاروں سے مسلح تھے ،اس کی تو جیہ صرف یہی ہو سکتی ہے کہ قرآن کریم خداکاکلام ہے ،اس لیے اس کی کوئی بھی پیشین گوئی غلط نہیں ہوسکتی تھی اور پیشین گوئی کے عین مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کا کام یاب ہونا یقینی تھا ۔قرآنی پیشین گوئیوں کے ذیل میں قر آن حکیم کی حفاظت کا اعلان اور پیشین گوئی صداقت کا جیتا جاگتا نمونہ ہے اور واقعات نے محسوسات ومشاہدات کی اس بلندی تک پہنچادیا ،جس کے آگے اور کوئی بلندی نہیں ہے ۔خالق کا ئنات نے قرآن میں اعلان کیا ہے ’’اور ہم نے ہی اس قرآن کو اتاراہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔ ( الحجر ۹)

                دنیا میں مختلف طاقتوں نے مثل قرآن لانے کی پوری پوری کوشش کی ہے، لیکن اپنے ارادے میں کلی طور پر ناکام ہوئی ہیں اور دوسری طرف قرآن حکیم میں کوئی ایک نقطہ یا زیر زبر تک کا فرق نہیں آیاہے ۔یہ حفاظت قرآن کے تعلق سے پیشین گوئی نے قرآن کے کلام الٰہی ہونے کو انتہائی حد تک ایک ناقابل تردید واقعہ ومشاہدہ بنادیاہے۔ پیشین گوئیوں کے سلسلے میں نمایاں ترین پیشین گوئی وہ ہے، جس کا تعلق ایران پر روم کے غلبے سے ہے ۔یہ ایک پیشین گوئی ہے، جس نے تاریخ کے دھارے کو موڑدیا ۔حدیث ،تفسیراورسیروتاریخ کی کتابو ں میں اس کی صداقت سے متعلق جو تفصیلات ملتی ہیں ان سے ہر انصاف پسند کے دل میں یہ جذبہ پیداہوتا ہے کہ ہم پیشین گوئی کی صداقت کا حصہ ہوجائیں ،سورۃ روم کی ابتدائی آیات میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے اس کی طرف بڑے سے بڑا مبصراشارہ تک نہیں کر سکتاہے۔ آیات میں کہاگیا ہے قریب کی زمین میں رومی مغلوب ہوگئے ہیں ،مگر مغلوب ہونے کے بعد چند سالوں میں پھر وہ غالب آجائیں گے ،پہلے اور بعد سب اختیار خداکے ہاتھ میں ہے اور اس دن مسلمان خداکی مددسے خوش ہوں گے ،وہ جس کو چاہتاہے مدد کرتاہے ،وہ غالب اور مہر بان ہے ،خداکا وعدہ ہے خدااپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتاہے ۔(الروم :۶؍۱)

                عرب سے باہر مگر اس سے متصل دوطاقت ور،بل کہ کہہ لیجیے کہ اُس وقت کی دوسپرپاورحکومتیںتھیں۔ ایک رومی سلطنت اور دوسری ایرانی سلطنت۔ پہلی حضرت عیسیٰ کی پیرو اور دوسری آتش اور سورج دیوتا کی پر ستار تھی۔رومی سلطنت کے حکمراں فوکاس انتہائی نااہل تھا حالات کچھ ایسے پید ا ہوگئے تھے کہ روم و ایران میں تصادم ہو گیا ،رومی حکمراں اپنی نااہلی سے ایرانی حملہ کوروک نہیں سکا اور اس کے بیشتر علاقوں پر ایران کا قبضہ ہوگیا ۔ انطاکیہ سے لے کر یر وشلم اور فرات سے وادی نیل تک ایران کے زیراثرآگئے ۔رومی سلطنت کا افریقی گورنر بھی تمام تر کوششوںکے باوجودایرانی قبضے کو ختم کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکا اور رومی سلطنت قسطنطنیہ کی چہاردیواری تک محدودہوکر رہ گئی ۔ایرانی حکزمت نے رومی علاقوں پر قبضہ کے بعد عیسائیوں پر بے پناہ مظالم شروع کئے۔ بے قصورایک لاکھ عیسائیوں کا قتل عام کیا، ہر جگہ آتش کدے تعمیر کیے گئے ،آگ اور سورج کی جبری پرستش شروع کرائی گئی ،ایرانی حکمران خسروپرویزکادماغ یہاں تک خراب ہوگیا کہ اس نے ہرقل کے نا م خط میں اے کمینہ ،بے شعور، اورخود کو سب خداؤں سے بڑاخدااورتمام روئے زمین کے مالک خسروکی طرف سے لکھااوریہ بھی لکھاکہ تو کہتاہے کہ اپنے خداپربھروسہ ہے، کیو ں نہ تیرے خدانے یروشلم کومیرے ہاتھ سے بچالیا ؟جب ہر قل کی طرف سے صلح کی پیش کش کی خبرپہنچی تو خسرونے کہا مجھ کو یہ نہیں، بل کہ ہر قل زنجیروں میں بندھا ہوامیر ی تخت کے نیچے چاہیے۔

                 رومی حکمراں سے اس وقت تک صلح نہیں کروں گا، جب تک وہ اپنے صلیبی خداکو چھوڑ کر ہمارے سورج دیوتاکی پرستش نہ کرے ،رومی ایرانی کے مابین رونماہونے والے واقعات سے عرب کے مکہ میں کفارمکہ اور مسلمانوں میں بحث شروع ہوئی ۔ایران کے آتش پرست اور سورج دیوتاکے پجاری ہونے کے ناطے کفارمکہ کی ہمدردی اس کے ساتھ تھی جب کہ رومی عیسائیوں کے اہل کتاب ہونے کے سبب مسلمانوں کی ہمدردی ان کے ساتھ تھی ۔کفار اُن کا مذاق اڑاتے تھے کہ ہمارے بھائی ایرانی جس طرح تمہارے ہم مسلک اہل کتاب عیسائیوں پر غالب آکرانھیںذلیل ومغلوت کرچکے ہیں،اسی طرح ہم تمھارے اوپرغالب ہوکر تمھیں ذلیل ورسوا کریں گے، مکہ میں مسلمان ایسے بھی بہت ہی کمزور حالت میں تھے اوپرسے یہ طعن وتشنیع زخم پر نمک چھڑ کنے کے مترادف تھا۔ اس حالت میں سورۃ روم کی مذکورہ آیات نازل ہوئی، جن میں مسلمانوں کو بشارت ومسرت کا پیغام اور رومیوں کے غلبے کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے اس کی کوئی امید نہیں تھی۔ سقوط سلطنت روماکے مصنف گبّن نے اپنی کتاب کی پانچویں جلد میں تحریرکیاہے کہ کوئی بھی پیشین گوئی والی خبراتنی بعدازوقوع نہیں ہوسکتی تھی ۔کیوں کہ ہر قل کے ابتدائی بارہ سال رومی سلطنت کے خاتمے کا اعلان کررہے تھے ، قرآن کی پیشین گو ئی کے مطابق ’’چند سالوں ۱۰؍سال کے اندرہی رومی ایران پر غالب آگئے اور اس سے تمام اپنے مقبوضات واپس لے لیے‘‘ یہ ایک پیشین گوئی ہے جس نے سقوط روماکے مصنف اور دیگر مغربی یورپی مورخین کوحیرت میں ڈال دیا، لیکن یہ حیرت کی بات نہیں ہے، بل کہ قرآن کے کلام الٰہی اور اس کی پیشین گوئی کی صداقت کااعلان واثبات ہیں۔ادھررومی وایرانی کوشکست دے چکے تھے،ادھراہل ایمان بے سروسامانی کے عالم میںمیدانِ بدرمیںمذاق اڑانے والے کفارمکہ کوشکست دے کرانھیںذلیل ورسواکررہے تھے۔اورآیت’’اس روزاہل ایمان اللہ کی مددسے خوش ہوںگے‘‘ میں دی گئی بشارت وپیشین گوئی کی صداقت اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے تھے۔ان مذکورہ پیشین گوئیوںکے علاوہ قرآن حکیم میںاوربھی بہت سی پیشین گوئیاں ہیں، جو سب کی سب بلا استثنا صحیح ثابت ہوئیں۔دیگر اقوام کے ماضی کے معجزات صرف تاریخی بیان ہیں ، لیکن اہل ایمان کے پاس قرآن کی صورت میں زندہ اور ہمیشہ ساتھ رہنے والا معجزہ ہے ۔اس لیے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو جو معجزہ دیا گیا ہے وہ قرآن ہے ۔ (بخاری باب الاعتصام )

                اور قرآنی پیشین گوئیوں نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ قرآن پاک خدا کا کلام بھی ہے اور اس کی آواز بھی۔ اگر اس کا پیغام آج بھی صحیح شکل میں عام لوگوں تک پہنچ جائے تو وہ اقوام عالم کو یقینامسخر کرلے گا اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔