۱- غیر جمہوری اور آئینِ ہند کے برخلاف نئی تعلیمی پالیسی کو نافذ کیا جارہا ہے:
ملک کے مختلف دانشوروں نے نئی تعلیمی پالیسی کے متعدد منفی پہلووٴں کی بھی نشاندہی کی ہے، جماعتِ ِِاسلامی کے مرکزی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین جناب نصرت علی صاحب نے نئی تعلیمی پالیسی کے تمام پہلووٴں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیے بغیر اعلان کیا، جب کہ اس سے قبل حکومت کے ذریعے منظور کی جانے والی تمام تعلیمی پالیسیوں پر پارلمنٹ میں مباحثے ہوا کرتے تھے،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت جمہوری طریقوں کو اپنانا نہیں چاہتی۔
نئی قومی تعلیمی پالیسی کا وِژن اور مقصد واضح نہیں ہے، معاشرتی پہلو نظر انداز کرکے صرف مادیت پر زور دیا گیا ہے:
۲- محترم نصرت علی صاحب نے کہا کہ حکومت نے جس پالیسی کا اعلان کیا ہے کہ اس کاویثرن واضح نہیں، اس میں وضاحت کا فقدان ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں معاشرتی تبدیلی پر توجہ دینے سے زیادہ مادیت پسندی پر دھیان دیا گیا ہے، جب کہ ملک میں ایک ایسی تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے، جس کا مقصد معاشرتی انصاف، جمہوری اقدار، مساوات اور باہمی اعتماد کی بحالی کے ذریعہ معاشرتی تبدیلی ہو۔
ہندستانی تناظر میں جامع اپروچ کی تعیین نہیں ہے:
۳- انھوں نے مزید کہا کہ تعلیمی پالیسی میں تعلیم کے جامع اور مربوط اپروچ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، اس میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ ہندستانی تناظر میں جامع اپروچ کی تعریف کیا ہونی چاہیے۔
ملک کی بڑی ۸/ زبانوں میں سے اردو کو خارج کردیا گیا:
۴- پالیسی میں کہا گیا ہے کہ آٹھ زبانوں کے لیے ”ای مواد“ تیار کیا جائے گا؛مگر اس میں اردو شامل نہیں کی گئی ہے، اگر پالیسی کا مقصد محروم طبقات کی مجموعی حالت کو بہتر بنانا ہے تو ای مواد کو اردو زبان میں بھی ڈیولپ کیا جاناچاہیے۔
۸۱/ سالہ تعلیمی نظام رفاقی پالیسی کے لیے دھچکہ ہے:
۵- پری پرائمری سے ۸۱/ سال تک کی عمر کے بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم کا فیصلہ خوش آئند قدم ہے، تعلیم ایک ریاستی سبجیکٹ ہے، لہٰذا متعدد تعلیمی اداروں کو ایک مرکزی یونٹ میں ضم کردینا اسے کلی مرکزی حیثیت دے گا اور یہ ہماری رفاقی پالیسی کے لیے دھچکا ہوگا۔
تعلیم سے سیکولرزم کو ختم کرکے اسے ہندوانہ رنگ میں تبدیل کرنے کی جانب پیش قدمی ہے، جو اقلیتوں کے لیے تازیانہ سے کم نہیں:
۶- ملک کے معروف عالمِ دین ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نے نئی تعلیمی پالیسی کے کچھ منفی پہلووٴں کی نشاندہی کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ پوری پالیسی کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیکولرازم کو ختم کرکے پورے ملک میں ایک نئی سوچ عام کرنے کا پختہ ارادہ ہے۔
مدارسِ دینیہ کے بارے میں پالیسی میں کوئی وضاحت نہیں؛ بل کہ ذکر تک نہیں:
۷- مدارس کا پوری پالیسی میں کہیں ذکر نہیں ہے، البتہ ایک لفظ Alternativ یعنی متبادل کا استعمال کیا گیا ہے، اب اس کی مراد کیا ہوگی، مدارس ،گروکل، آشرم یا پاٹھ شالہ معلوم نہیں۔
بعض لوگ پالیسی میں مدارس کا ذکر نہ ہونے کو مثبت سمجھ رہے ہیں، لیکن مجھے یہ غلط فہمی محسوس ہوتی ہے؛ کیوں کہ جب ذکر نہیں ہوگا ،تو مدارس کی تعلیمی حصے داری، جس کا ملک کے تعلیمی نظام اور خواندگی میں بڑا حصہ ہے بالکل ہی ختم ہوجائے گا، بل کہ اس کا مذاق بنانا مزید آسان ہوگا۔
متبادل تعلیم کے بارے میں بھی وضاحت نہیں :
۸- پالیسی میں جہاں متبادل تعلیم کا تذکرہ ملتا ہے؛ وہاں یہ بھی وضاحت ہے کہ متبادل تعلیم میں بھی قومی نصاب لازمی ہوگا، تب ہی ان متبادل اداروں کی تعلیمی حصے داری قبول ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر متبادل میں مدارس کو شامل کیا گیا تو پھر وہ بھی اس قومی نصاب کے پابند ہوں گے، یہ بھی وضاحت موجود ہے کہ بتدریج متبادل اسکولی نمونوں کو مین اسٹریم میں لایا جائے گا۔
مدرسی سند بے حیثیت ہوجائے گی:
۹- کالجس کو ڈگری دینے کا مجاز کردیا گیا ہے، تو گویا الحاق کی شکل ختم ہوجائے گی، اس طرح مدرسی سند بے حیثیت ہوجائے گی، اور یونیورسٹی میں داخلہ ممکن نہ ہوگا۔
عربی کا ذکر نہیں :
۱۰- پوری پالیسی میں کہیں بھی عربی کا ذکر نہیں ہے، جو خود ہی ایک بڑا سوال ہے، دیگر پہلووٴں کے علاوہ اس کے اثرات از خود اس الحاق پر پڑیں گے۔
دستور کی دفعہ ۲۹اور ۳۰ کے خلاف پالیسی ہے :
۱۱- یہ پالیسی ایک اسٹینڈرڈ کی بات کرتی ہے، بھارتی کلچر، بھارتی سنسکرتی، بھارتی ثقافت، بھارتی علوم وتاریخ وتہذیب کو پروموٹ کرتی ہے،سوال یہ ہے کہ کیا مدارس اس سے بچیں گے، اگر دستور کی دفعہ ۲۹، ۳۰ کا حوالہ دیا جائے، تو کیا اب اس حکومت کی کارکردگی دیکھتے ہوئے، اس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دستور میں ترمیم اور چھیڑ چھاڑ سے گریز کرے گی۔
مدرسہ بورڈ بھی معطل ہوجائیں گے :
۱۲- اگر مدرسہ بورڈ ہی کو حکومت لازم کردے تو آزاد مدارس کیا کریں گے، جیسا کہ بعض صوبوں میں مدرسہ بورڈ ریفارم کی تیاریاں چل رہی ہیں اور مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کیا قومی نصاب پڑھائیں گے یا پھر؟
تعلیمی پالیسی پرائیویٹ نظام کی طرف پیش قدمی کے مترادف ہے :
۱۳- معروف دانشور جناب ناظم الدین فاروقی نے نئی تعلیمی پالیسی کے منفی پہلووٴں کو اجا گر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی سے بھارت میں تعلیمی نظام کو پرائیویٹ کیا جارہا ہے، عوامی خون چوسنے کے لیے مخصوص کارپوریٹ سیکٹر کو مضبوط کیا جارہا ہے، تعلیم کو بے حد مہنگا کیا جارہا ہے، نئی تعلیمی پالیسی کا ہدف۲۰۳۵ء/ تک بڑے پیمانے پر اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینا ہے، مگر پرائیویٹ سیکٹر کو زیادہ اختیار دینے سے غریبوں کے لیے تعلیم ناممکن ہو گی۔
۱۴- جماعت ِاسلامی ہند کی جانب سے گزشتہ دنوں، نئی تعلیمی پالیسی پر ایک ویبنار کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں نئی پالیسی کے درج ذیل منفی پہلووٴں پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔ویبنار میں کہا گیا کہ نئی پالیسی میں قدیم ہندستان کے نظامِ تعلیم اور اس دور کے پانچ تعلیمی اداروں کا ذکر ہوا ہے، مگر قرونِ وسطیٰ کی تعلیمی سرگرمیوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے، جب کہ اس دور میں بھی تعلیم کے بڑے کام ہوئے ہیں، اسی طرح مدارس کی عظیم خدمات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
تعلیمی پالیسی میں اقلیت کا ایک بار صرف ذکر ہے:
۱۵- اس کے علاوہ مائناریٹی کا ذکر۶۲/ صفحات کے اس پورے ڈاکومینٹ میں صرف ایک مقام پر پوائنٹ نمبر۶‘۲‘۴میں ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ اقلیتیں اس پالیسی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں۔
۱۶- ملک کا قانون اقلیتی اداروں کو کچھ مخصوص حق دیتا ہے، ریاستی حکومتیں انھیں کچھ فنڈ فراہم کرتی ہیں، مگر اس نئی پالیسی کا رجحان سنٹرلائیزیشن کی طرف جھکا ہوا لگتا ہے، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مائناریٹی کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہونچے گا۔
۱۷- اس پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا معیار، سب کے لیے یکساں ہوگا، ایسی صورت میں مائناریٹی انسٹیوٹ کو کیسے ریگولیٹ کیا جاسکے گا؟ مدارس کا ا سٹیٹس کیا ہوگا؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔
والنٹیر کا نظام بھی پریشان کن:
۱۸- اکیڈمک ایجوکیشن کو اونچا کرنے کے لیے ایجوکیشن والنٹیر کی خدمات حاصل کی جائیں گی، سوال یہ ہے کہ یہ والنٹیرس کس نظر وفکر کے ہوں گے اور تعلیمی اداروں میں یہ والنٹیر معیار کو اونچا اٹھانے کے بہانے کیا اپنی فکر کو عام کریں گے؟ یہ ایک بڑا خدشہ ہے۔
ڈراپ اوٹ کے گراف سے بڑھنے کا خدشہ:
۱۹- پالیسی میں ہنرمندی کی بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گریڈ نائن کے بعد ہر طالب علم کسی ایک ہنر کو حاصل کرے گا، اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔وہ یہ کہ ۱۲/ ویں کرلینے کے بعد ان میں آگے بڑھنے کے بجائے کمانے کا شوق پیدا ہوگا، اور ڈراپ آوٴٹ کا اوسط بڑھنے لگے گا۔
خانگی نظام کی طرف بڑھتا ہوا قدم:
۲۰- معروف ماہرِتعلیم جناب فاروق طاہر نے اپنے ایک کالم میں نئی تعلیمی پالیسی کے تعلق سے لکھا ہے کہ مسودہ کے مطالعہ سے یہ حقیقت صاف طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ حکومت تعلیم کی یقینی فراہمی کے عمل سے خود کو پیچھے کرتے ہوئے، خانگی اور پرائیویٹ تعلیمی ادارہ جات کے فروغ کے ذریعے ملک کو تعلیمی تجارت کے ایک مرکز کے طور پر فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔منظور شدہ نئی تعلیمی پالیسی کے مطالعے سے معلوم ہوگا کہ یہ حکومت خانگی تعلیمی اداروں کو اپنے من پسند طریقے سے چلانے کی طاقت توانائی اورقانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
۲۱- فاروق طاہر صاحب کے بقول، نئی تعلیمی پالیسی میں طلبہ تنظیموں کے پرزور مطالبے اور تحریکوں کے باوجود خانگی تعلیمی ادارہ جات میں آئین کی جانب سے فراہم کردہ تحفظات کی ضرورت اور ریزرویشن پالیسی کو نافذ کرنے کے مثبت اقدامات کا کہیں بھی ذکر نہیں، حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ آئین کے وفاقی ڈھانچے پر شب خون مارا ہے۔
۲۲- ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں ڈیجیٹل اور آن لائن ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی بات ضرور کی گئی ہے، لیکن ٹیکنالوجی کے فروغ اس کی وسعت پذیری اور طلبہ کی ٹیکنالوجی تک رسائی جیسے اقدامات کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے۔
۲۳- مودی حکومت کا سنسکرت کو ملک کی دیگر کلاسیکی زبانوں کے مقابل میں فوقیت دینا، سنسکرت کو قومی زبان کے طور پر ترقی وترویج دینے کے عزائم کا مظہر ہے، نئی تعلیمی پالیسی میں اگرچہ دوسری زبانوں کی بات ضرور کی گئی ہے؛ لیکن سنسکرت پر زیادہ زور دینے سے حکومت کی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے۔
فاروق طاہر صاحب کہتے ہیں کہ NEP۰ ۲۰۲ء میں بار بار تعلیم میں نجی سرمایہ کاری اور انسانی سخاوت کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے، یہ نجی اور کاروباری اداروں کو ہائر ایجوکیشن میں اپنے کاروبار کو وسعت اور فروغ دینے کا ایک واضح پیغام ہے، یہ اعلیٰ تعلیم کو کارپوریٹ اور نجی کنٹرول میں دینے کی ایک شاطرانہ چال کے سوا کچھ نہیں۔
۲۴- مولانا علم اللہ اصلاحی نے اپنے کالم میں نئی تعلیمی پالیسی کے درج ذیل منفی پہلووٴں کی نشاندہی کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے ڈرافٹ کو پڑھنے کے بعد، اندازہ ہوتا ہے کہ اب تمام اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھ میں آجائیں گے، جس کے مطابق حکومت تعلیمی سیکٹر کے لیے اپنی پبلک فنڈنگ آہستہ آہستہ ختم کردے گی، دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم وریسرچ پر قومی بجٹ کا ۶/ فیصد خرچ کیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں ۲/ فیصد بھی بجٹ نہیں دیا جاتا ہے۔
۲۵- اس پالیسی کے مطابق قدیم ہندستانی ویدک تہذیب اور نالندہ کے طریقہٴ تعلیم کو رائج کرنے کی کوشش ہوگی، جس میں موسیقی اور رقص کی کلاسیں ایک ساتھ ہوں گی، سرسوتی پوجا، یوگا، نیز ہندوانہ مذہبی تعلیمات کو لازمی طور پر شامل رکھنے کی بات مسودے میں شامل ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی پر ماہرین ِتعلیم کے اس تجزیہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ تعلیم کی ترقی کے نام پر دھوکہ ہے اور” زخرف القول غرورا“ کا مصداق ہے؛محض الفاظ چکنے چپڑے اور خوشنما ہیں ؛حقیقت کچھ نہیں۔” کھودا پہاڑ نکلا چوہا“ سا ہے۔ فرمان قرآن ﴿اِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا﴾” اس کے نقصانات اس کے فوائد کے مقابلے میں زیادہ ہیں“؛اس پر مکمل صادق آرہا ہے۔
اس نئی تعلیمی پالیسی سے اقلیتوں کو بھی نقصان ہے اور غریب طبقے کو بھی؛گویا ملک کی اکثریت کوبڑا نقصان ہے۔ اس تعلیمی پالیسی کو مختصراً یہی کہا جاسکتا ہے: ﴿ظَاہِرُہ فِیْہِ الرَّحْمَةُ وَبَاطِنُہ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَاب﴾یعنی ظاہری طور پر ٹھیک ٹھاک معلوم ہوتا ہے، مگر گہرائی سے مطالعہ کریں،تو یہ تعلیمی پالیسی ہندستانیوں کے لیے عذاب ہے۔
تو آییے ہماری ذمہ داری کیا ہونی چاہیے؟ اور ہم اس کا مقابلہ کیسے کریں؟ اس پر روشنی ڈالتے ہیں: