انتفاضہ اقصیٰ اولیٰ:

                ۱۹۸۷۔۱۹۸۸ء انتفاضہ اولیٰ مبارکہ کے نتیجے میں زبردست اسلامی بیداری کی ایسی لہر پیدا ہوئی،جس نے فلسطینی مزاحمت میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت اختیار کرلی،خصوصاً’’اسلامی تحریک مزاحمت‘‘(حماس)کے ذریعے یہ بیداری ہر ایک اسلام پسندفلسطینی کے دل میں ایمان ویقین کی ایسی چنگاری بن گئی،جس نے تذبذب ،تردداورعدمِ یقین کے سارے اثاثے کوخاکستر کردیا۔انتفاضے کی وجہ سے باہمی ہمدردی اورقضیہ فلسطین کے تئیںنہ صرف اسلامی وعربی صفوںمیں،بل کہ عالمی برادری کی صف میںبھی از سرِ نودل چسپی پیداہوئی،لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا اور لکھنا پڑتا ہے کہ حالات کی ستم ظریفی فلسطینی وعربی قیادتوں کی ذہنیت نے انتفاضے کی سلگائی ہوئی آنچ کووسعت پذیری اورآزادیِ فلسطین کے لیے مطلوبہ حد تک بے کراںہوکراپنی تاثیر دکھانے کاموقع نہ دیا،بل کہ غصب کردہ صہیونی ریاست کے ساتھ امن معاہدے اوربے معنی تصفیے کے سمت میں،سرعت کے ساتھ سیاسی طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے،اس کو منفی انداز میں استعمال کیا۔

                ستمبر ۲۰۰۰ء میں شروع ہونے والے آخری انتفاضہ اقصیٰ نے ،جوہنوز جاری ہے،پوری طرح یہ ثابت کردیا ہے کہ فلسطینی اپنی خاک کے حوالے سے،اپنے حق سے ذرہ برابر بھی دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔

                اس انتفاضے کے نتیجے میں مسلم عوام کی فلسطینیوںکے ساتھ بے پناہ ہمدردی اوربرادرانہ وانسانی جذبات میں ہم آہنگی کے مظاہرے دیکھنے کوملے۔اس کی وجہ سے قضیہ فلسطین کی اسلامی شناخت ایک بار اور پوری طرح اجاگر ہوئی ہے۔دوسر ی طرف نہ صرف صہیونی کی بربریت اور صہیونی امن پسندی کے کھوکھلے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے،بل کہ تصفیے کے منصوبے کو زبردست طمانچہ رسیدہوا ہے،جو امت مسلمہ کے ناقابل تبدیل اصولوں اور ناقابل دست برداری حقوق کی قیمت پر بروے کار لایا جارہاہے۔

قضیہ فلسطین ایک انتہائی حساس مسئلہ :            

                قضیہ فلسطین ، زبردست انسانی حیثیتوں کا حامل قضیہ ہے،کیوں کہ اس کی حیثیت انسانی حقوق کے نام نہاددعوے داروں کے روبہ رومظلوم کی فریاد ہے۔نیز اس سے عالمی برادری کی دوہرے پیمانوں اورجدیدعالمی نظام کی بے طرح خرابیوں کابہ خوبی اندازہ ہوتاہے۔ اس سے ترقی علم وہنر،ٹیکنالوجی برتری اورانسانی حقوق کی پاس داری کے بے معنی دعووں پربے تحاشا فخر کنندہ تہذیب کے گھناؤنے نفاق اوردوہرے پن کی بے ہودہ شرم گاہیں بے پردہ ہوجاتی ہیں، جس کو ۵۰لاکھ پناہ گزینوںکو کھلے آسمان کے نیچے فرش زمیں پر اپنے گھروں سے زبردستی نکال کرڈال دیا جانا پسند ہواور۴۵۰۰ سو سال سے اپنے وطن کو آبادرکھنے والی قوم کو وہاں سے بہ زور بازو بھگاکردنیا کے کونے کونے سے فرسودہ بے بنیاد دعووں کے تحت( جو نہ تو تاریخ کی منطق کے مطابق ہیں نہ جدید تمدنی اقدار سے ہم آہنگ ہیں،نہ عالمی قوانین سے مطابقت رکھتے ہیں)ہررنگ ونسل کے یہودیوں کاآبسنانہ صرف گوارا ہواور جس کو یہ بھی گوارا ہوکہ ارض مقدس کو بے گناہوں کے خون سے لالہ زار کیاجاتا رہے،جس کو محبت وامن کی زمین ہونا چاہیے۔صہیونی تحریک اوراس کا فلسطین پر قبضہ ،درحقیقت اس باقی ماندہ مغربی روایتی استعمار کا نمونہ ہے،جس کی بساط ساری دنیا سے لپٹ چکی ہے اور جلد یا بدیر ،ان شاء اللہ ارضِ فلسطین سے لپٹ جائے گی۔

اسرائیل کی تباہی میں انسانیت کی سلامتی مضمرہے :

                عالم اسلام کے قلب ،فلسطین میںصہیونی ریاست کا وجوداوروسیع تر تباہی کے ہتھیاروںکااس کے ذریعہ ذخیر ہ کیا جانا،جن میں دوسو ایٹمی بم شامل ہیںاور اس کے اندر اس بات کی صلاحیت کا پایا جاناکہ تقریباَ دس لاکھ کی نفری فوج کو ۷۲ گھنٹے میں الرٹ کرسکتی ہے، عالمی امن کے دھماکے کے لیے ہمہ وقت یقینی خطرہ ہے،جس سے تیسری عالمی جنگ کابھیانک خطرہ ہر جگہ موجود ہے،اس لیے کہ با لیقین کسی نہ کسی آیندہ وقت میںمسلمانوں کے پاس بھی وسیع تر تباہی کے ہتھیار اورطاقت کے ہمہ گیر اسباب ہوں گے،اس لیے اللہ تعالیٰ دنوں کو لوگوں کے درمیان تبدیل کرتا رہتاہے اورحالات کی یکسانیت باقی نہیں رہتی اور یہ بھی یقینی ہے کہ مسلمان فلسطین میں اپنے حق سے کسی بھی حال میں دست بردار نہ ہوں گے اور اس کے قلب کسی ایسی اجنبی ریاست کوہرگز قبول نہ کریں گے جو اُن کی کمزوری کا باعث بن کر ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرتی رہے۔

                وہ اس کے ازالے کی اسی طرح کوشش کرتے رہیں گے،جس طرح انھوں نے اس سے قبل دوسری طاقتوں کے ازالے کی کوشش کی اور بالآخر انھیں کھدیڑ دیایہ جلد ہی وقت آیا چاہتا ہے جب بڑی ظالم طاقتوں کویہ معلوم ہوجائے گاکہ اس ناجائز ریاست کا بیج بوکرانھوں نے کتنابڑا ظلم کیا تھا،جس کی وجہ سے ساری انسانیت موت اورتباہی سے ہم کنار ہونے کو ہے۔اس خطرناک گھڑی کی آمد سے قبل یہ ریاست ٹوٹ کر بکھر جائے،توساری انسانیت کے لیے بڑ ی خوش آیند بات ہوگی۔(۱)

انتفاضۂ ثانیہ کا آغاز:

                جمعرات ۲۸ /ستمبر ۲۰۰۲ء(مطابق۲۷جمادی الاخریٰ۱۴۲۱ھ)سے فلسطینی زمین پر مسجد اقصی کے اندر سے انتفاضہ ثانی (دوسراانتفاضہ)شروع ہوا۔ اِس کی ابتدا اِس طرح ہوئی کہ صہیونیوں کی لیکوڈپارٹی کا زعیم بدباطن ایریل شیرون، تین ہزار اسرائیلی پولیس کی حفاظت میں، مسجدِ اقصیٰ میں زبردستی گھس آیا، اُس کے ساتھ بہت سے صہیونی انتہا پسند اور دہشت گرد بھی تھے۔ فلسطینی نوجوانوں نے کھلے سینوں اور ننگے جسموں سے اسرائیلی پولیس والوں کی گولیوں کا مقابلہ کیا۔ متعدد جوان شہید ہوگئے اور بہت سے زخمی۔اِس کے بعد سارے ارضِ فلسطین، غزہ کی پٹی اور رملہ کے علاقوں میں مزاحمت کی ایسی آگ بھڑک اٹھی کہ صہیونیوں کے بجھائے نہ بجھی۔ اسرائیلی فوجوں نے زبردست تباہی کے نت نئے امریکی ہتھیاروں کے ذریعے فلسطینیوں کا قتل ِعام کیا، ہزاروں کو زخمی اور اپاہچ بنادیا، لاتعداد فلسطینیوں کے گھر ڈھا دیے، سیکڑوں کو گرفتار کرکے اپنے بدترین عقوبت خانے میں ڈال دیا ، سیکڑوں بچوں اور بوڑھوں کو تہ تیغ کردیا؛ لیکن مبارک زمین کے سعادت نصیب جوانوں نے سپرانداز ہونے کے کسی روییّ کو لبیک نہیں کہا۔ فلسطینیوں کے ایک دھڑے کو لالچ، دنیاوی مفادات اور مادی وسائل کی چکاچوند سے خیرہ کرکے خود فلسطینی بچوں، بوڑھوں کے خون کا سودا کرنے اور اُن کی بے لوث قربانیوں کو بے معنی بنا دینے کی کوشش کی گئی؛ لیکن صہیونی اور اُن کے سرپرست امریکی اِس چال میں کامیاب نہ ہوسکے۔

انتفاضۂ ثانیہ کے ہولناک اثرات:

                دوسری تحریکِ انتفاضہ کی ابتدا سے اب تک کے وہ اعدادو شمار بھی، جو خود امریکن ریسرچ سینٹر سے شائع ہوئے ہیں، انسانی برادری کو اگر وہ انسانیت سے عاری نہ ہوئی توان کو چونکا دینے کے لیے کافی ہیں، جو کچھ اِس طرح ہیں:

۱-            ۱۲۱؍یہودی بچوں کے بالمقابل ۷۲۲؍ فلسطینی بچے شہید ہوئے۔

۲-            ۱۰۸۴؍یہودیوں کے بالمقابل ۳۸۷۰؍ فلسطینی مرد وعورت شہید ہوئے۔

۳-            ۷۴۳۳؍ یہودیوں کے بالمقابل ۲۹۷۶۸ ؍فلسطینی زخمی ہوئے۔


                (۱)ڈاکٹر محسن محمد سلیمان صالح:’’فلسطین بلادنا الحبیبۃ‘‘مئوسسۃ الفلاح،قاہرہ مصر،۱۴۲۲ہ؍۲۰۰۱ء

۴-            امریکہ نام نہاد فلسطینی مقتدرہ کو (جو در اصل امریکہ اور اسرائیل کی کارندہ یااُس کے مفادات اور چال  بازی کی اسیر ہے) دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اوراپنی جھینپ مٹانے کے لیے یومیہ ۲۳۳۲۹۰ ؍ڈالر دیتارہا ہے، جب کہ یہودیوں کویومیہ ۱۵۱۳۹۱۷۱؍ڈالر دے رہا ہے۔

۵-            دوسرے انتفاضے کے بعد سے ایک بھی یہودی جیل میں نہیں، جب کہ ۹۴۹۲؍ فلسطینی اسرائیل کی جیل عقوبت خانے میں طرح طرح کی سزائیں جھیل رہے ہیں۔

۶-            انتفاضے کی ابتدا سے اب تک ایک بھی اسرائیلی کا گھر منہدم نہیں ہوا،لیکن فلسطینیوں کے ۴۷۱۰ ؍مکانات مکمل طور پر زمین بوس کردیے گئے۔

۷-            ۲۰۰۳ء تک فلسطینیوںکے لیے ایک بھی نیا مکان تعمیر نہیں ہوا؛لیکن مارچ ۲۰۰۱ء جولائی ۲۰۰۳ء تک ۶۵؍ اسرائیلی آبادیاں بسائی گئیں۔

                یاد رہے کہ یہ اعداد وشمار امریکی ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی تباہی اِس سے کئی گنا زیادہ ہوئی ہے۔

انتفاضۂ ثانیہ اور فلسطینیوں کا جانی ومالی نقصان:

                آزاد ذرائع کے مطابق ستمبر ۲۰۰۰ء میں انتفاضے کے بعد سے اب ستمبر ۲۰۰۷ء تک شہید ہوجانے والے صرف فلسطینی بچوں کی تعداد کم از کم ۲۸۰۰ ہے، جن کی عمریںعموماً ۱۵-۱۶ سال سے کم تھیں، جب کہ زخمی بچوں کی تعداد سیکڑوں ہے۔

                مقبوضہ علاقوں میں یہودی افواج کے ہاتھ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ۳۵۰۰ ؍مسلح جد وجہد میں شہید ہونے والوں کی تعداد ۵۹۳؍ غزہ پٹی میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ۹۰۰۰؍ مغربی کنارے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد تقریباً۱۵۰۰؍ ہے۔

                فلسطینیوں کے مکمل طور پر منہدم کردہ مکانات کی تعمیر تعداد تقریباً ۲۶۰۰ ہے۔

                فلسطینیوں کے علاقے میں مقتدرہ کے دائرے میں آنے والے خطوں میں عام راستوں، شاہ راہوں اور عمارتوں کی تباہی کے خسارے کا تخمینہ ۳۰۰ ملین ڈالر سے زیادہ ہے صہیونیوں کی ظالمانہ کار روائیوں کی وجہ سے ۱۴۰۰۰ سے زیادہ کسان متاثر ہوئے۔ صہیونی افواج نے زیرِ تعمیر نسلی دیوار (جو، جون۲۰۰۲ء مطابق ربیع الاول ۱۴۲۳ھ سے صہیونی ریاست نے فلسطینیوں کوپریشان کرنے اور ان کی مزید زمینوں کو غصب کرنے کے لیے تعمیر شروع کی تھی) کے لیے (۲۰۸۷۰۵۰۰) اسکوائر میٹر زمینیں ہڑپ کرلیں اور (۶۸۷۲۸۰۰۰)اسکوائر میٹر زمینوں سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کردیا ۔

                ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۴ء تک کے عرصے میں ۱۱۴۵۱۴۵؍درخت اکھاڑ دیے، جب کہ ۳۵۰ سے زیادہ کنوؤں کو مکمل طور پر تباہ کردیا، ۱۲۰۰ سے زیادہ حوض اور پانی کے ٹینکس تباہ کردیے، ۱۰۰سے زائد زرعی گوداموں کو ڈھادیا، ۲۵۲۸۵۰۰۰ اسکوائر میٹر کو سیراب کرنے والے سینچائی کے نظاموں کو تباہ کردیا، دسیوں نرسریوں کو اجاڑ دیا، ۱۵؍ سے زیادہ زرعی بلڈوزروںکوتباہ کردیا، ۱۵۰۰۰ سے زیادہ بھیڑ بکریوں کو مار دیا۔ جب کہ (۱۵۰۶۵ شہد کے چھتے برباد کردیے)۔

                صنعتی سیکٹر کی سطح پر ۲۰۰۴ء کے اواخر تک ۹۰۰۷۸ ورک شاپوں اور تجارتی مراکز کویکسرتباہ کردیا گیا، ۳ لاکھ سے زائد لوگ بے کار ہوگئے۔ بے کار لوگوں کا تناسب ۳،۳۳فی صدہوچکاہے اور غربت کی شرح ۶،۶۸ تک پہنچ چکی ہے۔(رسالۃ الاخوان)(فلسطین کسی صلاح الجین کے انتظار میں:ص۶۰تا۸۱)

۲۰۰۷ء سے اب تک کے مظالم کی ایک جھلک :

                صہیونی حکومت نے ۲۰۰۷ء سے غزہ پٹی کا وحشیانہ محاصرہ کررکھا ہے، جس کی وجہ سے اہلِ غزہ کو شدید مسائل کا سامنا ہے ۔ اس دوران مصر کی حکومت بھی گزر گاہ رکو بند کرکے عملی طور پر فلسطینیوں کے خلاف صہیونی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کا ساتھ دیتی آرہی ہے ۔

                غزہ پر صہیونی حکومت کے وحشیانہ نتائج میں خاص طور سے مصر کے ہاتھوں گزرگاہ’’ رفح‘‘ کے بند کرنے ؛نیز غزہ کو مصر سے ملانے والی سرنگوں کی تباہی سے ان مظالم میں شدید شدت آئی ہے ؛بل کہ روز بروز ان میں شدت آتی ہی جارہی ہے ۔ اس مسئلے پر فلسطینی رائے عامہ اور فلسطینی گروہوں نے شدید احتجاج کیا ہے ۔ اس سلسلے میں فلسطین کی وزارت داخلہ نے غزہ کو مصر سے ملانے والی گزر گاہ یعنی گزر گاہ رفح کو فوری کھولے جانے پر تاکید کی ہے تاکہ سیکڑوں بیماروں کی جانیں بچائی جاسکیں ۔

                فلسطینی وزارت داخلہ کے ترجمان ایاد البزم نے غزہ میں کہا کہ گزرگاہ رفح کا کھولا جانا سیکڑوں فلسطینی بیماروں کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے جو کینسر اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔ ایاد البزم نے کہا کہ گزرگاہ رفح گزشتہ آٹھ مہینوں میں محض پندرہ دن کے لیے کھولی گئی تھی جس سے محصور فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔

                واضح رہے کہ مصری حکام گزر گاہ رفح کو دائمی طور پر کھولنے سے انکار کرتے ہوئے عملی طور پر صہیونی حکومت کے مجرمانہ محاصرے بالخصوص غزہ کے شہریوں کے خلاف صہیونی جرائم میں شریک ہوچکے ہیں ۔ ادھر مصر کے فوجی حکام نے فلسطینی عوام کے لیے کہا: جزیرۂ سینا میں دہشت گردوں کی در اندازی کو روکنے کے لیے سرحد پر خندق کھودی جارہی ہے، جس سے غزہ اور مصر کے درمیان ہر طرح کی آمدورفت بند ہوجائے گی ۔

                واضح رہے کہ مصری حکام نے مختلف مواقع پر غزہ محاصرے کے سلسـلے میں صہیونی حکومت کی پالیسیوں کا ساتھ دیا ہے ۔ اس سے قبل بھی مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک بھی فلسطینیوں ؛بالخصوص غزہ کے باشندوں کے خلاف صہیونی حکومت کی پالیسیوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں ۔ حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی یہ پالیسیاں عملی طریقے سے کم و بیش جاری رہیں ۔ انہیں پالیسیوں کے تناظر میں مصر کی فوج نے خاص طور سے صدر مرسی کی معزولی کے بعد مستقل طور پر گزر گاہ رفح کو بند رکھا ہے اور فلسطینیوں کو اس گزر گاہ سے آنے جانے کی ہر گز اجازت نہیں دی ہے ۔                 مصری فوج نے اس کے علاوہ وسیع کار روائیاں کرتے ہوئے غزہ اور مصر کی سرحد پر کئی سرنگوں کو تباہ کردیا ۔ ان سرنگوں سے فلسطینی اپنے لیے غذائی اشیا اور ایندھن لے کر آتے تھے ۔ مصر میں سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی حکومت کے دوران بھی قاہرہ نے واشنگٹن کے تعاون سے غزہ کے ساتھ اپنی سرحد پرفولادی دیوار بنانا شروع کی اور اب عبد الفتاح سیسی کے زمانے میں بھی اس دیوار کی تعمیر کا کام جاری ہے ۔ غزہ پٹی کی سرحد پرفولادی دیوار زمین کے اندر تیس میٹر تک بنائی جارہی ہے اور اس کی لمبائی نو سے دس کلو میٹر ہے ۔ اس دیوار کا اچھا خاصا حصہ بنایا جا چکا ہے ۔یہ دیوار فولاد کے شیٹوں کی ہے ، ہر شیٹ کی لمبائی اٹھارہ میٹر اور ضخامت پچاس سنٹی میٹر ہے۔ مصری حکام نے اس دیوار کی تعمیر شروع کرکے عملی طور سے غزہ کے محاصرے میں مکمل کردار ادا کیا ہے ؛یہاں تک کہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں صہیونی حکومت کی نسل پر ستانہ حائل دیوار اور مصر کی فولادی دیوار میں کسی طرح کا فرق نہیں ہے ۔ یہ ایک دوسرے کو مکمل کرتی ہیں جو فلسطینیوں کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرنے کے لیے تعمیر کی جارہی ہے