انوار قرآنی: چوتھی قسط:
مفتی عبد المتین صاحب اشاعتی کانڑ گانوی
(استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)
۱- فتنہٴ دین وایمان
فتنہٴ دین وایمان(ایمان ومادّیت)۔
قصہٴ اصحابِ کہف نوجوانوں کے لیے آئیڈیل۔
حقیقی ایمان واستقامت۔
شرک بے دلیل سب سے بڑا ظلم۔
اصنام پرستی پر احساسِ ندامت اور مشرکین سے علیحدگی۔
آیت: ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶:
﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاَہُم بِالْحَقِّ إِنَّہُمْ فِتْیَةٌ آمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی (13) وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ إِلَہًا لَّقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا(14) ہَوُُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِہِ آلِہةً لَّوْلَا یَاْْتُونَ عَلَیْہم بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّہِ کَذِبًا(15) وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّہَ فَاْْوُوا اِلَی الْکَہْفِ یَنشُرْ لَکُمْ رَبُّکُم مِّن رَّحْمَتِہِ وَیُہَیِّءْ لَکُم مِّنْ اَمْرِکُم مِّرْفَقًا (16) ﴾
ترجمہ: ”ہم تمہیں ان کا صحیح حال سناتے ہیں بے شک وہ کئی جوان تھے، جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں اور زیادہ ہدایت دی oاور ہم نے ان کے دل مضبوط کر دیے جب وہ یہ کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے، ورنہ ہم نے بڑی ہی بیجا بات کہیo یہ ہماری قوم ہے انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا لیے ہیں، ان پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے، پھر اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جس نے اللہ پر جھوٹ باندھاo اور جب تم نے ان (مشرکوں) سے اور جن کی یہ خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کرلیا ہے تو غار میں چل رہو تمہارا پروردگار تمہارے لیے اپنی رحمت وسیع کردے گا اور تمہارے کاموں میں آسانی (کے سامان) مہیا کرے گا۔“
تفسیر:
گزشتہ آیات میں اصحابِ کہف کا اجمالی قصہ بیان فرمایا، اب ان آیتوں میں کچھ تفصیل بیان کی گئی ہے، تاکہ اہلِ صبر واستقامت اور رہ روانِ منزلِ آخرت کے لیے مشعلِ ہدایت بنے۔
(معارف القرآن کاندھلوی)
قصہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
زمانہٴ اصحابِ کہف، اصحابِ کہف کا اصرار علی التوحید، اپنی قوم کو عبادتِ اصنام پر ندامت دلانا، اپنی قوم سے کنارہ کشی اختیار کرنا۔ کہف میں اُن کے حالات، مکانِ کہف، قدرت، لطف وعنایتِ خداوندی،۳۰۹/ سال کے بعد صحیح حالت میں بیداری، شرائے طعام میں وکالت، لوگوں کا ان کے حال پر مطلع ہونا، لوگوں کی اُن کے بارے میں مختلف آراء، تعدادِ اصحابِ کہف، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت کو ارشاد وتعلیم؛کہ مستقبل کی کسی بھی خبر کو مشیئتِ باری تعالیٰ کے ساتھ معلق کیا جائے، اصحابِ کہف کی مدتِ لُبث فی الکہف۔
پیغام واحکام:
اس سورت میں جو ”سات جواں مردوں کاقصہ“ مذکور ہے، اس میں نوجوان عنصر کے لیے خصوصی پیغام ہے، جو ہر زمانے میں کام دے سکتا ہے، اور صرف دل ودماغ پر نہیں، بل کہ صلاحیتوں، حوصلوں اور عزائم پر بھی ایک تازیانہ کا کام دے سکتا ہے، کبھی شبنم ٹپکاتا ہے، کبھی پھول کی جھڑیاں لگاتا ہے، الغرض قصہٴ اصحابِ کہف ہر دور کے نوجوانوں کے لیے قابلِ تقلید نمونہ اور آئیڈیل ہے۔
کفر وشرک کی گھٹا ٹوپ تاریکی، نسل پرستی، رسم پرستی، توہم پرستی، ظاہر پرستی، اور انسانیت کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا توحید کی اصل اساس وبنیاد، اور سچی خدا پرستی ہے۔
کسی قوم اور معاشرہ وسماج میں کوئی ترقی وتعمیری کام کرنے اور حالات سازگار بنانے کے لیے نوخیز اور جواں سال عمر والوں کا انتخاب کرنا چاہیے، کہ وہ نئی اور صالح دعوت کو جلد قبول کرلیتے ہیں، کیوں کہ سِن رسیدہ اور پختہ کار لوگوں کے پاوٴں میں تجربات، مفادات، رسم ورواج اور خوف واُمید کی بھاری بیڑیاں پڑی ہوتی ہیں، اور اُن کو کسی نئے تجربے اور انقلابی قدم سے باز رکھتی ہیں؛چناں چہ قریش اور مکہ کے اکثر بوڑھے سردار بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف اور دشمن تھے۔
(مستفاد: افاداتِ قرآنی، درس قرآن نعمانی)
عموماً تمام مسلمانوں کو اور خصوصاً نو جوانوں کو چاہیے کہ دین وایمان کے سلسلے میں اُن پر کیسے بھی حالات آجائیں، دِین وایمان سے رُو گردانی نہیں کرنی چاہیے، اور ناموافق ونامساعد حالات میں بھی ان سات جواں مردوں کی طرح اپنے دل ودماغ، حوصلوں اور عزم وارادہ کو بھی جوان رکھنا چاہیے، تاکہ بروقت صحیح ومناسب فیصلہ لیا جاسکے اور ایمان پر استقامت کی دولت نصیب ہوسکے۔
خداپرستی اور اصلاحِ حال کی صحیح دعوت و تبلیغ کرنے والے اور اُس کو ماننے والے ابتدا میں ہمیشہ سے تھوڑے ہی ہوئے ہیں، اس لیے امت کی اصلاح اور دعوت وتبلیغ میں قلتِ افراد کا شکوہ نہیں ہونا چاہیے؛جب بھی کسی اہم اِقدام کا ارادہ کرلے، تو سب سے پہلے خدا کو اپنا کارساز یقین کرکے اُس سے دعا کرے اور رحمت ومدد مانگے۔
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے!
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے!
صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینے کا نام ایمان نہیں، بل کہ اعضاء وجوارح سے اس پر عمل کرنا حقیقی ایمان ہے۔﴿قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوْا وَلکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا﴾ (الحجرات:۱۴)
ہماری پرورش کا ذمہ دار، اورہمارا رازق وہ خدا ہے، جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے، دنیوی حکومتیں، ملازمتیں معیشتیں، اقتصادیات ومصنوعات ہماری قسمت وروزی کی مالک نہیں، بل کہ مالک صرف اللہ ہے، اس لیے چند روزہ راحت، عیش وعشرت والی، اور خوش حال وفارغ البال زندگی گزارنے کے لیے حکومتوں اور غیروں کا حاشیہ بردار ہوکر رہنا، اُن کی رکاب میں چلنا، اُن کی ہاں میں ہاں ملاناکوئی دانش مندی نہیں ہے۔
کسی حکومت اور قلمرو میں اچھی زندگی گزارنے کے لیے اس حکومت کے باطل عقیدے کو اختیار کرنا، اس کے غلط نظریات پر سکوت وخاموشی اختیار کرنا، یہ حقیقت پسندی وخدا پسندی نہیں،بل کہ مصنوعیت پسندی و خود پسندی ہے۔
مسلمانوں (خصوصاً جن کو دینی حمیت وغیرت کی بنا پر حوالہٴ زنداں کیا گیا)کو ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ اگر برے حالات میں ایمان واسلام پر استقامت کے نتیجے میں، حکومتوں اور ظالموں کی طرف سے، دینِ اسلام سے پھرنے یا اس کے خلاف کوئی گھناوٴنی سازش کروانے کے لیے ترہیبات وترغیبات کا سہارا لیا جائے، کوڑوں یا توڑوں کی طاقت بتائی جائے، تو صبر وتحمل اور قربانی واِیثار کا مظاہرہ کریں، اللہ پاک اِن حالات میں دل کو قوت وسکون اور طمانینت کی دولت نصیب فرمائیں گے۔
اگر کسی شہر، یا ملک میں رہ کر اللہ کی عبادت نہ ہوسکتی ہو، تو اس کو چھوڑ کر دُور دراز علاقوں میں سکونت اختیار کرنا اور شرکیہ وکفریہ مقامات سے ہجرت کرنا، اور ایسے علاقوں میں پناہ لینا جہاں عبادت صحیح طریقہ سے کی جاسکے، تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔
آج ہمارا دور ایسی مادی چیزوں سے بھرا ہوا ہے کہ قدم قدم پر ہم کو خدا سے غافل کرنے والی چیزیں ملتی ہیں اور ہمیں اُن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہر چیز خود فراموشی اور خدا فراموشی پیدا کرنے والی ہے، ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبارات، موبائل فون، حتی کہ خالص ادب جس کو پاک، معصوم اور غیر جانب دار ہونا چاہیے وہ بھی غیر جانب دار نہیں رہا، فسق، معصیت، سفلی جذبات اور فحش اخلاق کا مشاطہ وایجنٹ بنا ہوا ہے، ایسے خطرناک دریا میں ہمیں ڈال دیا گیا اور نعرہ لگا یا جارہا ہے کہ…”دامنِ تر مکن ہشیار باش!…خبردار بیٹا! دامن تر نہ ہونے پائے،…تو دامن بچانے کے لیے ہمیں ضرورت ہے﴿زدناہم ہدی﴾ پر غور کرنے کی، جہاں سے ایمان کا چراغ روشن ہوسکتا ہے، دین کی حرارت ومحبت پیدا ہوسکتی ہے، اس کے بغیر ہم ان نفسانی خواہشات کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ (مستفاد: افاداتِ قرآنی)
ترکِ وطن کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حالات سہنے کے بعد جدھر چاہے منہ اُٹھائے ہر شخص الگ الگ راہ پر نہ چل دے، بل کہ ایک ساتھ جماعتی طریقہ پر اس شہر کو خیرباد کہیں، اپنے دین وعقیدہ کو سینے سے لگائے اور حرزِ جان بنائے ہوئے، خدا کی رحمت کے طلب گار، اور کشائش وکام یابی اور نصرِ مبین کے منتظر اور امیدواررہیں۔ یہ وہ مناسب طریقہ اور صحیح راستہ ہے جو اہلِ ایمان کو ہر اس موقع پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جب زمین ان پر تنگ ہوچکی ہو، سارے دروازے ان کے لیے بند کردیے جائیں، اور ان کی سب سے قیمتی دولت؛ دین وایمان کے ضائع ہونے کا پورا اندیشہ اور خطرہ ہو۔ (معرکہٴ ایمان ومادیت)
ایک مسلمان مہاجر کو جو اپنی سوسائٹی اور ماحول سے بغاوت کرتا، اور آمرانہ حکومت اور مادی طاقت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے، ہدایت وثابت قدمی کی سب سے زیادہ احتیاج ہوتی ہے، اور اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خائف اور مضطرب دل کو سکون اور قوت عطا فرمائے۔
(معرکہٴ ایمان ومادیت)
جب کوئی شخص متعفّن ونجس تہذیب، اور اس کے ظالم وبدکردار عَلم برداروں اور حامیوں سے اپنا رشتہ ختم کرکے، اپنے بے لگام معاشرہ وماحول سے بغاوت کرکے کسی اطمینان بخش جگہ کی طرف ہجرت کرے، تو اس مہاجر اور پناہ گیر کو چاہیے کہ اپنے ساتھ اپنی شریعت وتہذیب (قرآنِ کریم وحدیث شریف کی کتب)اپنے ساتھ رکھ لے، جیسا کہ اصحابِ کہف علومِ نبوت کے آثارِ باقیہ اور صحیفوں کے اوراق اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ (معرکہٴ ایمان ومادیت)
علمیات :
فتیة: معنی: (۱)جواں مرد (نوجوان/مراہقت ورُجولت کے درمیان کی عمر)۔ قرآنِ پاک میں ہے: ﴿قالوا سمعنا فتیً یذکرہم یقال لہ ابراہیم﴾۔
(۲)سخی، (۳) بہادر، (۴)خادم: قرآنِ مجید میں ہے: ﴿قال لفتاہ اتنا غداء نا﴾۔
(القاموس الوحید)
فائدہ:
علمائے تفسیر کے مطابق: اِس لفظ (فتیً)میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اصلاحِ اعمال واخلاق اور رُشد وہدایت کا زمانہ جوانی ہی کی عمر ہے، بڑھاپے میں پچھلے اعمال واخلاق ایسے پختہ ہوجاتے ہیں کہ کتنا ہی اس کے خلاف حق واضح ہوجائے اُن سے نکلنا مشکل ہوتا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعو ت پر ایمان لانے والے بیش تر لوگ نوجوان ہی تھے۔ (ابن کثیر، ابوحیان، بحوالہ معارف القرآن شفیعی)
لَنْ نَّدْعُوَا:فعل مضارع منصوب بلن، صیغہ جمع متکلم۔ آخر کا واو، واوِ جمع نہیں، بل کہ لام کلمہ ہے، مگر چوں کہ واوِ جمع کے مشابہ ہے، اس لیے قرآنی رسم الخط میں اس کے بعد الف لکھا جاتا ہے، پڑھا نہیں جاتا۔
مِرْفَقًا: اسم آلہ، جمع مرافق: وہ چیز جس کے ذریعے نفع حاصل کیا جائے۔ کہنی کو بھی ”مرفق“ اسی لیے کہتے ہیں کہ اس کے سہارے آدمی آرام پاتا ہے۔کہا جاتا ہے: مرفقة: تکیہ۔ مرافق الدار: مکان سے فائدہ حاصل کرنے کی جگہیں، جیسے: پرنالہ، بیت الخلاء، دروازہ، راستہ وغیرہ اسبابِ راحت۔
امام نافع اور ابن عامر نے ”مَرفِقا“ بفتح المیم وکسر الفاء پڑھا۔ اور باقون نے ”مِرفَقا“ بکسر المیم وفتح الفاء پڑھا۔
(حجة القراء ات:۱/۴۱۲، موٴلف: عبد الرحمن بن محمد بن زنجلة أبو زرعة، الناشر: موٴسسة الرسالة بیروت، تفسیر بحر العلوم – للسمرقندی)
آیت نمبر:۱۰، ۱۱،۲ ۱/ میں قصہٴ اصحابِ کہف کو اجمالاً بیان کیا، پھر آیت: ۱۳/ سے تفصیلاً بیان کیا جارہا ہے،اس لیے کہ موعظت وتذکیر کے لیے یہ اسلوب زیادہ مفید ہوتا ہے(قرآنِ پاک میں بکثرت ایسا ہوا ہے)۔ (درسِ قرآن نعمانی)
ہدایت وہ راستہ ہے جو انسان کو مطلوب ومقصود تک پہنچادے۔
(التعریفات للجرجانی: ص/۲۵۱)
﴿زدناہم ہدی﴾سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے، جب کہ عند الاحناف: الإیمان لا یزید ولا ینقص۔ (ایمان زیادتی ونقصان کو قبول نہیں کرتا ہے)۔
عند المالکیة: الإیمان یزید ولکن لا ینقص، ویزید بالطاعات۔ (ایمان میں زیادتی تو ہوتی ہے، لیکن کمی نہیں ہوتی اور طاعات سے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا ہے)۔
عند جمہور المحدثین: الإیمان یزید وینقص، ویزید بالطاعات وینقص بالمعاصی۔ (ایمان میں زیادتی ہوتی ہے طاعات کے ساتھ، اور کمی ہوتی ہے گناہوں کے ساتھ)۔
خلاصہ یہ کہ یہ نزاع واختلاف حقیقی نہیں، بل کہ محض لفظی ہے، نتائج کے اعتبار سے سب اہلِ سنت والجماعت متفق ہیں، زیادہ چوں وچرا کی حاجت نہیں۔
جہاں جہاں ایمان میں زیادتی کا ذکر ہے، اس سے مراد ایمان کی قوت میں پختگی، ایمان کی تازگی، ایمان کے اندر درجات میں اضافہ، اس اعتبار سے ایمان بے شک زیادتی کو قبول کرتا ہے، حقیقت ماہیت ایمانی نہیں، بل کہ ایمان کے بعد اس کی تصدیق اور تعیین کے درجات بڑھتے رہتے ہیں۔
(مستفاد: اشرف الباری: ۱/۳۴۱، ۳۴۲، کتاب الایمان، انعام الباری: ۱/۳۲۱، تکملة فتح الملہم: ۱/۵۱۴- ۵۲۲)
مقامِ اصحابِ کہف کے سلسلے میں مختلف اقوال ہیں:
(۱)اُندلس کے شہر؛ غرناطہ کے ایک گاوٴں ”لوشہ“ میں، لیکن اندلسی مفسر علامہ قرطبی، اور ابن عطیہ نے خود مشاہدے کے باوجود اس کا جزم (یقین) نہیں کیا؛البتہ علامہ ابوحیان اندلسی کے نزدیک اصحابِ کہف کا اُندلس میں ہونا راجح ہے۔
(۲)حضرت مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، اور مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا کہ فلسطین میں ”ایلہ/عقبہ“ کے قریب شہر ”پٹرا/بطرا“ ہے، جس کا پرانا- نام رقیم/راقمہ ہے،لیکن محققینِ آثارِ قدیمہ (Archaeologists) کو اس میں تأمل ہے۔
(۳)عام مفسرین نے اصحابِ کہف کی جگہ شہر ”افسوس“ کو قرار دیا ہے، جو ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر تھا، جس کے کھنڈر اب بھی موجودہ ترکی کے شہر ”ازمیر“ (سمرنا) سے۲۰، ۲۵ میل بجانبِ جنوب پائے جاتے ہیں۔علامہ تھانوی کا رجحان بھی یہی ہے۔
(۴) مملکتِ اُردن میں عمان کے قریب اصحابِ کہف کی جگہ ہے۔
(۵) در حقیقت تمام تحقیقات کے بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہوتے ہیں، جہاں سے چلے تھے کہ مقام متعین کرنے کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کی تعیین کسی یقینی ذریعہ سے کی جاتی ہے۔
(گلدستہٴ تفاسیر، فتح الباری: ۶/۶۱۶، کتاب احادیث الانبیاء، ط: دار السلام الریاض، عمدة القاری: ۱۶/۶۸، ط: رشیدیہ کوئٹہ، تفسیر ماجدی، تفسیروں میں اسرائیلی روایات:ص/۱۹۸، قصص القرآن سیوہاروی)
ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس سے یہ تفسیر نقل کی ہے کہ اصحابِ کہف اعوانِ مہدی (حضرت مہدی علیہ السلام کے مددگاروں میں سے) ہیں۔ علامہ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس سند کو ضعیف قرار دیا۔ اور علامہ عینی رحمہ اللہ نے اس کو مرفوع کہا ہے،لیکن علامہ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر یہ سند ثابت ہوبھی جائے، تو پھر قولِ ابنِ عباس کو محمول کیا جائے گا اس بات پر کہ وہ لوگ مرے نہیں، بل کہ حضرت مہدی کے آنے تک نوم کی حالت میں رہیں گے اور آپ کی آمد کے بعد اُنہیں آپ کی اعانت کے لیے بیدار کردیا جائے گا۔
(فتح الباری، عمدة القاری)
ایک اور روایت میں ہے کہ”انہم یحجون مع عیسی ابن مریم“ لیکن علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا: ”سند واہٍ“۔
ہجرت کا لغوی معنی ہے: ایک ملک سے دوسرے ملک میں چلے جانا۔
اور اصطلاح میں دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف منتقل ہونے کا نام ہجرت ہے۔اور اگر یہ اعلائے کلمة اللہ اور عبادتِ خداوندی کے لیے ہو، تو شرعی ہجرت ہے۔
(موسوعہ فقہیہ کویتیہ:۴۲/۱۷۷، بصائر ذوی التمییز:۵/۳۰۵، المصباح المنیر، والقاموس المحیط)
علامہ جرجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”الہجرة: ہی ترک الوطن الذی بین الکفار، والانتقال إلی دار الإسلام“۔ (ہجرت کہتے ہیں دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف منتقل ہونے کو)۔
(التعریفات: ص/۲۵۱)
اکثر علمائے متقدمین اوربعض متأخرین نے ہجرت کی تعریف”الخروج من دار الکفر إلی دار الإسلام“۔ (دارالکفرسے دارالاسلام کی طرف نکلنا)اِن الفاظ میں کی ہے، جب کہ معاصر علمائے کرام اور(اصحابِ) معاجم نے حالات کے پیشِ نظراس میں کچھ ردّوبدل کیا ہے،مثلاً محمدمتولی شعراوی نے ان الفاظ میں تعریف کی ہے:”الہجرة ہی الانتقال من دار الظلم إلی دار العدل ضررا بالدین“۔(اپنے دین کے تحفظ کی خاطر دارالظلم سے دار العدل کی طرف منتقل ہونا۔
(تفسیر الشعراوی بحوالہ؛ الہجرة إلی بلاد غیر المسلمین:ص/۴۰)
مجمع اللغة العربیة نامی مصری ادارے نے، معجم ألفاظ القران کے حوالے سے ہجرت کی تعریف اِن الفاظ میں کی ہے:”الہجرة انتقال المومن من بلد الفتنة والخوف علی دینہ إلی حیث یا من علی دینہ“ یعنی ہجرت کہتے ہیں؛ مومن کا کسی ایسے ملک سے نقلِ مکانی اورترکِ وطن کرنا،جہاں اسے اپنے دین کے بارے میں خدشہ اورخطرہ ہو اورایسے ملک میں سکونت اختیارکرنا،جہاں اس کو اپنے دین کا تحفظ فراہم ہو۔ (المعجم:۲/۷۸۴)
دار الظلم؛ اس ملک کوکہتے ہیں جہاں ظلم اورسرکشی کادوردورہ ہو، دین پر عمل کرنے پر پابندی ہو،مسلمانوں پر سختی ہو، ستایا جارہا ہو، اگرچہ وہ اسلامی ممالک ہی کیوں نہ ہوں، بعض حضرات نے اسے دارالبغی بھی کہاہے؛جیسا کہ دکتوروہبہ زُحیلی تحریرفرماتے ہیں: ”دار الظلم فہی الدار التی ینشر فیہا الجور والطغیان والعدوان، ولوکانت بلاد إسلام وہناک من یطلق علیہا دار البغی۔
دارالعدل؛ ایسی مملکت کو کہتے ہیں جس میں تمام رعایا؛یعنی ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے افرادکے ساتھ انصاف ومساوات کا سلوک کیاجاتا ہو،اگرچہ وہ غیراسلامی ملک ہوں۔ ”دار العدل فہی الدار التی یعامل فیہا جمیع رعایا بالمساواة ولو کانت دار کفر“۔
(آثار الحرب: ص/۱۷۰)
(مستفاداز مقالہ:”ہجرت اور عصر حاضر میں اس کی تطبیق“، مرتب؛ مولانا حذیفہ صاحب وستانوی)
فی الحال اَراکان (برما)، ملک شام، یمن، وغیرہ کے علاقوں سے جو لوگ ہجرت کرکے دیگر مسلم یا غیر مسلم ممالک میں پناہ گزیں ہورہے ہیں، انہیں سنتِ ہجرت پر عمل کا ثواب ملے گا یانہیں؟ اس سلسلے میں واضح ہو کہ مقاصدِ خمسہ (حفاظتِ دین، حفاظتِ نفس، حفاظتِ نسل، حفاظتِ عقل اور حفاظتِ مال) کی رعایت شریعت میں فرض ہے(#)، بعض علما نے حفاظتِ نفس کو حفاظتِ دین پر مقدم کیا ہے، اس لیے کہ جب تک نفس کی حفاظت نہ ہو، دین کی حفاظت کیسے ہوسکتی ہے، اس لیے فی الحال جن جن مقامات سے مسلمان ہجرت کرکے یورپی یا اسلامی ممالک میں پناہ گزیں ہورہے ہیں، حفاظتِ دِین اُن کے پیش نظر ہے، تو اُنہیں بھی اِن شاء اللہ مسنون ہجرت پر عمل کا ثواب ملے گا۔
(الموافقات للشاطبی)
ہجرت کا حکم احوال کے بدلنے سے بدلتا رہتا ہے،کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے: ”الحکم یختلف باختلاف أحوال النَّاس“۔(المبسوط للسرخسی:۵/۱۱) اس سلسلے میں مسلمانوں کے لیے جو اُصولی بات یاد رکھنے کی ہے، وہ یہ کہ اسلام اور ایمان کی حفاظت تمام امور پر مقدم ہے،اس لیے اگر ہجرت سے اسلام اور ایمان میں خلل یانقصان، یا ضیاع کی صورت پیدا ہوتی ہو، تو ہجرت حرام ہوگی۔
اور اگر یہ صورتِ حال نہ ہو،تووہ کبھی مباح، کبھی مکروہ،کبھی مستحب،اورکبھی واجب ہوگی، اسی لیے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:”مسلمان کے لیے سب سے افضل قیام وہ ہے، جہاں رہ کر وہ دین کے تمام مُقتَضیات کو پورا کر سکتاہو، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل تابع دار ہو سکتاہو۔“
(مجموع الفتاویٰ:۱۸/۲۲۸)،(ہجرت اور عصرِ حاضر میں اس کی تطبیق)
ہندوستان دار العہد ودار الامن ہے۔ یہی ہمارے اکابرِ دیوبند کی رائے ہے۔
(مستفاد: الربوا/سود کیا ہے؟ مولانا عبید اللہ اسعدی دامت برکاتہم)
قرآنِ کریم میں اصحابِ کہف کا قصہ مکمل تفصیل کےساتھ بیان نہیں کیا گیا،کیوں کہ قرآنِ مجید کو بحث وسروکار صرف بصیرتوں،عبرتوں اور اخلاقی اسباق ونتائج سے رہتی ہے، اس لیے وہ تاریخی وجغرافیائی تفصیلات کو اکثر نظر انداز کردیتا ہے، اور اس باب میں احادیثِ صحیح بھی تفصیل سے خاموش ہیں۔ مفسرینِ قدیم وجدید کی اکثریت نے اسے مسیحی دور کی حکایت قرار دیا ہے۔ حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس قصہ کو مجمل رکھا ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تفصیل پر اعتنا کرنا ضروری نہیں سمجھا، تو اس کی تعیین جزم ووُثوق سے کرنا بھی مشکل ہے۔ پھر احکامِ دین میں سے کسی کا دار ومدار اس کی تفصیل وتعیین پر ہے بھی نہیں۔
(تفسیر ماجدی، تفسیروں میں اسرائیلی روایات:ص/۱۹۷،۱۹۸)
(جاری…)