آییے! اپنی ذمے داری کا ادراک کرتے ہیں۔
اب ان تفصیلات کی روشنی میں ہمیں بنیادی طور پر دوکام کرنے ہیں:
دعا کا اہتمام:
۱- علما، صلحا، طلبا اور عامة المسلمین سب اللہ کی جانب متوجہ ہوں، خاص طور پر صلحا اور اتقیا رات کی تاریکی میں رو رو کر اللہ سے التجا کریں کہ………
”اے اللہ ! جیسے آپ نے ہجرت کے ذریعے مسلمان اوراسلام کو سربلندی عطا کی … بدر میں صحابہ کے خلوص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاوٴں کی برکت سے کامیابی عطا کی… اور آخری دور میں سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نور اللہ مرقدہ جیسے بزرگوں اور حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی اور ان کے رفقائے مخلصین کی جدو جہد کی برکت سے آپ نے بقائے اسلام کا نظام بنایا … ایک بار پھر مسلمانان ِہند پر آئی اس نازک گھڑی میں تو ہندتووادی تنظیموں کے مکرو فریب اور سازشوں سے بقائے اسلام کے اسباب مہیا فرمادے۔
آمین یار ب العالمین!
اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ وہ ایک بار پھر ہماری دستگیری فرماکر اسباب ِبقائے اسلام کا انتظام فرمانے کے صحیح فیصلے فرمائیں گے ۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز!
دعا مومن کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ہے، مگر ہم غفلت کے شکار ہیں، اللہ کے واسطے چھوٹے بڑے سب مقبولیت کی گھڑی میں دعا کریں۔
تعلیمی پالیسی کے منفی پہلو پر غور وخوض کرکے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا:
۲- دوسرا کام ہمارا یہ ہونا چاہیے کہ اخلاصِ نیت کے ساتھ نئی تعلیمی پالیسی کے بھیانک نتائج ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں پر کیا مرتب ہوسکتے ہیں، ان کے عقیدے اورفکر کو کیسے متاثر کرسکتے ہیں، اس کا جائزہ لینے کے بعد اسباب کے درجے میں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ جیسے حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر اسٹریٹجی تیار کی تھی، جس کے عمدہ اور مثبت اثرات عالمگیر طور پر ظاہر ہوئے۔
یہدارالعلوم دیوبند کی صرف ایک تعلیمی تحریک نہیں تھی، بل کہ ایک ہمہ گیر تحریک ثابت ہوئی، جس نے مسلمانوں کے تمام میدان ِعمل پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے اور تحفظِ دین کے باب میں آج ۱۵۵/ سال بعد بھی اس کے اثرات ہر میدان میں نظر آرہے ہیں۔ وہ تعلیمی میدان ہو یا تبلیغی ، دعوتی ہو یا مکالمتی ، میدان ِجہاد ہویا تصنیف و تالیف؛ غرض یہ کہ انتہائی نازک گھڑی میں انفرادی واجتماعی ، ملکی اور عالمی ہرباب پر اس کامیاب تحریک نے اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
اللہ رب العزت ان بزرگوں کو پوری ملت ِاسلامیہ کی جانب سے جزائے خیر سے نوازے اور ان کی قبروں کو نور سے بھر دے، جن کی بدولت اسباب ِظاہریہ کے درجے میں آج ہم اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں۔
ویسے تو امتِ محمدیہ علی صاحبہا الف الف تحیة وسلام پندرہویں صدی ہجری میں بہت سارے مسائل اورچیلنجز سے دو چار ہے۔
یہ مسائل دوقسم کے ہیں: ایک تو عالمی مسائل ۔ اوردوسرے ملکی مسائل۔
ہندستان کے مسلمانوں کی تنزلی کا آغاز:
عالمی مسائل تو بہت وسیع موضوع ہے۔ ہم سر ِدست امت ِمسلمہ کو در پیش ملکی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں:
حکیم الامت مجدد ِملت حضرت تھانوی کا ماننا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے مشکلات کا آغاز دورِ اکبری سے ہوتا ہے، جب ایوانِ حکومت میں مختلف مذاہب کی عورتیں داخل ہوئی ہیں؛ یہ تو فضلِ خداوندی ہوا کہ مجددِ الف ثانی اور ان کے بعد ایوان میں اورنگ زیب عالمگیر اور پھر شاہ ولی اللہ جیسے مجددین اوراصلاح کا بیڑا اٹھانے والے وجود میں آئے، تو ان کی برکت سے دین مسلمانوں میں محفوظ رہا۔
اسلام اور مسلمانوں پرداخلی حملہ:
خلاصہ یہ کہ اسلام اور مسلمانوں پر ایک داخلی حملہ دین ِالٰہی سے ہوا اور دوسرا انگریزوں کے آنے کے بعد خارجی حملہ تعلیم کی صورت میں ہوا۔ تب اللہ تعالیٰ نے حجة الاسلام حضرت نانوتوی اور ان کے رفقا کو کھڑا کیا ، ”لوہا لوہے کو کاٹتاہے“جنہوں نے تعلیم سے تعلیم کا مقابلہ کیا اور اسلام اپنے تشخص کے ساتھ برقرار رہا۔
اب ہمیں بھی یہی چیلنج ہے۔ ایک طرف تعلیمی پالیسی اوردوسری جانب الحادی میڈیا ، ہمیں دونوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
تعلیمی پالیسی کا مقابلہ کیسے کریں ؟ تو آییے اسے جانتے ہیں:
مسلمانوں کی اہم ترین ذمے داری:
ہر مسلمان والدین اسلامی تربیت کے اصول جان کر اپنے بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں :
ہندستان کے مسلمانوں کی سب سے اہم ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں میں دینی شعور اور ان کی اسلامی تربیت پر خاص توجہ دیں،اس لیے کہ دشمنانِ دین چاروں طرف سے حملہ آور ہیں۔ ایک طرف تعلیم کے ذریعے ارتداد چوکھٹ پر کھڑا ہے؛ دوسری جانب ہماری ماں بہنوں سے تعلقات کے ذریعہ ارتدادگھر میں داخل ہو چکا ہے ، تیسر ی جانب میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لیڈروں اور ہندو شدت پسندوں کی بیان بازی ۔ ہمیں سب کا مقابلہ کرنا ہے اور ان شاء اللہ کریں گے ۔ اگر ہمت اور حوصلہ رہا اور صحیح تدابیر اختیار کی، ساتھ ہی اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کیا تو ان شا ء اللہ سب کافور ہوجائے گا اور اللہ کی مدد اورتائید سے ہم ایک بار پھر شوکت ِاسلام کو زندہ کرنے میں کام یاب ہوں گے۔