انوار قرآنی نویں قسط:
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمدوستانوی
العلمین عالم کی جمع ہے۔ جس میں دنیا کی تمام اجناس آسمان، چاند، سورج اور تمام ستارے اور ہوا وفضا، برق و باراں، فرشتے جِنّات، زمین اور اس کی تمام مخلوقات، حیوانات، انسان، نباتات، جمادات سب ہی داخل ہیں؛ اس لیے رب العلمین کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ تمام اجناسِ کائنات کی تربیت کرنے والے ہیں۔ اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ جیسا یہ ایک عالم ہے جس میں ہم بستے ہیں اور اس کے نظام ِشمسی وقمری اور برق و باراں اور زمین کی لاکھوں مخلوقات کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں یہ سارا ایک ہی عالم ہو اور اسی جیسے اور ہزاروں لاکھوں دوسرے عالم ہوں جو اس عالم سے باہر کی خلا میں موجود ہوں۔ امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں فرمایا ہے کہ اس عالم سے باہر ایک لامتناہی خلاء کا وجود دلائل ِعقلیہ سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت ہے اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ اس نے اس لامتناہی خلا میں ہمارے پیش ِنظر عالم کی طرح کے اور بھی ہزاروں لاکھوں عالم بنا رکھے ہوں۔
حضرت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ عالم چالیس ہزار ہیں۔ یہ دنیا مشرق سے مغرب تک ایک عالم ہے، باقی اس کے سوا ہیں۔ اسی طرح حضرت مقاتل امام تفسیر سے منقول ہے کہ عالم اَسی ہزار ہیں (قرطبی)۔ اس پر جو یہ شبہ کیا جاتا تھا کہ خلاء میں انسانی مزاج کے مناسب ہوا نہیں ہوتی ،اس لیے انسان یا کوئی حیوان وہاں زندہ نہیں رہ سکتا؛ امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ کیا ضروری ہے کہ اس عالم سے خارج خلاء میں ،جو دوسرے عالم کے باشندے ہوں ان کا مزاج بھی ہمارے عالم کے باشندوں کی طرح ہو؛ جو خلاء میں زندہ نہ رہ سکیں ؛یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ ان عالموں کے باشندوں کے مزاج و طبائع ان کی غذا و ہوا یہاں کے باشندوں سے بالکل مختلف ہوں۔
یہ مضمون تو اب سے سات سو ستر سال پہلے کے اسلامی فلاسفر امام رازی کا لکھا ہوا ہے؛ جب کہ فضا وخلا کی سیر اور اس کی پیمائش کے آلات و ذرائع ایجاد نہ ہوئے تھے۔ آج راکٹوں اور اسپٹنکوں کے زمانے میں خلا کے مسافروں نے جو کچھ آکر بتلایا وہ بھی اس سے زیادہ نہیں کہ؛ اس عالم سے باہر کی خلاء کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس غیرمتناہی خلا میں کیا کچھ موجود ہے۔ اس دنیا سے قریب ترین سیاروں، چاند اور مریخ کی آبادی کے بارے میں جو قیاسیات آج کے جدید ترین ماہرین ِسائنس پیش کر رہے ہیں؛ بل کہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ ان کے مزاج و طبیعت ان کی غذا و ضروریات یہاں کے لوگوں سے بالکل مختلف ہوں؛ اس لیے ایک کو دوسرے پر قیاس کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
امام رازی کی تائید اور اس سلسلے کی جدید معلومات کے لیے وہ مقالہ کافی ہے، جو امریکی خلائی مسافر جان گلین نے حال میں خلا کے سفر سے واپس آکر شائع کرایا ہے ؛جس میں شعاعی سال کا نام دے کر ایک طویل مدت ومسافت کا پیمانہ قائم کیا اور اس کے ذریعے اپنی وسعت ِفکر کی حد تک خلا کا کچھ اندازہ لگایا اور پھر یہ اقرار کیا کہ کچھ نہیں بتلایا جاسکتا کہ خلا کی وسعت کتنی اور کہاں تک ہے۔
قرآن کے اس مختصر جملے کے ساتھ اب تمام عالم اور اس کی کائنات پر نظر ڈالیے اور بچشم ِبصیرت دیکھیے کہ حق تعالیٰ نے تربیت ِعالم کا کیسا مضبوط اور محکم محیر العقول نظام بنایا ہے۔ افلاک سے لے کر عناصر تک، سیارات و نجوم سے لے کر ذرّات تک؛ ہر چیز اس سلسلہٴ نظام میں بندھی ہوئی اور حکیم مطلق کی خاص حکمت ِبالغہ کے ماتحت ہر چیز اپنے اپنے کام میں مصروف ہے ۔ایک لقمہ جو انسان کے منہ تک پہنچتا ہے، اگر اس کی پوری حقیقت پر انسان غور کرے تو معلوم ہوگا کہ اس کی تیاری میں آسمان اور زمین کی تمام قوتیں اور کروڑوں انسانوں اور جانوروں کی محنتیں شامل ہیں۔ سارے عالم کی قوتیں مہینوں مصروف ِخدمت رہیں، جب یہ لقمہ تیار ہوا اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ انسان اس میں غور و تدبرّ سے کام لے اور سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لے کر زمین تک اپنی تمام مخلوقات کو اس کی خدمت میں لگا رکھا ہے، تو جس ہستی کو اس نے مخدومِ ِکائنات بنا رکھا ہے ،وہ بیکار وبیہودہ نہیں ہوسکتی، اس کا بھی کوئی کام ہوگا اس کے ذمّے بھی کوئی خدمت ہوگی۔
قرآن حکیم نے انسانی آفرینش اور اس کے مقصد حیات کو اس آیت میں واضح فرمایا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (۵۶: ۸۲)
میں نے جن اور انسان کو اور کسی کام کے لیے نہیں بنایا، بجز اس کے کہ وہ میری عبادت کریں۔
تقریر مذکورہ سے معلوم ہوا کہ رب العلمین ایک حیثیت سے پہلے جملے الحمد للہ کی دلیل ہے کہ جب تمام کائنات کی تربیت و پرورش کی ذمہ دار صرف ایک ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، تو حمد وثنا کی حقیقی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے؛ اس لیے آیت: الحمد للہ رب العلمین میں حمد وثنا کے ساتھ ایمان کے سب سے پہلے رکن توحید باری تعالیٰ کا بیان بھی مؤ ثر انداز میں آگیا۔(معارف القرآن مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ)
اسلام کے اس خالص توحیدی کلام کے مقابلہ میں اب مسیحیت کا فقرہ افتتاحیہ ملاحظہ ہو:
”شروع باپ بیٹے اور روح القدس کے نام سے“ کوئی نسبت اس شرک جلی کو اسلام کی توحید ِخالص سے ہے؟ راقم آثم کے خیال میں یہ بات آتی ہے کہ عجب نہیں جو خالق ِاکبر کی یہی صفات رحمانیت ورحیمیت ہی مسخ ہو کر مسیحیت میں بیٹا اور روح القدس بن گئی ہوں۔
الحمد میں ال کلمہ استغراق ہے۔ یعنی جمیع حمد، کوئی سی بھی ہو۔کسی قسم کی بھی ہو، بہ ظاہر کسی کے لیے بھی ہو۔ حمد کا درجہ لغوی اعتبار سے، مدح اور شکر دونوں سے بلند تر ہے۔ شکر تو کسی متعین ہی نعمت کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے اور مدح میں ممدوح کی خوبیوں کا ارادی واختیاری ہونا ضروری نہیں۔ صرف حمد ہی ایسی چیز ہے، جو محمود کی عام اختیاری خوبیوں اور فضیلتوں کی بنا پر کی جاتی ہے (راغب) فی کلام العرب معناہ الثناء الکامل (قرطبی) گویا قرآن مجید کی سب سے پہلی تعلیم توحید کے جملہ اصناف کی جامع ہے۔
مدح اور تعریف کسی کی بھی ہو، کسی کے نام سے بھی ہو، درحقیقت صرف اللہ ہی کی ہوتی ہے اور اسی کو پہنچتی ہے۔ الالف واللام فی الحمد لا ستغراق جمیع اجناس الحمد للہ تعالیٰ (ابن کثیر) اور یہی معنی ہیں اس حدیث نبوی کی بھی کہ، اللہم لک الحمد کلہ ولک الملک کلہ وبیدک الخیر کلہ والیک یرجع الامر کلہ۔ حاکم اگر عادل ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے صفت ِعدل اس کے اندر رکھ دی ہے۔ طبیب اگر حاذق ہے تو اس کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ اللہ نے اسے یہ کمال عطا کردیا ہے، کسی کی شکل جمیل ہے اور کسی کی سیرت پاکیزہ ہے توہر موقع پر مدح وثنا، تعریف و ستائش کی اصل مستحق صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ # ہر جاکنیم سجدہ بآں آستان رسد!
رب، جو یہاں بہ طور اسم استعمال ہوا ہے، مصدر ہے تربیت کے معنی میں۔ اور تربیت کے معنی ہیں کسی شی کو ایک حال سے دوسری حالت کی طرف نشوونما دیتے رہنا؛ تاآں کہ وہ حد کمال تک پہنچ جائے۔ ھوانشاء الشی حالا فحالا الی حد التمام (راغب) وھی تبلیغ الشیء الی کمالہ شیئا فشیئا (بیضاوی) الرب المصلح والمدبر والجابر والقائم یقال لمن قام باصلاح شئی واتمامہ (قرطبی) اردو میں اس کا ترجمہ پروردگار سے بھی صحیح ہے؛ لیکن قریب ترین لفظ اس مفہوم کے لیے ”مربی“ کا ہے اور یہی مترجم تھانوی مدظلہ نے اختیار کیا ہے۔ عربی میں اس کا اطلاق مطلق اور بلااضافت صورت میں صرف حق تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ ولا یقال الرب مطلقا الا اللہ تعالیٰ (راغب) ولا یستعمل الرب لغیر اللہ بل بالاضافة (ابن کثیر) صفات رحمانیت ورحیمیت کے معاً بعد اب اللہ کی صفت ِربوبیت کا اظہار ہے۔
مسیحیوں کے ”آسمانی باپ“ سے کہیں زیادہ شفقت، کہیں زیادہ قدرت، کہیں زیادہ حکمت لفظ ِرب سے عیاں ہے۔” عالمین “عالم کا لفظ خود اسم جمع ہے کوئی اس کا واحد نہیں آتا۔ اور مرادف ہے خلقت یا موجودات کے۔ العالم الخلق کلہ (لسان) عالمون بہ صیغہ جمع کے معنی ہوئے ہر ہر صنف ِموجودات اور سارے سلسلہ کائنات کے۔ والعالمون اصناف الخلق (لسان) رب العلمین کا لفظ لا کر قرآن مجید نے گویا بتادیا کہ ہر صنف موجودات کا ایک مستقل نظام تربیت ہے۔ اور سب کا آخری سرااسی قادر مطلق واحد ویکتا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی بھی صنف ِموجودات اس کے ہمہ گیر نظام ِربوبیت وتربیت سے آزادومشثنی نہیں۔ یہ تعلیم بھی اسی ایک لفظ سے مل گئی کہ اسلام کا خدا کسی مخصوص نسل، مخصوص قوم، مخصوص قبیلہ کا خدا نہیں۔ یہ حقیقت تاریخِ مذاہب میں نہایت درجہ رکھتی ہے۔ اسلام سے قبل مذاہب جس صورت میں موجود تھے وہ اس وسیع تخیل ہی سے آشنا نہیں رہے تھے، ہر قوم خدا کو صرف اپنا خدا تسلیم کرتی تھی؛ گویا خدا کی حیثیت محض قومی خدا کی رہ گئی تھی۔
بابل، مصر، ہند، یونان، رومہ، عرب وغیرہ کی مشرک قوموں کا ذکر نہیں، بنی اسرائیل جیسی موحد قوم بھی خدائے کائنات ہونے کی پوری طرح قائل نہیں رہی تھی۔ قرآن نے ایک لفظ رب العلمین لا کر ان سارے مشرکانہ وگمرہانہ عقائد کی تردیدکردی۔ مشرک قوموں کو سب سے زیادہ ٹھوکر صفت ِربوبیت ہی کے سمجھنے میں لگی ہے۔ اسی لئے قرآن نے تصیح میں بھی اسی کو مقدم رکھا۔ علما کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ کلمہ الحمد للہ رب العلمین تمام کلموں سے افضل و اشرف ہے۔ یہاں تک کہ لا الہ الا اللہ سے بھی؛ اس لیے کہ اس میں صرف توحید ہے اور اس میں توحید کے ساتھ حمد بھی (قرطبی)
اب اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کی تفسیر کے بعدآئیے ﴿اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ کی تفسیر کی طرف۔
اس سے قبل والی آیت کریمہ میں اللہ رب العزت کی اہم ترین صفت صفت ربوبیت کو بیان کیا گیا ، جس کے معنی آتے ہیں مالک ، مربی مصلح ، مربی خالق اور معبود وسید ۔یعنی کسی بھی چیز کی اصلاح کرنے والا اور اس پر حکمت مصلحت اور علم کے ساتھ نگہداشت رکھنے والا جسے اپنے بندوں اور مخلوق میں تصرف کامکمل اختیار حاصل ہو؛جس سے اس کی جبروئیت کی طرف ذہن مبادرت کرتا ہے ، لہٰذا اس کے بعد فوراً ایسی صفات لائی گئی؛ تاکہ اگر بندہ سے کوئی خطا یا گناہ ہوجائے، تو در گزر کی امید بند ھی رہی اور بندے کو قوی امید ہوچلے اور توبہ، استغفار کے بارے میں تردد نہ کرے۔(تفسیر ابی حیان :۱/۳۵)
ایک مناسبت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ صفت ِربوبیت کے بعد صفت ِرحمت اس لیے لائی گئی ہے ؛تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اللہ جو تربیت کرتا ہے ، اس کا اپنا کوئی مفاد اس سے وابستہ نہیں ہے ، محض اپنی رحمت کی بنا پر یہ سب کرتا ہے ۔ نہ اللہ تعالیٰ تربیت سے جلب ِمنفعت چاہتا ہے اور نہ ہی دفع ِمضرت؛ وہ تو محض اپنی مہربانی کو اپنے بندوں پر نچھاور کرتاہے۔
”اللہ“ اور” رحمن“ کا اطلاق صرف ذات باری ہی پر ہوتا ہے:
اللّٰہ اسم ذات ہے۔ کسی اور ہستی پر اس کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ فارسی کے خدا یا انگریزی کے گاڈ کی طرح اسم نکرہ نہیں کہ معبودِ واحد کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی بولا جاسکے۔ اس کی نہ جمع آئی ہے، نہ یہ کسی لفظ سے مشتق ہے اور نہ اس کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں ممکن ہے۔
علم للذات واجب الوجود المستجمع بجمیع صفات الکمال غیر مشتق (تاج)
لم یسم بہ غیرہ تبارک وتعالی ولھذا الا یعرف فی الکلام العرب لہ اشتقاق من فعل یفعل (ابن کثیر)
”رحمن “کا صحیح ترجمہ دشوار ہے۔ مصدر رحمة سے صیغہ مبالغہ ہے، فعلان کے وزن پر، زیادتی صفت کے لیے؛جس کے بعد زیادتی کا کوئی درجہ نہ ہو۔ معناہ عند اھل اللغة ذوالرحمة التی لا غایة بعدھا فی الرحمة (تاج) مبالغة فعلان مثل غضبان وسکران من حیث الاستیلاء والغلبة (بحر)
اسم ذات ”اللہ“ کی طرح اسم صفت، رحمن کا اطلاق بھی صرف ذات باری ہی پر ہوتا ہے۔ ولایطلق الرحمٰن الا الرحمٰن الا علی اللہ تعالیٰ (راغب) اسم مغصص باللہ لا یجوزان یسمی بہ غیرہ (تاج) یہ بات اتفاقی نہیں بہت پر معنی ہے کہ قرآنِ مجید میں اسم ذات کے بعد جو سب سے پہلا اسمِ صفاتی ارشاد ہوا ہے، وہ صف رحمانیت کا مظہر ہے۔ لین پول (Lane poolw) انگریز اسی لیے اپنے ہم قوموں کو سنا کر کہتا ہے کہ ”لوگ یہ بات برابر بھول جاتے ہیں کہ قرآن کے اندر وصف ِرحمت پر کتنا زور دیا گیا ہے“۔ رحیم بھی اسم ِصفت صیغہٴ مبالغہ ہے۔ فعیل کے وزن پر،تکرار وتواتر کے اظہار کے لیے۔ مبالغہ الفعیل من حیث التکرار (بحر) گویا صفت رحمت و شفقت کی انتہائی قوت کا اظہار رحمن سے ہورہا ہے اور انتہائی کثرت کا رحیم سے۔
اس فرق کے اظہار کے لیے رحمن کا ترجمہ ”نہایت رحم کرنے والے“ اور رحیم کا ترجمہ ”بار بار رحم کرنے والے“ سے کیا گیا ہے۔ رحمن میں شانِ کرم کا عموم ہے مومن و کافر سب کے لیے۔ اور اسی لیے اس کا ظہور اسی دنیا میں بھی ہورہا ہے۔ رحیم میں تجلی مرحمت مغفرت کا خصوص ہے اہل ِایمان کے ساتھ؛ اس لیے اس کا پورا ظہور آخرت ہی میں ہوگا۔ اور اسی معنی میں یہ حدیث صحیح مسلم میں صحابی ابن مسعود کے واسطہ سے آئی ہے کہ”الرحمن رحمن الدنیا والرحیم ورحیم الاخرة“۔ اور اسی معنی میں جعفر صادق کا بھی یہ قول نقل ہوا ہے۔ الرحمن اسم خاص لصفة عامة والرحیم اسم عام لصفة الخاصة (تاج) صوفیانہ مذاق پر ایک تشریح یہ بھی کی گئی ہے کہ رحمانیت وہ تربیت ہے ،جو ذرائع ووسائط کے ساتھ ہو اور رحمیت وہ تربیت ہے، جو براہ ِراست وبلاواسطہ ہو۔ رحمانیت وہ شفقت ہے جو طبیب مریض کے ساتھ رکھتا ہے۔ اور رحیمیت شفقت ِمحض ہے۔ (روح)
(جاری……)