۲- دوسرے نمبر پر مکاتب کے نظام کو موٴثر بنایا جائے ، اس کے لیے فکر مندی کی سخت ضرورت ہے، اس لیے کہ اگر گھر میں تربیت سے کچھ کمی رہ گئی ،توعمدہ اور موٴثر نظام ِمکاتب کے ذریعے اس کی بھر پائی ممکن ہے۔
مکاتب کا نظام کیسے موٴثر کیا جائے؟
جزوقتی مکاتب میں قرآن و دینیات کی تعلیم،صورتِ حال، مسائل اور حل:
وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ (سورہ قمر، آیت: ۷)
”ہم نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے آسان کردیا، پس ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔“
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعلَّمَہ‘۔(حدیث)
”تم میں سے بہتر شخص وہ ہے، جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔“
یہ اور اس طرح کے قرآن اور حدیث کے بیشتر ارشادات ہیں،جن سے مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم کی طرف ترغیب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مسلم معاشرے میں قرآن کی تعلیم کا رواج بھی ایک تسلسل کے ساتھ قائم ہے۔ قرآن کو حفظ کرنا اور قرآن کے معانی اور مفہوم پر غور کرنا، یہ مسلم معاشرے کاامتیازی وصف رہاہے۔ نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِمبارک سے لے کر مسلمانوں کے دورِ عروج تک قرآن سے شغف اور قرآنی علوم پر غورو فکر اور قرآنی فکر کی نشرو اشاعت مسلمانوں کا طرہٴ امتیاز رہاہے۔ دورِ زوال میں بھی قرآن سے یہ تعلق برابر قائم رہا۔
ہندستان میں انگریزوں کی آمد سے پہلے مسلمانوں کے دورِ حکومت میں مدارس کاایک شاندار سلسلہ قائم رہا ،جو قرآنی و دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ دیگر ضروریات کو پورا کرتے رہے۔ اس ملک میں انگریزوں کی آمد کے بعد منصوبہ بند طریقے سے، مدارس کے اس نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کی آمدنی کے ذرائع مسدود کیے گئے ؛تاآں کہ مدارس آہستہ آہستہ دم توڑنے لگے۔
سرکاری اور دیگر اسکولوں میں جانے والے بچوں کی دینی تعلیم کا مضبوط نظام ضروری ہے:
ملت ِاسلامیہ ہند نے ان ناگفتہ بہ حالات میں، اپنے خونِ جگر سے ان اداروں کو سینچا۔ اپنی زکوٰة و صدقات کابہترین مصرف ان کو سمجھا اور ان اداروں کی مالی سرپرستی کرتے رہے۔
ملک کی آزادی کے ساتھ ہی متوازی طورپر ملک میں ایک سیکولر تعلیمی نظام جاری ہوا اور آہستہ آہستہ اس کا ایک وسیع نیٹ ورک ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا۔ نجی اداروں نے بھی اس میدان میں قدم رکھا اور اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے پرائیویٹ ادارے قائم کیے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کابھی ایک مضبوط نیٹ ورک اس وقت ملک میں قائم ہے۔ مسلم ملت نے بھی اپنے خانگی ادارے قائم کیے اور اس طرح اپنی زبان اور کلچر کے تحفظ کی کوشش کی؛ لیکن یہ ادارے تعداد میں ناکافی اور معیار ِتعلیم کے لحاظ سے کم تر ہونے کی وجہ سے، سارے مسلمان بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا نہ کرسکے؛ اس لیے مسلم ملت غیرمسلم خانگی اداروں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے مجبور ہوئی۔ اب ملت کی بہت بڑی تعداد ان تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہورہی ہے۔
مسلم اسکولوں میں بھی دینی تعلیم برائے نام:
یہ بات بالکل واضح ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے اورپرائیویٹ تعلیمی ادارے، مسلمان بچوں کی دینی تعلیم کی ضرورت کو کسی صورت مکمل نہیں کرسکتے، بل کہ المیہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ازخود جو تعلیمی ادارے قائم کیے ان میں دینی تعلیم کاکوئی موٴثر اور معقول انتظام نہیں کیاجاسکا۔ کہیں کہیں برائے نام دینیات یا اسلامیات کے نام پر ایک مضمون شامل کردیاگیا، جس کوبے دلی کے ساتھ اساتذہ پڑھاتے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمان بچوں کو ابتدائی دینی معلومات بھی خاطر خواہ حاصل نہیں ہوپاتی۔ بیشتر مسلم تعلیمی اداروں ،اسکولوں نے قرآن کو سرے سے شامل ِنصاب ہی نہیں رکھا،ان کا یہ مفروضہ ہے کہ قرآن ناظرہ کی تعلیم مساجد اور گھروں میں حاصل ہوجاتی ہے؛ حالاں کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جزوقتی مسجد میں پڑھنے والے بچوں اور اسکولوں میں پڑھنے والے مسلم بچوں کی تعداد میں کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اس کانتیجہ یہ ہے کہ مسلم اسکولوں میں پڑھنے کے باوجودمسلمان بچے قرآن کی تعلیم سے محروم ہیں۔
انگریزی میڈیم اسکول کے طلبہ قرآن کریم تک پڑھنا نہیں جانتے!
ریاستِ آندھرا پردیش کے مسلمانوں کے فروغ کے لیے کوشاں ایک ذمّے دار کے یہ احساسات صورتِ حال کو سمجھنے میں مددگار ہوں گے:
”حیدرآباد کے ۹۰ فیصد انگریزی میڈیم کے اسکول میں پڑھنے والے مسلم بچے قرآن کی تعلیم سے محروم ہیں۔“
اس کے علاوہ مہاراشٹر ممبئی کے ایک تعلیمی ادارے نے،ہائی اسکول کی سطح پر مسلم بچوں کی دینی معلومات کاجائزہ لے کر اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ جدید علوم اور معلومات کے سلسلے میں، ان کے نمبر امتیازی تھے اور اسلامیات کی بنیادی معلومات کے سلسلے میں انھوں نے ۹۱/ فیصد مارکس حاصل کیے۔
مسلم اسکولوں کے اساتذہ دینی تعلیم سے دوراور قرآن پڑھنا نہیں جانتے:
مسلم اسکولوں کے اساتذہ کی دینی معلومات کاجائزہ لیا گیاتو یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آئی کہ ان اساتذہ کی قابلِ لحاظ تعداد قرآن ناظرہ پڑھنے پر قادر نہیں ہے۔ بیشتر اساتدہ کو نماز کے صحیح اذکار بھی یاد نہیں ہیں۔ ہماری نئی تعلیم یافتہ نسل بالخصوص اساتذہ کی یہ صورتِ حال نہ صرف المناک؛ بل کہ ان کے سایے میں پرورش پانے والے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے تشویش ناک انجام کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ اترپردیش فلاح ِعام سوسائٹی لکھنوٴ ہرسال اساتذہ کی فنّی تربیت کے لیے ٹیچر ٹریننگ پروگرام کااہتمام کرتی ہے۔ مسلم اساتذہ کی اس صورت حال کے پیشِ نظر انھوں نے اپنے تربیتی پروگرام میں اذکار، نمازکی صحت اور قرآن صحیح پڑھنے کے پروگرام کو شامل کیاہے۔
سچر کمیٹی کاایک اہم سچ:
سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ ایک اہم انکشاف بھی کیاہے کہ مسلمانوں میں مدرسہ جانے والے بچوں کی تعداد محض ۴/ فیصد ہے اور باقی قابلِ تعلیم بچوں کی کثیرتعداد عام اسکولوں میں تعلیم پاتی ہے۔ عام اسکولوں کا دینی تعلیم کے تئیں کیا رویہ ہے اس کاتذکرہ اوپر کی سطور میں آچکاہے۔
جزوقتی دینی مکاتب:
جن مسلم بچوں کی دینی تعلیم و تربیت اسکولوں میں نہیں ہوپارہی ہے، ان کے لیے ملت کے بہی خواہوں نے جوحل دریافت کیاہے، وہ یہ ہے کہ ان اسکولوں میں جانے والے بچوں کے لیے، مساجدمیں صباحی و شبینہ جزوقتی مکاتب قائم کیے جائیں؛ بلاشبہ یہ ایک مناسب متبادل ہے۔
جزوقتی مکاتب کی صورت ِحال:
یہ مکاتب تعداد میں بہت کم ہیں، ان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد بھی کم ہے۔ بچوں کی تعداد کی کمی کے سبب اساتذہ کی تعداد بھی کم ہے۔ اکثر جزوقتی مکاتب میں یہ دیکھاگیاہے کہ ایک ہی استاد ہے اور اس کے سامنے مختلف سطحوں کے بچے دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ قرآن کے مختلف مرحلوں میں پڑھنے والے بچے بھی ہیں اور حروف شناسی اور اس کے بعد کے مرحلے کے بچے بھی ؛اسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کررہے ہیں۔ ان حالات میں اُستاد اجتماعی طورپر تعلیم دینے سے قاصر ہے۔
وہ ایک ایک بچے کو تعلیم دیتاہے۔اور تعلیم کا کل وقت گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہوتا ہے ۔اور جب وہ انفرادی طورپر دی جائے، تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ایک طالب علم کے حصے میں کتنا وقت آتاہوگااور قرآن پڑھنے کی کتنی استعداد اُس میں پیداہوتی ہوگی۔ اس کانتیجہ یہ ہے کہ ایسے مکاتب میں سالوں بچے پڑھتے ہیں اور ان کے اندر رواں قرآن پڑھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوپاتی اور قرآن مجید کی اسی ناقص پڑھائی کے ساتھ وہ مدرسوں سے باہر آجاتے ہیں۔ اس کے بعد کم ہی اس بات کاموقع ملتاہے کہ وہ قرآن کو صحیح طور پر پڑھنے کے قابل ہوسکیں؛ لہٰذا وہ ناقص طریقے سے ہی تلاوتِ قرآن مجید، آخر عمر تک کرتے رہتے ہیں او ر اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کو یہ احساس بھی نہیں ہوپاتاکہ وہ اللہ کی کتاب کو صحیح طورپر پڑھ بھی نہیں سکتے۔
قرآن فہمی کاکوئی سوال ہی نہیں:
ناظرہ خوانی کے اس پورے مرحلے میں قرآن کو سمجھنے سمجھانے کاکوئی موقع نہیں آتا۔ نہ ہی استاد اس کی کوئی ضرورت سمجھتاہے کہ کم ازکم بڑی عمر کے بچوں کو ہی، وہ یہ بتادے کہ یہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے۔ انبیا علیہم السلام کے نام متعدد بار قرآن مجید میں جابجا آتے ہیں، لیکن اُستاد اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ان کے موٹے موٹے واقعات اور قصص بچوں کو سنادے۔ نماز، روزہ اور دیگر موٹے موٹے احکام کی تشریح تو دور کی بات ہے۔اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ بچوں کے ذہنوں میں بڑی عمر میں بھی کبھی یہ سوال پیدا نہیں ہوتاکہ قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے، یہ ہماری زندگی کادستور العمل ہے اور ہمیں اس کے معانی و مطالب کو سمجھناچاہیے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ کتاب ِہدایت جس میں سارے انسانوں کے لیے رہنمائی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے نہایت اہتمام کے ساتھ نازل فرمایاہے،جس رات کو نازل فرمایا اس کو ہزار مہینوں سے بڑھ کر قرار دیا اور جس مہینے میں نازل فرمایا، اس کے پورے ماہ میں روزے فرض کیے؛ تاکہ اس ہدایتِ الٰہی کاشکریہ ادا کیاجاسکے اور اس کی بڑائی بیان کی جاسکے؛ لیکن ہمارے اس رویے کی وجہ سے سمجھانے اور اس کتاب سے ہدایت حاصل کرنے کے معاملے میں، ملت کے حصّے میں محرومی ہی آتی ہے۔
اساتذہٴ مکاتب کا سب سے بڑا مسئلہ، مسلمانوں کے دل میں عام طور پر ان کی اہمیت کا نہ ہونا ہے، اسی لیے وہ معمولی تنخواہ دینے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے، ہزاروں کا موبائل ، کمپیوٹر، ٹی وی اور گاڑی وغیرہ ضروری چیزیں کہیں سے بھی لے کر رکھیں گے، مگر جہاں اپنے خود کے بچوں کو دین جیسی چیز کی تعلیم دینے کے لیے، تعاون کا کہا جائے ، تو فوراً غریبی کا بہانہ شروع ؛ حالاں کہ کچھ نہ کچھ تو دے سکتے ہیں۔ مگر نہیں!! جب کہ ہمارے ان مکاتب کے اساتذہ اور مساجد کے ائمہ کی مالی حالت بہت زیادہ نا گفتہ بہٰ ہوتی ہے۔
عامة المسلمین سے موٴدبانہ درخواست ہے کہ اپنے بچوں کو آخرت کی کامیابی کے لیے،ان پر محنت کرنے والوں کی خود فکر کریں، دوسروں کے سہارے نہ رہیں۔