علم وعمل کاچاندستاروں میں کھوگیا

            نگارش:ابوعالیہ نازقاسمی،اِجرا،مدہوبنی/ جامعہ اکل کوا

 زندگی رشک کرتی ہے:

            ارشادباری تعالیٰ سورہ رحمن میں یہ ہے کہ:﴿ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَان وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ﴾ کہ اللہ کی ذات کے علاوہ ہرکسی کوفناکے گھاٹ اترنااوردنیاکاپلیٹ فارم چھوڑکرجاناہے ۔لیکن اُن جانے والوں کی قطار میں دیکھیں تو﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ﴾سے صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ خوش نصیبی بھی اُنھیں لوگوں کے حصے اورمقدرمیں آتی ہے، جوزندگی گذاریں توفرمان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ”کن فی الدنیا کانک غریب اوعابرسبیل“ کی تصویرنظرآئے ۔اِس طرح خود زندگی بھی اُن کی زندگی پرناز کرے اور جب وہ اِس جہاں سے اُس جہاں کا سفر اختیارکریں توموت بھی ان پررشک کرے ۔ انہیں باکمال اور قابل رشک شخصیات میں استاذ مکرم ،جامع المعقولات والمنقولات،ستودہ صفات،روشن خیالات،صاحبِ کمالات، شاہ فقہی نکات، فقیہ ملت حضرت مولانازبیراحمدقاسمی؛جن کواب بادلِ ناخواستہ ہی سہی؛ رحمة اللہ علیہ لکھنا پڑرہاہے ، کیوں کہ اب اِس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔حضرت مرحوم اس مقدس گروہ میں شامل تھے،جن کی یادرہ رہ کرآئے گی،ستائے گی،رلائے گی اوردل کوبہت تڑپائے گی ۔

بہت وقت لگتاہے:

            لیکن اِن سب کے باوجودیہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت وحکمت سے وقت کو ایک ایسا مرہم بنایا ہے، جو بڑے بڑے صدمات،آفات،بلیات اور حادثات کا زخم آہستہ آہستہ مندمل کر ہی دیتاہے ۔زندگی کی رہ گذرپر گذرکرغورسے دیکھیں تواس کا اندازہ بخوبی ہوگا ۔یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات اس میں وقت بہت زیادہ لگ جاتا ہے ۔ اگراللہ رب العزت کایہ کرم بندوں پر نہ ہو تو شاید انسان زندگی کی راہوں میں کبھی سنبھل ہی نہ پائے ۔

گر وقت کے مرہم کا درماں نہ ملے کوئی

کچھ حادثے انساں کو برسوں نہ سنبھلنے دیں

            بہرحال دنیاکی کہانی تویہی بتاتی ہے کہ موت کے آہنی پنجے نے آج تک کسی کومعافی کاپروانہ نہیں دیا ۔ جوکوئی یہاں آتاہے وہ جانے ہی کے لیے آتاہے ۔گویاکہ یہاں کا آناوہاں جانے کی تمہیدہوتی ہے۔اس لیے تو ﴿ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ﴾کاڈنکابجانے والے فرعون کابھی خود ہی ڈنکابج گیا۔

شایدکچھ مل جائے:

            اِس میں توکوئی شک نہیں،کہ ہندونیپال کی سرحدپرقائم شدہ جامعہ اشرف العلوم کنہواں شمسی ضلع سیتا مڑھی (بہار)کے نویں ناظم اعلیٰ اورپندرہویں صدرالمدرسین حضرت مولانازبیراحمدقاسمی کی حیات وخدمات، صفات و کمالات اورفقہی نکات پربہت سارے قلم کار اپنے اپنے اسلوب اورمنفردانداز میں اپنی قلمی محبت و عقیدت کے پھول چڑھائیں گے اور گلدستے لٹائیں گے۔میں بھی ”انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام“لکھوانے کی کوشش کررہا ہوں ۔اس لیے بغیرکسی تاخیر وتمہید کے حضرت مولانا زبیر احمد مرحوم کی کتابِ زندگی کے چنداوراق کھولنے کی کوشش کرتے ہیں،اس امیدپرکہ شاید محترم قارئین کوکچھ کام کی باتیں مل جائیں۔

نام ونسب اورجائے ولادت :

            زبیراحمدبن عبدالشکوربن عبدالرحیم مرحوم۔موضع چندرسین پور،ڈاک خانہ حسین پور،وایارہیکا،ضلع مدہوبنی(بہار) کے علمی اعتبارسے مردم خیز گاوٴں میں ۱۳۵۹ھ مطابق ۱۹۳۸ء کوولادت ہوئی۔والدماجدآپ کی بے شعوری ہی کے زمانے میں دنیاچھوڑکر جا چکے تھے۔

تعلیمی آغازوانجام کی کہانی:

            ابتدائی تعلیم ناظرہ قرآن کریم اوراردوگاوٴں کے مکتب میں مولانا حبیب الرحمن سِمروی سے حاصل کی۔ کچھ دنوں بعدنظامِ مکتب درہم برہم ہوگیاتو اپنے ہی دروازہ پرمولانا خلیل بعدہ مولانا امیرحسن چندرسین پوری سے پڑھنے لگے ۔اُس وقت آپ کی عمرصرف۷/سال تھی اورپڑوس ہی کے مولانامحمدصابرحسین قاسمیہم سبق تھے۔اور بحکم الٰہی دار العلوم سے فراغت تک ہم سبق اور ہم جماعت ہی رہے۔

عربی تعلیم کاسلسلہ:

            رشتے کے ایک چچامولانامحمدسعیدصاحب مہتمم وصدرمدرس مدرسہ بشارت العلوم کھِرایاں پتھراضلع دربھنگہ اپنے ساتھ لے گئے اورفارسی کی جماعت اول میں داخل کرکے درس کی اکثرکتابیں اپنے ذمہ لے لیں۔ فارسی کے ۵/سالہ نصاب میں:فارسی کی پہلی ودوسری،نسخہٴ تعلیمیہ،گفتگونامہ،اخلاق دلالی،انوارسہیلی،یوسف زلیخا، حکایات لطیف،گلستاں،بوستاں،کریما،پندنامہ،سکندرنامہ،رقعات عالمگیری،انشاءِ فارغ،مالابدمنہ،احسن القواعد اوردیوان حافظ ؛اوردیگرکتب کے علاوہ رسالہ عبدالواسع وغیرہاباضابطہ پڑھیں۔۵/ سالہ فارسی نصاب کی تکمیل کے بعدمیزان منشعب سے لے کرہدایہ اولین تک بلاشرکتِ غیرتمام کتابیں اُن سے ہی پڑھنے کاشرف حاصل ہوا۔

اب چلے جانبِ دارالعلوم:

            ماہ شوال المکرم۱۳۷۷ھ میں مولانامحمدصابرحسین صاحب قاسمی کے ہمراہ دیوبندکے لیے روانہ ہوئے اور۱۱/ شوال ۱۳۷۷ھ مطابق ۳۰/ اپریل ۱۹۵۸ء کو دارالعلوم پہنچ گئے ۔داخلے کی کارروائی شروع ہوئی اورکتبِ ممتحنہ میں ہدایہ اولین،نورالانوار،سلم العلوم اورمقامات تھیں اورممتحن علامہ بلیاوی تھے۔بہر کیف کام یابی نے آگے بڑھ کر استقبال کیااورمطلوبہ کتب:مشکوٰة شریف،جلالین،میبذی اورملاحسن مل گئی ۔سال کی تکمیل کے بعدرمضان کی تعطیل میں گھرآگئے اورآئندہ سال دورہ حدیث شریف میں داخل ہوکربخاری شریف مولانافخرالدین صاحب، مسلم شریف اورترمذی شریف علامہ ابراہیم بلیاوی،ابوداوٴدمولانافخرالحسن صاحب،نسائی مولانا بشیراحمد خاں صاحب، طحاوی اورابن ماجہ مولاناظہوراحمدصاحب ،موٴطاامام مالک قاری محمدطیب صاحب اورشمائل ترمذی مولانا سعیدحسن صاحب سے پڑھیں۔اوراس طرح بہ فضل خداوندی تعلیمی سفرکااختتام ہوگیااورپھرشعبان المعظم ۱۳۷۹ھ مطابق ۱۹۶۰ء میںآ پ کی فراغت ہوگئی۔

اب تدریسی دورکاآغازہورہاہے:

            سعادت کی بات یہ ہے کہ تدریسی خدمات کاآغازبھی اُسی مادرعلمی مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں پتھرا سے ہورہاہے ،جہاں تعلیمی زندگی کا طویل عرصہ گذارچکے تھے ۔درجات علیاکی کتابیں زیرتدریس تھیں اورآپ کے مخصوص اندازِدرس سے طلبہ مطمئن ہی نہیں،بل کہ وارفتہ تھے۔لیکن اوائل ربیع الاول ۱۳۸۰ھ میں ایسے کچھ ناخوش گوار حالات پیش آئے کہ بادلِ ناخواستہ تدریسی خدمات سے استعفادے دیا۔

مدرسہ اسلامیہ مغلاکھارنوادہ:اسی اثنامیں مدرسہ مذکورہ سے دعوت آگئی اور۱۵/ ربیع الاول ۱۳۸۰ھ مطابق۲۷/اگست۱۹۶۱ء اتوارکے دن وہاں تشریف لے گئے ۔لیکن مدرسہ غیرمعیاری اورابتدائی کتب ہونے کی وجہ کرطبیعت آمادہ نہ ہوسکی ۔اِس لیے جب رمضان المبارک میں گھرآئے تودوبارہ پلٹ کرنہیں گئے ۔

دوبارہ بشارت العلوم میں: اِدھراستاذ محترم مولاناسعیدکااصرارہواکہ ”گذری ہوئی ہربات کواب بھول جائیے“اوربشارت العلوم میں تشریف لائیے۔لیکن ۲/ ماہ تک فیصلہ نہ کرپائے ،لیکن آخرکار بشارت العلوم کی خدمات کوقبول کرلیا۔پھرمسلسل۶/ سال تک تمام ہی امہات کتب کادرس کام یابی کے ساتھ دیا۔مدرسی کے ساتھ ہی تعلیمی امورمیں بھی آپ دخیل رہے اورعملاً تمام ذمہ داریاں آپ ہی کے سررہیں۔نظامت تعلیم میں بعض اقدام اساتذہ کے خلافِ طبع اٹھانے پڑے،جس کی بناپرکچھ تلخیوں نے جنم لیا۔لہٰذاعلاحدہ ہوجانے میں بہتری نظرآئی اور جمادی الاخریٰ ۱۳۸۷ھ میں مستعفی ہوگئے ۔

اشرف العلوم کنہواں میں تدریسی خدمات: بشارت العلوم سے علاحدگی کی خبربہت تیزی سے پھیل گئی ۔بعض مدارس سے دعوت ملی لیکن تعلیمی معیارکی پستی پرآپ کی ہستی نے معذرت کردی ۔ادھرمولانا عبد العزیزبسنتی اورصوفی رمضان علی آواپوری کے لگائے گلشن؛ جامعہ اشرف العلوم کنہواں کوبھی ایسے ہی نگہ بلند،سخن دل نوازاورجاں پرسوزکی ضرورت تھی۔چناں چہ ناظم جامعہ، مخدوم بہارقاری محمدطیب کی نظرآپ پرگئی اورصدارتِ تدریس کے عہدے کادعوت نامہ ارسال کیا،جسے قبولیت کی سندمل گئی اوررمضان بعدجانے کافیصلہ ہوگیا۔لیکن مخدوم بہارقاری محمدطیبکی جانب سے ۲۵/ رجب ۱۳۸۷ھ مطابق۲۹/ اکتوبر۱۹۶۷ء اتوارکے دن دوسراخط پہنچا کہ ۱۵/ شعبان سے پہلے ناظم امتحان کی حیثیت سے آجاتے تواچھاتھا۔لہٰذا۳/ شعبان کوظاہراً ناظم امتحان اور حقیقتاً صدر المدرسین بن کراشرف العلوم میںآ گئے ۔اورپھرمستقل بہ حیثیت صدرالمدرسین ۱۰/ سال تک مدرسہ ہٰذا میں خدمات انجام دیں۔لیکن شایدقدرت کوکچھ اورہی منظورتھا اِس لیے وہاں کی ۱۰/ سالہ تدریس کے بعد ۱۳۹۷ھ کی عیدالاضحی کی تعطیل پرموصوف مرحوم نے یہ اعلان کردیاکہ میں اشرف العلوم کی خدمت سے اپنے کو مجبور پا رہا ہوں ۔

جامعہ رحمانی مونگیرمیں:

            وہاں سے مستعفی ہونے کے بعدامیرشریعت رابع مولانامنت اللہ صاحب رحمانی کی دعوت پرتشریف آوری کے حوالے سے آپ ہی کے الفاظ یہ ہیں:”یکم محرم الحرام ۱۳۹۸ھ مطابق ۱۲/ دسمبر ۱۹۷۷ء پیرکا دن میری زندگی کاانقلابی دن ہے ،جب جامعہ رحمانی کے اساتذہ کی صفوں میں میری شرکت کاآغاز ہے ۔ زندگی کی گاڑی کاسفرجاری رہااورجامعہ رحمانی خانقاہ مونگیرکی ۹/ سالہ خدمات کے بعد وہاں سے بھی شعبان ۱۴۰۶ھ میں غائب ہوناپڑا“۔

جامعہ عربیہ مفتاح العلوم مئومیں:

            ۲۶/ رمضان ۱۴۰۶ھ مطابق۴/ جون ۱۹۸۶ء بدھ کے دن مفتاح العلوم کے نائب ناظم مولاناممتازصاحب نے گھرپہنچ کرمشیخت حدیث کے لیے دعوت دی،جسے چھوڑناکسی طرح مناسب نہیں تھا۔جب وہاں پہنچے توسبھی ”کلیاں نہ بچھاناراہوں میں ہم آنکھیں بچھانے والے ہیں“ کانقشہ نظرآیا۔بہرحال اراکین کے لوگوں نے آکراس اندازسے گفتگوشروع کی کہ حضرت خوداپنی زبان سے بخاری طلب کریں۔ مولانارحمہ اللہ نے بخاری شریف کی یہ حدیث پڑھ ڈالی:”لاتسأل الأمارة فانک ان اعطیتہاعن مسئلة وکلت الیہاوان اعطیتہا عن غیرمسئلة اعنت علیہ“۔ اس کے بعدمجلس ختم ہوگئی ۔

تم جہاں تھے چلوپھروہیں لوٹ کر:

            بہرکیف ﴿ یُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ﴾کے مطابق اپنی قدرت کانقشہ دنیاکودکھلاتارہا۔ حالات میں مدوجزرآتے رہے اور بالآخر ”جہاں سے چلے تھے ،وہیں لوٹ آئے“ یعنی سبیل السلام حیدرآباد،جامعہ رحمانی مونگیرہوتے اور درس بخاری دیتے ہوئے یہی عزم کررکھاتھاکہ مدرسی ترقی کی آخری منزل پرباقی زندگی کے لمحات گذاریں گے ۔لیکن معلوم کس کوتھاکہ کشتیاں توہمیشہ ہواوٴں کے مخالف سمت ہی میں چلتی ہیں۔

ماکل مایتمنیٰ المرء یدرکہ

تجری الریاح بمالاتشتہی السفن

اورپھر۱۴/ شعبان المعظم ۱۴۱۲/ مطابق ۱۹/ فروری ۱۹۹۲ء بدھ کے دن مولاناانوارالحق صاحب نظرہ ،مدہوبنی کے عہدنظامت میں دوبارہ صدرالمدرسین کی حیثیت سے جامعہ اشرف العلوم کنہواں میں تشریف لے آئے ۔ پھر ۱۴۱۶ھ میں مذکورہ ناظم کے انتقال کے بعد۸/ شعبان ۱۴۱۶ھ مطابق ۳۱/ دسمبر۱۹۹۵ء اتوارکے دن شوریٰ کی میٹنگ ہوئی اوراتفاق رائے سے آپ کوجامعہ کاناظم منتخب کرلیاگیا۔

اپنادامن بچاکے رکھو:

            ایک کہاوت زبان زدخاص وعام یہ ہے کہ”بداچھابدنام برا“ کچھ نفوس قدسیہ ایسے بھی ہواکرتے ہیں، جن کی اللہ تعالیٰ ہرموڑپردست گیری فرماتے ہیں۔اِسی کااثر تھاکہ موجودہ لوٹ کھسوٹ ،بے ایمانی،جعل سازی اوررشوت ستانی کے ہرسوگرم بازاری کے دورمیں بھی﴿وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾پر چلتے اورعمل کرتے ہوئے مدرسہ کے مالیات کی پوری حفاظت فرماتے، ہرماہ کاحساب کتاب مکمل کرنے کے بعداُس کی تفصیل لکھ کر وہ کاغذاپنی جیب میں ڈال لیتے ۔تفصیل کی تفصیل اِس طرح ہوتی کہ مدرسہ کی تحویل میں کس مد میں کتنی رقم ہے؟کہاں کہاں ہے؟بینک میں کتنی،دفترکے اندرآپ کے دراز میں کتنی اورمنشی کے پاس کتنی ہے؟ بار بار فرمایا کرتے تھے کہ میں جب مرجاوٴں توفوراً کاغذمیری جیب سے نکال کرنقدملالیں۔میرے کمرہ میں کوئی چیز تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے،اِس کاغذمیں سب کی پوری تفصیل مل جائے گی۔اساتذہ سے بھی کہاکرتے کہ آپ حضرات بھی رجسٹر کھول کردیکھاکریں تاکہ آمدوصرف ہرایک کی نظرمیں رہے ۔

اسلامک فقہ اکیڈمی کے رکنِ اساسی:

            مولانازبیراحمدمرحوم فطرةً بہت ہی ذہین وذکی اورمتبحرعالم تھے۔علوم وفنون کاکوئی گوشہ اُن کی دسترس سے باہرنہیں تھا۔لیکن فقہ وتفقہ کاپہلواُن سب پرحاوی اورغالب تھااورفن فقہ میں محققانہ شان سے ان کی پہچان تھی۔یہی وجہ ہے کہ جب فقیہ العصرقاضی محمدمجاہدالاسلام قاسمینے۱۹۸۹ء میں اسلامک فقہ اکیڈمی کی بنیادرکھی تو اس کے ارکان اساسیہ میں مولانازبیراحمدصاحب کانام بھی شامل کیاگیا،جس پرتادم آخرقائم رہے۔

خصوصیات وامتیازات:

            اب میں اپنی بات کواختتام کے حوالے کرنے کوہوں۔کیوں کہ میں نے جس ماہنامہ کے صفحات کو ”زینت بخشنے “کی خاطر قلم کوحرکت دی ہے ،اُس کے صفحات طوالت کی اجازت نہیں دیتے۔ اِس لیے بالکل مختصر اندازمیںآ گے بتلاتاچلوں کہ مولانا زبیر احمد مرحوم کواللہ نے بڑی خوبیوں سے نوازاتھا ۔ان کی زندگی اور حیاتِ مستعار کا ہر گوشہ روشن،نہایت اہم اورایسا قابل تقلیدہے کہ ”جی چاہتاہے نقش قدم چومتے چلیں“۔پیرانہ سالی اور امراض جسمانی کے باوجودبھی سلسلہٴ درس متأثر نہیں ہوسکا۔جب اعضاجواب دینے اورقویٰ مضمحل ہونے لگے تو اِس مبارک سلسلے پر بریک لگ گیا۔لیکن قدرت کاکرشمہ دیکھیں کہ ذہنی قوت اورعلمی نکات کااستحضارعلیٰ حالہ قائم تھا۔یہ بھی آپ کے صلاح وتقویٰ،امانت ودیانت ،تازندگی علوم نبویہ ،خدمت حدیث کی برکت اور عند اللہ مقبولیت کی دلیل ہے۔آپ کاوجودجامعہ ،اہل جامعہ ہرایک کے واسطے ایک گراں قدراورانمول نعمت تھی ،جوبہ مشیتِ ایزدی﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾کے راستے اب ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔کسی بڑے کا قول ہے: ”لایزال الناس بخیرمابقی فیہم الاکابرحتی یتعلم منہم الاصاغر“ یعنی اسی وقت تک لوگ خیرکی راہ پر رہیں گے،جب تک اُن میں اکابرموجودرہیں گے اوراصاغراُن سے سیکھتے رہیں گے۔

مطلب بالکل صاف ہے:

            کہ جب اکابرکسی قوم میں نہ رہیں اور اصاغراستفادے سے محروم ہوجائیں تووہ قوم خیروبرکت کی دولت سے محروم ہوجاتی ہے ۔اللہ کاشکرہے کہ آپ کی ذاتِ عالی فکرونظر،علم وآگہی ،فہم ودانش اورفضل وکمال کا ایک حسین سنگم واقع ہوئی تھی ،جس کی وجہ سے طلبہ واساتذہ اورعوام الناس کے مابین لازمی مرجع تھے۔

طلبہ کواِس طرح علمی چسکالگاتے تھے:

            خارجی وقت میں طلبہ کوعربی کے صیغے اورافعال سکھاتے اورچھوٹے چھوٹے جملوں کی مشق کرواتے ۔ غلطی پرڈانتٹے اورسزابھی دیتے ۔جس نے جھڑکی برداشت کرلی وہ دوسرے طلبہ کے مقابلے کام یاب ہوگیااوراُن کی عبارت فہمی اورصلاحیت کوبھی چارچاندلگ گئے۔”الناس علیٰ دین ملوکہم“کی روشنی میں قارئین کرام خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ جب کسی ادارے کاناظم اورمہتمم کی طلبہ پرصیغہ ،فعل اورعربیت کاذوق پیداکرنے اور چسکا لگانے میں اتنی محنت ہوگی توپھراساتذہ کتنی محنت سے کام لیں گے؟اِسی لیے جامعہ اشرف العلوم کے طلبہ میں عربی کا وہ ذوقِ بلند پیداہوا کہ وہ آپسی گفتگوبھی عربی زبان میں کرتے۔قارئین کوحیرت اُس وقت ہوگی جب اُن کو یہ معلوم ہوگاکہ عصر بعدبچے میدان میں کبڈی کھیلتے تواُس میں بھی لفظ”کبڈی“بولنے کے بجائے فَعَلَ یَفْعَلُ یا کسی اورفعل کی گردان کرتے ۔اب فیصلہ کیا جائے کہ طلبہ کے کھیل کایہ منظربھی کتناقابل دیدہوتاہوگا؟

اب ہماری ذمہ داری نہیں ہے:

            کیاآج کے دورمیں ہے کوئی ایساناظم اورمہتمم؟جوطلبہ کی علمی استعدادکوبنانے،نکھارنے اور چمکانے کی خاطراپنے آرام کے وقت میں اتنی بڑی قربانی دیا کرے؟اگرہم چراغ لے کرڈھونڈنے چلیں گے تو بھی یہی یقین ہے کہ ناکامی ہی آگے بڑھ کراستقبال کرے گی۔ ہماری حالت تویہ ہے کہ درس گاہ میں بیٹھنے کے بعد درس کی تقریر جھاڑ کر نکل جاتے ہیں اورسمجھ لیتے ہیں کہ اب ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی۔

طلبہ کے ساتھ شفقت:

            مولانامرحوم طبیعت کے اعتبارسے سخت مزاج تھے۔ناپسندیدہ اورخلافِ طبع امرپرفوراً غصہ آجاتا،سخت ناراضگی ظاہرکرتے اورمخاطب کوسخت سست کہہ دیتے ۔ایک باربعض اساتذہ نے عرض کیاکہ اس قدرغصہ مناسب نہیں،تو فرمایا کہ ناپسندیدہ امرپرغصہ کاآناایک فطری اورطبعی امرہے ۔اورپھرحضرت امام شافعی  کاقول:”من استغضب ولم یغضب فہوحمار، ومن اعتذرفلم یعذرفہوشیطان“ یہ سناکرفرمایاکہ معلوم نہیں کہ آپ لوگوں کوغصہ کیوں نہیںآ تا؟آپ لوگوں کی حِس کیسی ہے ؟

            کوئی طالب علم غلطی کرتااورپھرمعافی کاطلب گارہوتاتواس کوفوراً ہی معافی کاپروانہ دے دیتے ۔بسا اوقات ایسابھی دیکھنے میںآ یاکہ نظمائے دارالاقامہ نے کسی کااخراج کردیا۔وہ طالب علم آپ کے پاس آ کر رونے لگتاتوآپ فوراً سفارش تحریرکردیتے ۔کسی بھی طالب علم کے رونے پربہت ترس آتا۔یہ تواٹل حقیقت ہے کہ اللہ جل شانہ کوبھی آنسوکاقطرہ بہت پسندہے ۔جیساکہ کونین کے سرور،شافع محشر،نبیوں کے افسر،محبوب رب اکبر صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ترمذی شریف میں ہے ”لیس شئی احب الی اللّٰہ من قطرتین و اثرین۔ قطرة دموع من خشیة اللّٰہ وقطرة دم تہراق فی سبیل اللّٰہ “یعنی دوہی قطرے توایسے ہیں، جواللہ کوبے حد پسندہیں۔ ایک توآنسوکا وہ قطرہ جوخوفِ خداوندی کے سبب بہاہواوردوسرے خون کاوہ قطرہ جوراہ خدا میں بہایا گیا ہو۔ اللہ کواِن دو قطروں پربڑاپیارآتاہے اوران کومعاف کردیتاہے ۔لہٰذااِسی حدیث مبارکہ کے پیش نظرآپ بھی اُن رونے والے طلبہ کومعاف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔(ص :۲۹۶)

 وفات حسرت آیات:

             جامعہ اشرف العلوم کنہواں ضلع سیتامڑھی میں۳۸/ سال تک اپنی تعلیمی،تدریسی،ہمہ جہتی،حسنِ تدبیری،تہذیبی اور تعمیری خدمات دینے کے بعد آخر کاروہ الم ناک ،ہیبت ناک ،غم ناک ،دردناک اورحسرت ناک وقت بھی آن پہنچا،جس سے کسی کو چھٹکارا نہیں ہے ۔اور پھر یکا یک علم وعمل کا حسین شاہ کار،اشرف العلوم کا شجرسایہ دار، طلبہ کے لیے ابربہار،زہد وتقویٰ کا مینار، سب کوکرکے سوگوار۶/ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۰ھ مطابق ۱۳/ جنوری ۲۰۱۹ء بروز اتوار، صبح ۷/ بج کر ۳۰/ منٹ پر ۸۱/ سال کی عمرپاکراپنے آبائی گاوٴں چندرسین پورہی سے چلا گیا جانب پرور دگار۔ اناللہ واناالیہ راجعون!

پس ماندگان:

            حضرت مولانازبیراحمدصاحب کی شادی خانہ آبادی کب ہوئی؟یہ توتلاش بسیارکے بعدبھی پتانہیں چل سکا۔لیکن اتنی کہانی حضرت مرحوم کے فرزندمولاناظفرصدیقی کی زبانی معلوم ہوئی کہ مولانامرحوم کی شادی موضع تیسی، ضلع مدہوبنی میں حاجی محمدادریس بن عبدالغنی کی دخترکے ساتھ ہوئی تھی ۔حضرت کے پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ کے علاوہ ۵/ لڑکے اور۲/ لڑکیاں شامل ہیں۔

نمازجنازہ اورتدفین:

            اسی دن عصرکی نمازکے بعد مولاناکے بڑے حاحبزادہ مولانااویس انظرقاسمی# نے نمازجنازہ پڑھائی ۔ بعدہ علم وہدایت کے آفتاب وماہتاب کوگاوٴں کے قبرستان میں ایک جم غفیر اور علاقائی بھیڑ نے﴿مِنْھَاخَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْرٰی﴾پڑھتے ہوئے اشک بار اورپُرنم آنکھوں کے ساتھ سپردخاک کر دیا۔اللٰہم اغفرلہ وارحمہ وسکنہ فی الجنة!

مرقد پہ اُن کے ابر کرم کا نزول ہو

عاجز کی یہ دعا ہے الٰہی قبول ہو!