ازافادات:حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی
( مسلم یونیورسٹی کا وہ خطاب جو ’الانتباہات المفیدة‘ کی تصنیف کا محرک بنا)
حکیم فخرالاسلام مظاہری
۱۱۰سال سے زائد عرصہ گزر گیا اورضرورت دیکھیے، تو آج ہی کی سی معلوم ہوتی ہے۔ ذی قعدہ ۱۳۲۷ھ /نومبر ۱۹۰۹ء کا زمانہ ہے جب حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خطاب فرمایا۔ یہ خطاب سورہٴ لقمان کی اِس آیت سے متعلق تھا: وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۔آیت کا ترجمہ یہ ہے:
”اور ( دین کے باب میں )صرف اُس(ہی )شخص کی راہ پرچلنا جو میری طرف رجوع ہو (یعنی میرے احکام کا معتقد اور عامل ہو)“(لقمان:۱۵ ،بیان القرآن جلد ۹،ص۲۰۔تاج پبلشر ۱۹۹۴)
خطیب تھانوی نے تقریرکے ذیل میں دینی شبہات پنپنے کے تین اسباب بیان کیے :
۱-شبہات کو مرض نہ سمجھنا۔
۲-اپنی رائے پر اِعتماد کر لینا۔
۳-اتباع کی عادت نہ ہونا۔
۱-شبہات کو مرض نہ سمجھنا:
اسبابِ مرض کے ذیل میں پہلا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا:
”(دینی) شبہات -باوجودے کہ روحانی امراض ہیں؛ مگر اُن کو مرض نہیں سمجھا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے ساتھ وہ برتاوٴ نہیں کیاگیا جو امراض جسمانیہ کے ساتھ کیاجاتاہے۔…کیا وجہ ہے کہ اِس کا انتظار ہوتاہے کہ علماء خود ہماری طرف متوجہ ہوں؟آپ خود اُن سے کیوں نہیں رجوع کرتے؟ اور اگر رجوع کرنے کے وقت ایک عالم سے(خواہ اِس وجہ سے کہ اُن کا جواب کافی نہیں ، خواہ اِس وجہ سے کہ وہ جواب آپ کے مذاق کے موافق نہیں)آپ کو شفا نہیں ہوتی، تو: کیا وجہ ہے کہ دوسرے علماء سے رجوع نہیں کرتے ؟یہ کیسے سمجھ لیاجاتاہے کہ اِس کا جواب کسی سے بن نہ پڑے گا؟ تحقیق کرکے تودیکھنا چاہیے۔“
۲-اپنی رائے پر اِعتماد :
”دوسری کوتاہی یہ ہے کہ اپنی فہم اور رائے پر پورا اعتماد کرلیا جاتاہے کہ ہمارے خیال میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کسی (عالم ذی بصیرت) سے رجوع نہ کرنے کی۔ سو ،یہ خود ایک بڑی غلطی ہے۔ اگر اپنے خیالات کی علماء سے تحقیق کی جاوے ، تو اپنی غلطیوں پر اُس وقت اطلاع ہونے لگے۔“
۳-اتباع کی عادت نہ ہونا:
”تیسری کوتاہی یہ ہے کہ اِتباع کی عادت کم ہے۔ اور اِسی سبب سے کسی امر میں ماہرین کی تقلید نہیں کرتے ۔ہر امر میں دلائل واسرار ولِمِّیات (وجہ اور راز) ڈھونڈے جاتے ہیں ۔حالاں کہ غیر کامل کو “بغیر”تقلید ِکامل کے چارہ نہیں ۔“
ایک شبہہ کا اِزالہ :
”اِس سے یہ نہ سمجھا جاوے کہ علمائے شرائع کے پاس دلائل وعِلل ( وجہیں اور علتیں) نہیں ہیں ۔سب کچھ ہیں؛ مگر بہت سے اُمور آپ “کی سمجھ سے بعید ہیں۔
شرعی امور میں طالبِ بصیرت کے لیے کچھ علوم بہ طورآلات و مبادی کے ہیں ”کہ اُن کی تحصیل ضروری ہے۔ اور جو شخص اُن کی تحصیل کے لیے فارغ نہ ہو، اُس کو (کامل کی) تقلید سے چارہ نہیں۔“
دینی شبہات دور کرنے کا دستورالعمل:
”پس آپ حضرات اپنادستوار العمل اِس طرح قراردیں کہ جو شبہہ واقع ہو،اُس کو علماء سے حل ہونے تک(اُن کے رو بہ رو ) برابر پیش کرتے رہیں اور اپنی رائے پر اعتماد نہ فرماویں۔ اورجو امر محققانہ طور پر سمجھ میں نہ آوے اُس میں اپنے اندر کمی سمجھ کر علمائے ماہرین پروثوق(وبھروسہ ) اور اُن کا اتباع کریں۔ انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد پوری اصلاح ہو جاوے گی، فقط۔“
یہ وہ تقریرتھی جومحمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او)کالج علی گڑھ کے چوتھے آنریری سکریٹری نواب وقارالملک(۱۸۴۱تا۱۹۱۲ء) کی درخواست پر ہوئی تھی :
”نواب وقا ر الملک نے علی گڈھ کالج میں وعظ کہنے کی درخواست کی۔ “ (جلد ۲۶/ ص۱۸۵)
یہ تقریر یو نیورسٹی طلبہ، اساتذہ اور پروفیسرز کے سا منے ہو ئی جو بہت موثر ، دل پذیر و دل نشیں تھی۔ تقریر کی کیفیت حضرت خطیب کی زبانی سنیے:
”طلبہ وعظ سن کر بہت خوش ہوئے ۔بات یہ ہے کہ اگر خیر خواہی مد نظر ہو اور تعصب نہ ہو، تو اُس کا اثر بھی ہوتا ہے۔بعض طلبہ کہتے تھے کہ ایسے واعظ نہیں ملے۔ یا تو کافر بنانے والے یا اُن کی ہاں میں ہاں ملانے والے ملے، دونوں سے نفع نہیں ہوتا۔“
قرآن وحدیث کی وہ نصوص جن میں بہ ظاہر بعض سائنسی اِکتشافات کے ساتھ تعارض معلوم ہوتا تھا،اپنے بیان میں اُن کا ذکر کرتے ہوئے :
”میں نے کہا کہ ممکن ہے برق(بجلی) کی دوقسمیں ہوں۔ ایک سماوی اور ایک ارضی،تو جس کی حقیقت حضور ﷺ نے بیان کی، وہ برق سماوی ہے اور جس برق کا آپ کو مشاہدہ ہوا ہے وہ ارضی ہے۔ سو،اگر دونوں کی حقیقت مختلف ہو، تو اِس میں تعارض کیا ہوا!
چونکہ ایسا قریب الفہم جواب اُنہوں نے کبھی سنانہ تھا، اُن لوگوں پر بے حد اثر تھا۔ تمام وعظ سن لینے کے بعد کہا کہ ہم کو ایسے وعظ کی ضرورت ہے اور اِسی طریق سے ہماری اصلاح کی ضرورت ہے…طلبہ کی خواہش تھی کہ یہ کالج میں آتا رہے، تاکہ ہماری اصلاح ہو(اور برائے وعظ ،وقفہ وقفہ سے علی گڑھ جانے کا قول و قرار بھی ۲۰ گیا تھا،جس کا ذکرگے آ رہیا ہے )؛ مگر کالج کے حامی ڈرگئے کہ اگر ایک دو دفعہ اور آگیا تو تمام کالج ہی کی کایا پلٹ ہوجائے گی! پھر نہیں جانا ہوا۔“
(ملفوظات حکیم الامت جلد ۵-الافاضات جلد ۵ ص۱۹)
کالج کے حامی کیوں ڈرگئے،اِس کی حکایت بھی لکھی ہے :
”اُس وقت ایک اخبار تھا ”البشیر“، اُس نے لکھا کہ سرسید نے ایک کعبہ تیار کیا تھا۔ اب علماء کو بلابلاکر اُس کو کنیسہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ اِن لوگوں کے خیالات ہیں جس پر مسلمان ہونے کا دعوی ہے اور قوم کے ریفارمر کہلائے جاتے ہیں۔“
(ملفوظات جلد۵ ص۱۹،جلد ۴ص۶۹)
”الانتباہات المفیدہ“ کی تصنیف کا محرک :
تقریر کے بعض اہم امور کی نشاندہی ایک ملفوظ میں اِس طرح کی گئی ہے:
”میں نے وہاں یہ بیان کیا کہ صاحبو! تم سارا قصور علماء ہی کا بیان کرتے ہو، تمہارا بھی تو کچھ فرض ہے…“اپنی اصلاح کے لیے اور شبہات کے ازالہ کے لیے:
۱-” آپ کسی مولوی صاحب کو بلا کر وعظ کہلایاکریں۔
۲- اور دوسرا التزام یہ کریں کہ جب کوئی شبہ پیدا ہو ،اُس کو نوٹ کرتے رہو، اتوار کو اُس کی تفصیل کرلو، پھر وہ مسودہ ہمارے پاس بھیج دیا کرو۔
۳- یا اِس سے زیادہ سہل یہ کہ مسجد میں ایک رجسٹر رکھ دو اور جس وقت جو شبہ ذہن میں پیدا ہو، اُس میں درج کردیا کرو۔جب معتد بہ ذخیرہ ہوجائے ،تب وہ رجسٹر ہمار ے پاس بھیج دو۔ ہم فرصت کے وقت میں سب کا جواب دے دیں گے۔ اور جواب کا طریقہ یہ ہوگا کہ ایک ایک سوال کا جواب نہ دیں گے، نہ جلدی جواب دیں گے ؛بلکہ جب معتد بہ ذخیرہ ہو جائے گا، اُس کے لیے مستقل وقت نکال کر کتابی شکل میں لکھیں گے اور اُن جوابو ں کے مبادی ومبانی کو جوابوں کے پہلے اصول موضوعہ کی شکل میں مرتب کریں گے جن سے جواب میں امداد ملے گی “۔
(ملفوظات حکیم الامت جلد۱۴-کلمة الحق ص۱۱۹)
لیکن ایک ایک شبہہ نوٹ کرنے ،سوالات کو رجسٹر میں درج کرنے اور جمع کرکے بھیجنے کی صورت رو بہ عمل نہ آسکی دوسری طرف علی گڈھ میں وعظ کے دوران حضرت رحمةاللہ علیہ کو محسوس ہوا کہ طلبہ کو ایک درجہ میں حق کی طلب وانتظار ہے اور فہم وانصاف کے آثار بھی معلوم ہوئے توبالآخر یہ تجویز فرمایا کہ :
تمام شبہات وسوالات کے جمع ہونے کا انتظار سر دست چھوڑ دیاجائے اور اب تک جو شبہات سننے ، پڑھنے میں آئے ہیں ان کے جوابات کتاب کی شکل میں شائع کردیئے جائیں۔
اسی تجویز کے مطابق -کہ مبادی ومبانی کو جوابوں کے پہلے اصول موضوعہ کی شکل میں مرتب کر کے جوابات کو اُن پر مبنی کیا جا ئے-مجموعہ” الانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدید ہ “ شائع ہوا،جس کے تناظر میں مصنف نے دو باتیں ذکر کیں:
۱- ”اگر اس کو سبقًا سبقًا پڑھا نے والا کوئی مل جاوے تو نفع اور بھی اتمّ مرتب ہو“۔
۲-” اگر حق تعالی کسی کو ہمت دے اور وہ کتب ملحدین و معترضین کو جس میں اسلا م پرسائنس یا قواعد مخترعہ تمدن (جدید اختراع کردہ تمدنی اصول جن پر تہذیب نو کی بنیاد ہے)کے تعارض کی بنا پر شبہات کئے گئے ہیں جمع کرکے مفصل اجوبہ (جوابات) بصورت کتاب قلم بند کرد ے تو ایسی کتاب علم کلا م جدید کے مفہوم کا احق (زیادہ صحیح)مصداق ہوجاوے“۔
”الانتباہات المفیدہ“ پر کیا گیا کام:
۱- حکیم محمد مصطفی بجنوری:
”حل لانتباہات“۔ الانتباہات المفیدة کی بہترین شرح حضرت تھانوی قدس سرہ کی حیات ہی میں حکیم محمد مصطفی بجنوری نے” حل الانباہات“ کے نام سے کی تھی۔لیکن صرف آٹھ انتباہات پرمشتمل وہ شرح ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ شارح کی جانب سے ہی اس کی تکمیل نہیں ہوسکی تھی یانا مکمل شائع ہوئی۔
۲-حضرت مولانا عبدالباری ندوی :تعارف ”الانتباہات المفیدہ“:
حضرت مولانا عبدالباری ندوی رحمة اللہ علیہ نے الانتباہات کاایک جامع تعارف کرایا ہے،وہ فرماتے ہیں :
” علم کلام میں مجدد وقت کا اصل تجدید ی کارنامہ ہے۔یہ رسالہ ایسا متن متین ہے اور اہل فکر و تحقیق کے لئے اس میں ایسے اصول ومبادی بیان فرما دیئے گئے ہیں کہ وہ ان سے اپنے اوردوسروں سب کے جدید سے جدید اصولی وفروعی شبہات کا بہت کچھ ازالہ فرماسکتے ہیں اور جدیدسے جدید علم کلام کی عمارت جدید سے جدید معلومات و تحقیقات کی روشنی میں انہیں بنیادوں پرکھڑی کی جاسکتی ہے“۔
۳- پروفیسر محمد حسن عسکری: Answer to Modernism ۔
مفتی محمد تقی عثمانی کی فرمائش پر اس کتاب کا انگریزی ترجمہ پروفیسر محمد حسن عسکری مرحوم کے ذریعہ کے نام سے ہو چکاہے جو نہایت مقبول ہوا۔
۴-مولانا نور البشر محمد نو ر الحق:مفتی محمدتقی عثمانی کی ہدایت اور نگرانی میں دار العلوم کراچی کے ایک فاضل مولانا نور البشر محمد نو ر الحق صاحب نے بھی اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کیاہے۔
۵- مولانا نورعالم خلیل امینی: ”الاسلام والعقلانیہ“
ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند سے مولانا نورعالم خلیل امینی صاحب زید فضلہ نے اس کتاب کی تعریب کی ہے جو ”الاسلام والعقلانیہ“ کے نام سے ”الداعی“میں قسط وارشائع ہوئی۔بعد میں کتابی شکل میں شیخ الہند اکیڈمی سے ۱۴۲۳۲ھ/۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی۔
۶-مفتی سید فصیح الله شاہ :درس انتباہات مفیدہ
۷-حکیم فخرالاسلام مظاہری:توضیح الانتباہات
۸-شرح الانتباہات
۹-الانتباہات :تصحیح و تحقیق
۱۰-دراسة الانتباہات(غیر مطبوع)
کسی نے یہ عجیب بات لکھی ہے کہ:
”ویسے میں تو یہ بھی سمجھتا ہوں کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی تصنیفات بھی اس کتاب (پروفیسر محمد حسن عسکری کی جدیدیت )کے لئے نہایت روشن پس منظر بن سکتی ہیں“۔(جدیدیت)
اِس مضمون کو ذرا وسعت دیتے ہوئے دو باتیں عرض ہیں۔ ایک تو یہ کہ خود ’جدیدیت ‘کے مضامین کی تفصیلات سمجھنے کے لیے اُسے ’نئی جدیدیت‘کے تناظر میں دیکھنا چاہیے ،دوسرے’جدیدیت ‘اور ’نئی جدیدیت‘سب کے مطالعہ سے خلجانات و اِلتباسات کی فہم حاصل کرنا چا ہیے اور اُن کے عقلی و کلامی اِستدراکات کے لیے ”الانتباہات“کو اصل اور کلید بنانا چا ہیے اور اُس کے مضامین کی فہم و تفہیم کے لیے حکیم الامت کی تصنیفات زیر مطالعہ لانی چاہیے،جس کے لیے” ملفوظات حکیم الامت “کی تمام جلدیں، ”بوادر النوادر“ہر دو حصص، ”بیان القرآن“،”البدائع “،” امدا دالفتاوی“خصوصاً جلد ششم،” التشرف“ ،” اصلاحِ انقلابِ امت“، ”حیاة المسلمین“، ”بیان القرآن“،”اشرف التفاسیر“(چار جلدیں)،”نفی الحرج“،”محاسن اسلام“،”امثال عبرت“، ”التقصیر فی التفسیر“، ”التوریع فی التوزیع“،”المصالح العقلیةللاحکام النقلیة“،”ماة دروس“،”تلخیصات عشر“، وغیرہ سے مدد لینی چا ہیے۔