دستور اور قانونی راستہ مسلمانوں کو اختیار کرنا ہوگا:

            ۱- مسلمان ماہرین تعلیم جو حکومت کی پالیسی کے موافق اور چاپلوس نہیں ، بل کہ دین دار اور امت کا درد رکھتے ہوں، انھیں تعلیم کے ماہر وکیلوں اور علما اور ملی وتعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر، جو چیزیں دستور کے خلاف ہوں، اس کو تیار کرکے سپرم کورٹ ، اسی طرح محکمہٴ تعلیم اور اقلیتی محکمہ سے رابطہ کرکے اپنے موقف کو واضح کرنا ہوگا۔ ہم یہاں کرایہ دار نہیں ، بل کہ اس ملک کے اصل باشندے ہیں او رآزادی اور ملک کی ترقی میں ہمارا سب سے بڑا رول ہے۔

            ۲- آئندہ نصاب کے لیے تیار ہونے والی کمیٹیوں میں، ہمارے فکر مند افراد شامل ہوں ، اس کی فکر کرنی ہوگی؛ تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے مواد سے، نصابی کتابوں کو بچایا جاسکے۔

            ۳- مائینارٹی محکمہ سے مل کر اپنے خدشات ظاہر کرنے ہوں گے، تاکہ وہ بھی رول ادا کریں۔

            ۴- اردو زبان کو ہندستانی اہم زبان میں شامل کرنے کے لیے حکومت پر دباوٴ بنانا ہوگا۔

            ۵- ابھی سے اساتذہ کو تیار کرنا ہوگا؛ تاکہ نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے وقت، مہارتوں میں کمی کی وجہ سے مسلمان، اساتذہ تدریس سے دور نہ کیے جاسکیں۔

            ۶- جو مسلم کالج اور تعلیمی ادارے ۱۵/ سال سے زیادہ عرصے سے کام کررہے ہیں، وہ ”اوٹونمس سسٹم“ کے بارے میں جانکاری حاصل کرکے، اپنے ادارے کے لیے اوٹونمس سسٹم کی منظوری لینے کی تیاری کریں۔

 ۷- ابھی سے مدارس ِاسلامیہ بھی، اپنے نصاب میں اسکول کے ضروری مواد کو شامل کرنے کی تیاری کریں۔

            الحمدللہ! جامعہ نے تیاری کر رکھی ہے اور اپنا بورڈ تیار کرے گا؛تاکہ آئندہ ان کی سرزنش کی زد میں آکر نقصان نہ اٹھانا پڑے۔

            ۸- اپنے مسلکی اختلافات کو کنارے رکھ کر، قانونی اعتبار سے حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اپنے حق کو حاصل کرنے کی تیاری کریں۔ ابھی بھی وقت ہے ، ورنہ ہماری نسلیں ہمیں نہیں بخشیں گی اور ارتداد کے دلدل میں پھنس کر ایمان جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوجائے گی۔

            ۹-مسلمانوں کو اب زیادہ توجہ اپنی پرائیویٹ اسکولوں کے بنانے پر دینا ہوگا، مسلمان چیریٹیبل ٹرسٹوں کو جگہ جگہ اسکولوں اور مکاتب کے لیے ایک ہی عمارتیں بنا کر دونوں میں انہیں استعمال کرنا ہوگا۔

            ۱۰-اپنے قدیم اداروں کو اوٹونمس میں کنورٹ کرکے اسی سے اپنی اسکولوں کو منسلک کرنا ہوگا۔

            ۱۱-لڑکیوں کے علیحدہ اسکول بنانے ہوں گے( گرلس اسکول اور کالجز) تاکہ ان کا ایمان بچایا جاسکے۔

            ۱۲-غریب بچوں کے لیے اسکالرشپ کا انتظام بڑے پیمانے پر کرنا ہوگا ،اس لیے کہ تعلیم میں نجی کرم آئے گا اور تعلیم مہنگی ہوگی۔

            ۱۴-اچھے مسلمان ٹیچر تیار کرنے ہوں گے، جو ماہر بھی ہوں دیندار بھی ہو۔

            ۱۵-مسلمانوں نے ہندوستان کو کیا دیا، تعمیری تعلیمی فکری اور دیگر میدانوں میں؟ اس سے ا سٹوڈنٹس کو باخبر کرانا ہوگا ،اس پر ڈکیومینٹری اور کتابیں تیار کرنی ہوں گی۔

            ۱۶- دینی مدارس کو اپنے طلبہ کو دونوں علوم سے آراستہ کرنا ہوگا، تاکہ امت کی صحیح قیادت کے لیے تیار ہوسکے اور سرکاری محکموں میں داخل ہوکر دیانتداری کاثبوت دے کر رشوت خوری کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔

            امید کی جاتی ہے کہ ان امور پر سنجیدگی کے ساتھ، فوری طور پر غور وخوض کرکے، اجتماعی پلیٹ فارم پر آجائیں گے اور تیاری کرنا شروع کردیں گے۔ ان شاء اللہ!

            ویسے ہم نے اس کی تیاری شروع کردی ہے، آپ ہمارے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔

            یہ تھیں چند تجاویز۔ مضمون نے کافی طوالت حاصل کرلی، مگر کیا کیا جائے؟ باریکی کے ساتھ ان چیزوں پر نظر کرنا بھی ضروری ہے ، ورنہ ہماری موجودہ وآئندہ نسل ہمیں ملامت کرے گی اور کل قیامت کے دن ہمارے دامن اللہ کے روبرو پکڑے گی ۔

             اللہ رب العزت ہمارے ایمان اوراسلام کی حقانیت کا سامان مہیا فرمائے ، ہمارے نسلوں کو قیامت تک دین پر برقرار رکھے ؛ بل کہ ثابت قدمی نصیب فرمائے اورقدم قدم پر ہماری دستگیری فرمائے اور ہم سے راضی ہوجائے ۔ آمین یارب العالمین!