مسلمان حاکموں نے یہاں کے تمام مدارس یا درسگاہوں میں دینی تعلیم اور سائنس کی تعلیم کو یکجا طور پر پڑھانے کا نظام وضع کیا تھا۔ مجدد الفِ ثانی اور تاج محل کے چیف انجینئر کی مثال ثبوت کے لیے کافی ہے۔
یہ تعلیمی ڈھانچہ ہی تھا کہ جب ہم جماعت مستقبل میں عملی ذمے داریاں سنبھالتے ہیں تو ایک مجددِ وقت ٹھہرا اور دوسرے نے سول انجینئرنگ کے شعبے میں ایسا شاہکار و عجوبہ تخلیق کر ڈالا، جس کی داد دیے بغیر کوئی نہیں رہتا۔ تاج محل کی تعمیر میں سول انجینئرنگ سے لے کر فزکس، جیومیٹری اور ریاضی کے اُصولوں کا ،جس طرح استعمال ہوا ہے، آج بھی لوگ انگشت بدندان ہیں۔
یہ فنِ تعمیر کا شاہکار یہاں کے تعلیمی نظام کے جامع ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔
متحدہ بر صغیر میں ابتدا سے اعلیٰ درجہ تک تعلیم مفت دی جاتی تھی:
متحدہ برصغیر پرایسٹ انڈیا کمپنی کے سامراجی تسلط(1757ء) سے پہلے مسلم دور حکومت میں باقاعدہ ایک تعلیمی نظام موجود تھا؛ جہاں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک اس کا انتظام بغیر فیس اور معاوضے کے کیا جاتا تھا۔ اہلِ ثروت، امرا، نوجوانوں اور بادشاہوں کی طرف سے جائدادیں بغیر کسی ذاتی مفاد کے تعلیم کے لیے وقف کی جاتی تھیں۔ صوبے بنگال میں صوبہ کا چوتھائی حصہ صرف تعلیم کے لیے وقف تھا،جس کے ٹھوس شواہد تاریخ میں موجود ہیں۔
اور مسٹر جیمس کرانٹ کے تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگال میں تمام مدارس کو سرکاری خزانو ں سے امداد ہوتی تھی“۔اس زمانے میں کیفیت یہ تھی کہ والیانِ ملک اور امرا تعلیم کی پوری سر پرستی کرتے تھے، اس کے لیے جاگیریں دیتے اور جائیدادیں وقف کرتے تھے۔ دہلی کی مرکزی حکومت ٹوٹ جانے پر بھی صرف روہیل کھنڈ کے اضلاع کی مثال کافی ہے ؛ جیسا کہ پیچھے بھی ذکر ہوا کہ ”پانچ ہزار علما مختلف مدارس میں درس دیتے تھے اور حافظ رحمت خاں (مرحوم) کی ریاست سے تنخواہیں پاتے تھے“۔
مسلم دور میں تعلیمی نظام انسان دوست سماج تشکیل دیتا تھا:
اس تعلیمی نظام نے انسان دوست سماج پیدا کرنے میں مدد دی۔ جس میں اُس وقت کے مدارس، اساتذہ اور حکومت برابر کی حصے دار ہیں۔ جس کے باعث لاکھوں میل پر پھیلے اس خطے کو سیاسی طور پر مضبوطی سے جوڑنے میں مدد ملی۔ جنگِ آزادی میں شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت مکمل طور پر ٹوٹ گئی اور انگریز نے پورے ہندستان میں اپنی حکومت کا جھنڈا لہرا دیا۔ اپنی سیاسی حکومت کی تقویت اور نظام ِمملکت کو اپنے تابع بنانے کے لیے تعلیمی ڈھانچے کو از سرنو ترتیب دینے کا آغاز کیا۔
انگریزوں نے تعلیم کے ذریعے نفرت اوردین ودنیا کی تفریق کے بیج بوئے:
انگریزی سرکار کو خطرہ لاحق ہوا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت اگر برِصغیر میں رہی تو وہ ہماری حکومت کو گرانے میں دیر نہیں کریں گے۔ جس کے نتیجے میں انگریز نے ایک نئی حکمتِ عملی کے تحت تمام تعلیم گاہوں کو گرا کر نام و نشان مٹا دیا۔ اور تمام تعلیمی جگہوں کو 1838ء میں سرکاری قبضے میں لے لیا؛ کیوں کہ کمپنی سرکار کا بڑا مقصد برصغیر کے قدرتی وسائل کو لوٹنا اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا تھا۔
لارڈ میکالے کو جب اس ڈھانچے کو بدلنے کی ذمے داری سونپی گئی تو میکالے نے جو تعلیمی سفارشات مرتب کیں اس میں لکھا کہ اگر ہم اس قوم پر حکومت کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کے تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا، یہاں کی ثقافتی روایات بھی تبدیل کرنا ہوں گی۔
اس نے کہا کہ مشرقی علوم پر مزید خرچ کرنا کارِ لاحاصل ہے!اور اسے برِصغیر کے عوام میں انگریز کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کا عنصر قرار دیا؛ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ جب تک برِصغیر کے عوام اپنے ماضی اور مذہب سے وابستہ رہیں گے، انگریز اقتدار خطرے میں رہے گا۔
انگریز حاکموں نے یہ منظم سوچ بل کہ سازش کے تحت کیا؛ جس کا لامحالہ مقصد اپنی حکومت کو مضبوط کرنا تھا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کی کچھ رسومات و معلومات تو اگلی نسل کو منتقل ہو گئیں ؛لیکن مدارس سے فارغ التحصیل طلبا عملی سماجی زندگی سے کٹ گئے۔
اور جو مذہبی ادارے انگریزی سرپرستی میں چل رہے تھے، وہ انہیں کے مفادات کی تکمیل کرنے میں معاون تھے۔ مذہب کی تعلیم کے ساتھ انگریز کا معاملہ یہ تھا؛ تاہم انگریزی تعلیم یعنی کالجوں کے سسٹم کے ذریعے نوجوانوں کی کھیپ تیار کی جانے لگی۔
انگریز کی سازش کا اثر:
سیداسداللہ طارق نے اپنے مضمون” دینی علم، ایک فطری ضرورت“ میں بخوبی انیسویں صدی کے حالات کا جائزہ لیاہے ۔ جن کے مضر اثرات ہمیں بیسو یں صدی میں ورثے میں ملے ہیں۔ طارق صاحب فرماتے ہیں:
”دینی تعلیم مسلمانوں کی سب سے اول اورفطری ضرورت ہے، جسے آج آخری درجہ دینا بھی بوجھ محسوس کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ کا فرِ فر نگ کی سحر کاری اور مسلمانوں کی صد سالہ غلامانہ ذہنیت کا کرشمہ ہے۔انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں، حب غلام ہند کے تخت ِاقتدار پر فرنگی سامراج کا دیواِستبدا دعریاں رقص کرنے لگا، تو سب سے پہلاتحفہ جو فرمانبردار رعایا کوعطا ہوا، وہ نئی روشنی کا تحفہ تھا۔ خطرہ تھا کہ مسلمانوں کا دینی مزاج اس تحفہ کو قبول کرنے میں دِقت محسوس کرے گا، اس لیے ہند ستان کی غلامی کو دائمی بنانے کے لیے ؛یہاں کی مروجہ اسلامی تعلیمات کو پا مال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ مشہور واقعہ ہے کہ ہر لائبریری،ہر مکتب ،ہر مدرسہ حتیٰ کہ گھروں تک کی تلاشی لے کر قرآن ِکریم کے تمام نسخے اکھٹے کیے جانے لگے؛ تا کہ سرے سے قرآن کریم ہی ہندستان سے مفقو دکر دیا جائے ،نہ قرآن ہو گا، نہ مسلمان اسے پڑھ سکیں گے؛ لیکن علما ئے وقت نے دس دس بارہ بارہ سال کے بچوں کو پیش کر کے پورے کا پورا قرآن سنوانا شروع کر دیا۔“
(سرسید اور حالی کا نظریہٴ فطرت: ص۶۵)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے دور کا نظام ِتعلیم بہت منظم اور مفید تھا،جس میں مذہب اور جدید علوم ساتھ ساتھ پڑھائے جاتے تھے،جس کا فائدہ یہ تھا کہ ملک ترقی بھی کررہا تھا اور ہندستانی باشندوں میں مذہبی بنیادوں پر لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا تھا، تو آپسی محبت اور ترقی دونوں خوبیوں کا راز مسلمان حکمرانوں کا شاندار نظامِ تعلیم تھا۔
ملک کی شرحِ خواندگی ۹۰/ فیصد تھی، پھر انگریزوں نے ”آپس میں لڑاوٴ اور حکومت کرو“ کے ناپاک اصول کو اختیار کیا اور فرقہ پرستی کا بیج بویا ؛جیسا کہ موٴرخ ِاسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی نور اللہ مرقدہ نے لکھا ہے” کہ انگریزوں کے آمد سے قبل کسی ہندو مسلم فساد کا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا۔ مسلمان آزادانہ طورپر لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے دیتے تھے، اور مل جل کر محبت کی فضا میں زندگی بسر کرتے تھے، گویا انگریزوں نے ہی دین و دنیا کی تعلیم کو الگ الگ کیا… انگریزوں نے ہی فساد کے بیج بوئے… انگریزوں ہی نے معاشرے میں نفرت پیدا کی۔ لوگوں کو مذہب سے دور کیا اور مادہ پرستی کی جانب ڈھکیل کر معاشی اعتبار سے کمزور کردیا۔ ہندستان معیشت کے اعتبار سے اتنا مستحکم تھا کہ سقوطِ اندلس کے بعد ؛جب یورپ میں صنعتی انقلاب آیا اور ان کو اپنا مال فروخت کرنے کے لیے منڈیوں کی ضرورت پڑی تو اس دور کا سب سے متمول ملک ہندستان تھا۔اس تک پہنچنے کے لیے اقوام مغرب بے تاب ہوئی اور سمندری راستے سے ہندستان کی جانب پہلا قافلہ اسپین اور پرتغال سے ہندستان کے لیے نکلا، مگر راستہ بھٹک گیا اور امریکہ پہنچ گیا۔ ڈاکٹر حقی حق صاحب نے ”ہوئے تم دوست جس کے “ کتاب میں اس کی تفصیل لکھی ہے ، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور وہ امریکہ کی سرزمین کو ہندستان سمجھ کر وہاں اترے تھے، اسی سے دور مسلم میں اس ملک کے مالدار ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مسلمان علما نے انگریزی کی مخالفت نہیں کی ؛بل کہ مغربی فلسفے کی مخالفت کی :
مسلمانوں کے ابھرنے کا طریقہ بھی یہی تھا کہ دہ ا نگریزوں کے ان نئے فنون کو سیکھیں، حاجی امداداللہ صاحب اور مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب اور دوسرے علما کی بھی یہی رائے تھی۔ یہ کہنابالکل غلط ہے کہ علما انگریزی پڑھنے کے مخالف تھے، مگرانگریز ہرنئے فنون کے ساتھ کچھ نئے علوم بھی لائے تھے۔
(سرسید اور حالی کا نظریہٴ فطرت:ص۱۱۴)
خلاصہ یہ ہے کہ تعلیمی نظام اگر اچھا ہو، تو ملک کے تمام شعبوں اور خطوں میں ترقی اور ڈیولپمنٹ ہوتا ہے، ورنہ نہیں۔ اب تک ہندستان انگریزی نظامِ تعلیم کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا اوراب بھی جو نیا نظامِ تعلیم آیا وہ بھی ان ہی کے اشاروں پر مرتب ہے۔ اور ملک کو اس نئی تعلیمی پالیسی سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکتا؛ بل کہ نقصان ہی ہوگا۔ بس اللہ ہی محافظ ہو ہمار ا بھی اور ملک کا بھی۔
دینی تعلیم کے الگ نظام کا اثر:
۱۸۵۷ء کی ناکامی کے بعد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی اپنے چند نیک اور صالح رفقا کے ساتھ، علما ہی کے کہنے پر حجازِ مقدس مکہ مکرمہ کی جانب ہجرت کر گئے اور وہاں جاکر ہندستان کے مسلمانوں کے لیے ،ان کے ایمان واسلام کی بقا اور حفاظت کے اسباب کے لیے مقامات ِمقدسہ پر آہ و زاری کے ساتھ دعائیں کرنے لگے، تب اللہ تعالیٰ نے یہاں کے علما کی دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ مسلمانوں کی دینی تعلیم میں سرکاری سرپرستی ختم ہونے کے بعد، اب اپنے طور پر عوام الناس سے تعاون حاصل کرکے اپنے دینی تعلیمی نظام کو مرتب کریں۔ اسی غرض سے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور ان حجاز مقدس میں دعا کرنے والے بزرگوں کو اس کی اطلاع دی گئی تو؛ جیسا کہ اوپر گزرا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ نے کہا ۔
”سبحان اللہ ! آپ کہتے ہو ہم نے مدرسہ قائم کیا ہے! یہ خبر نہیں کہ کتنی پیشانیاں اوقات ِسحر میں سر بسجود ہوکر گڑگڑا کر یہ دعا کرتی رہیں کہ خداوند! ہندستان میں بقائے اسلام اور تحفظ ِعلم کا کوئی ذریعہ پیدا کر۔ یہ مدرسہ انہی سحرگاہی دعاوٴں کا ثمرہ ہے“۔
۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں نے تبلیغِ دین کا کام پورے جوش و خروش کے ساتھ جاری رکھا:
یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ہندستان میں اسلامی تبلیغ کی بنیاد جو خواجہ معین الدین چشتی نے گیارھو یں صدی عیسوی میں رکھی ،اسے مسلمانوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد بھی پورے جوش و خروش سے جاری رکھا۔ شوستری نے اس سلسلے میں یوں تحریر کیا ہے کہ”اگرچہ مسلمان اپنی سابقہ سیاسی طاقت اور معاشرے میں درجہ کھو چکے ہیں، وہ اپنے مذہب کو فروغ دینے سے دستبردارنہیں ہوئے ؛بل کہ یوں کہیے کہ عیسائی مشنریوں اور ہندوآر یا سماج کی سرگرمیوں کے پیشِ نظر انہوں نے اپنی کوششوں کو دگنا کر دیا ہے۔ پنجاب، یو پی اور جنوبی ہند میں اسلام کے دفا ع کے لیے اورغیرمسلم اعتراضات کاخاطرخواہ جواب دینے کے لیے متعدد تعلیمی ادارے قائم ہوگئے ہیں، جوا سلامی مسائل کو حالات ِحاضرہ کی روشنی میں سائنسی دلیلوں سے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔“
(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت: ص۶۲)
اب تک ہم نے تعلیمی پالیسی پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی۔ دورِ اسلامی میں ،انگریزوں کے دور میں، آزادی کے بعد تعلیمی نظام کیا تھا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور مسلمانوں نے کس طرح اسلام کے بقا کے خاطر موٴثر تدابیر اختیار کیں۔ تو آییے! اب ا س نئی تعلیمی پالیسی کے بعد ہماری کیا ذمے داری عائد ہوتی ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔