مولانا صادق صاحب تونڈا پوری /استاذ جامعہ اکل کوا
رمضان المبارک نزول قرآن کامہینہ ہے ۔اس مہینہ کاتعارف کراتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں؛ لہذا اب سے جوشخص اس مہینہ کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ (البقرۃ:۱۸۵)
رمضان المبارک کی فضیلت کے دو بڑے اسباب ہیں :ایک تو یہ کہ یہ ماہِ صیام ہے ،اس ماہ میں روزے رکھنا سارے مسلمانوں پر فرض ہے۔رمضان المبارک کی فضیلت کا دوسرا سبب اللہ تعالی نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔اسی مبارک مہینہ میں قرآنِ کریم نازل ہوا‘ یعنی انسانی زندگی کے لیے الہی دستور اور انسانی عمل کے لئے ربانی منشور اسی مہینہ میں عطا کیا گیا۔قرآن پاک کے نازل ہونے کی صراحت دو اور مقامات پر کی گئی ہے۔ چنانچہ سورۃ الدخان میں ہے:’’ قسم ہے اس کتابِ مبین کی ہم نے اسے ایک بڑی برکت والی رات میں نازل کیا ہے‘تیسری جگہ سورۃ القدر میں فرمایا گیا: ’’ ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیاہے ۔ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔(القدر ۱۔۲) یہ تینوں آیات قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتدا اور تاریخ کو بیان کرتی ہیںاور بتاتی ہیں کہ قرآنِ کریم ماہِ رمضان میں نازل ہوا ۔ قرآن رمضان کی بابرکت راتوں میں نازل ہوا اور وہ بابرکت رات لیلۃ القدر ہے۔ مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر شب قدر میں نازل ہوا۔ اور وہاں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ پر جبرئیل امین کے ذریعہ اسی رات میں نازل ہوا ؛چنانچہ رمضان کو قرآن کریم سے گہری مناسبت اور اٹوٹ رشتہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
الصیام والقرآن یشفعان للعبد (مسنداحمد ۲؍۱۷۲)’’روزہ اور قرآن دونوں قیامت کے دن مومن بندہ کی سفارش کریں گے‘‘۔
رمضان صرف نزولِ قرآن کا مہینہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کی حفاظت واشاعت کا بھی مہینہ ہے۔رمضان کے مہینہ میں ہر سال جبرئیل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے اور قرآن کریم کا دور کرتے ،جس سال رسول پاک کا وصال ہوا اس سال تو جبرئیل امین نے دو مرتبہ قرآنِ پاک کا دور کیا ؛اسی سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھ لیاکہ اب اللہ پاک ان کو اٹھا لے گا ۔
بخاری ‘ فضائل القرآن ‘ باب کا ن جبرئیل یعرض القرآن علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔رمضان المبارک میں رسولِ پاک اور جبرئیل امین کا مذاکرہ امت مسلمہ کے لئے تراویح میں قرآن پاک کا سننااور سنانا دراصل اسی سنت کی یاد تازہ کرتا ہے۔
تراویح کی شرعی حیثیت اور فضائل۔
شرعی حیثیت ۔نماز تراویح سنت علی العین ہے یعنی ہر شخص پر اس کی ذاتی حیثیت سے اس کا ادا کرنا سنت ہے ،اس کے ترک پر وہ تارک سنت شمار ہو گا۔
فضائل۔
تراویح ایک بہترین عبادت :
یوں تو رمضان المبارک کو اللہ تعالی نے ایسا بنایا ہے کہ اس کا ہر ہر لمحہ رحمتوں کا لمحہ ہے ‘ برکات کا لمحہ ہے، لیکن رمضان المبارک میں جو خصوصی عبادتیں مشروع فرمائیں، ان میں یہ تراویح کی عبادت ایک عجیب وغریب شان رکھتی ہے ۔ عام دنوں کے مقابلے میں ان ایام کے اندر یہ نماز جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت قرار دی ہے ۔ حدیث شریف میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان اللہ فرض صیام رمضان وسننت لکم قیامہ (نسائی)
یعنی اللہ تعالی نے تمہارے لیے رمضان کے دنوں میں روزے فرض کیے اور میں نے تمہارے لیے رمضان کی راتوں میں کھڑے ہوکر عبادت کرنے کو سنت قرار دیا۔ یہ سنت ایسی ہے کہ اس کے نتیجے میں اور دنوں کے مقابلے میں بیس رکعتیں زیادہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے اور بیس رکعتوں کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحب ِایمان کو روزانہ چالیس سجدے زیادہ کرنے کی توفیق حاصل ہو رہی ہے ۔ اور یہ سجدہ ایک عظیم نعمت ہے۔
تراویح کی ایک بڑی فضیلت :
حدیث پاک میں تراویح کی بڑی فضیلت آئی ہے، اس کو سوچنے سے بوجھ ختم ہوجاتاہے۔حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی ایماندار بندہ رمضان کی راتوں میں سے کسی رات میں نماز(مراد تراویح ہے)پڑھے تو اللہ تعالی ہرسجدہ کے عوض ڈیڑھ ہزار نیکیاں لکھتا ہے‘ اور اس کے لیے جنت میں ایک گھر سرخ یاقوت سے بناتا ہے ‘ جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے ‘ ان میں سے ہر دروازے کے متعلق ایک محل سونے کا ہوگا جو سرخ یاقوت سے آراستہ ہو گا ۔رواہ البیہقی۔( حیات المسلمین ‘ ص :۱۰۹)
تراویح میں قرآن پڑھنے اور سننے کا ثواب:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص ایک حرف کتاب اللہ کا پڑھے اس کے لیے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے ۔ اور ایک نیکی کا اجر دس نیکی کے برابر ملتا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سارا ’’الم‘‘ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف لام ایک حرف میم ایک حرف ؛پھر یہ بھی منقول ہے کہ رمضان المبارک میں ہر عملِ خیر کا ثواب ستر(۷۰) گنا زیادہ ہے ۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ تراویح میں مکمل قرآن پاک پڑھنے یا سننے پر کس قدر ثواب ہوگا۔
نمازِ تراویح میں قرآن پاک کی تلاوت کیسے کریں:
چوں کہ ہمارے زمانہ میں عام طور پر تراویح میں تلاوت ِقرآن کو تیزی کے ساتھ پڑھنے کا مزاج بنتا جارہا ہے ‘ جس میں نماز خراب ہوتی ہے۔ نیز عام طور پر لوگ ایسے امام کے پیچھے تراویح پڑھنا پسند کرتے ہیں‘ جو قرآنِ پاک بہت تیزی کے ساتھ پڑھتا ہو ‘ اگر چہ جلدی کی وجہ سے کچھ حروف کٹ جاتے ہوں (جو کھلی ہوئی غلطی )ہے ۔
اس لیے اس بات کی طرف توجہ اور اصلاح کی خاطر یہ چند سطور ترتیب دی گئی ۔چنانچہ اوّلا قرآن کریم کو صحت وتجوید اور تحسین وخوش لہجگی کے ساتھ تلاوت کی اہمیت وفضیلت پر چند روایات پیش کی جاتی ہے ؛تاکہ قرآنِ کریم کو تجوید وصحت کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت کا اندازہ لگایا جاسکے۔
صحت وتجوید کے ساتھ تلاوتِ قرآن کا وجوب وثبوت قرآن وسنت اجماع وقیاس نیز فقہ واقوالِ علما سبھی سے ثابت ہے، ہم یہاں مشت ِ نمونہ ا ز خروارے کے طور پر چند آیات واحادیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔
(۱) الذین آتینہم الکتاب یتلونہ حق تلاوتہ (البقرۃ پ۱؍ع ۱۴)اس جگہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حق تلاوت تین قسم پر ہے ۔
(۱) لفظی حق (۲)معنوی حق (۳)عملی حق۔یہاں ہماری گفتگو کا تعلق لفظی حق سے ہے۔ اما م غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حق تلاوت یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن میں زبان وعقل اور دل تینوں شریک ہوں؛ پس زبان کا حصہ حروف کی تصحیح ‘ عقل کا حصہ معانی ومطالب کی تفسیر‘اور دل کا حصہ عمل اور اطاعت ونصیحت پذیری ہے ۔
( ۲)دوسری آیت کریمہ جو تجوید وصحت کے ساتھ تلاوت کو واجب کرتی ہے۔ ’’ ورتل القرآن ترتیلا‘‘ ہے مفسر بیضاوی فرماتے ہیں: ای جو د القرآن تجویدا یعنی قرآن کو تجوید وصحت کے ساتھ پڑھو ۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ترتیل کی تفسیر دو چیزوں سے فرمائی ہے ۔
یعنی ترتیل نام ہے حروف کو تجوید سے ادا کرنے اور وقف وابتدا کے محل وطریقہ کو پہچاننے کا ۔
معلوم ہو اکہ اس آیت پر مکمل عمل کرنے کے لیے دونوں باتیںضروری ہیں ۔قرآنی نصوص کے علاوہ بکثرت احادیث رسول میں بھی تجوید وصحت کے ساتھ تلاوت قرآن کے ضروری ہونے پر تاکید اور ترغیب وارد ہوئی ہے۔چند احادیث پیش خدمت ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :(۱) ان اللہ یحب ان یقرء القرآن کما انزل ۔اللہ تعالی پسند فرماتے ہیں کہ قرآن کو نازل شدہ طریقہ پر پڑھا جائے اور یہ امر مسلم ومدلل ہے کہ قرآنِ کریم کا نزول تجوید یعنی مخارج وصفات کے ساتھ ہوا ہے۔جس کی تفصیل کتب تجوید میں موجود ہے۔(۲)صاحب نہایت القول المفید ایک روایت صحیحہ نقل فرماتے ہیں: وصح أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمی قارئ القرآن بغیر التجوید فاسقا؛ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : رب قارئ للقرآن والقرآن یلعنہ ۔ کہ بہت سے قرآن پڑہنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔اسی لئے حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ فضائل قرآن میں فرماتے ہیں کہ: تالی قرآن شریف میں پڑھتا ہے ألا لعنۃ اللہ علی الظالمین ۔ اسی طرح الا لعنۃ اللہ علی الکاذبین اور لعنت کا مستحق ہوتا ہے، اس لیے کہ جس طرح دیگر اعمال کا اجر وثواب ان کی صحت پر موقوف ہے، تلاوت قرآن کریم کا اجروثواب بھی صحت الفاظ وتجوید پر موقوف ہے ۔
دیکھیے حدیث مذکور میں اجر وثواب تو دور رہا بلکہ بدون تجوید تلاوت کو فسق اور موجب لعنت قرار دیا گیا ہے۔
تجوید وصحت کے ساتھ تلاوتِ قرآن ضروری ہونے کے علاوہ یہ امر بھی مستحسن اور مطلوب ہے کہ قرآنِ کریم کو تحسین صوت اور خوش آوازی سے تلاوت کیا جائے۔ خوش الحانی و خوش گلوئی فطری اور مرعوب شئ ہے جس کی طرف کان خود ہی کھینچتے ہیں ؛ جبکہ اس کے خلاف تلاوت سے بیدار شخص بار محسوس کرتا ہے؛ بل کہ یوں کہدیا جائے تو بیجا نہ ہوگاکہ بغیر تجوید وتحسین تلاوت کرنا گویا قرآنِ کریم کامثلہ کرنے کے مرادف ہے۔
چوں کہ اسلام دین فطرت ہے تو اس نے فطرتِ انسانی کا لحاظ کرتے ہوئے تحسین صوت کا مصرف قرآن کریم کو بتلاکر اس کو مطلوب شرعی قرار دیا۔چناںچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ امت کو حسن صوت کے ساتھ قرآن کی تلاوت کا حکم فرمایا۔زینوا القرآن بأصواتکم ۔(رواہ ابوداؤد)قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے مزین کرو۔
اور اس پر مزید تشویق کے لیے آپ نے خبر دی ۔ عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ أنہ سمع رسول اللہ صلی اللہ وسلم یقول ماأذن اللہ لشئ ماأذن لنبی حسن الصوت یتغنی بالقرآن یجھر بہ ۔(رواہ مسلم)یعنی اللہ تعالی حسن صوت سے اپنا کلام پڑھنے والی نبی کی تلاوت کو، جس قدر متوجہ ہوکر سنتے ہیں اتنی توجہ سے اور کسی چیز کو نہیں سنتے ۔
اور کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترہیبی پہلو اختیار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ لیس منا من لم یتغن بالقرآن ۔‘‘ (بخاری شریف ص ۱۱۲۳)ان کے علاوہ بھی بہت ساری روایات مروی ہیں؛جن کو حضرت قاری صدیق صاحب سانسرودی استاذ فلاح دارین ترکیسر گجرات نے ایک رسالہ ’’قرآن کریم اور خوش الحانی ‘‘ میں جمع کردیا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ مذکورہ آیاتِ قرآنیہ اور فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ تلاوتِ قرآن میں صحت وتجوید کا پاس ولحاظ بے حدضروری اور تحسین تزئین صوت کی سعی وکوشش امر مستحسن ومطلوب شرعی ہے۔
تلاوت قرآن کے درجات ومراتب :
پھر یہ بھی یاد رہے کہ عامۃً باعتبار رفتار ، قرآن کریم کی تلاوت کے تین صحیح مراتب ودرجات مشہور اور رائج ہیں:(۱)ترتیل(۲)تدویر(۳) حدر۔
ترتیل :نہایت اطمینان کے ساتھ پڑھنا۔حدر :جلدی جلدی پڑھنا۔تدویر: دونوں کی درمیانی رفتار سے پڑھنا۔
قاضی ابو الولید طرطوسی لکھتے ہیں کہ تینوں طریقوں میں سے ہر شخص کے لیے وہی طریقہ مستحب ہے، جو اس کے لیے سھل اورآسان ہو؛ لہذا جس انداز سے چاہے تلاوت کرے مگر بہرحال رعایت تجوید ضروری ہے ۔
ہمارے ماحول میں عموماً جلسوں میں ترتیلا پڑھاجاتا ہے، تو فرض نمازوں میں تدویراً اور تراویح میں حدراً پڑھاجاتا ہے۔
تراویح میں عجلت فی التلاوۃ کا مرض:
لیکن جیسا کہ یہ مرض عام ہو گیا ہے، جب کسی مجمع میں ترتیلاً تلاوت ہو تو اصولِ تجوید کی اس قدر پابندی کہ فنی باریکیوں تک کا خیال رکھا جاتا ہے اور تراویح میں حدراً تلاوت کا حال یہ ہوتا ہے کہ خود بھی مستحق لعنت اور سامع کو بھی شریک لعنت کرتے ہیں ۔ بہت سے حفاظ رمضان المبارک کی تراویح میں اس قدر تیزی اور رفتار کے ساتھ پڑہتے ہیںکہ نہ مخارج کی ادائیگی کی صحت کا لحاظ ہوتا ہے اور نہ پڑھاجارہا قرآن مصلیوں کے کچھ پلے پڑتا ہے؛اگر کوئی سلیم الطبع عربی المذاق سن لے تو اسے دل کا دورہ ہی پڑجائے۔
بعض حضرات نے حفاظِ تراویح کی تلاوت کی منظر کشی اس طرح کی ہے:فراٹے کے ساتھ تیز دوڑتی اور پھسلتی زبان ‘ شتابدی ٹرین سے تیز ‘راجدھانی سے بھی آگے ‘ہوائی جہاز کی رفتا ر کا مقابلہ کرنے والی زبان ‘کیا پڑھ رہی ہے پتہ نہیں؟ مگر پڑھے جارہی ہے ‘ بہت غور سے سننے کے بعد یا کبھی رفتار کم ہو تو لگتا ہے کہ ہاں حافظ صاحب قرآنی آیات کی تلاوت فرمارہے ہیں ؛اس پرطرہ یہ کہ لوگ ایسے ہی حافظ کو بہتر سمجھتے ہیں ،جو بہت جلد قرآن ختم کردے ۔اس طرح’’ قرآن ‘‘قرآن کے ادب کے منافی جو بجائے ثواب کے سببِ معصیت اور گناہ بن جاتا ہے۔ درمختار میں ہے۔ترجمہ:قرآن میں منکرات سے بچے! یعنی جلدی پڑھنے سے ’اعوذ باللہ ‘ بسم اللہ اور اطمینان کے چھوڑنے سے ۔(زکریا :۲؍۴۹۹)
ایک صاحب کی جناتی تراویح کاواقعہ:
ہمارے رفیق تدریس جناب مفتی عبدالمتین صاحب ،استاد جامعہ اکل کوا نے ایک عینی اور حقیقی واقعہ سنایا کہ ۔میں جس شہر میں تراویح سناتا ہوں اسی میں پاس کی ایک مسجدمیں ایک صاحب تراویح سناتے ہیں۔موصوف کی عجلت فی التلاوۃ اور تیز رفتاری کایہ عالم کہ ایک تراویح میں صرف ۴۵؍ منٹ میں پانچ پارے پڑھ لیے۔اور بعدتراویح فخریہ کہنے لگے آج ہم نے پانچ پارے تلاوت کرلیے ہیں۔ بعض نوجوانوں کے پوچھنے پر کہ آپ نے اتنے کم وقت میں کیسے پڑھ لیا تو موصوف کا جواب تھا کہ اصل میں تراویح میں ایک جن میرا معاون ہے۔ نعوذبا اللہ من ذالک۔اس طرح عجلت اور تیزرفتاری کے بے شمار واقعات ہیں۔
ذرا اندازہ لگائیں:
کہ جن حفاظ کو ایک نمازِ تراویح میں اگر پانچ پارے پڑھنے ہوتو اس کو کتنا وقت درکار ہوگا ؛فرض کریں پانچ پارے درمیانی رفتار سے پڑھے جائیں، تو اس کے ۱۰۰ منٹ مطلوب ہیں ۔ یعنی کم وبیش تین گھنٹے اگر کوئی ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں تراویح مع وتر وغیرہ سے فارغ ہو کر باہر نظر آئے، تو اندازہ لگائیں پڑھنے والے نے کیا پڑھا ہوگا۔
پھر بہت افسوس اور حیرت ہو تی ہے، جب لوگوں کو بھی اس طرح قرآن جلد سننے کے بعدفخریہ اس موضوع پر بات کرتے ہو ئے دیکھا جاتا ہے۔وہ اپنے حافظ صاحب کی تعریفوںکے پل پے پل باندھے چلے جاتے اور فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ واہ حافظ صاحب کتنی فاسٹ (تیز) تراویح پڑھایا ‘ کتنی جلدی ہم کو فارغ کردیااور آج تو تین پاروں کے بجائے پانچ پارے پڑھادیے اور ٹائم بھی زیادہ نہیں لگا۔
لیکن ایسے تیز رفتار حفاظ اور عجلت پسند مقتدیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کئی قرآنی آیات اور روایا ت میں آہستہ ‘ ٹھہر کر اور اس کے اسرار ورموز کی طرف توجہ دے کر قرآن ِکریم پڑھنے اور سننے کی تاکید ملتی ہے ،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہریاد کرنے کے لئے قرآن کو جلدی جلدی پڑھنا چاہا ،تو اللہ تعالی نے اس سے بھی منع فرمادیا’’ لا تحر ک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرآنہ فاذا قرء ناہ فاتبع قرآنہ، ثم ان علینا بیانہ۔
خود سوچیے! جس بابرکت ہستی پر قرآن نازل ہوا جب اسے بھی مصلحتا قرآن جلد جلد پڑھنے کی اجازت نہیں تو پھر عام انسانوں کو قرآنِ کریم کی توہین کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے ؟!
اسی طرح قرآن کریم جیساکہ معلوم ہے کہ براہ راست خالق کائنات کا اپنا کلام ہے، جو اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بتدریج وقفہ وقفہ سے نازل ہو ا۔ غور کریں کہ جب اللہ تعالی نے اپنے کلام کے ساتھ تیزی اور عجلت اختیار نہیں فرمائی، تو ہم کون ہیں اس کے کلام کے ساتھ تیزی عجلت اور جلدبازی اختیار کرنے والے۔
ستم بالائے ستم:
پھر ستم بالائے ستم یہ کہ بعض امام ِتراویح، صرف تلاوت ہی نہیں بلکہ پوری نماز ِتراویح قیام سے سلام تک شدید عجلت اور سرعت کے ساتھ مکمل کردیتے ہیںکہ مصلیان کرام رکوع وسجود سے ہی عاجز ہوجاتے ہیں۔ مصلی رکوع میں جارہا ہے تب امام صاحب کھڑے ہوجاتے ہیں اور سجدے میں جاتا ہے تب تک سجدے سے قعدہ میں چلے جاتے ہیں ‘ اور مصلی قعدہ میں بیٹھتا ہے تب تک امام صاحب سلام پھیردیتے ‘گویا’’ تو چل میں آیا‘‘والا واقعہ ہو رہاہے۔
تراویح کو تیز پڑھنے میں ۱۸۰ گنا ہ کا ارتکاب :
ایک سواسّی (۱۸۰) گناہ کی تفصیل یہ ہے کہ جس نے تراویح اس طور پر پڑھی کہ قومہ چھوڑدیا یعنی رکوع سے سیدھا کھڑانہ ہوا تو اس نے ہر رکعت میں دو واجب چھوڑے ‘ایک واجب تو رکوع سے سیدھا کھڑا ہونے میں (جس کو قومہ کہتے ہیں)او ردوسرا واجب ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار سیدھا کھڑا رہنا(جس کو طمانینت کہتے ہیں)لہذا بیس رکعتوں میں چالیس واجب چھوڑے۔
اسی طرح تیز پڑھنے کی وجہ سے عام طور پر جلسہ بھی چھوڑدیا جا تا ہے ‘ یعنی دو سجدوں کے بیچ میں سیدھے بیٹھتے نہیں ‘ اس میں بھی ہر رکعت میں دو واجب چھوٹتے ہیں ‘ ایک واجب تو دو سجدوں کے بیچ میں سیدھا بیٹھے رہنا ‘ (جس کو طمانینت کہتے ہیں )لہذا بیس رکعتوں میں یہ دوسرے چالیس واجب چھوڑے کل اسّی (۸۰)واجبات چھوڑے۔پھر ان واجبات کو سب کے سامنے چھوڑنا مستقل گناہ ہے ( جس کو اظہارِ معصیت کہتے ہیں)؛لہذا سب کو ملاکر کل ایک سو ساٹھ گناہ ہوئے۔یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ قومہ اور ان دونوں کو اطمینان سے ادا کرنا (جس کی مقدار ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے برابر ہے ) امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک صحیح قول کے مطابق یہ چاروں چیزیں واجب ہیں ‘ ان کو چھوڑنے سے نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہوتا ہے او رچوں کہ عام طور پر اس نماز کو لوٹاتے بھی نہیں ‘ لہذا اس نماز کو نہ لوٹانے کا گناہ بھی ہوتا ہے ‘ یہ بیس گناہ اور ہوئے کل ایک سو اسّی (۱۸۰)گناہ ہوئے۔
تراویح کو تیز پڑھنے سے ایک سوساٹھ مکروہ کا ارتکاب:
جلد بازی کی وجہ سے جو شخص قومہ یا اس کے اطمینان کو چھوڑدیگا تو’’ سمع اللہ لمن حمدہ ‘‘ کا کچھ حصہ (سجدہ کی طرف)جھکتے ہوئے کہے گا (جو بے موقع ہو نے کی وجہ سے مکروہ ہے)اور پہلے سجدہ میں جانے کی تکبیر کا کچھ حصہ سجدہ میں پہنچنے کے بعد ادا کرے گا اور یہ بھی بے موقع ہو نے کی وجہ سے مکروہ ہے۔ اس طرح ہر رکعت میں دو (۲) مکروہ ہوئے اور بیس رکعتوں میں چالیس مکروہ ہوئے؛اسی طرح جلد بازی کی وجہ سے جو شخص جلسہ یا اس کا اطمینان ( ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے برابر ہے )چھوڑدے گا ،تو پہلے سجدہ سے اٹھنے کی تکبیر کا کچھ حصہ دوسرے سجدے کی طرف جھکتے ہوئے کہے گا ۔(جو بے موقع ہو نے کی وجہ سے مکروہ ہے)او ر دوسرے سجدے میں جانے کی تکبیر کا کچھ حصہ سجدہ میں پہنچنے کے بعد ادا کریگا (اور یہ بھی بے موقع ہو نے کی وجہ سے مکروہ ہے)تو اس طرح ہر رکعت میں دوسرے دو (۲) مکروہ ہوئے؛ لہذا بیس رکعتوں میں چالیس مکروہات جلسہ میں بھی ہوئے اورکُل اَسیّ (۸۰)مکروہ ہوئے ۔پھر ان مکروہات کو سب کے سامنے علانیہ طور پر کرنا مستقل گنا ہ ہے، جوان اسّی مکروہات میں ملاہوا ہے ‘ (جس کو اظہار معصیت کہتے ہیں)لہذا سب مل کر ایک سو ساٹھ مکروہات ہوگئے۔
تراویح کو تیز پڑھنے سے اسی(۸۰) سنتوں کا ترک :
جو شخص جلدبازی کی وجہ سے قومہ یا اس اطمنان (ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے برابر)چھوڑدے گا، تو اس سے ہر رکعت میں دو سنتیں چھوٹے گیں‘ ایک سنت ’سمع اللہ لمن حمدہ‘ کو سیدھے کھڑے ہو نے تک پوری کرلینا (یعنی اس کا کچھ حصہ سجدہ کی طرف جھکتے ہوئے نہ ادا کرنا)اور دوسری سنت سجدہ کی تکبیر کو سجدہ میں پہنچنے کے ساتھ پوری کردینا(یعنی سجدہ میں پہچنے کے بعد تکبیر کا کوئی حصہ نہ ادا کرنا)؛لہذا جب ہر رکعت میں دو سنتیں چھوڑی، تو بیس رکعتوں میں چالیس سنتیں چھوڑی۔
اسی طرح جلد بازی کی بنا پر جلسہ یا اس کا اطمنان چھوڑدینے کی وجہ سے بھی پہلے سجدہ سے اٹھنے کی تکبیر کا سنت موقع چھوٹ جاتا ہے؛ اسی طرح دوسرے سجدے میں جانے کی تکبیر کا سنت موقع بھی اس سے چھوٹ جاتا ہے۔ہر جلسہ میں یہ دونوں سنتیں چھوڑتا ہے ‘ جس سے بیس رکعتوں میں چالیس سنتیں او ر چھوٹتی ہیں۔اور یہ قومہ کی سنتیں ملاکراسّی (۸۰)سنتیں چھوٹتی ہیں۔
(مجالس الابرار:ص۱۹۱‘ فتاوی رحیمیہ ۵ ص: ۱۴۲)
قارئین کرام ۔غو ر فرمائیں کہ جو لوگ رمضان مبارک کی راتوں میں سے ہررات میں فقط تراویح میں ایک سو اسی (۱۸۰) گنا ہ کرتے ہیں اور ایک سوساٹھ (۱۶۰) مکروہ کام کرتے ہیں او ر اسی(۸۰) سنتیں چھوڑتے ہیں ‘ وہ اپنا کتنا بڑا نقصان کرتے ہیں کیا ان کو اپنے کریم آقا کے سامنے اطمنان کے ساتھ ‘ ادب کے ساتھ کھڑا رہنا پسند نہیں ؟ جبکہ اپنے دوستوں کے ساتھ دنیا بھر کی باتوں میں اطمینان سے کھڑے رہتے ہیں اور وہ بھی بڑے ذوق وشوق کے ساتھ جی لگاکر ، مزے لے لے کر ؛حالاںکہ اپنے روزی دینے والے پیدا کرنے والے محسن آقا کی محبت کا تقاضہ یہ تھا کہ پورے ادب اور اطمینان کے ساتھ ایمانی حلاوت میں سرشار ہو کر رمضان کی اس خصوصی نماز کو ادا کرتے اور عظیم عبادت کو غنیمت کبریٰ اور قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے۔
( مجالس ابرار ص :۹۱)
تراویح کے بعض دیگر قابل اصلاح پہلو:
(۱)رمضان المبارک میں عشاء کے بعد مساجد میں تراویح سنانے کا اہتمام ہو تا ہے ،لوگوں نے اسے ایک رسم بناکر رکھ دیاہے، دیکھتے پھرتے ہیں کہ کس مسجد میںکتنا جلد قرآن ختم ہو رہا ہے ۔ حیرت ہو تی ہے کہ کیا نوجوان ‘ کیا بوڑھے اکثر مسلمان پانچ روزہ ‘ دس روزہ ‘ پندرہ روزہ‘ تراویح میں قرآن پاک سن کر چھٹی کرلیتے ہیں؛ حالاںکہ تراویح میں صرف قرآن کا سن لینا کافی نہیں ہے ‘جہاں تراویح میں ایک مکمل قرآن کاسننا ایک علاحدہ سنت ہے؛ وہیں رمضان کی تیس دن کی تراویح بھی ایک مستقل سنت ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہے: اگر انیس یا بیس کو ختم قرآن ہو جائے ،تو بقیہ کی تراویح نہیں چھوڑی جائیگی اس لئے کہ پورے ماہ کی تراویح سنت ہے۔
(فتاوی ہندیہ۱؍۱۱۸)
(۲)بہت سے منچلے نوجوان جو تراویح میں شرکت کرتے ہیں وہ امام کے تراویح کی پہلی رکعت میں قرأت کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں،جس وقت امام پہلی رکعت کے رکوع کے لئے تکبیر کہتا ہے، تو جھٹ سے اس میں شرکت کرلیتے ہیں؛ حالاںکہ نماز میں اس طرح کی سستی اور کاہلی کا اظہار یہ مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا ‘ یہ تو منافقین کا شعار ہے‘ جس کے تعلق سے ارشادِ خدا وندی ہے:واذاقامواالی الصلاۃ قاموا کسالی (سورۃ النساء) جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں توکاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔(شامی زکریا:۲؍۴۴۹)
(۳)بہت سی مساجد میں رمضان میں شبینوں (ایک رات میں مکمل ختم قرآن ) کااہتمام کیا جاتا ہے؛ وہ بھی کراہت سے خالی نہیں ؛اس لئے کہ ایک رات میں ختم قرآن کئی مفاسد سے خالی نہیں ہے۔اس لئے کہ عموما ایسے شبینوں کے اہتمام میں ریاء ونمود کا مظاہرہ ہوا کرتا ہے ‘ اس میں کچھ حضرات امام کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں؛ورنہ اکثر وبیشتر لوگ سیر وسپاٹے ‘ تفریح ‘ گفتگو‘ کھانے پکانے کے انتظامات میں لگے رہتے ہیں؛جس کی وجہ سے قرآن اور جماعت کی بے احترامی لازم آتی ہے اوربہت سوں کی نماز بھی چھوٹ جاتی ہے حفاظ کرام میںصاف اورصحت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام بھی نہیں ہوتا ہے۔ بے جا روشنی کے استعمال اور لاؤڈ اسپیکر کی بے ہنگم آواز کی وجہ سے جہاں اسراف اور فضول خرچی لازم آتی ہے ؛ وہیں اس شور وشغب کی وجہ سے پاس پڑوس کے لوگوں کے آرام اور عبادت میں بھی خلل واقع ہوتاہے۔
الغرض ان مجموعی مفاسدکی وجہ سے شبینہ کا اہتمام کراہت سے خالی نہیں۔تراویح کے تعلق سے یہ وہ چند کوتاہیاں اور قابلِ اصلاح پہلوہیں جن پر توجہ اور اس کے ازالہ کے لئے کوشاں ہونے کی ضرورت ہے ؛تاکہ ہم رمضان المبارک کی اس عبادت کے صحیح ثواب اور اجر کے مستحق بن سکے ۔اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔ماہ رمضان میں عبادات پرجمنے کی ہمت عطا فرمائے، اور اس پر فتن دور میں اس فتنے سے ہماری حفاظت فرمائے ۔آمین