قربانی حقیقت، اہمیت اور شکوک و شبہات کے ازالے کی روشنی میں

انوار قرآنی:

مولاناو مفتی محمد فاروق فلاحی مدنی          

(استاذ حدیث و تفسیر جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا،و جامعہ فلاح دارین ترکیسر)

            ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾(الکوثر :۲)

            سو (ان نعمتوں کے شکریہ میں) آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھیےٴ اور قربانی کیجیےٴ۔

            (بیان القرآن حضرت تھانوی)

             مسلم دنیا کے سب سے بڑے اجتماع ”حج“ اور ذوالحجہ کے مخصوص ایام بقر عید کے دنوں میں پورے عالم کے مسلمان، حق جل مجدہ کی قربت اور خوشنودی و رضامندی حاصل کرنے کے لیے اور اپنے فرض سے سبکدوش ہونے کے لیے قربانی کی عبادت سے سرفر ازہوتے ہیں، جس کا حکم رب العالمین نے اپنے کلام ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾(الکوثر :۲) میں دیا ہے۔

ملحدین ومنکرین کے بیجا اعتراضات:

             بعض حضرات قربانی یعنی جانور کے ذبح کرنے پر شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں اور اشکال پیش کرتے ہیں، دراصل اگر صحیح نظر و فکر اور واضح زاویے سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ یہ شکوک و شبہات کے گھروندے ہیں ،جن کے پیچھے کوئی علمی، تاریخی مذہبی بنیاد نہیں ہے، اور یہ کم علمی، تاریخ سے نادانستگی اور عصبیت کی بنیاد پر پیش آتے ہیں۔ ان ملحدین کا سب سے بڑا اعترض یہ ہے کہ جانوروں کو ذبح کر ناخلافِ رحم ہے۔ گذشتہ دنوں اسی پرو پیگنڈہ کی خاطر بکرے کی تصویر کے ساتھ بعض مقامات پر یہ ہورڈنگ لگائی گئی کہ”میں جیو ہوں، مانس نہیں“، یہ ایک سوچی سمجھی شرارت ہے۔

             یہ لوگ دراصل وحی اور اس کی حقیقت سے واقف نہیں، اس لیے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور اسی لیے اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کیا کرتے ہیں، جب کہ عقل کا اپنا ایک دائرہ ٴکار اور ہر انسان کی عقل کا اپنا ایک دائرہٴ کار ہوتا ہے، کوئی انسان اپنے اس مخصوص دائرے سے عبور نہیں کرسکتا۔

            قربانی جیسی عظیم و اہم عبادت مذ موم و معیوب نہیں، بل کہ محمود و مطلوب ہے، کیوں کہ خود اللہ تعالیٰ شانہ اپنی کتاب ”قرآن ِحکیم “میں ارشاد فرماتے ہیں: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾(الکوثر :۲)اپنے رب کے آگے نماز پڑھئے اورقر بانی کیجیے۔﴿اُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَةُ اْلاَنْعَام﴾ (المائدہ :۱) تمہارے لیے چوپائے حلال کئے گئے ہیں﴿والانعام خلقہا لکم﴾(النحل:۵)اور چوپائے تمہارے لیے بنادئے۔ ﴿و منہا تأکلون﴾ (النحل:۵، المومنون:۱۲) اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔

             در اصل مذموم و معیوب حرکت بتانے والے خود معتوب ہیں۔ یہ حضرات علم سے کورے ہیں اور تو اور اپنی مذہبی تعلیم سے بھی نابلد ہیں۔

قربانی کا تصور و فلسفہ اور گوشت خوری کا مسئلہ دیگر مذاہب میں:

            قربانی کا تصور و فلسفہ اور گوشت خوری کا مسئلہ صرف مذہب ِاسلام ہی میں نہیں، بل کہ دنیا کے دیگر بڑے مذاہب،مثلاً عیسائی مذہب، یہودی مذہب، ہندو دھرم، بدھ مت، سکھ مت اور پارسی مت وغیرہ میں بھی پایا جاتا ہے۔ خود ہمارے عزیز ملک میں” نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹریشن“ کے سروے کے مطابق چونسٹھ فیصد خاندان گوشت خوری کرتے ہیں؛ یہودی اور عیسائی شریعتوں میں بھی ذبیحہ و قربانی کے احکامات اور مسائل اتنی کثرت سے مذکور ہیں کہ بائبل ان سے بھر پور ہے۔ خود وہ لوگ جو غلط فہمی اور عصبیت کا شکار ہیں ان کی مذہبی کتب وصحائف جیسے چاروں وید (”رگ وید“، ” یجروید“،” سام وید“،” اتھر وید“) اپنشندوں، براہمنوں، رامائن، مہا بھارت، منو سمرتی وغیرہ میں، جس قدرلحم خوری اور قربانی کے طور طریقہ، دنیاوی اور اخروی فوائد و منافع اور ثمرات وبرکات مذکور ہیں، شاید ہی دیگر مذہبی کتب میں اتنا تفصیلی ذکر ہو۔

             آئیے اب ایک جائزہ ہند و مذہبی کتب کا لیتے ہیں، خوف طوالت کی بناء پر صرف ترجمہ پیش خدمت ہے۔

رگ وید میں گوشت خوری کا ذکر:

             ہندو دھرم کے چاروں ویدوں میں سب سے اہم اور قدیم وید ہے ”رگ وید“۔ سب سے پہلے اس کے منتروں کا ترجمہ پیش ہے:

             ”وہ بیلوں کو پکاتے ہیں اور تم ان کو کھاتے ہو ۔“ (منڈل: ۱۰، سوکت منتر: ۱۳)

            تیرے لیے اے اِندرا جس کی حمد و ثنا تمام ماردت یکساں خوش ہوکر کرتے ہیں، لیسان اور دشنو تمہارے لیے ایک سو بھینس پکائیں۔“(۱۷-۱۱-۱۰)

            جب میں دیوتا کے مخالف دشمنوں پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ حملہ کروں گا تب میں تمہارے لیے قوی بیل پکاؤں گا اور سوم رس نچوڑوں گا۔ (۲-۲۷-۱۰)

             اِندر تمہارے بیلوں کو کھالے۔ (۱۳-۲۷-۱۰)

            ”رگ وید“ میں شادی کی تقریب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ”دولہا اور بارات کے لوگ دلہن کے گھر جاتے تھے، یہاں دلہن بارات کے ساتھ مل کر کھانا کھاتی تھی، مہمانوں کو اس موقع پر گایوں کا گوشت پیش کیا جاتا تھا۔“ (۱۳-۵ ۸-۱۰)

            اِندر کہتے ہیں:” وہ میرے لیے پندرہ بیس بیل پکاتی ہے، جنہیں کھا کر میرے جسم کی فربہی بڑھتی ہے اور میں اپنے پیٹ کی دونوں کو کھیں بھر لیتا ہوں۔“ (۱۴-۸۶-۱۰)

یجر دید اور گوشت خوری:

            اور”یجروید“ ادھیائے (۶ تا ۲۲) کے ادھیاؤں میں ذبح ہونے والے جانور کے منتر اور کھمبے کاتذکرہ ہے، اسی وید کے ادھیائے (۲۲ تا ۲۵) کے ادھیاؤں میں اشومیہ یگیہ(شرعی رسوم کی انجام دہی کا ذکر ہے، مزید برآں ”رگ وید“ کے یہ کے منڈل:۱، سوکت: ۱۶۲، انوواک: ۲۲ کے منتر ۹تا ۱۶، ۱۸ تا ۲۰/ منتروں میں ذبح کرنے، گوشت کاٹنے ، پکانے ، کھانے کا طریقہ تفصیل سے موجود ہے اور ساتھ ہی پکوان کا بھی ذکر مذ کور ہے)۔

”اتھر وید“:

             ”اتھر وید“ کے کھنڈ: ۹، انوواک: ۱۹، منتر ۶ میں گوشت کی تعریف یوں کی گئی: ”جل اور گھی سے پکا ہوا بکرا سب سے اعلیٰ کھانا ہے، اس سے بہتر منھ کو صاف کرنے والا سمجھ وغیرہ سے مملو اور دھرم لوک (جنت) کا حاصل کرانے والا ہے۔“

             ایسے ہی منتر:۸ میں بکرے کے گوشت پکائے جانے کا ذکر ملتا ہے۔

”سام وید“:

            چوتھے وید یعنی”سام وید“ میں بچھڑے کی بلی (قربانی) کا چڑھایا جانا موجود ہے۔

            اے اگنی! ہم تجھ کو روشن کریں گے تاکہ ہم کو بہت دولت بھیجے۔ پس اے جو ان بچھڑے بڑے چڑھاوے کے واسطے آسمان و زمین سے ہمارے پاس آنے کو کہہ۔ (۳-۵-۲-۱)

            ہند و قانون کی بنیادی اور مسلمہ کتاب ” منو سمرتی “ کے کچھ شلوک پیش ِخدمت ہیں۔

            ہر مہینہ جو شرادھ (یہ مجلس مردہ بزرگوں کی فاتحہ خوانی کے لیے قائم کی جاتی ہے، اس میں تیار کئے جانے والا کھانا پہلے بر ہمنوں کو کھلایا جاتا ہے، پھر رشتہ داروں اور قرابت داروں کو دیا جاتا ہے) کیا جاتا ہے وہ ایشور بادی کہلاتا ہے، اس کو اچھے مانس( گوشت) سے کرنا چا ہے۔ (۱۲۳-۳)

            آگے پھر درجہ بدرجہ جانوروں کی قربانی پر ان کی روح کو سکون ملنے کا ذکر ہے، حتیٰ کہ یہ بھی مذکور ہے کہ گائے کا گوشت پیش کرنے سے ایک سال تک اوربڑے بیل کے گوشت سے بارہ سال تک سکھ شانتی پراپت ہوتی ہے۔ (مہا بھارت انوشاسن پروادھیائے: ۸۸، شلوک: ۵، منو سمرتی: ۳۶۸)

             وشنود ھر موتر پر ان میں شرادھ کے بارے میں یہ ہے کہ جو شخص شرادھ میں کھانا کھانے والوں کی صف میں پیش کئے گئے گوشت کو نہیں کھاتا وہ جہنم میں جاتا ہے۔ (۱/۱۴۰/۵۷۴۹)

            ”یگیہ“ (قربانی) کے واسطے اور نوکروں کے کھانے کے واسطے اچھے”ہرن“ اور” پرند“ مارنا چاہیے۔ اگلے زمانے میں رشیوں نے ”یگیہ“ کے واسطے کھانے کے لائق ہرن اور پرندوں کو مارا ہے۔ (۲۲/۲۳)

             وہ جو ان کا گوشت کھاتے ہیں جو کھانے کے لائق ہیں، وہ کوئی اَپرادھ (گناہ) نہیں کرتا، چاہے وہ ایسا روزانہ ہی کیوں نہ کرے، کیوں کہ کھانے کے لائق جانور اور نہ کھائے جانے کے لائق جانور کو برہماجی نے پیدا کیا ہے، قربانی کا گوشت کھانا صحیح ہے۔ اسے دیوی رسم ورواج کے مطابق دیوتاؤں کا حکم مانا جاتا ہے۔ (۳۱/۳۰)

            والمیکی ”رامائن“ میں درج ہے کہ” اس وقت لچھمن دس ہزار ہر نوں کو مار کر لاتے اور رام چند کے آگے رکھ دئے، رام چندرجی بہت خوش ہو کر کہنے لگے کہ آج مانس (گوشت) بہت دیوتاؤں کو دینا چاہیے، یہ سن کر جانکی جی (سیتا جی) نے اٹھا کر رام چندرجی کے آگے رکھ دیا اور رام چندر جی دیوتا لوگوں کو بھوگ (کھانا) دینے لگے۔

(اجودھیا کھنڈ، ادھیائے:۵ ۹)

             مہا بھارت کے شانتی پرو، ادھیائے: ۲۹، شلوک:۱۷۹ میں یہ بات بھی صراحت کے ساتھ ملتی ہے، ایک دن راجہ رتنی دیو کے بہت سے مہمان آگئے، لہٰذا اس نے بیس ہزار ایک سوگا ئیں ذبح کیں۔

            ” دی ہسٹری اینڈ کلچر آف انڈین پیپل“ میں مہا بھارت کے حوالہ سے تحریر ہے کہ راجہ رنتی دیو لوگوں کو گوشت پیش کرنے کے لیے روزانہ دوہزار عام جانوروں اور دوہزار گائیں مارا کرتے تھے۔ (ص: ۵۷۹)

            ” شت پتھ برا ہمن“ میں ہے، مہمان کے لیے بڑابیل ذبح کرنا چاہیے۔ (۳-۴-۲)

             جو مانس ہے یہ سب سے بہتر غذا ہے۔ (۱۱/۲۰۱۷)

             برہمہ دیورت پر ان کرتی کھنڈ میں مہادیو سویگیہ نامی راجہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی حکومت میں بر ہمنوں کو روزانہ گوشت دیا جاتا تھا۔ (۵۰/۱۲)

            مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی لکھتے ہیں:

             اکثر مذاہب میں اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق قربانی کا تصور رہا ہے۔ یہودیوں کے مختلف تہواروں میں قربانی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور بائبل میں متعدد مواقع پر اس کا ذکر موجود ہے، یہاں تک کہ بعض وہ قومیں جو اپنے آپ کو’ذبح حیوان‘ کا مخالف کہتی ہیں، وہ بھی مذہبی قربانی کی قائل ہیں، جیسے ہندو بھائی، کہ ان کے یہاں بعض تہواروں میں اور بعض استھانوں پر جانور کی قربانی دی جاتی ہے۔ عربوں میں اسلام سے پہلے ان باطل دیویوں اور دیوتاؤں کے نام پر قربانی دی جاتی تھی، جن کو وہ خدائی میں شریک تصور کرتے تھے۔

            حج کے موقعہ پر بھی قربانی کی قدیم روایت چلی آرہی ہے اور اسلام سے پہلے بھی منیٰ میں قربانیاں کی جاتی تھیں، اسلام نے ان غلط تصورات اور اعتقادات کی تردید کی ،جو قربانی سے وابستہ کرلیے گئے تھے اور طریقہٴ کار کی بھی اصلاح کی۔ فکر و عقیدہ کی اصلاح سے مراد یہ ہے کہ لوگوں نے قربانی کو ایک مشرکانہ عمل بنا ر کھا تھا، اسلام نے اس کو عقیدہٴ توحید کا مظہر بنادیا اور طریقہٴ کار کی اصلاح یوں فرمائی کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے سلسلہ میں جو تکلیف دہ اور اذیت رساں طریقے مروج تھے،ان سے منع فرمادیا گیا۔

اگر جانور یو نہی چھوڑ دیے جائیں!

             جو جانور دو دھ دینے کے لائق باقی نہ رہے اور جن کو سواری کے لیے استعمال نہ کیا جائے، سوائے گوشت اور چمڑے کے حصول کے ان کاکوئی مصرف نہیں رہ جاتا، عرصہ پہلے کے اندازہ کے مطابق ہندستان میں روزانہ ایک لاکھ گائیں ذبح ہوتی تھیں، بیل کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ اگر ان کو بھی اس کے برابر مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سفید جانور پر مکمل پابندی لگادی جائے تو روزانہ دولاکھ جانور بچتے چلے جائیں گے اور مہینہ میں ان کی تعداد ساٹھ لاکھ ہو جائے گی۔

             اس سے اندازہ کر لیں کہ سال بھر میں بے مصرف گائے بیل کتنی بڑی تعداد میں ہو جائیں گے، عجب نہیں کہ چند سالوں میں ان کی آبادی انسانوں کی آبادی سے بھی تجاوز کر جائے اور یہ بات محتاج ِاظہار نہیں کہ عام طور پر جب یہ جانور دوسرے فائدے کے لائق باقی نہیں رہتے ہیں، جب ہی ان کو کھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

             غور کیجئے کہ جب اتنی بڑی تعداد میں گائے بیل بچے رہ جائیں گے تو انسان کے لئے یہ صورت حال کس قدر تکلیف دہ ہو جائے گی، شاید انسان کو سڑکوں سے اس لئے دستبردار ہو جانا پڑے گا کہ گائے بیل اپنی مرضی کے مطابق وہاں چل پھر سکیں اور انسان کو اپنی کھیتیوں سے اس لئے ہاتھ دھولینا ہوگا کہ وہ ان جانوروں کے چارے کے کام آئیں۔

            سوچئے کہ وہ منظر کتنا عجیب ہوگا، جب سڑکوں پر گائے بیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ مٹر گشتی کرتے ہوں گے اور کھیتوں میں ان کی جوق در جوق فوج اتر کر پیداوار کو تہس نہس کر رہی ہو گی؟ بے مصرف ہونے کے ساتھ ساتھ ان جانوروں میں تیز رفتار نسلی افزائش کا قدرتی نظام انسان کے لئے تباہ کن ہو جائے گا۔ اس لئے یہ حقیقت ہے کہ ان جانوروں کا ذبح کیا جانا اور ان کو اپنی خوراک بنانا فطرت کی آواز ہے، اور فطرت سے بغاوت ہمیشہ انسان کو نقصان پہنچاتی ہے، یہ تو غذائی اعتبار سے نقصان کا پہلو ہے۔

گوشت اور غربا:

            یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں ۸۰/ فیصد سے بھی زیادہ لوگ اپنی غربت کی وجہ سے بکرے کے گوشت یا مچھلی اور چکن وغیرہ نہیں کھا سکتے، وہ بڑے گوشت کے ذریعہ ہی لحمی غذا کی ضرورت کو پوری کرتے ہیں۔ اگر گائے بیل کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کردی جائے تو یہ ملک کی بڑی آبادی کے لئے نقصان کا باعث ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی ان جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں، یہ تو بہت سی قوموں کی خوراک ہے، یہودی، عیسائی، مسلمان، بدھسٹ، سکھ، قبائلی گروہ اور لامذہب اقوام، یہ بھی گائے کا گوشت استعمال کرتی ہیں۔

             ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستیں، ناگالینڈ، میگھالیہ، میزورم اور آسام کے اکثر علاقے؛ بل کہ بنگال میں بھی، نیز ہندستان کی جنوبی ریاستوں، خاص کر آندھرا ،تملناڈو وغیر و میں ہندو بھی گائے کا گوشت کھایا کرتے ہیں۔

             بعض وہ برادریاں جن کو ہندوؤں کی نیچی ذاتیں کہا جاتا ہے، جیسے: چمار، بھنگی، یہ پورے ملک میں گائے کھاتے ہیں۔ کیا یہ بات قرین انصاف ہے کہ کچھ لوگوں کی خواہش کے احترام میں اتنے سارے لوگوں کو ان کی ایک پسندیدہ غذا سے محروم کر دیا جائے اور غریبوں کے لئے گوشت کھانے کو گراں سے گراں تر بنا دیا جائے؟

گوشت خوری انسانی ضرورت:

            غذا انسان کے لیے بنیادی ولازمی ضرورت ہے، قدیم زمانے میں غذا کے مقصد صرف دو ہوا کرتے تھے: بھوک کا ختم کرنا، اور حصول ذائقہ ؛ لیکن فی زماننا یہ دونوں چیزیں زائد و اضافی بن چکی ہیں، موجودہ دور میں سائنسی تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ غذا کا اصل اور بنیادی مقصد وہ ہے، جس کو ہمارے زمانے میں ”متوازن غذا“ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس میں چھ اجزاء بنیادی طور پر شامل ہوتے ہیں وہ یہ ہیں، لحمیات (Proteins) حیاتین (Vitamins) ریشہ دار اجزاء (Fibre) نشاستہ (Carbohydrates) معدنی نمکیات (Minerals salts) شحمیات (Fat)، ان میں لحمیات کا ہمارے جسم کی نشو و نما اور بناوٹ میں اہم رول رہتا ہے، اور گوشت پروٹین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے،بل کہ و ہ پروٹین کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ لحمی غذا ہی ہے، اگر چہ غیر لحمی غذا سے بھی پورٹین حاصل ہوتا ہے، لیکن وہ نسبتاً نا قص و نا تمام ہوتا ہے اور گوشت میں وہ تمام آٹھ ضروری امینیو ایسڈ موجود ہوتے ہیں، جن کی انسان کا جسم پیدائش و خلقت نہیں کر سکتا بل کہ کھانے کے ذریعہ ہی پہنچائے جاتے ہیں۔ گوشت میں فولاد، حیاتین اور وٹامن بی۔ ون بھی پایا جاتا ہے۔

انسانی ساخت انسان کے فطری طور پر گوشت خور ہونے کا اشارہ دیتی ہے:

            خالق ِکا ئنات نے خود انسانی ساخت و بناوٹ ایسی بنائی ہے کہ جس سے بخوبی یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خالق نے اس کو گوشت خور بنایا ہے، کیوں کہ احکم الحاکمین نے انسان کے بدن کے اندر کچھ دانت نو کیلے رکھے ہیں، جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ خود اوپر والے نے انسان کو گوشت خور بنایا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جو جانور گوشت خور ہوتے ہیں جیسے چیتا، شیر وغیرہ وہ نو کیلے دانت رکھتے ہیں، یہ یکسانیت و مماثلت بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان لحم خور ہے۔

             کچھ دانت غیر نوک دار، سپاٹ عطافرمائے ہیں ،جو اس بات کے مشیر ہیں کہ انسان سبزی خور بھی ہو سکتا ہے ،اسی طرح وہ جانور جو سبزی خوری کرتے ہیں، مثلاً گائے، بکری، بھیڑ وغیرہ کو نوکیلے دانت نہیں، بل کہ سپاٹ دانت دیئے ہیں۔

             بعض حضرات کہتے ہیں کہ انسانی دانت بالکل اور کلی طور پر گوشت خور جانوروں کے مشابہ نہیں یہ بات ٹھیک ہے کہ انسانی دانت کلی طور پر گوشت خور جانوروں کے مشابہ نہیں، لیکن جزئی طور پر مشابہ ہیں، وجہ فرق یہ ہے کہ جانور گوشت کو کچا کھاتے ہیں؛ جب کہ انسان پکا کر کھاتے ہیں چاہے وہ کسی طریقہ پر ہو۔

گھاس خور جانور گوشت ہضم کر ہی نہیں سکتا!

            غذائی اجزا کھا لینے کے بعد اس کا صرف پیٹ میں پہنچ جانا ہی کافی نہیں، بل کہ غذائی اجزا کا ہضم ہوجانا بھی از حد ضروری ہے، جس کے بعد ہی یہ اجزا جسم کے اجزا بنتے ہیں جو ایک پیچیدہ نظام یعنی ” نظامِ ہضم “ کے تحت ہوتا ہے ۔اگر یہ نظام ِہضم نہ ہو تو کوئی بھی غذا، صحت بخش غذا نہیں بن سکتی، جو حیوان سبزی خور ہیں ان کو اللہ تعالیٰ شانہ نے صرف ایسا نظام ِہضم عطا کیا ہے کہ وہ گھاس پھونس ہی کو ہضم کرسکتے ہیں اور جو جانور اپنی غذا گوشت کو بناتے ہیں ان کو ایسا نظام ِہضم عطا کیا ہے کہ وہ گوشت کو ہضم کرسکتے ہیں ،جب کہ انسان کو رب العالمین نے دونوں طرح کے نظام ِہضم عطا فرمائے ہیں، اگر حق جل مجدہ کو انسان کا گوشت کھانا مطلوب و مقصود نہ ہوتا تو پھر وہ دونوں نظام کیوں کر عطا فر ماتا؟

            خالق نے اپنی تخلیق میں جو نظام مقر رو متعین فرمایا ہے ،وہ یہی ہے کہ انسانی جسم کی غذائی ضرورت زندہ اجسام کے ذریعے ہو، قانون ِفطرت کے مطابق کوئی انسان اپنے جسم کے اندر زندہ اجسام کو پہنچائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، خالق ِارض و سموات کے اصول و قانون کے مطابق زندہ اشیاء ہی زندوں کی خوراک بنتی ہیں، زندہ شئ ہی زندوں کو زندگی اور صحت و توانائی عطا کرتی اور بخشتی ہے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہم لکھتے ہیں:

            غور کیا جائے تو قدرت کا اشارہ بھی یہی ہے، جو جانور چارہ کھاتے ہیں، ان کے اندر گوشت کو ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، وہ قدرتی طور پر چارہ خور نہیں ہوتے ہیں، جو جانور قدرتی طور پر گوشت خور ہوتے ہیں، وہ گوشت ہی کو ہضم کرتے ہیں، طبعی طور پر وہ چارہ نہیں کھاتے، اسی لئے کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ بھینسیں گوشت کھانے لگی ہوں اور شیر وں نے گھاس پھوس کھانا شروع کر دیا ہو، لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے معدہ میں دونوں طرح کی غذاؤں کو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھی ہے، اسی طرح جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے دانت دیے ہیں، جو کھانے والی چیزوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے کے کام آتے ہیں، اس طرح ان کو ہضم کرنا آسان ہو جاتا ہے، چارہ خور جانوروں کوچپٹے دانت دیئے گئے ہیں، جو نباتاتی چیزوں کو چبانے کے کام آتے ہیں، انھیں نوک دار دانت نہیں دیئے گئے، جن کو گوشت وغیرہ کو کاٹنے میں استعمال کیا جاتا ہے، اس کے بر خلاف گوشت خور جانوروں کو نوک دار دانت دیئے گئے ہیں، جو کبھی غذاؤں کو ٹکڑے کرنے اور کاٹنے کے کام آتے ہیں، جیسے کتے اور شیر وغیرہ، انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے دونوں طرح کے دانت دیئے ہیں، یہ سب قدرت کے اشارے ہیں؛ تاکہ انسان اپنی غذا کے دائرے کو سمجھ لے۔

سبزیاں بھی جان رکھتی ہیں:

            جو حضرات رحم و کرم اور انصاف کے علم بردار ہیں”جیو ہتیا“ نہیں ، اور” جیو ہتیا“ پاپ ہے، کے نعرے الاپتے ہیں، اَہنسا پر مودھرم کے پجاری کیا یہ نہیں جانتے کہ وہ جو ہوا، پانی، دودھ، دہی اور سبزیاں منوں نہیں، بل کہ ٹنوں ڈکار جاتے ہیں کیا اس میں” جیوہتیا“ کرنے کا احساس ان کو دامن گیر ہوتا ہے؟ اور کیا ان کو یہ اَہنسا معلوم ہوتی ہے؟ کل تک لوگوں کا خیال یہ تھا کہ نباتات وغیرہ اپنے اندر حس و حیات اور دکھ درد کا احساس نہیں رکھتے، حالاں کہ قرآنِ کریم روز ِاول سے یہ کہہ رہا ہے: ﴿ وَاِنْ مِنْ شَیْءٍ الا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلکِنْ لا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ ﴾(بنی اسرائیل: ۴۴) اگرچہ سائنس اس آیت ِحکیمہ کی آج تک مکمل تحقیقی تغیر نہیں کر سکی، لیکن علم ِحیاتیات (Blology) اس جگہ تک ضرور پہنچ گیا ہے کہ نباتات وغیرہ اپنے اندر حس و حیات رکھتے ہیں۔

             ہندوستان کے مشہور سائنس داں ڈاکٹر جگدیش چندر بوس نے سائنٹفک دلائل وبراہین کے ذریعہ یہ ثابت کر دکھایا کہ پیڑ پودے بھی حس و شعور رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پیڑ پودوں کے دکھ، درد، تکلیف اور موت کے حالات، کیفیات اور واردات کا مشاہدہ پر دے پر بھی کرایا، انہوں نے پودوں میں بجلی کی ہلکی سی ایک لہر دوڑائی جس کی وجہ سے پودوں کا کانپنا اور تڑپنا پر دے پر صاف اور بدیہی طور پر دکھائی دینے لگا اور پودے آہستہ آہستہ بے جان و پژمردہ ہوگئے۔

            ایک امریکی کا شتکار نے پودوں پر تحقیق کی اور ایک ایسا آلہ ایجاد کیا جو پیڑ پودوں کی چیخ و پکار کو تبدیل کرکے فریکونسی کے اس دائرہ میں لاتا ہے ،جہاں انسانی سماعت بھی اس صوتی لہر کو سن سکے، کیوں کہ انسانی سماعت کے سننے کا جو دائرہٴ کار ہے وہ ایک حد تک محدود ہے یعنی انسانی بیس ہرٹز سے لے کربیس ہزار ہر ٹزتک ہی سن سکتا ہے، اس سے کم یا زیادہ حد کی آوازیں انسان نہیں سن سکتا۔ جب کبھی پودے پانی کے لیے چلاتے تو اس کو یہ کسان معلوم کرلیتا اور دیگر جدید محققین نے بھی اپنی ریسرچ اور تحقیق کے ذریعہ یہ ثابت کیا ہے کہ نباتات بھی خوشی اور غم کا احساس کرتے ہیں اور پیڑ پودے تو بہت زیادہ حساس اور ذکی الحس ہوتے ہیں، جن کو علم نباتات (Botany) میں سریع التاثیر پودے (Sensitive Plant) کا نام دیا گیا ہے، لاجونتی ڈراسیر بھی اس کی ایک مثال ہے، حق تعالیٰ شانہ نے اپنی قدرت کاملہ سے کچھ پودے بھی ایسے پیدا کئے ہیں، جو انسان کی طرح لحم خوری کرتے ہیں جو عالم کے مختلف خطوں میں نمودار ہوتے اور پائے جاتے ہیں، جیسے یوٹر یکلریا (Utricularia) نپنتھیز (Nepenthes) پکچر پلانٹ (Pitcher Plant) ونیس مگس (Venus Fly Trat Megus) ڈراسرا (Drosera) وغیرہ۔

قربانی اور اس کے معاشی فوائد:

             بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قربانی پر سے ضائع کرنے کے بجائے یہی اگر کسی غریب کو دے دیے جائیں تو کئی لوگوں کا بھلا ہو جائے، یہ اعتراض انتہائی سطحی قسم کا ہے، گو کہ عبادات کے معاشی فوائد دیکھناکہ یہ عبادت کی روح ہی ختم کرتا ہے، مگر منکرین ِحدیث، منکرین ِقربانی اور مذہب بیزار دہریہ مخالف ذہنیت کی تسلی کے لیے چند گذارشات پیش خدمت ہیں۔

            ۱- اس کے نتیجے میں آپ کے ملک میں فارمنگ (farming) اور کیٹل انڈسٹری (cattle industry) نمو حاصل کرتی ہے، جس سے بالعموم چھوٹا کسان یا غریب طبقہ ہی منسلک ہوتا ہے اور عید قربان پر اسے اپنی محنت کا اچھا مول مل جاتا ہے جو عام مارکیٹ میں نہیں مل پاتا، یوں یہ رسم تقسیم دولت پر مثبت اثرات ڈالتی ہے۔

            ۲- جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام رقم ویسے ہی غریبوں کو دے دی جائے ، وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ غربت کا علاج پیسے بانٹنا نہیں ، بل کہ غریب طبقے کے لیے معاشی ایکٹوٹی (Activity) کا پہیہ چلانا ہوتا ہے اورقربانی کا عمل اس کا بہترین ذریعہ ہے۔

            ۳- پھر ان جانوروں کا گوشت دنیا بھر کے غریبوں میں بانٹا جاتا ہے اور معاشرے کا وہ طبقہ بھی گوشت کھاتا ہے جو پورے سال صرف اس کا خواب ہی دیکھتا ہے۔

             ۴- پھر ان جانوروں سے جو کھال حاصل ہوتی ہے اس سے لیدر پراڈکٹس (leather products) بنتی ہیں، جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔

            ۵- پھر ذرائع نقل وحمل سے منسلک لوگ بھی ان دنوں کے دوران جانوروں کی ترسیل کے کاروبار کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے ہیں۔

            الغرض عید قربان چند دنوں کے دوران اربوں روپے کی خطیم مگر بے کار سیونگ (saving) کو سیال مادے (liquid) میں تبدیل کرکے معاشی پہیہ تیز کرنے کا باعث ہوتی ہے۔

معاشی نقصان:

             اب ایک نظر اس کے معاشی نقصان پر ڈالیے، چند سال پہلے لیدر ایکسپورٹ کاوٴنسل کے صدرنشین ایس ایس کمار نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگر گاؤ کشی پر امتناع عاید کردیا جائے تو اس سے لیدر مصنوعات کی برآمدات کو زبردست نقصان پہنچے گا اور۳۰/ فیصد کی کمی واقع ہو جائے گی، اس سے جہاں ہندوستان جیسے غریب ملک کو سات ملین ڈالرکا نقصان پہنچے گا، وہیں پندرہ لا کھ افراد کا روزگار متاثر ہوگا۔

 (روزنامہ منصف: ۲۱/ اگست (۲۰۰۳ء)

             جب کہ ہندوستان کی برآمدات میں تقریباً ۲۵/ فیصد لیدر اور اس کی مصنوعات ہیں؛ کیوں کہ ساری دنیا میں موجود مویشی کا تقریباً ۶۰/ فیصد حصہ ہندوستان میں ہے، اس طرح ہندوستان کی معیشت اس سے بہت زیادہ متاثر ہوگی۔

             معاشی نقصان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملک میں جب گائے بیل کے ذبیحہ کو روک دیا جائے گا تو تاجر ان چرم کے لیے اس کے سوا چارہٴ کار نہیں۔

ان پہلووں پر بھی غور کیجیے!

            اس جدید ذہن کی حالت یہ ہے کہ اسے غریبوں کا خیال صرف عید ِقربان پرخرچ ہونے والی رقم کے وقت ہی آتا ہے، جو کہ ہر لحاظ سے غریب دوست رسم ہے۔

            #…ان کھربوں روپے کاضیاع دکھائی نہیں دیتا جوہر روز امیر لوگ پیزوں اور بر گروں پر اڑا دیتے ہیں ۔

            #… ایسے لاکھوں جانوروں کا کٹ جانا نظر نہیں آتا جو پوری دنیا کے ہوٹلز کے لیے کاٹے جاتے ہیں۔

            #… ان کھربوں ڈالرز کے ضیاع پر یہ کبھی انگلی نہیں اٹھاتے جو یورپ اور امریکہ میں پیٹس (pets) کے کھلونے بنانے میں خرچ ہوتے ہیں۔

            #… ان کھربوں ڈالرزکے ضیاع پر کسی کو تکلیف نہیں ہوتی، جو ہر سال کا سمیٹکس انڈ سٹری (cosmetics industry) میں جھونک دیئے جاتے ہیں اور جن کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ میں زیادہ طویل دنوں تک جو ان نظر آؤں۔

            الغرض آپ اپنے ارد گرد غور کیجیے کہ ٹریلین ڈالرز کے ان بیش قیمت ذرائع کے بے دریغ ضیاع پر تویہ ملحد کبھی اعتراض نہیں کریں گے جو اپنی نوعیت میں غریب کے جذبات کچل دینے والے اخراجات ہیں، مگر عید قربان کے موقع پر یہ غریب کے کچھ ایسے حمایتی بن جاتے ہیں گویا ان سے بڑا غریب پرور آج تک پید اہی نہیں ہوا۔ ان لوگوں کا اصل مسئلہ غریب پروری نہیں، بل کہ مذہب دشمنی ہے جس کے لیے یہ ہر موقع کے بے موقع استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے ہیں۔

 گوشت خوری اور طبی نقطہ نظر:

            طبی لحاظ سے یہ بات پایہٴ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے کہ گوشت خوری کا اثر انسان میں شجاعت، بہادری، جوش و خروش اورسختی اور اس قسم کی دوسری صفات کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے اور سبزیوں کا اثر نرمی،حلم اور صبر و برداشت اور اسی قسم کے دوسرے صفات کے رنگ میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہ ایک طبی تحقیق ہے اور صرف ایک تھیوری کے طور پر نہیں،بل کہ مشاہدہ اور تجربہ کے معیار سے روز ِروشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے۔ حیوانات میں دیکھ لو گوشت خور اور سبزی خور حیوانات علی الترتیب انہی صفات سے متصف نظر آئیں گے۔ اس جگہ تفصیلات کی گنجائش نہیں، ورنہ حیوانات میں اس رنگ کی تحقیقات کرنا اور ہر ایک قسم کے حیوانات کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر اس کی خوراک کے لحاظ سے اس کی صفات کا معائنہ کرنا ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے اور اہل ِعلم نے اس کے متعلق بڑی تحقیقاتیں کی ہیں اور نہایت مفید معلومات اور تجارب کا ذخیرہ پیدا کیا ہے۔

اور ایک کامل انسان کے لیے جو اپنے وطن اور قوم کے لیے مفید سے مفید تر ہو سکتا ہے ، اس میں شجاعت، بہادری، جوش و خروش اورسختی بھی ضروری ہے جس سے وہ دشمن کو زیر کرسکے اورحلم ، صبر اور برداشت بھی ضروری ہے کہ مناسب وقت میں مناسب فیصلہ لے سکے ۔اس لیے انسانوں کے لیے دونو ں غذائیں ضروری ہیں۔

بھونڈے اعتراضات اور ان کے نقلی جوابات:

            ہر جدید تہذیب و تمدن کا دلدادہ اور مغربیت سے متاثر ذہنیت رکھنے والا اس ماہ ِمبارک کے شروع ہوتے ہی سادہ لوح اور مذہب پسند مسلمانوں کا ذہن خراب کرنا شروع کر دیتا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے، لاکھوں لوگوں کی یہ رقم بلاوجہ ضائع ہوتی ہیں، اس کے بجائے اگر اتنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جائے، تو معاشرے کے بہت بڑے غریب اور مفلس طبقے کا بھلا ہو جائے گا۔ یہ افراد بھی زندگی کی ضروری سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح منکرین قربانی اپنی عقل نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعم خود قربانی کے نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کرتے نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ سے عام مسلمان ان نام نہاد دانشوروں کے زہریلے پروپیگنڈے اور بہکاوے میں آکر اسلام کے اس عظیم الشان حکم کو ترک کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

جذبہ ٴ ابراہیمی اورہمارا حال!

            اب ایک نظر سید نا ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی ڈالیے کہ جب ان کو بیٹا ذبح کرنے کا حکم ملا اور حکم بھی صراحتاً نہیں ملا، بل کہ خواب میں اشارةً بتلایا گیا) تو انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی رُک کر یہ نہ پو چھا کہ یا باری عز و جل! اس میں میرے لیے کیا نفع ہے اور کیا نقصان؟ اور ایک ہم ہیں کہ معمولی سا جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور ہم پوچھتے پھرتے ہیں کہ اس میں میرا کیا نفع ہے؟ اس کے بجائے یہ ہو جائے، وہ ہو جائے وغیرہ۔ تو یہ قربانی کی روح کے خلاف ہے۔ یہ سوال کرنے والا در حقیقت قربانی کی حقیقت سے ہی نا واقف ہے، قربانی کے ذریعے تو یہ جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے تو ہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں، اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ﴿ فَلَمَّا أَسْلَمَا﴾ جب انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا۔۔۔۔ الخ۔ تو اچھی طرح سمجھ لینا چاہے کہ قربانی محض رسم یا دل لگی نہیں ہے، بل کہ اس کے ذریعے ایک فکر دینا مقصود ہے،جسے فلسفہٴ قربانی کا نام دیا جاتا ہے، وہ یہی ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آجائے تو ہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں۔

            اس لیے ضرورت ہے کہ منکرین ِقربانی، ملحدین اور مستشرکین و کفار کے اس زہریلے پروپیگنڈے کے مقابلے میں اہلِ اسلام پُرزور طریقے سے اس حکم پر عمل پیرا ہوں، اسی میں اہل اسلام کی خیر و بقا کار از اور دین اسلام کی حفاظت مضمر ہے۔