برِصغیر میں انگریزوں کی آمد نے جہاں نظامِ سیاست کے ساتھ ساتھ کم وبیش زندگی کا ہر شعبہ تہہ وبالا کردیا تھا، تعلیمی شعبے کو خاص طور پر انھوں نے فوکس کیا تھا،تاہم یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ نئی روشنی کے علم بردار اس موضوع پر بھی اپنی رعایا سے، وہ بدترین انتقام لیں گے جس کی مثال صدیوں نہیں ملے گی۔
ہندستانی باشندوں کو جاہل رکھنے کی کوشش:
”انگریزوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندستانی باشندے زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں،ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرکے، یہ لوگ ہمارے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائیں گے؛ اس لیے اگر تعلیم کا نظم کیا بھی تو وہ محض عیسائیت کے لیے؛ ورنہ اعلیٰ تعلیم کا ہندستانی باشندوں کے لیے کوئی نظم نہ تھا“۔
(اقبال حسن خان، ”شیخ الہند مولانا محمود حسن حیات اور علمی کارنامے“ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۱۹۷۳ / ص:۳۹)
مغربی اپڈیٹ تعلیم سے توبر صغیر میں بیداری آجائے گی!! لہٰذا یہاں وہ نظام تعلیم نہ لایا جائے:
دراصل انگریز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر برِصغیر میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے کھولے گئے تو اس سے عوام میں بیداری آئے گی اور جس طرح امریکہ وغیرہ میں جدید علوم کی درس گاہیں قائم ہوجانے کے بعد، ہمیں امریکیوں کو آزادی دینی پڑ گئی تھی؛ اسی طرح برصغیر جوکہ سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے؛ اگر ہم نے یہاں پر جدید تعلیمی ادارے قائم کردیے تو ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے لازماً بوریا بستر گول کرنا پڑے گا؛ اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھا جائے۔
( منگلوری، طفیل احمد سید ”مسلمانوں کا روشن مستقبل“ حماد الکتبی شیش محل روڈ لاہور (س ن) ص:۱۶۲-۱۶۴)
ناقص تعلیم سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا، لہٰذا انگریز سوچنے پر مجبور ہوگئے:
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنی رائے بدلنی پڑی؛چناں چہ” وائسرائے ہند لارڈمنٹو“نے اس مقصد کے لیے، ایک طویل یادداشت کورٹ آف ڈائریکٹر ان کو بھیجی کہ علم کا روز بہ روز زوال ہورہا ہے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے دروغ حلفی اور جعل سازی کے جرائم بڑھ رہے ہیں؛ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتربیت پر زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کیاجائے اور کالج وغیرہ کھولے جائیں۔ آخر بڑی تگ ودو کے بعد ہندستانیوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک کمیٹی قائم ہوئی ،جس کی سفارش پر تعلیم دینے کے لیے، ایک لاکھ روپیے کی سالانہ گرانٹ منظور کی گئی؛ تاہم اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ چارلس گرانٹ کی طرح عیسائی مبلغین کو پہنچا ،جو برِصغیر کو بحیثیت مجموعی عیسائی بنانے کی آرزو رکھتے تھے۔ اس طرح حکومتی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے؛ جہاں انگریزی کی آڑ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مثلاً کلکتہ کا اینگلوانڈین کالج (۱۸-۱۸۱۷) بنارس کا جے نرائن کالج (۱۸۲۱) اور آگرہ کالج (۱۸۲۳/) وغیرہ۔
(ایضاً ص:۱۶۸-۱۶۹)
تعلیم کے ذریعے ہندستانی کو عیسائی بنانے کی سازش:
۱۸۳۳ء میں جب اتفاق سے یہی چارلس گرانٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے صدر منتخب ہوئے، تو برطانوی دارالعوام میں ہندستان کی مذہبی اور اخلاقی ترقی کے متعلق ان کی تجویز کثرت ِرائے سے منظور ہوگئی۔ اس طرح برصغیر میں پادریوں کی آمد اور عیسائیت کی نشر واشاعت کے لیے گویا وہ پورا پھاٹک ہی کھل گیا،جس کی پہلے صرف ایک کھڑکی کھلی تھی۔(ایضاً ص:۱۷۰)
مناظرانہ ماحول کے ذریعے اسلام خاص طور پر اور دیگر مذاہب ٹارگیٹ:
ان پادری حضرات نے اہلِ ہند کے مذاہب؛ خاص کر دینِ اسلام پر تابڑ توڑ حملے کرکے پورے ملک کو فرقہ وارانہ مناظروں کی آگ میں جھونک دیا، جس کے نتیجے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی#، مولانا رحمت اللہ کیرانوی#، مولانا منصور علی خان اور ڈاکٹر وزیر خان کی طرح علمائے حق نے میدان میں آکر اہلِ باطل کا مقابلہ کیا اور اسلام کی حقانیت پر عیسائیوں اور ہندوؤں سے فیصلہ کن مناظرے کرکے دنیا کو وہ علمی سرمایہ فراہم کیا، جو اپنی مثال آپ ہے اور ہماری ملی تاریخ کا جلی عنوان ہے۔
(الف: رضوی، سید محبوب ”مکمل تاریخِ دارالعلوم دیوبند“ میرمحمد کتب خانہ مرکز ِعلم وادب آرام باغ کراچی جلد۱، ص:۱۱۷-۱۲۰)
(ب۔ الحسنی، سید محمد ”سیرت مولانا محمد علی مونگیری“ مجلس نشریات اسلام کراچی (س ن)ص:۴۵-۶۹)
انگریزی زبان کو ذریعہٴ تعلیم بناکر بر صغیر کے باشندوں کی قوتِ فکریہ پر بڑا حملہ:
دوسری طرف یہ استعماری تعصب اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آیا، جب ہندستانیوں کے لیے ذریعہٴ تعلیم کا مسئلہ طے کیا جانے لگا اور برِصغیر کے مستقبل کے متعلق اس اہم موضوع پر دو مختلف نظریات کے حامل افراد سامنے آئے۔ ایک وہ جو انگریزی زبان کو ذریعہٴ تعلیم بناکر ایک ایسا نظامِ تعلیم رائج کرنا چاہتا تھا، جس کی جڑیں اس ملک کے عوام میں نہیں تھیں اور دوسرا وہ جو مشرقی علوم کو برقرار رکھ کر اس میں مغربی سائنس کی پیوندکاری کے حق میں تھا۔ مؤخر الذکر گروہ کے پر جوش حامی پر نسپ صاحب سیکریٹری ایشاٹک سوسائٹی تھے ،جو ایک معتدل سوچ رکھنے والی شخصیت تھے؛ جب کہ اول الذکر گروہ کے سرخیل لارڈمیکالے (T.B Macaulay) تھے، جو نہ صرف یہ کہ انگریزی علوم کے زبردست حامی اور موٴید تھے؛ بل کہ اس حوالے سے خاصے متعصب بھی تھے اور مشرقی علوم وفنون کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
اس کی اس متعصبانہ ذہنیت کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے ،جو اس نے ایک یادداشت کی شکل میں ۳/فروری ۱۸۳۵ء کو بیرک پور (کلکتہ) کے مقام پر گورنر جنرل ہند لارڈ ولیم بینٹنک کو پیش کی، جس پر مباحثے کے لیے جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن کا اجلاس ۷/مارچ ۱۸۳۵ء کو منعقد ہوا۔ وہ کہتے ہیں:
”ہمارے پاس ایک رقم (ایک لاکھ روپیہ) ہے،جسے گورنمنٹ کے حسب ِہدایت اس ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم وتربیت پر صرف کیا جاتا ہے، یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے؟ کمیٹی کے پچاس فیصداراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے ،باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لیے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے، جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندستان اور عرب کے مجموعی علمی سرمایہ پر بھاری ہیں۔ پھر مغربی تخلیقاتِ ادب کی منفرد عظمت کے کما حقہ معترف تو کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں، جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم ِگفتار ہیں“۔
”ہمیں ایک ایسی قوم کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال اپنی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہمیں انھیں لازماً کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہوگی، اس میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیلِ حاصل ہے ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے، یہ زبان قوتِ متخیلہ کے گراں بہا خزانوں کی امین ہے۔ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثے تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے، جسے روئے زمین کی دانشور ترین قوموں نے باہم مل کرتخلیق کیا ہے اور گزشتہ نوے سال سے بکمالِ خوبی محفوظ کیا ہے۔ یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس زبان میں موجود ادب اس تمام سرمایہٴ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے، جو آج سے تین سوسال پہلے دنیا کی تمام زبانوں میں مجموعی طور پر مہیا تھا“۔
( بخاری سید شبیر ”میکالے اور برِصغیر کا نظام تعلیم“ آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور۱۹۸۶/ ص:۳۰-۳۳)
”اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سوال ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھنے کا اختیار ہے، تو پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمے داری قبول کریں گے، جن کے بارے میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہوگی کہ اس کا ہماری کتابوں سے موازنہ کیا جاسکے۔ آیا جب ہم یورپین سائنس کی تدریس کا انتظام کرسکتے ہیں، تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیم دیں جن کے بارے عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے، تو اس صورت میں ان علوم ہی کا پایہٴ ثقاہت پست ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ آیا جب ہم پختہ فکر فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں ؛جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے۔ ایسا علمِ فلکیات پڑھائیں ،جس کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اڑائیں“۔
( ایضاً ص:۳۳-۳۴)
ہندستانیوں کو ان کی اپنی زبان و ثقافت سے دور کرنے اور حقارت کا پلان:
”بچے جو گاؤں کے مدرسے میں استاد سے حروفِ تہجی یا تھوڑی بہت ریاضی سیکھتے ہیں ،انھیں استاد کو بھی کچھ نہیں ادا کرنا پڑتا، استاد کو پڑھانے کی تنخواہ ملتی ہے تو پھر جو لوگ سنسکرت اور عربی پڑھتے ہیں انھیں مالی اعانت دینے کا کیا جواز ہے؟“۔
”عربی کالج اور سنسکرت کالج پر ہم جو خرچ کررہے ہیں، یہ حق ہے؛ بل کہ غلط کاروں کی پرورش وتربیت کے لیے بے دریغ کی جانے والی اعانت ہے، اس مصرف سے ہم ایسی عافیت گاہیں تعمیر کررہے ہیں، جن میں نہ صرف بے یارو مددگار بے ٹھکانہ لوگ پناہ لیتے ہیں؛ بل کہ ان میں تعصبات اور ذاتی مفادات کے مارے وہ تنگ نظر لوگ بھی پل رہے ہیں، جو اپنے ذاتی فائدوں اور گروہی عصبیتوں کے سبب تعلیمی اصلاح کی ہر تجویز کے خلاف ہر زہ دراہوں گے، اگر میری سفارش کردہ تبدیلی کے خلاف ہندستانیوں میں احتجاج ہوا تو اس کا سبب ہمارا اپنا نظام اور طریقِ کار ہوگا۔ عَلَمِ مخالفت بلند کرنے والوں کے قائدین وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہمارے وظائف پر پرورش پائی ہوگی“۔
( ایضاً ص:۳۷-۴۰)
”عربی اور سنسکرت کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور دلیل بھی دی جاتی ہے، جو اس سے بھی زیادہ کمزور اور غیر مستحکم ہے، بیان کیا جاتا ہے کہ عربی اور سنسکرت وہ زبانیں ہیں، جن میں کروڑوں انسانوں کی مقدس کتابیں محفوظ ہیں اور اس لیے یہ زبانیں خصوصی حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں۔ یقینا حکومتِ برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ ہندستان کے تمام مذہبی مسائل میں روا دار اور غیر جانبدار رہے، لیکن ایک ایسے ادب کی تحصیل کی حوصلہ افزائی کرتے چلے جانا جو مسلمہ طور پر معمولی قدر وقیمت کی حامل ہے اور محض اس لیے کہ وہ ادب اہم ترین موضوعات پر غلط ترین معلومات ذہن نشین کراتا ہے۔ ایک ایسا رویہ ہے جس کی موافقت نہ تو عقل کرتی ہے نہ اخلاق، جو لوگ ہندستانیوں کو حلقہ بگوش مسیحیت کرنے کے کام میں مصروف ہیں، ہم ان کی سرکاری طور پر ہمت افزائی سے اجتناب کر تے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی مجتنب رہیں گے۔ جب عیسائیت کے بارے میں ہمارا یہ رویہ ہے تو کیا مناسب اور درست ہوگا کہ ہم سرکاری خزانے سے رشوت دے کر لوگوں کو اس امر پر مستعد کریں کہ وہ اپنی جوان نسل کی زندگیاں یہ جاننے میں برباد کر دیں کہ گدھے کو چھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو کس طرح پاک کر سکتے ہیں یا وید کے کن اشلوکوں کو پڑھنے سے ایک بکرا مار دینے کا کفارہ ادا ہوجاتا ہے“۔
(ایضاً ص:۴۲-۴۳)
خواہ مخواہ انگریزی زبان کی عربی اور سنسکرت پر فوقیت کا دعویٰ:
”میرا خیال ہے کہ ایک بات واضح ہے کہ ہم پارلیمنٹ ایکٹ ۱۸۳۱ء کے پابند نہیں ہیں، نہ ہی کسی ایسے معاہدے کے، جو ہم نے اس خصوص میں صراحتاً کیا ہو یا کنایتًا اور یہ کہ ہم زیرِ بحث رقوم کو اپنی صواب دید کے مطابق استعمال کرنے میں آزاد ہیں اور یہ کہ ہمیں اس فنڈ کو اس علم کے حصول میں صرف کرنا چاہیے جو بہترین طور پر شایانِ مطالعہ ہو اور یہ کہ انگریزی زبان عربی اور سنسکرت کے مقابلے میں مطالعے کے لیے موزوں تر ہے اور یہ کہ خود ہندستانی لوگ انگریزی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہیں ،انھیں عربی اور سنسکرت سیکھنے کے لیے کوئی طلب نہیں اور یہ کہ نہ تو قانونی زبان کی حیثیت سے اور نہ مذہبی زبان کے لحاظ سے سنسکرت یا عربی زبان کو ہماری خصوصی ہمت افزائی کا کوئی استحقاق ہے“۔
(ایضاً ص:۴۴-۴۵)
عربی وسنسکرت کے لیے اسکالر شپ ختم کرنے کی سفارش:
”میں اس نظام ِناکارہ کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتاہوں، جسے ہم نے ابھی تک سینے سے چمٹا رکھا ہے، میں فی الفور عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت روک دوں گا؛ میں کلکتہ کے مدرسہ اور سنسکرت کالج کو ختم کر دوں گا۔ بنارس برہمنی تعلیم کا بڑا مرکز ہے اور دلی عربی تعلیم کا ،اگر ہم ان دونوں ہی کو جاری رکھیں تو السنہٴ شرقیہ کے فروغ کے لیے کافی ہوگا؛ بل کہ میرے خیال میں کافی سے زیادہ ہے، اگر بنارس اور دلی کے کالجوں کو برقرار رکھنا ہے تو میری کم سے کم یہ سفارش ہوگی کہ ان میں داخلہ لینے والے کسی طالب علم کو وظیفہ نہ دیا جائے“۔
( ایضاًص۴۶)
وہ اس نظریہٴ تعلیم کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
انگریزوں کے مددگار افراد کی تیاری کا منصوبہ:
”فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرضِ وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہئیں، جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پرہم حکومت کررہے ہیں ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندستانی ہو؛ لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہو“۔ (ایضاً ص:۴۵)
ووٹ کے ذریعے ہندستانی باشندوں پر غیر مناسب تعلیمی پالیسی تھونپ دی:
تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ آخر میں جب اس تجویز پر رائے شماری کا مرحلہ آیا تو اتفاق سے اس کے حامی اور مخالف اراکین کی تعداد برابر برابر تھی اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پار ہا تھا، تب لارڈمیکالے نے ہی اس تجویز کے حق میں اپنا ووٹ ڈال کر بزعمِ خویش برِصغیر میں انگریزی زبان کے اجرا کا راستہ ہمیشہ کے لیے ہموار کردیا۔
(مسلمانوں کا روشن مستقبل ص۱۷۰-۱۷۱)
تعلیمی پالیسی کے ثمرات ونتائج:
بالعموم ملک کے روشن خیال طبقے کی طرف سے اس فیصلے کی تعریف میں بڑے گن گائے جاتے ہیں کہ موصوف نے اس فیصلے کے ذریعے دراصل ہندستان کو آزادی کا پروانہ عطا کیا تھا ۔
حالاں کہ یہ بات بدیہی طور پر غلط ہی نہیں گمراہ کن بھی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادی کی اس تحریک میں ہندو ومسلم سب اقوام نے مل کر حصہ لیا تھا، جس میں مسلمانوں کی قربانیاں برصغیر کے باقی مذاہب کے لوگوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ پھر مسلمانوں میں بھی علمائے ہند کی جد وجہد آزادی کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کی دلخراش داستانیں کالاپانی (خلیج بنگال) سے لے کر مالٹا (بحیرہٴ روم) تک کے قیدخانوں سے مرتب کی جاسکتی ہیں۔
انگریزی زبان میں تعلیم کا مسلمانوں پر منفی اور ہندووٴں پر مثبت اثر:
اس فیصلے کی وجہ سے برصغیر کا فارسی خواں طبقہ جو زیادہ تر مسلمان تھا، پس منظر میں چلاگیا اور انگریزی کے نئے مقام کی وجہ سے ایک قسم کا ناخواندہ شمار ہونے لگا؛جب کہ ہندوؤں نے اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کے لیے زبردست جد وجہد کی،جس کا اثر سرکاری ملازمتوں کے حصول پر بھی پڑا،جیساکہ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپریل۱۸۷۱/ میں صرف بنگال میں سرکاری ملازمتوں کی تقسیم کا جو نقشہ پیش کیا ہے نہایت ہی مایوس کن ہے۔ واضح رہے کہ یہ فہرست صرف ان گزیٹیڈ ملازمتوں کی ہے، جن پر ہندو مسلمان اور انگریز سب فائز ہوسکتے ہیں، اس کے مطابق کل ۱۱۱۲/آسامیوں میں یورپین کی تعداد۸۳۳/ ہندو۱۸۶/ اور مسلمان فقط۲۹/ ہیں۔
(ہنٹر ڈبلیو ڈبلیو آئی سی ایس بنگال ”ہمارے ہندوستانی مسلمان“ مترجم ڈاکٹر صادق حسین دفتر اقبال اکیڈیمی ظفر منزل تاج پورہ لاہور۱۹۴۴/ ص:۲۳۴-۲۳۵)
ہائی کورٹ کے وکلاء کی فہرست جن کا درجہ بیرسٹروں سے ذرا کم ہے اور بھی زیادہ عبرتناک ہے اور یہ وہ شعبہ تھا جو تمام کا تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ ۱۸۵۱/ تک کل دوسو چالیس ہندستانی داخل کیے گئے ،جن میں فقط ایک ہی مسلمان تھا۔(ایضاً ص:۲۳۸-۲۳۹)
انگریزوں نے مسلمانوں کو پسماندہ بنانے کے لیے بالقصد انگریزی زبان کو ذریعہٴ تعلیم کے طور پر مسلط کیا:
ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر مزید لکھتاہے کہ:
”حقیقت یہ ہے کہ ہمارا طریقہٴ تعلیم جس نے ہندوؤں کو ان کی صدیوں کی نیند سے جگایا اور ان کے کاہل عوام میں قومیت کے شریفانہ جذبات پیدا کردیے ہیں، مسلمانوں کی روایات کے بالکل خلاف اور ان کی ضروریات کے بالکل غیر مطابق ہے؛بل کہ ان کے مذہب کی تحقیر ہے۔ ہندو اسلامی حکومت میں بھی اپنی قسمت پر ایسے ہی مطمئن تھے جیسے کہ اب ہماری حکومت میں۔ آج کل ترجیح صرف اس شخص کو دی جاتی ہے جو انگریزی زبان جانتا ہو اور ہندو انگریزی خوب سیکھتے ہیں، اس سے پہلے ترجیح اس شخص کو دی جاتی تھی جو فارسی زبان جانتا تھا“۔(ایضاً ص:۲۴۵)
سرسید لارڈ میکالے کے لیے رطب اللسان:
سرسید احمد خان نے برِصغیر ہندوپاک میں لارڈمیکالے کے نظامِ تعلیم کو جس دلجمعی اور اخلاص سے متعارف کرانے کی کوشش کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، جیساکہ آپ لارڈمیکالے صاحب کی تعریف میں رطب اللسان ہیں:ہم صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کو مشرقی علوم کی ترقی کے پھندے میں پھنسانا ہندستانیوں کے ساتھ نیکی کرنا نہیں ہے؛ بل کہ دھوکے میں ڈالنا ہے۔ ہم لارڈمیکالے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا اس کو بہشت نصیب کرے کہ اس نے اس دھوکے کی ٹٹی کو اٹھادیا تھا“۔(حیاتِ جاوید ص:۴۰۲)
تعجب ہے جس سر سید صاحب کی تعریف کے گن گائے ہمارے لوگ نہیں تھکتے، ان کی ناقص فراست پر۔ جس راہ پروہ گئے اس سے مسلمانوں کو فائدہ کم اور سیاسی ودینی اعتبار سے نقصان زیادہ ہوا ، یہ تاریخی حقیقت ہے۔