علم نافع و علم ضارّ:
علم پڑھ کر بھی جس میں خشیت نہ پیدا ہو ، اس سے وہ جاہل اچھا ہے ، جس میں خشیت ہو۔ علم کی مثال اس کے نافع اور مضر ہونے میں تلوار کی دھار کی سی ہے اس سے دوست بھی کٹتا ہے اور دشمن بھی کٹتا ہے ۔ اگر تلوار چلانے والا ماہر فن نہ ہو تو کبھی اس سے اپنے ہی کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ اس طرح کہ ہاتھ تو مارا دشمن کے اور وہ خالی گیا اور لوٹ کر اپنے ہی پر پڑ گیا ۔ اسی طرح علم بڑی ہی نازک چیز ہے ، اس میں امن بھی ہے اور خوف بھی ہے ۔ گو غالب امن ہے ، مگر حسن استعمال کی ضرورت ہے۔ اس کو دیکھ لیجیے کہ جتنے گمراہ فرقے بنے ہیں ، یہ لکھے پڑھے اور تعلیم یافتہ ہی لوگوں کی بدولت بنے ہیں ۔ کسی جاہل کا معتقد ہی کون ہوگا ؟ (اضافات الیومیہ ص ۳۵۲)
آج کل کے علما کے کمال کی پرواز:
آج کل جس کوبھی ذرا بولنے کا سلیقہ ہوجائے اور دوچار تقریریں کردے وہی لوگوں کے نزیک عالم اجل اور فاضل بے بدل ، بل کہ علامۂ زماں ہوجاتا ہے خواہ در حقیقت جاہل اور بد دین ہی ہو۔
(الفضل والوصل ص ۴۱۴)
آج کل جہاں کسی نے عربی کی دو چار کتابیں پڑھ لیں ، اسے مولوی کہنے لگتے ہیں ۔ حالاں کہ یہ شخص حقیقت میں مولوی نہیں ۔اصل مولوی وہ ہے جو احکام شریعت اچھی طرح سمجھ کر ان کے مطابق ظاہراً و باطناً عامل ہو ۔ جو اللہ والا ہو اور اللہ والا شریعت سے جاہل نہیں ہوسکتا ۔تو محض عربی کی کتابیں پڑھ لینے یا عربی بول لینے اور لکھ لینے سے یا چرب زبانی اور ذہانت کی باتیں کرلینے اور عر بی کتابوں سے انسان مولوی نہیں ہوسکتا ۔ ( تعمیم التعلیم ص ۲۷)
آج کل بعض لوگوں کو اس کا خبط ہوگیا ہے کہ وہ عربی میں تقریر کرلینے کو بڑا کمال اورفخر سمجھتے ہیں ۔ میں کہا کرتاہوں کہ تم کیسے بھی صاحب علم ہو جاؤ حتی کہ ابو العلم ہوکر بھی ایسی عربی نہیں بول سکتے جیسی ابو جہل بو لا کرتا تھا ۔ اگر عربی میں گفتگو کرلینا ہی علم ہے اور یہ کوئی بڑا کمال ہے تو ابو جہل کو تم سب سے بڑا عالم ( اور باکمال ) ہونا چاہیے۔ حالاں کہ وہ ابو جہل ہی رہا ۔ عربی بول لینے سے اور عربی میں تقریر کرلینے سے وہ ابو العلم تو کیا ابن العلم بھی نہ ہوا ۔ (مطاہر الاقوال ص ۶۶)