ملفوظا ت وستا نوی

عالموں کو عالم کی طرح تدبر وتفکر کے ساتھ قرآن پڑھنا چاہیے:

                فرمایا : صبح سے شام تک ایسے اعمال کرو جو تقرب الی اللہ کا ذریعہ بنے ۔

                فرمایا : قرآن کو تدبر کے ساتھ پڑھا کرو۔ آپ قرآن پڑھ رہے ہوں اورساتھ ساتھ معانی کا استحضار ہو ، جاہلوں کی طرح سر سری نہ پڑھا کرو ، بل کہ جب آپ قرآن پڑھیں تو ایسا معلوم ہوکہ کوئی عالم تلاوت کررہا ہے ، جو تدبر اور غور وفکر کے ساتھ پڑھتا ہے ۔ یوں تو جاہلوں کو قرآن پڑھنے کا فائدہ ضرور ہے ، کیوں کہ رسول ِپاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَا اَقُوْلُ ’’ الم ‘‘حرف وَلٰکِنْ اَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ کہ میں نہیں کہتا کہ ’’ الم ‘‘  ایک حرف ہے، لیکن الف ایک حرف ، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے ۔ چناں چہ تین حرف کا ثواب تیس نیکیاں تو مل ہی جائیںگی ؛لیکن عالموں اور جاہلوں کے پڑھنے میں فرق ہے ۔ (مجلسِ ذکر،۴نومبر؍۱۷ مطابق ۱۲؍صفر المظفر۳۹ھ۔جامع عبد اللہ مظفر پوری)

 محبت ِالٰہی کے لیے اتباعِ نبی شرطِ اول ہے:

                فرمایا : ہاں بھائی قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ } اللہ اکبر! کتنی بڑی بات کہی گئی ہے کہ محبت ِالٰہی کے لیے اتباعِ نبی شرطِ اول ہے ، اس کے بغیر کوئی کام بننے کے نہیں ۔

                اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی بالفاظِ قرآنی اس بات کا اعلان کروایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو مجھ سے محبت کرو۔ اگر تم مجھ سے محبت کروگے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ {یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ }اللہ تم کو اپنا محبوب بنا لے گا ۔

چھوٹی چھوٹی آیتِ قرآنیہ یاد کرلینی چاہیے :

                وَمَا تَشَائُ وْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَائَ اللّٰہُ

                بھائی دوچیزیں ہیں (۱) رب چاہی (۲) من چاہی ۔

                اصل چیز تو رب چاہی ہے جس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی آیتِ قرآنیہ یاد کرلینی چاہیے ۔

                آپ آیت ِقرآنیہ میں غور کیجیے ، تدبر کیجیے اور اپنے ذہن کو قرآنی بنائیے۔ ہربات ، ہرکام میں آپ کا ذہن آیت ِقرآنیہ کی طرف منتقل ہونا چاہیے کہ اس سلسلے میں قرآن کیا کہتا ہے اور اللہ کا کیا حکم ہے ؟

(مجلسِ ذکر۱۹؍۱۱؍۱۷۔محمدمنصار بانکا)

کتاب اللہ سے تعلق کے بغیر کوئی کام نہیں بن سکتا:

                مجلسِ ذکر میں طلبۂ دورۂ حدیث سے فرمایا :  قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ {وَاِذَا اَصاَبَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا ِللّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ }نیز دوسری جگہ فرمایا  {اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ } اوراس طرح کی دیگر آیتیں جنہیں آپ بیانات ودرس میں سنتے ہیں انہیں اپنی کاپی میں نوٹ کریں اوران کا ترجمہ وتفسیر دیکھیں ۔

                طالب علم کو زمانۂ طلبِ علم میں قرآن کریم سے بڑا لگاؤ ہونا چاہیے اور اس طرح کی منتخب کردہ آیات کو یاد کریں ، جب تک تم کتاب اللہ سے اپنا تعلق مضبوطی سے نہیں جوڑو گے ، اس وقت تک تمہارا کوئی کام نہیں بنے گا۔

(مجلسِ ذکر:۲۶؍۲؍۱۴۳۹ھ)

علما اور حفاظ کو قرآنِ پاک کی خوب مشق کرنا چاہیے:

                فرمایا : کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {اِذَا سَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ }

                ترجمہ: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ سے میرے بندے میرے تعلق سے پوچھے کہ میں کہاں ہوں تو آپ فرمادیں کہ میں تو بہت زیادہ قریب ہوں ۔ اور ایک مقام پر فرمایا : {وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ}کہ میں تمہارے شہ رگ سے زیادہ قریب ہو ں ۔

                لہٰذا ان آیات کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مانگنے سے ہے ۔

                لغت بیان کرتے ہوئے فرمایا :  اَجَابَ یُجِیْبُ کے معنی ہے قبول کرنا ۔

{ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِیْ} جب وہ مجھ سے مانگتے ہیں تو میں قبول کرتا ہوں ۔

                پھر دورۂ حدیث کے طلبہ سے متوجہ ہوکر فرمایا : قرآن پاک کی خوب مشق کرنا چاہیے ۔

                حفاظ طلبہ سے مخاطب ہوکر فرمایا : حفاظ طلبہ قرآن پاک کی کثرت سے تلاوت کریں ۔ حافظ طلبہ کو بھی چاہیے کہ وہ بھی مشق کریں ورنہ حافظ قرآن بھی فجر کی نماز نہیں پڑھا سکتا ۔

(مجلسِ ذکر:۲۶؍۱؍۱۴۳۹ھ)