شہرِقدس،جائے وقوع:

فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں۔از:مولانا نورعالم خلیل امینیؔ

                شہرقدس قلبِ فلسطین میں،سطحِ سمندرسے تقریبا۷۲۰۔۸۳۰میٹراونچے ٹیلوںپہ واقع ہے، جوشرقاً۳۵خط طول البلداورشمالاً۳۴خط عرض البلدپہ واقع ہے۔ قدس کے مشرق میںوادی قدرون واقع ہے، جوشہرکی مشرقی فصیل اورجبلِ زیتون(جبل طور)کے درمیان واقع ہے ۔شہرکے مغرب میںوادی سلوان ،شمال میںجبل مشار ف جنوب میںجبل مبکرہے ،جس پرحضرت عمررضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے ،جب وہ شہرقدس میںفاتحانہ تشریف لائے تھے ۔

شہرِقدس :بحرِابیض متوسط سے تقریباً۳۲میل(۵۵کلومیٹر)کے فاصلے پر،مغرب میں،بحرِمردارسے ۱۸میل (۲۲کلومیٹر)مشرق میں،نہراردن سے تقریباً۲۶میل شمال میں،خلیل سے تقریباً۱۹میل جنوب میں،نیزسبسطیہ سے تقریباً۳۰میل شمال میںاوربحرِاحمرسے ۲۵۰کلومیٹرجنوب میںواقع ہے ۔

شہرقدس کے علاقے:

                شہرقدس دوحصوںمیںبٹاہواہے :

                (۱لف)پراناعلاقہ :یہ پراناتاریخی علاقہ جہاںمسجدِاقصیٰ واقع ہے ۔اس کارقبہ تقریباًایک مربع کلومیٹرہے ۔یہ فصیل سے گھراہواہے ،جس کی لمبائی تقریباً ۴ کلومیٹراوراونچائی ۱۲میٹرہے ۔اس کے سات دروازے ہیںجوہمہ وقت کھلے رہتے ہیں:باب الساہرۃ اورباب الحمیدجوشمال میںواقع ہیں۔مغرب میںباب الخلیل ہے ،جنوب میںباب مغاربہ اورباب داؤدہیں،مشرق میںبابِ اسباط اورشمالِ مغرب میںباب حدیدہے اورمشرقی جانب ایک آٹھواںدروازہ ہے جوہمہ وقت بندرہتاہے اس کوباب ذہبی (سنہرادروازہ)کہاجاتاہے ۔

                (ب)نیاعلاقہ:یہ علاقہ ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء میںیہودیوںکے قبضے سے پہلے دوحصوںمیںبٹاہواتھا۔مشرقی حصہ اورمغربی حصہ ۔اس وقت دونوںحصے مع مسجداقصیٰ یہودکے قبضے میںہیں۔

شہرقدس کی اِسلامی فتح:

                حضرتِ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ہی ملکِ شام کی فتح کے لیے اِسلامی افواج، علاقۂ شام کارخ کرتی رہی تھیں؛ لیکن اللہ پاک نے اِس کی فتح کی سعادت حضرت عمررضی اللہ عنہ کے لیے مقدر کر رکھی تھی؛ چناں چہ ۱۷ھ میں حضرت عمرؓ کی سرپرستی میں، حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح اور خالد بن الولیدرضی اللہ عنہما کی قیادت میں اُس کی فتح بہ روئے کار آئی۔

                مفتوح عیسائیوںنے اسلامی فوجوںکے طویل محاصرے کے بعد،یہ شرط عائدکی تھی کہ وہ بہ نفسِ نفیس حضرت امیرالمومنین عمربن الخطاب ؓکوہی شہرکی چابیاں سپردکریںگے ۔

                دوسری شرطیںان کی یہ تھیںکہ عیسائیوںکی مذہبی آزادی برقراررہنی چاہیے ،شہرمیںواقع ان کے مذہبی مقدسات کااحترام ہوناچاہیے اورشہرمیںقدیم رومی سرکلرکے مطابق یہودیوںکاداخلہ ممنوع رہناچاہیے ۔حضرت عمرؓنے ان کی ساری شرطیںمن وعن تسلیم کرلیں،لیکن آخری شرط کہ یہودیوںکے لیے یہاںکاداخلہ اوربودوباش ممنوع ہوگی،کوحضرت عمرؓنے مستردکردیا،آپ ؓنے فرمایا:کہ اللہ کی کتاب قرآنِ پاک نے اہلِ کتاب کے حقوق واجبات کی تصریح کردی ہے ،اس میںاس طرح کی کوئی دفعہ ایسی نہیںجس کی روسے بیت المقدس میںان کاداخلہ ممنوع قراردیاجاسکے ۔البتہ آپ ؓنے ان کی یہ بات مان لی کہ ان کے گرجاگھروںاوران کے رہایشی محلوںمیںیہودیوںکی آمدقطعاًممنوع ہوگی۔حضرت عمرؓنے اس وقت یزیدبن معاویہ کووہاںکاگورنرمقررفرمایااورانہیںحضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓکے احکامات کاپابندرہنے کی تاکیدکی ۔اپنی روانگی کے وقت سلامہ بن قیصرکووہاںکاامام مقررفرمایا۔

                حضرت عمرؓنے شہرقدس کی چابیاں،عیسائی پوپ اعظم ’’صفرانیوس‘‘Sophroniusسے اس حال میںوصول کیںکہ آپ سرخ اونٹ پرسوارتھے ،اونٹ پردوتھیلیاںتھیںایک میں سَتّو اور دوسرے میں کھجوریں تھیں، سامنے پانی سے بھرا ایک مشکیزہ تھا اور سواری کے پیچھے ایک توشہ دان تھا۔ آپؓ کی جلو میں جلیل القدر صحابۂ کرامؓ: حضرت زبیرؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ وغیرہما تھے۔ سفر کے دوران آپؓ باری باری اونٹ پر سوار ہوتے، کبھی آپؓ کبھی آپؓ کا خادم۔ جس وقت شہر میں داخلے کا وقت تھا، اونٹ پر آپؓ کا خادم سوار تھا۔ شہر کے نصرانیوں نے جب آپؓ کو اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے پیدل چلتے ہوئے دیکھا، تو انہیں یہ بہت عجیب سا محسوس ہوا، لیکن انہوں نے اس واقعہ کو اتنی اہمیت دی کہ ان کا دینی اُسْقُفِّ اعظم ’’صفرانیوس‘‘ با چشم نم یہ کہنے لگا: ’’مسلمانو! تمہاری سلطنت اب قیامت تک رہے گی، کیوں کہ ظلم کی ریاست کچھ وقت کے لیے ہوسکتی ہے، لیکن علم کی ریاست قیامت تک کے لیے ہوتی ہے‘‘ ۔

                عہد بنی امیہ میں شہر قدس، انتظامی طور پر بھی ملک شام کا حصہ بنا دیا گیا، لیکن حضرت معاویہ نے اس کی گورنری پر سلامہ بن قیصر کو بر قرار رکھا، سلامہ کا قیام ٹھیک اسی جگہ رہا جہاں عہد رومانی میں ’’ہیروڈس‘‘ کا محل واقع تھا۔

                عہد اسلامی میں، کبھی کسی یہودی کو عہدِ خلفائے راشدین و عہدِ بنی امیہ میں، قدس میں بود وباش اختیار کرنے کی ہمت نہ ہوسکی۔ عہدِ بنی امیہ میں عبد الملک بن مروان (۲۶ھ/ ۶۴۶ء -۸۶ھ/ ۷۰۵ء) جنہوں نے مسجد ِاقصیٰ کی تعمیرِ نو کی تھی اور ۷۲ھ/ ۶۹۱ء میں قبۂ صخرہ تعمیر کرایا تھا، انھیں (یہودیوں کو) جزیہ کی ادائیگی کے بدلے، صفائی ستھرائی اور جھاڑو وغیرہ لگانے کی خدمت انجام دینے کی اجازت دے دی تھی ، لیکن جب ۹۹ھ/ ۷۱۷ء میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ (۶۱ھ/ ۶۸۱ء -۱۰۱ھ/ ۷۲۰ء) سریر آرائے خلافت ہوئے، تو انہوں نے یہودیوں کی شہر قدس کے تعلق سے بری نیتوں کا احساس کرتے ہوئے، انھیں مسجد ِاقصیٰ میں چراغ وغیرہ کی خدمت سے، جس پر وہ مامور تھے، علاحدہ کردیے جانے کا حکم صادر فرمایا اور سارے خدامانِ حرم، مسلمان مقرر فرمائے۔

                خلیفۂ اموی سلیمان بن عبد الملک (۵۴ھ/ ۶۷۴ء -۹۹ھ/ ۷۱۷ء) کو شہر قدس سے بڑی محبت تھی حتیٰ کہ انہوں نے اپنے برادرِ خرد کو دمشق (دار الخلافہ) میں اپنا جانشین مقرر کرکے قدس کا، نقلِ مکانی کے ارادے سے سفر فرمایا۔ ان کا ارادہ دار الخلافہ دمشق سے، یہیں منتقل کرنے کا تھا؛ لیکن بہ وجوہ وہ اپنے ارادہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔

                عہدِ عباسی ۲۵۷ھ/ ۸۷۰ء میں پاپائے روم کی اجازت کے بعد، برنارڈ نے شہر بیت القدس کا دورہ کیا تھا اور اپنا یہ تاثر ریکارڈ کیا تھا کہ میں نے یہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کو مکمل مفاہمت اور پر امن بقائے باہم کے اصول پر عمل کرتے ہوے ہم سکونت پایا ہے۔ یہاں بے انتہا امن و سکون ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسافر شب کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے پاس اُس کا شناخت نامہ ہو؛ ورنہ اس کو تا تحقیق وتفتیش جیل میں رہنا پڑے گا ۔

                شاہِ مصر شاہِ اخشید ( ۳۳۴ھ/ ۹۴۶ء) کے زمانے میں فارسی (ایرانی) سَیَّاح ناصری خسرو نے شہرِ قدس کے دورے کے بعد اپنا یہ تاثر بیان کیا تھا: یہاں بیس ہزار کی آبادی ہے، یہاں بڑے بڑے اور خوب صورت بازار ہیں، فرشِ زمین پر پتھر لگے ہوئے ہیں۔ یہاں بہت سے صلحا اور زاہدین کی قبریں ہیں۔ قابلِ ذکر ہے کہ بنی اِخشید کے سارے بادشاہوں کی قدس ہی میں تدفین کی وصیت ہوا کرتی تھی؛ چناں چہ محمد الاخشید کا انتقال ۳۳۴ھ ۹۴۶ء میں دمشق میں ہوا؛ لیکن اُن کی تدفین قدس میں ہوئی۔ ۳۴۹ھ/ ۹۶۰ء میں انوجور بن الاخشید کی وفات ہوئی، تو انھیں بھی قدس ہی لاکر اپنے والد کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ متنبی کے مشہور ممدوح کافور الاخشیدی بھی اپنی وفات ۳۵۷ھ/ ۹۶۷ء کے بعد، قدس ہی میں مدفون ہوئے۔ مشہور مؤرخ وسیاح ’’اصطخری‘‘ (متوفی ۳۴۶ھ/ ۹۵۷ء) نے اخشیدیوں کے دور میں قدس کا تذکرہ کرتے ہوے لکھا ہے کہ یہاں اتنی بڑی مسجد تھی کہ اُس دور میں پورے عالم اسلام میں اس سے بڑی مسجد نہ تھی؛ لیکن وہاں کچھ چشموں کے سوا جو کھیتی کی سینچائی کے لیے نا کافی تھے آب رواں کا کوئی نظم نہ تھا۔ قدس کے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں زیتون، انجیر، انگور ، گولر اور ہر طرح کے پھل کی کاشت ہوتی ہے۔

                ۳۵۸ھ/۹۶۹ء میں مصر و شام پر فاطمیوں کا تسلط ہوگیا، چناں چہ قدس بھی معزّ الدین اللہ الفاطمی (۳۱۹ھ/۹۳۱ء -۳۶۵ھ/۹۷۵ء)کے زیر تسلط آگیا۔ معز کی، اہل کتاب اقلیتوں،بالخصوص یہودیوں سے ہمدردی کے حوالے سے بڑی شہرت تھی۔ فاطمیوں نے قدس میں بہت سی عمارتیں تعمیر کیں، مسجد اقصیٰ کی توسیع بھی کی، زلزلے کے نتیجے میں اس میں جو شگافیں پڑ گئی تھیں، ان کی اصلاح و مرمت بھی کی، قدس میں فاطمیوں کے دور کی اہم یادگاروں میں سے مشہور ’’بیمارستان‘‘ ہسپتال تھا۔ یہ یہاں کا پہلا شفا خانہ تھا، اس پر فیاضی سے مال و زر صرف کیا جاتا تھا۔ یہاں کے اطبا کو بالمقطع تنخواہیں ملا کرتی تھیں۔ فاطمیوں نے یہاں ایک ’’دارالعلم‘‘ بھی قائم کیاتھا، جو قاہرہ میں ۳۹۵ھ/۱۰۰۴ء میں تعمیر کیے گئے ’’دارالحکمت‘‘ کی شاخ تھا۔

                مشہور مؤرخ وسیاّح مقدسی(شمس الدین متوفی تقریبا ۳۸۰ھ/۹۹۰ء) نے بیت المقدس کے تذکرہ میں لکھا ہے: اس بڑے علاقہ کے شہروں میں قدس سے بڑا کوئی شہر نہیں، یہاں سردی اور گرمی زیادہ نہیں ہوتی، برف باری بھی شاید وباید ہی ہوتی ہے، اس طرح کا موسم جنت کا ہوگا۔ یہاں عمارتیں پتھروں کی ہیں، ان عمارتوں سے زیادہ خوب صورت اور مضبوط عمارت میں نے کہیں نہیں دیکھی؟ یہاں کے باشندے انتہائی پاک طینت اور یہاں کی زندگی انتہائی خوش گوار ہے، یہاں کے بازاروں سے زیادہ صاف ستھرے بازار شاید و باید کہیں ہوںگے، نہ یہاں سے بڑی مسجدیں ہوںگی،نہ یہاں سے زیادہ مقدسات کہیں ملیں گے۔

                ۴۶۵ھ/۱۰۷۲ء میں یہاں سلجوقیوں کا تسلط ہو گیا، جب سلجوقی بادشاہ الب ارسلان ( متوفی ۴۶۴ھ/۱۰۷۲ء)نے اس کو فاطمیوں سے چھین لیا۔ پھر سلجوقی بادشاہ ملک شاہ بن الب ارسلان (۴۴۷ھ/۱۰۵۵:۴۸۵ھ/۱۰۹۲ء)کے ترکمانی غلام اُرْتُقْ بن اِکْسِبْ نے ۴۷۰ھ/۱۰۷۷ء میں بزور تلوار بیت المقدس کو ہتھیاکر وہاں ارتقیوں کی ریاست قائم کرلی۔

                سلجوقیوں اور فاطمیوں کی رسَّا کشی جاری تھی کہ صلیبیوں نے قدس پر حملے کی تیاری شروع کردی؛ چناں چہ ۴۹۳ھ/۱۰۹۹ء میں انہوں نے قدس پر، فرانس کے’’ لورین‘‘ صوبہ کے گورنر ’’گوڈوری ڈی بویان‘‘کی قیادت میںحملہ اور قبضہ کرلیا۔ شہر قدس کے سار ے مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا، ان کے مکانوں اورمقدسات کو جلاکر خاکستر کردیا اور یہاں داخلے پر ان کے لیے مکمل پابند عائد کردی، تقریباً ۸۸؍سال تک شہر قدس صلیبیوں کے قبضہ میں رہا، کئی صلیبی بادشاہوں نے یہاں حکومت کی۔ اسی وقت صلیبیوں کی دو متشدد اور حقیقی معنی میں’’دہشت گرد‘‘ گروہ معرضِ وجود آئے۔ ایک گروہ ’’شہسواران ہیکل‘‘ (Team Pliers)اور دوسرا گروہ ’’شہسواران قدیس یوحنّا‘‘ (Hospitalies)کے نام سے جانا گیا۔ اول الذکر ۵۱۲ھ/۱۱۱۸ء میں جب کہ ثانی الذکر ۵۰۷ھ/۱۱۱۳ء میں ظہور پذیر ہوا۔ پہلے گروہ کا کام مسلمانوں کا صفایا اور ان کا نام و نشان مٹانا تھا، جب کہ دوسرے گروہ کا کام شروع شروع میں بادی النظر میں عیسائی بیماروں کی دیکھ ریکھ تھا؛لیکن اسلام کے پر سوز قائد صلاح الدین ایوبیؒ ( ۵۲۱ھ/۱۱۳۸ء:۵۸۹ھ/۱۱۹۳ء) کے حملوں کے بعد، یہ دونوں صلیبی جماعتیں بہ جلد خالص عسکری بن گئیں، دونوں نے مسجد اقصیٰ کی سرگرمیوں کا اور اپنے اسلحوں کے لیے ذخیرہ گاہ بنا لیا۔

                لائقِ ذکر ہے کہ قدس پر صلیبیوں کے قبضے ۴۹۳ھ/۱۰۹۹ء کے بعد سے ہی مسلمانوں نے برابر اس کی مزاحمت جاری رکھی اور کبھی چین سے نہیں بیٹھے۔ معرکۂ حطین ۵۸۳ھ/۱۱۸۷ء سے فارغ ہوتے ہی شیر اسلام صلاح الدین ایوبیؒ نے شہرِقدس کا محاصرہ کرلیا، صلیبیوں کے لیے خود سپردگی کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، چناںچہ جزیے کی ادائیگی کے عوض صلاح الدین نے خود سپردگی کو تسلیم کرلیا اور انہیں جزیے کی ادائیگی کے لیے ۴۰ دن کی مہلت دی۔

                شاہ فرانس ’’لویس ۹‘‘(Louis9)کی قیادت میں کیے گیے مسلسل صلیبی حملوں کی زبر دست اور مؤثر مزاحمت کر تے ہوئے ۶۴۶ھ ؍ ۱۲۴۸ ء میں ایوبی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور اس کی جانشیں سلطنت مملوکی ہوئی، جس نے صلیبیوں سے زبردست ٹکر لیتے ہو ئے شہر قدس کی پوری پوری حفاظت کی اور مسلسل جنگوں کی وجہ سے پیداشدہ تباہیوں کا ازالہ کیا ، مسجد اقصیٰ کی مکمل اصلاح ومر مت کی ، شہر قدس میں بہت سی عالیشان عمارتیں تعمیر کیں ۔سلطان ظاہر بیبرس ( ۶۲۵ھ / ۱۲۲۸ء- ۶۷۶ ھ /۱۲۷۷ء ) جنہوں نے صلیبی جنگ کے قائد لویس ۹‘‘ (۶۱۱ھ / ۱۲۱۴ء- ۶۶۸ھ / ۱۲۷۰ء ) کو گرفتار کر کے ہمیشہ کے لیے صلیبی جنگ کا باب بند کردیا ۔۶۶۱ھ / ۱۶۶۲ء اور ۶۶۴ ھ / ۱۲۶۵ء میں دوبارہ بیت المقدس کا بہ ذات خود دورہ کیا اور وہاں شرعی علوم کی تعلیم کے لیے ایک دار الحدیث اور مدرسہ ابا صیر یہ قائم کیا ، قبۃ الصخرۃ کی منہدم شدہ عمارت کو دو بارہ تعمیر کیا ۔اسی سلطنت مملوکی کے ہنر مند بادشاہ سلطان منصور سیف الدین قلاوون ( ۶۶۶ ھ / ۱۲۶۸ء- ۶۹۳ ھ / ۱۲۹۴ء ) نے ۶۷۹ھ / ۱۲۸۰ء ) میں بیت المقدس میں رباط قلاوون، مسجد قلندری ،قبۃ الکبکیہ اور ان کے علاوہ بہت سی یاد گا ر اورشان دار عمارتیں بنوائیں ۔

                مملوکی سلطنت کے دور میں ہی ، ہمیشہ کے لیے بیت المقدس صلیبیوں سے پاک ہو گیا ، بل کہ ملک شام سے ہی ان کا صفایا ہو گیا ،چنا ں چہ مذ کو ر ہ شاہ اشرف خلیل بن قلاوون اور فر نگیوں کے ما بین ’’عکا ‘‘ شہر میں ۶۸۲ھ / ۱۲۸۳ء میں مشہور تاریخی معاہدہ زیرِ عمل آیا ،جس کے نافذ العمل او ر مؤثر رہنے کی مدت اس وقت دس سال دس ماہ دس دن اور دس گھنٹے متعین کی گئی تھی اورجس میں صلیبیوںنے یہ وعدہ کیا تھا کہ شاہ خلیل ہی کا بہ شمول شہر بیت المقدس سارے حجاز ومصر وشام واردن و فلسطین پر اقتداررہے گا ۔ مملوکیوں کے دونوں دھڑ وں بحر یہ و شراکسہ کے پورے دور میں بیت المقدس ان کے لیے خاصا مر کز ِتوجہ رہا ۔ وہاں انھوں نے دینی ، اجتماعی اور بری و بحری پر و جکٹس بر پا کیے ۔ان میں سے بہت سے نقوش ہنوز تابندہ ہیں۔

                سلطان سلیم اول عثمانی ( ۸۷۰ھ/۱۴۶۶ء-۹۲۶ھ/ ۱۵۲۰ء) (جو نویں عثمانی سلطان تھے اور خلفائے عثمانی میں پہلے شخص تھے جنہیں ’’امیرالمومنین ‘‘کے لقب سے نوازا گیا )کے ہاتھوں ۹۲۳ھ / ۱۵۱۷ء میں سلطنت مملوکی کا خاتمہ ہو گیا ، انہوں نے مصر و شام پر قبضہ کرلیا ۔چوں کہ قدس شام کے ماتحت تھا،اس لیے یہ بھی انہیں کے زیرِ نگیں آگیا ۔انہوں نے بیت المقدس میں ہی عثمانی سلطنت کا ملکِ شام کے لیے نائب مقرر کر دیا۔ان کا ایک کارنامہ مؤرخین یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فلسطین و سَینا کی طرف یہودیوں کی آمد کو باقاعدہ فرمان کے ذریعے رو ک دیا تھا۔

                عہدِ عثمانی میں شہر قدس ایک بڑی انتظامی اکائی کی حیثیت رکھتا تھا اور ’’سنجق القدس ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔اس کے ماتحت پانچ سیکٹرتھے جو قضائِ قدس ،قضاء ِیافا ،قضاء الخیل ،قضائِ غزۃاور قضاء بئر السبع کے نام سے معروف تھے ۔نیز اس شہر کو دس انتظامی گوشوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ہر سیکٹر کا منتظم ’’قائم مقام ‘‘ کہلاتا تھا ۔شہر قدس کے جج کی عثمانی دور میں بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی ،کیوں کہ شہر کی انتظامی اکائیوں کا ارتکاز اسی کے ہاتھ میں ہوتا تھا ۔لائقِ ذکر ہے کہ سارے یا اکثر حکومتی ملازمین و اہل کار ،شہر قدس کے باسی ہوتے تھے۔یہاں ایک مجلس شوریٰ اور ایک مجلس عمومی بھی ہوتی تھی ۔عثمانی پارلیامنٹ میں ۱۹۰۸ء میںشہر قدس کے ۳ ارکان ہوتے تھے :۲ خاص شہر قدس کے اور ایک ’’یافا ‘‘ کا ہوا کرتا تھا ۔

                ۱۳۳۳ھ /۱۹۱۴ء میں عثمانی سلطنت کی جنگ عظیم میں ہزیمت کے بعد ۱۳۳۶ھ/۱۹۱۷ء میں بیت المقدس انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا ۔(إتحاف الأخصا بفضائل المسجد الأقصٰی )

                برطانوی اقتدار کی دو ر میں نہ صرف بیت المقدس بل کہ پورے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کردیے جانے کی کارروائی قدم بہ قدم جاری رہی ۔انگریزوں نے یہاں یہودیوں کی پوزیشن مضبوط کرکے مسلمانوں کو بے دست وپاکر دینے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، سوا ئے شہر کے اُس حصے کے جو شہر پناہ کے اندر تھا اور سوائے چند متصل قریوں کے ، کہ یہ فلسطین پر برطانوی اقتدار کے بعد بھی تقریباً ۱۹؍برس تک اردن کے تصرف میں رہے۔ ۱۳۶۸ھ/۱۹۴۸ء میں عربی یہودی جنگ کے نتیجے میں، یہودیوں نے بیت المقدس کے ۲،۶۶ فیصد رقبے پر قبضہ کرلیا؛ لیکن پرانا شہر، اب بھی مسلمانوں کے قبضے میں رہا؛ لیکن فلسطین کے دگر باقی ماندہ حصوں کی طرح یہ باقی ماندہ اہم علاقے بھی ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء میں یہودیوں کے قبضے میں چلے گئے۔