مسلمانو!!! ’’یہ زمانۂ صبر ہے‘‘کمر بستہ ہوجائو!!

انوار نبوی ا                                                                                  گیارہویں قسط:

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ

صفت صبر سے آراستہ نونے کے اسبابِ عشر میں سے نواں سبب

            عَنْ خَبَّابِ بْنِ الْاَرَتِّ قَالَ شَکَوْنَا اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَۃً لَہٗ فِیْ ظِلِّ الْکَعْبَۃِ فَقُلْنَا اَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا اَلَا تَدْعُوْ اللّٰہَ لَنَا قَالَ کَانَ الرَّجُلُ فِیْمَنْ قَبْلَکُمْ یُحْفَرُ لَہٗ فِی اْلاَرْضِ فَیُجْعَلُ فِیْہٖ فَیُجَائُ بِالْمِنْشَارِ فَیُوْضَعُ عَلَی رَاسِہٖ فَیُشَقُّ بِاثْنَتَیْنِ وَمَا یَصُدُّہٗ ذَالِکَ عَنْ دِیْنِہٖ وَیُمْشَطُ بِاَمْشَاطِ الْحَدِیْدِ مَادُوْنَ لَحْمِہٖ مِنْ عَظْمٍ اَوْ عَصَبٍ وَمَا یَصُدُّہٗ ذَالِکَ عَنْ دِیْنِہٖ وَاللّٰہِ لَیُتِمَّنَّ ہٰذَا الْاَمْرَ حَتّٰی یَسِیْرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَائَ اِلٰی حَضَرَمَوْتَ لَا یَخَافُ اِلَّا اللّٰہَ اَوِ الذِّئْبَ عَلٰی غَنَمِہٖ وَلٰکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔

            ترجمہ:  حضرت خباب بن ارت ؓنے بیان کیا کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (کافروں کی ایذادہی کی شکایت کی اور اس وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سایے میں اپنی چادر پرتکیہ لگائے بیٹھے تھے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ ہمارے لئے مدد کیوں نہیں طلب کرتے؟ آپ ہمارے اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے کے( انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں میں سے) ایک شخص ہوتا، جس کے لیے زمین میں گڑھاکھودا جاتا اور اس کو اس گڑھے میں ڈالا جاتا، پھر آر الا کر اس کے سر پر رکھا جاتا اور اس کے دوٹکرے کیے جاتے اور یہ آرابھی ان کو اپنے دین سے روکتانہ تھا (اپنے سچے دین پر قائم رہتے) اورلوہے کے کنگھے اس کے گوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتے اور یہ سزا بھی ان کو دین سے نہیں روکتی۔ خدا کی قسم یہ امر (اسلام) ضرور پوراہوگایا خدا کی قسم  اللہ تعالیٰ اس دین کو ضرور پورا کرے گا؛ یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا ۔اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہ ہوگا یا بھیڑیوںکا خوف ہوگا اپنی بکریوں پرلیکن تم لوگ عجلت سے کام لیتے ہو (جلدی کرتے ہو)۔

نواں سبب ، صابرین کے قصوں میں غور وخوض:

            صبر پر معین اسباب میں سے ایک بڑا سبب صابرین کے قصوں اور واقعات کو پڑھنا اور اس میں غور و خوض کرنا ہے ۔ اس سے صبر پربڑی ہمت ملتی اور تقویت حاصل ہوتی ہے ۔جیسے انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے قصے ، یہ اپنے اندر ایک مدرسے کی حیثیت رکھتے ہیں ، جس سے انسان صبر کی حقیقت کو جانتا اورسمجھتا ہے ؛کیوں کہ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام نبوت ملنے سے پہلے ہمارے ہی طرح انسان تھے ، توجب ہمارے ہی جیسا انسان اللہ کا پیغمبر ہونے کے باوجود اس قدر آزمائشوں سے گھرنے پر بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتا ہے تو پھر ہم کیوں واویلا مچائیں ! جب کہ ہم تو اللہ کی نافرمانیوں اور مصیبت میں ڈوبے پڑے ہیں !!!

حضرت نوح علیہ السلام کا مثالی صبر :

            صبرِ نوح اپنے اندر ایک ایسی مثال ہے ،جو ہمیں طویل ترین آزمائشوں پر صبر کرنے کی ڈھارس بندھتا ہے ۔ آپ کا صبر وہ عظیم صبر تھا کہ ساڑھے نوسوسال آپ اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے رہے اور ہرطرح کے مجاہدے سے گزرتے رہے ۔آپ علیہ السلام نے ان کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کیا، ان کی ایذا رسانی کو جھیلا ۔ ان کے کھِلیوں کو برداشت کیا ، ان کے مذاق بنانے کو نظر انداز کیا ، طرح طرح کی تہمتوں کو جھیلا ۔ کوئی دیوانہ کہتا، کوئی گمراہ کا طعنہ کستا، لیکن ہرطرح کے قولی اور فعلی ایذا رسانی کے جواب میں آپ صرف اور صرف صبر کرتے ، یہاں تک کہ انہوں نے اتنی بڑی بات کہ دی جسے خود قرآن نے ذکر کیا ہے ۔

            {قَالُوْا  لَئِنْ لَّمْ  تَنْتَہِ  ٰینُوْحُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْن}(الشعراء: ۱۱۶)

            وہ کہنے لگے:اے نوح اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں پتھرمارمار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔اس پر بھی آپ نے صرف صبرہی کیا ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صبر :

            حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صبر کو سلام ہے۔ آپ کو ہرطرح ، ہر نوعیت سے مبتلااور آزمایاگیا ۔ بڑے سے بڑا امتحان لیا ، خواہ آپ کی خود کی جان کا امتحان یا بیوی بچوں کے فراق وقربانی کا امتحان ؛ لیکن یہ اللہ کا خلیل کبھی نہ ڈگمگایا ۔ ہمیشہ صابر و شاکر رہا اور خلیل اللہ کے لقب سے ملقب ہوا ۔اور رہتی دنیا کے لیے اپنے صبر اور صبر پر مر مٹنے والی دنیوی واخروی نعمتوں کو، مشاہدے کے لیے چھوڑ گیا ۔

            جب آپ کو آسمان سے باتیں کرتی آگ میں پھینکا گیا تو آپ کی زبان پر جو کلمات جاری ہوئے وہ یہ تھے : ’’حسبی اللہ ونعم الوکیل‘‘۔اللہ ہی میرے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارسازہے۔

بیٹے کی قربانی:   جب آپ کوبیٹے کی قربانی کا حکم ہوا ، ایک طرف صبر کے دامن کو تھاما اور دوسری طرف چھری تھامی اور حکم الٰہی کی بجاآوری کے لیے لاکھ ارمانوںاور دعائووں کے بعد حاصل ہونے والے لخت جگر کواللہ کی امانت سمجھ کر اسی کے حکم کی تکمیل کے لیے مذبح میں لٹا ڈالا۔ اوراپنے رب کے حکم کے آگے اپنی تمام آرزو ، تمنا اور امید کو اپنے ہی ہاتھوں قربان کرنے اور اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے، چھری حلقوم اسماعیل پر رکھ دی ۔

بیوی بچے وادیٔ غیر ذی زرع کے حوالے:     جب وادیٔ غیر ذی زرع چٹیل میدان میں بیوی اور بیٹے کو چھوڑنے کا حکم ہوا ، تو یہ بھی نہ دیکھا کہ یہ وہ اولاد ہے جو ناامیدی کی عمر میں امید لے کر آئی ہے ، کمزوری کے عمر میں سہارا بننے کو پہنچی ہے۔ اپنی کسی ضرورت کی پرواہ کیے بغیر اپنے جگر پارے اور ہر دل عزیز بیوی بچے کو وہیں چھوڑ آتے ہیں ،جہاں کا حکم ہوا ہے۔حضرت ہاجرہ علیہ السلام گہار لگاتی رہتی ہیں:کہیں چلے ہمیںایسے چٹیل میدان ،جنگل بیابان میں چھوڑ کر؛ جہاں انسان توکیا، حیوان تک کا نام ونشان نہیں ؟ وہ پکارتی جاتی ہیں اور آپ التفات کیے بغیر دوسری سمت قدم بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔ بالآخر خلیل اللہ کی بیوی ابراہیم علیہ السلام سے کہتی ہیں: کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے، تو ابراہیم علیہ السلام کہتے ہیں کہ ہاں! حضرت ہاجرہ بھی ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی اہلیہ تھیں ان کا صبر ایمان اور یقینی بھی مثالی ہے ۔ کہتی ہیں : ’’اذن لا یضیعنا‘‘ تب تو وہ ہمیں کسی صورت میں ضائع نہیںکرے گا ۔

            اس مثالی صبر پر اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں نعمتوں کی بارش کردیتے ہیں ۔ سارہ علیہا السلام سے اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کی شکل میں دودو بیٹے سے نوازتے ہیں اور اسماعیل علیہ السلام اوران کی ماں کو زمزم اور اس کے علاوہ بہترے نعمتوں سے مالا مال فرماتے ہیں ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تمثیلی صبر :

            کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام کے صبر کو دیکھیے! قومِ فرعون اورفرعون کی تکالیف، ایذا رسانی ، ظلم و تشدد اوربربریت کا تو سامنا کیاہی ، اس کے بعد اپنی قوم سے بھی تکلیف ہی پہنچی ۔ بنی اسرائیل نے بھی آپ کی حکم عدولی کی ، نافرمانی کی، باربار سرکشی کی ، مصائب کے تکالیف الگ اور دعوتِ دین کی مصیبت الگ ۔آپ علیہ السلام نے اولاً فرعون کو توحید دین و ایمان کی دعوت دی ، جس کی پاداش میں اس نے آپ پر طرح طرح کا دباؤ ڈالا ، ظلم ڈھایا ، مجبور کیا ، تکالیف پہنچائیں ؛یہاں تک کہ اللہ نے اسے کیفرِ کردار تک پہنچایا اور رہتی دنیا کے لیے عبرت بنادیا ۔

            پھر فرعون کے بعد آپ کو اپنے ہی قوم سے جوجھنا پڑا ،ان کی فرمائش اوران کے دباؤ اور مفاد پر آپ نے وہ صبر کیا جو مثال بنی اور تمثیل دی جانے لگی ۔ خود جب ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم وقلب ایذا کی وجہ سے چھلنی ہوتا،تو آپ موسیٰ علیہ السلام کی مصیبت ، پریشانی اور ان کے صبر سے خود کو ڈھارس دیتے اور کہتے : ’’یرحم اللہ موسیٰ قد اوذی باکثر من ہذا فصبر‘‘ (بخاری) اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ انہیں اس سے زیادہ اذیت پہنچائی گئی ، لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم وقلب کو چھلنی کردینے والا صبر :

            حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر سب سے پہلے تو اِسی قوم بنی اسرائیل نے بے بنیاد بہتان تراشی کرکے آپ کے قلب و جگر کو چھلنی کیا اور پھر اسی باطل تہمت کی بنا پر آپ کے قتل اور صلب کا حکم دے دیا ۔ لیکن آپ نے ان تمام صورتوں میں صبر کیا ؛یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرت سے آپ کو اپنے پاس اٹھالیا۔

خاتم الانبیا ،سرورِ دوجہاں، رحمۃ للعالمین، سید الصابرین کا عظیم صبر :

            خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکس کس طرح تکالیف پہنچائی گئیں؟! آپ پر ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے گئے ، دنیا تنگ کرنے کی کوشش کی گئی ،مجبور اور کمزور کرنے کا حربہ استعمال کیا گیا ،دل کو چھلنی کردینے والے جملے کہے گئے ، پہاڑ ہل جاوے ایسے طعنے دیے گئے ۔ کوئی مجنون کہتا تو کوئی ساحر ، کوئی کذاب سے خطاب کرتا تو کوئی خائن ۔ مادر زاد صادق؛ بل کہ صدق وفا کے پیکر کو کوئی کذاب کہے ، جھوٹے ہونے کی تہمت لگائے، تو اس پر کیا پہاڑ ٹوٹتا ہے وہ تو کوئی راست گوہی سمجھ سکتا ہے ! دنیا کے انسانوں کی عقل ایک طرف اور میرے محبوب کی عقل ایک طرف، ایسے کامل عاقل کو کوئی دیوانہ کہے، تو اس سے بڑھ کر اور کیابات ہوسکتی ہے ! جن کی امانت کا ہر سو چرچا ہو ،جسے لوگ امین کے نام سے جانتے اوریاد کرتے ہوں ، اسے کوئی خائن کہے، اس پر کیا گزرتی ہوگی ؟! اورایک مومن بندے اورتوحید ورسالت کے سر چشمے کو، کوئی شاعر وساحر ، مجنون ودیوانہ کہے، تو اس پر کیا بیتی ہوگی، اس کا کیا اندازہ لگایا جاسکتا ہے !! حالاں کہ آپ خُلق وخلقت میں کامل، صداقت وامانت میں سب پرفائز، عقل وفہم میں سب سے فائق تھے۔

            آپ کے لیے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے ، گھر سے بے گھر کیا گیا ، وطن سے نکالاگیا ، قتل تک کے فیصلے کرلیے گئے، جسے قرآن کہتا ہے : { وَاِذْیَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْیُخْرِجُوْکَ ط وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ }(الانفال:۳۰)

            ’’اور(اے پیغمبر)!وہ وقت یادکرو جب کافر لوگ تمہارے خلاف منصوبے بنارہے تھے کہ تمہیںگرفتار کرلیں،یا تمہیں قتل کردیں،یاتمہیں(وطن سے)نکال دیں،وہ اپنے منصوبے بنارہے تھے اوراللہ اپنا منصوبہ بنارہا تھا اور اللہ سب سے بہتر منصوبہ بنانے والا ہے‘‘۔

اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرآپ کی آنکھوں کے سامنے ستم اور ان کا قتل:

            آپ کے بعض صحابہ کو قتل کردیا ، بعضوں کو تڑ پایا گیا ، جھلسایا گیا اور طرح طرح سے ستایا گیا ۔ ایک نبی پر اس سے بڑھ کر اور کیاتکلیف ہوسکتی ہے کہ وہ خود اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیروکاروں کو تڑپتا ، بلکتا دیکھے ، اپنے سامنے دم توڑتا اور اذیت ناک موت مرتا ہوادیکھے ۔

            آپ یاسر اور سمیہ رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرہے ہیں ،جس وقت آپ کو اذیت ناک موت دی جارہی ہے، آپ بے بس ہیں اور خود بھی صبر کررہے ہیں اور آلِ یاسر کو بھی کہہ رہے ہیں : ’’صبراً یا آل یاسر فان موعدکم الجنۃ ‘‘ (رواہ حاکم)صبر سے کام لو، اے آل یاسر !تمہارے لیے جنت ہے ۔

            جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کی تووہاں منافقوں کی جانب سے سخت ترین تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حادثات میں سے صرف ایک ’’واقعۂ افک‘‘ ام المومنین اماں عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا معاملہ ہی کس قدر سنگین ہے ،غور کیا جاسکتا ہے ؟!!آپ کو یہودیوں کے کید و مکر کا سامنا بھی تھا۔ اس رذیل قوم نے آپ کو زہر تک دے دیا جس کی وجہ سے آپ بار ہا بخار میںمبتلی ہوتے؛ یہاں تک کہ یہی بخار آپ کی وفاتِ حسرت آیات کا سبب بنا ۔ اسی طرح آپ کافروں ،منافقوں اوریہودیوں سارے اسلام دشمنوں کی تکالیف پر صبر کرتے رہے ، تا آںکہ آپ کے رب کی طرف سے بلاوا آگیا ؛ لیکن آپ نے ان سب کے باوجود اپنی رسالت کی ذمہ داری ادا کی اور اس امانت کو امت کے سپرد کردیا ۔

            آج ان حالات میں ہمیں انبیا علیہم السلام کی زندگیوں سے بڑی تقویت پہنچتی ہے اور ہمیں ایمان کو مزید مضبوط اور قوی کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ ہم حالات سے نہ گھبرائیں ! بس انبیا علیہم السلام نے ان حالات میں کیا کیا ؟اسے سامنے رکھیں۔ اور جنت کے وعدے وسرخ روئی پر یقین رکھتے ہوئے، سراٹھاکر ڈٹ کر جئیں ۔ پہلے سے زیادہ اپنے ایمان کا اظہار کریں ! نبی کا حلیہ مکمل طور سے اختیار کریں !اور اپنے رب سے اپنا تعلق مضبوط کرلیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح گڑ گڑا کر مدد مانگیں۔ ان شاء اللہ اللہ کی نصرت ضرور آئے گی ۔