دستورِ ہند اور زبانیں:

            دستورِ اساسی کے حصہ / باب XVII میں دفعہ ۳۴۳ سے ۳۵۱ تک سرکاری زبان کا ذکر ہے۔

             دفعہ (۱) ۳۴۳ کے تحت ہندی دیوناگری رسم الخط کے ساتھ، ملک کی سرکاری زبان ہوگی۔

             دفعہ (۲) ۳۴۳ کے مطابق انگریزی دستورِ اساسی کے نافذ ہونے کے پندرہ سال تک یونین میں یعنی (مرکزی حکومت کی سطح پر) استعمال ہوتی رہے گی۔ بعد ازیں۱۹۶۳ میں Official Language Act بنایا گیا ،جس کے تحت ہندی اور انگریزی دونوں کو ملک کی سرکاری زبانوں کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ قابلِ غور ہے کہ دستورِ اساسی نے کسی بھی زبان کو قومی زبان (National Language) کا درجہ نہیں دیا ہے، ساتھ ہی ساتھ ریاستوں کو آزادی دی گئی ہے کہ وہ ریاستی سطح پر سرکاری زبان کا تعیُّن خود کریں۔

            دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول (Eighth Schedule) میں۲۲ زبانیں شامل ہیں۔ یہ بائیس زبانیں مندرجہ ذیل ہیں:

            ۱- ہندی ۲- بنگالی ۳- مراٹھی۴- تلگو ۵- تمل ۶- گجراتی ۷- اردو ۸- کنڑ ۹- اڑیا ۱۰- ملیالم ۱۱- پنجابی ۱۲- آسامی ۱۳- میتھلی ۱۴- سنتالی ۱۵- کشمیری ۱۶- نیپالی ۱۷- سندھی ۱۸- ڈوگری ۱۹- کونکنی۰ ۲- منی پوری ۲۱- بوڈو ۲۲- سنسکرت۔

مردم شماری۲۰۱۱ء اور ہندستان میں زبانوں کا منظر نامہ:

            ہندوستان میں ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کی روشنی میں زبانوں سے متعلق مندرجہ ذیل اعداد وشمار قابلِ غور ہیں۔

            ہندی ملک کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، جس کے بولنے والوں کی کل تعداد۱۹۳،۴۷،۸۳،۵۲ ہے، جو ملک کی آبادی کا ۶۳،۳۶ فیصد ہے۔

             ۱۹۷۱ ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی کی ۹۹،۳۶ فیصد لوگوں کی مادری زبان ہندی تھی، جس میں ۲۰۱۱ء تک تقریباً ۷/ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دستور ِہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل ۲۲/زبانوں میں کسی بھی زبان میں بولنے والوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ نہیں ہوا ہے؛ بل کہ گجراتی، کشمیری اور منی پوری کے علاوہ آٹھویں شیڈول کی تمام زبانوں کے بولنے والوں کی شرح میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔

             شہریوں کی مادری زبان کی حیثیت سے، ہندی کے بعد بنگالی ملک کی دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، جو ملک کی 8.03فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے۔

            مراٹھی 6.86%، تیلگو 6.70%، تامل 5.70%، گجراتی 4.58%شہریوں کی مادری زبان ہونے کے ساتھ بتدریج تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے مقام پر ہیں۔

مردم شماری ۲۰۱۱ء اور ملک میں اردو کا منظر نامہ:

            ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق، ملک میں اردو کو بحیثیت مادری زبان کے اندراج کرانے والوں کی کل تعداد۶۳۱،۷۲،۰۷،۵ ہے، جو ملک کی کل آبادی کا 4.19فیصدہے۔ اس طرح مردم شماری میں شہریوں کی مادری زبان کی حیثیت سے اندراج ہونے والی زبانوں میں اردو کا مقام ساتواں ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ۲۰۰۱ء کی مردم شماری میں، اردو کو مادری زبان کی حیثیت سے درج کرانے والوں کی کل تعداد ۱۱۱،۳۶،۱۵،۵ تھی، جو شرح کے اعتبار سے ملک کی کل آبادی کا 5.01/فیصد تھا۔ آٹھویں شیڈول میں شامل کسی بھی زبان میں اس قدر غیر معمولی گراوٹ نہیں دیکھی گئی ہے۔ شیڈول میں شامل زبانوں میں صرف اردو اور کونکنی ایسی زبانیں، ہیں ،جن کے بولنے والوں کی شرح، آبادی بڑھنے کے ساتھ بڑھی نہیں ہے ؛بل کہ کم ہوئی ہے۔

            شمس الرحمن علوی نے اپنے مضمون (”Census Data on language reveals a surprise about urdu”, The wire 6 July 2018) میں ایک چونکانے والے نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی کل آبادی 3.85کروڑ ہے ؛لیکن یہاں صرف 1.08کروڑ لوگوں نے اردو کو، اپنی مادری زبان کی حیثیت سے اندراج کرایا ہے؛ اگر مان لیا جائے کہ صرف مسلمان ہی اردو کو مادری زبان کی حیثیت سے درج کراتے ہیں، تو بھی اتر پردیش کے صرف ۲۸/فیصد مسلمانوں نے اردو کو اپنی مادری زبان بتایا ہے۔

            اس سلسلے میں راقم کا ماننا یہ ہے کہ مردم شماری کے وقت، لوگوں میں اردو کو مادری زبان کی حیثیت سے درج کرانے کے سلسلے میں بیداری نہ ہونے، اردو اور ہندی میں فرق نہ کرنے اور ساتھ ہی ساتھ مردم شماری کے وقت گھر گھر جا کر اطلاعات جمع کرنے والے کارندوں،کارکنوں کی لسانی عصبیت اور اردو دشمنی کی وجہ سے اترپردیش میں اردو کو صرف ۲۸/فیصد لوگوں کی مادری زبان کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے۔ اگر اردو سے متعلق بیداری مہم نہیں چلائی گئی تو ۲۰۲۱ کی مردم شماری میں یہ تعداد اور کم ہو سکتی ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ دیہاتوں میں اور بعض اوقات شہری علاقوں میں بھی، جو لوگ اردو یا ہندستانی کو مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں، مردم شماری کے وقت وہ یہ سمجھ کر کہ اگر انگریزی نہیں بولتے تو ہندی ہی بولتے ہیں؛لہٰذا وہ مادری زبان میں اردو کی جگہ ہندی درج کرادیتے ہیں۔ اردو اور ہندی میں مماثلت اور لکھنے میں دیوناگری رسم الخط کا استعمال کرنے کی وجہ سے بھی، اردو کی جگہ ہندی درج کرادیا جاتا ہے۔اس تجزیے کا مقصد اردو اور ہندی میں پائی جانے والی مماثلت اور ان دونوں زبانوں کے درمیان گہرے رشتے کو اجاگر کرنا ہے اور اس بات پر زور دینا ہے کہ ان دونوں زبانوں کا فرق اور امتیاز واضح کرنا رسم الخط کے بغیر بہت مشکل ہے؛اسی لیے ان دونوں زبانوں کی خوبصورتی اور امتیاز کو قائم رکھنے کے لیے، ان دونوں زبانوں کے اپنے اپنے رسم الخط کو بھی قائم رکھنا ضروری ہے۔

اردو ہندستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے:

            آج اردو ملک میں قائم مدارسِ اسلامیہ اور کچھ صوبوں میں موجود اردو میڈیم اسکولوں کی وجہ سے ہندستان کی ۱۰/ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں شمار ہوتی ہے؛ لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف ٪۴ طالب علم مدارس میں پڑھتے ہیں۔ ایسی حالت میں اردو کے مستقبل سے متعلق عصری تعلیمی اداروں اور اردو کی روٹی کھانے والے دانشوروں کو فکر مند ہونا ہوگا اور اسے قائم رکھنے کی سعی کرنا ہوگا۔ اردو کی مقبولیت کا پیمانہ جو لوگ بالی ووڈ میں اس کے استعمال، مشاعروں اور ریختہ کی کامیابی کو بتاتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ زبانیں وجود میں آتی ہیں اورمختلف اسباب کی بنیاد پر یا تو کسی دوسری غالب زبان میں ضم ہو جاتی ہیں، یا پھر حاشیے پر چلی جاتی ہیں۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ پالی اور پراکرت اس ملک کی مقبول ترین زبانیں تھیں ،جو آج اپنا وجود تقریباً کھو چکی ہیں۔