مسلمانوں کو اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں کا جواب قرآن و حدیث اور شریعت پر عمل کر کے دینا یہ صحیح طرز عمل ہے ۔
غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں کہ داڑھی مسلمانوں کے لیے ضروری نہیں ہے؛ کیوں کہ مسلمانوں کی اکثریت داڑھی نہیں رکھتی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ حجاب بھی مسلمان خواتین کیلئے ضروری نہیں؛ کیوں کہ اکثر خواتین حجاب نہیں پہنتیں۔
ممکن ہے کل ہو کر یہ بھی کہا جائے کہ نماز بھی ضروری نہیں کیوں کہ اکثر مسلمان نماز نہیں پڑھتے۔
پھر قرآن کی باری آئے گی کہ قرآن بھی ضروری نہیں؛ کیوں کہ اکثر مسلمان قرآن نہیں پڑھتے۔
کمی اور خرابی کہاں ہے ،اسے بتانے کی ضرورت نہیں، ہماری بے عملی نے انہیں ہمارے خلاف جرأت عطا کیا ہے، اور انہیں ہمارے اوپر مسلط کیا ہے۔
حقیقی بات یہ ہے کہ غیر مسلم خود سے کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں ؛بلکہ ہم اپنی بے عمل زندگی سے انہیں سمجھا رہے ہیں کہ ہمارے لیے اسلامی تعلیمات و احکام اتنے ضروری نہیں، یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی آزادی چھن رہی ہے، کیوں کہ جب آزادی تھی تو ہم نے عمل نہیں کیا، اور اب جب آزادی چھن رہی ہے تو ہم بلبلا رہے ہیں۔
جو اپنی شناخت اور پہچان کی حفاظت کرتا ہے اسی کی پہچان باقی رہتی ہے، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلامی شناخت کی حفاظت اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ہی کی جا سکتی ہے، کورٹ، کچہری میں کیس لڑ کر نہیں۔
مسلمانوں کی نصرت و مدد کثرتِ عدد، اسلحہ اور شور شرابہ سے نہیں ہوتی، بلکہ ایمان اور عمل ِصالح کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
اللہ رب العالمین نے فرمایا: ((ان تنصروا اللہ ینصرکم))
اگر تم اللہ رب العالمین کی مدد کروگے (یعنی اس کے دین پر عمل کروگے) تب اللہ تمہاری مدد کریگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إحفظ اللہ یحفظک))
تم شریعتِ الہی کی حفاظت کرو تو اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔
آج کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہیں آیا مگر قرآن و حدیث کا فیصلہ ہمارے حق میں کیا ہے؟
((وأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین))
اگر ایمان و عمل صالح ہمہ وقت تمہارا نصب العین ہے، تو پھر ہر حال میں سر بلندی تمہیں ہی ملے گی۔
غیروں کے اعتراض کا جواب ہمیں کتاب وسنت پر عمل کرکے دینا چاہئے، اور عمل کرنے کیلئے ہمیں کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کرنی ہوگی، کتاب وسنت سے دوری اور بے عملی ہی الحاد کے نت نئے طریقے متعارف کرواتی ہے۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ اللہ رب العالمین کی مدد حاصل کرنے کیلئے اللہ والا بننا پڑے گا، اس کی بات ماننی پڑے گی، تبھی ہم اپنی کھوئی عزت و وقار بحال کر سکتے ہیں، اللہ رب العالمین نے فرمایا:
((من کان یرید العزة فللہ العزة جمیعا))۔((وتعز من تشاء وتذل من تشاء)).
((أیبتغون عندہم العزة فإن العزة للہ جمیعا)).
مذکورہ آیتوں کے مفہوم کا خلاصہ یہی ہے کہ عزت کا مالک اللہ رب العالمین ہے۔جو اپنے رب کی، نبی کی، قرآن کی، حدیث کی عزت کرے گا اور شریعت پر عمل پیرا رہے گا، اسے ہی عزت نصیب ہوگی، ورنہ اللہ رب العالمین بے نیاز ہے، پوری دنیا بھی کفر اختیار کرلے تو رب کی عظمت و کبریائی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آ سکتا۔
اس لئے علما ئے کرام کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو صحیح عقیدہ سے روشناس کرائیں، کتاب وسنت پر عمل کرنے کی دعوت دیں، لوگوں کو اللہ سے، اللہ کے گھر سے، اللہ کی کتاب سے، نبی سے اور نبی کی سنتوں سے جوڑیں تاکہ سرخروئی حاصل ہو، اور اللہ کی مدد نازل ہو۔
نہ کہیں جہاں میں اماں مِلی، جو اماں مِلی تو کہاں مِلی
مرے جُرمِ خانہٴ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
بیماری ”بے عملی” ہے، اور اس کا علاج ”کتاب وسنت پر عمل” کرنا ہے۔