ماؤں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر میں اردو پڑھنا لکھنا سکھائیں،ان دنوں بچوں کے اندر سے اردو لکھنے پڑھنے کا شوق یکسر ختم ہو گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بچے اپنے نام کا تلفظ تک ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کرپاتے ہیں۔اردو میں اپنا نام تک درست لکھنا نہیں آتا،اولاد کی نگہداشت وپرداخت کی ذمے داری والدین پر عائد کی گئی ہے۔ماں کی آغوش بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔بچے کی تعلیم و تربیت او راخلاق و کردار کو بہتر بنانے میں ماں جتنا مؤ ثررول ادا کر سکتی ہے کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔
عورتیں دینی تعلیم میں مہارت حاصل کریں:
مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی تحریر فرماتے ہیں…
”…امت کا طبقہٴ نسواں بھی ہمیشہ سے نہ صرف یہ کہ علم سے واقف،بل کہ علم پھیلانے والا بھی رہا ہے اور تذکرہ کی کتابوں میں ایسی بیویوں کے نام ملتے ہیں جو بڑی فاضلہ عالمہ تھیں اور جن کی وجہ سے خاندان کے خاندان ،بل کہ اس زمانے میں ملت کا پورا حصہ دین سے واقف تھا او ر دین پر کار بند تھا، ان کے کارناموں میں آپ دیکھیں کہ بعض خاندانوں کا ایمان مستورات نے بچایا ہے۔انہوں نے شروع سے بچوں کی ایسی تربیت کی اور اسلامی و دینی غیرت کا اظہار کیا ؛بل کہ نقش کردیا۔
اور سچ پوچھیے تو دل کی بھٹی میں،دل کی خاک میں او ردل کے کشت زار میں تخم مائیں ڈال سکتی ہیں۔گھر کی مستورات ہی ڈال سکتی ہیں اور اس کی ہزار ہا مثالیں ہیں کہ ماں اور بہنوں سے پڑھا ہوا سبق،ان سے سیکھا ہوا دین، ان کا پیدا کیا ہوا جذبہ، بڑے بڑے مجاہدین کی استقامت او ران کی ثابت قدمی کا ذریعہ بنا۔بڑے بڑے چوٹی کے علما ایسے گذرے ہیں، جن پر سب سے زیادہ ان کی ماں کا اثر ہے۔۔۔“
کسی بھی ولی کے پیچھے ہمیشہ ماں ہوتی ہے:
ماں باپ کی تربیت کا بچوں کے ذہن پر کیسا اثر پڑتا ہے، اس کااندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کا واقعہ درج ہے کہ جب انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بغداد کا رخ کیا او رچلنے لگے تو ماں نے بیٹے سے ایک نصیحت کی،کہا کہ دیکھو بیٹا جھوٹ کبھی مت بولنا،جب وہ قافلے کے ساتھ روانہ ہوئے تو راستے میں ڈاکوؤں کی ایک ٹولی نے قافلے پر حملہ کردیا۔وہ ہر ایک سے پوچھتا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟ سب کہتے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے،ہم خالی ہاتھ ہیں پھر وہ سب کے سامان چیک کرتا، جب روپئے پیسے ملتے، تو اس پر قبضہ کرلیتا اور اس کو سزا بھی دیتا۔جب وہ لوگ شیخ عبدالقادر جیلانی کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس چالیس اشرفیاں ہیں، جو میری والدہ نے سی کر دی تھیں۔ڈاکوؤں کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ لڑکا بہت صاف صاف بول رہا ہے،پہلے تو یقین نہیں آیا؛پھر کہا کہ کہاں ہے وہ اشرفیاں نکالو تو سہی!انہوں نے اشرفی کی تھیلی ان کے سامنے رکھ دی؛ڈاکوؤں نے پوچھا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ جب تم ان کو اتنی حفاظت سے رکھے ہوئے تھے او رمیں نے دیکھا بھی نہیں تھا تو تم نے کیوں بتادیا؟۔
انہوں نے کہا کہ میری والدہ نے چلتے وقت مجھے نصیحت کی تھی کہ بیٹا جھوٹ کبھی مت بولنا۔شیخ عبدالقادر جیلانی کے اس ایک جملہ سے ان ڈاکوؤں پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں ان کی اشرفیاں بھی لوٹا دیں اور برے فعل سے توبہ بھی کرلی۔
آج بڑی بڑی ڈگریاں ہیں ،مگر اخلاقی بگاڑ بڑی مصیبت ہے:
آج ایک سے ایک یونیورسیٹیاں ہیں،کالج او راسکول ہیں اعلیٰ تعلیم ہے،بڑی بڑی ڈگریاں ہیں،مگر ساتھ ہی جھوٹ کا بول بالا بھی ہے۔اخلاق و کردار سے محروم ، تہذیب و شائستگی سے نا بلد یہ بچے جب بڑے ہوکر میدان ِعمل میں آتے ہیں، تو سماج میں کوئی اچھی مثال قائم نہیں کرپاتے ۔وہ سماج کی امیدوں اور آرزوؤں پرکھرے نہیں اترتے۔ حلال و حرام اور صحیح و غلط کی پرواہ کیے بغیر صرف مال بٹورنا اور دولت جمع کرنا ان کا مقصدِ حیات بن کر رہ جاتا ہے۔
عقائد کی درستگی سب سے مقدم ہے :
والدین کو یہ ذمے داری قبول کرنی ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں،ان کے عقائد کو درست کریں،ان کو اخلاق سے آراستہ کریں،تہذیب سے پیراستہ کریں،ان کی عادتیں اور چال چلن ٹھیک کریں،اس کا اچھا مزاج بنائیں،اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند کریں، ان کے عادات و اطوار پر نگاہ رکھیں، ان کو برائیوں اور بے حیائیوں سے دور رہنے کی تلقین کریں، انٹر نیٹ او رموبائل کا غلط استعمال نہیں کرنے دیں، تو اس سے سماج میں صحت مند قدریں فروغ پائیں گی۔ہمارے گھر کا ماحول بھی بہتر ہوگا اور ہمارا سماج بھی صالح اور پاکیزہ بنے گا۔
اگر والدین پیدائش سے بارہ چودہ سال تک تربیت کی فکر کرلیں تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
گھر کا ماحول اسلامی بنانے کی فکر ضروری ہے:
گھر کا ماحول دینی واسلامی کرنے کی پوری فکر کریں، اس سلسلے میں مولانا روح اللہ نقشبندی کی کتاب ”گھر کا اسلامی ماحول کیسے؟“ کو ضرور ایک بار والدین پڑھیں ۔ ان شاء اللہ آپ کو گھر کا ماحول اسلامی بنانے میں عمدہ رہنمائی حاصل ہوگی۔
گھر کا ماحول اسلامی بنانے اور گھر کو بابرکت بنانے کے لیے، مندرجہ ذیل امور انجام دینا ضروری ہے:
۱- گھر میں روزانہ صبح قرآن کریم کی تلاوت ہر فرد پر ضروری قرار دیا جائے۔
۲- صبح و شام کے اذکار کے سب پابند ہوں۔
۳- ہر کام کے وقت بسملہ کی عادت ۔
۴- گھر میں آنے جانے کی مسنون دعاوٴں کا اہتمام۔
۵- ہر موقع کی مسنون دعا اور ذکرِ مسنون کا ہر ایک پابند ہو۔
۶- صدقے کا اہتمام۔
۷- صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک ۔
۸- رزق کے لیے صبح سویرے تیار ہونا۔
۹- استغفار کی کثرت کرنا۔
۱۰- نماز کی والدین بھی پابندی کریں اور گھر کے ہر فرد کو لازمی طور پر، ہر وقت نماز کی پابندی کا مکلف کریں۔ سات سال کے بچے سے لے کر بڑے ہر ایک ، مرد ہو تو جماعت کے ساتھ مسجد میں اور عورت ہو تو گھر میں نماز وقت پرہونی چاہیے۔ نماز کے وقت اپنے سارے کام کاج کو کنارے کردینا چاہیے۔
۱۱- گھر میں رات کے وقت کسی اچھی دینی کتاب کی تعلیم ہونی چاہیے اور جلد سونے کا نظام ہونا چاہیے؛ تاکہ صبح جلدی اٹھ کر ہوسکے تو سب کو تہجد یا کم ازکم فجر میں شامل ہونا ہی چاہیے۔