ملفوظا تِ وستا نوی

فیضانِ علم کے لیے اکرامِ استاذ ضروری:

            عزیز طلبائے کرام ! جتنا استاذ کا احترام آپ کے دل میں ہوگا ، اتنا ہی آپ کو علم کا فیضان ہوگا۔ فیضان علم بغیر تکریم اوربغیر اعجازِ علم کے نہیں آتا ہے۔

            ہمارے بچوں کو اس کی طرف خوب توجہ دینی چاہیے ۔ایک محدث کا واقعہ ہے کہ وہ سبق پڑھارہے تھے ، تو بار بار وہ کھڑے ہوجاتے اور پھر بیٹھ جاتے ۔ پوچھا کیا ہوا ؟ تو کہا استاذ زادہ کھیل رہا تھا ، کھیلتے کھیلتے میری طرف آرہا تھا ، مجھ کو اچھا نہیں لگا کہ میرے استاذ کا بیٹا میرے سامنے آئے اور میں بیٹھا رہوں ۔ اللہ اکبر ! کتنا احترام تھا ۔ تو اللہ نے ایسے شاگردوں کو محدثِ کبیر اور محدثِ جلیل بنایا ۔ بات چھوٹی ہے ، لیکن اصل میں بڑی ہے ۔’’ من علمنی حرفاً فانا لہ غلام‘‘ جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا میں اس کا غلام ہوں ۔یہ علم ایسی دولت اور ایسی چیزنہیں ہے کہ اس میں لا ابالی پن کیا جائے۔

اپنے اساتذہ کے لیے دعائوں کا اہتمام:

            میری عادت ہے کہ حروف تہجی سے لے کر بخاری تک جتنے میرے اساتذہ ہیں، میں جب کبھی دعا کرتا ہوں تو سب کے لیے کرتا ہوں ۔

            ہمارے طلبہ کے اندر یہ بات مفقود ہے۔ ’’ الف ‘‘،’’ب ‘‘پڑھانے والوں سے اب کیا لینا دینا ! ارے بھائی ! اگر وہ الف، ب نہیں پڑھا تے ،تو آج تم بخاری پڑھنے کے لائق نہ ہوتے ۔

            میں ہمیشہ اپنے تمام اساتذہ کرام کے لیے ایصال ثواب کرتا ہوں ۔ میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں ۔ حرمین شریفین کی حاضری میں اپنے تمام مشائخین ، متقدمین اور متخلفین اساتذہ چھوٹے بڑے سب کے لیے طواف کرتا ہوں ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب ان ہی کا فیض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ جیسی جماعت مجھے دے دی ہے کہ صبح سے رات تک پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہیں ۔

            { ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء }’’ یہ اللہ کا فضل ہے۔ اللہ جسے چاہے اسے اپنا فضل و انعام عطافرماتا ہے۔

ساتھیوں میں آپسی محبت۔فرمایا:  ساتھیوں میں آپس میں محبت ہونی چاہیے ۔ تکرار کرانے والے آپس میں ایک دوسرے کا احترام اور اکرام کریں۔تکرار کرانے والے ساتھی کی آپ کے دل میں عظمت آنی چاہیے کہ یہ ہمارا ساتھی ہے ،جو استاذ کی بات کو ہمارے سامنے دہرا رہا ہے ،اس کا بھی ہم پر احسان ہے۔ ’’من لم یشکر الناس لم یشکراللہ ‘‘ جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیںکرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو شکر کرنے والا بندہ بہت پسند ہے۔ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِکَ الشَّاکِرِیْنَ‘‘ اے اللہ ! ہمیںتو شکر گزار بندوں میں سے بنا ۔

            ناشکری اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے ۔قرآن کہتا ہے : {لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ }اگر تم میری نعمت کی شکر گزاری کروگے تو میں اس نعمت میں اضافہ کروںگا ۔ اور اگر تم نے میری نعمتوں کی ناشکری کی تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔

            تو بچو! شکر گزار بنو ۔ قرآن کہتا ہے : {ہَلْ جَزَائُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَانُ }احسان کا بدلہ احسان ہی ہے، کسی نے تمہارے ساتھ حسن سلوک کیا ، اس کا بھی آپ کے دل میں احترام آنا چاہیے ۔احسان کرنے والے کے احسان کو مت بھولو۔

            میرے بچو! آپ اپنے آپ کو شکر گزار اوررونے والا بناؤ۔ اللہ کے سامنے رونے والا بندہ اللہ کو بہت پسند ہے، جو جتنا زیادہ روئے گا وہ اللہ کا اُتناہی مقرب بنے گا ۔قرآن کہتا ہے کہ ہنسو کم روؤ زیادہ ۔ : {فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلاً وَّ لْیَبْکُوْا کَثِیْراً }جس طالب علم کو زمانۂ طالب علمی میں رونا نصیب ہوگیا ،واللہ ! اس کو خیر کثیر مل گیا ۔

معصیتوں اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچاؤ:فرمایا: معصیتوںاور گناہوں سے اپنے آپ کو بچاؤ۔معصیتوں سے جو طالب علم اپنے آپ کو بچالے گا وہ اللہ کا مقرب بندہ بنے گا ۔

            ہماری نماز نہ جاوے ، سنت نہ جاوے اور نفل نہ جاوے۔ ایسے پاکیزہ ماحول میں رہنے کے بعد بھی اگر کوئی آدمی نمازوں کو چھوڑ دے ! سنتوں کو چھوڑ دے ! اورنوافل کو چھوڑ دے! پھر کیا فائدہ ہو ا؟طالب علم کو نماز کا پابند ہونا چاہیے۔ طالب علم کو آہ وزاری کرنے والا ہونا چاہیے۔

            میں نے اپنے بزرگوں کو روتے ہوئے دیکھا ۔ اللہ اکبر! جن کی آنکھیں ہمیشہ آنسوؤں سے تر رہا کرتی تھیں۔ حضرت باندویؒ ، حضرت ناظم صاحب ؒ ، حضرت شیخ زکریاؒ ، حضرت مفتی محمود صاحب ؒ اور میرے دیگراساتذہ بھی ۔ وہ ایسے تھے کہ ان کی نگاہوں کے آنسوؤں سے ہماری آنکھیں بھی تر ہوجایا کرتی تھیں۔