حضرت انسان کی دو بڑی کمزوری

انوار قرآنی :

مولانا محمد مرشد صاحب قاسمیؔ بیگوسرائے

  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

                وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا {۱} فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا {۲} فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا{۳} فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا{۴}  فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا{۵} اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْد’‘ {۶}  وَاِنَّہٗ  عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیْد’‘ {۷}  وَاِنَّہٗ  لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْد’‘ {۸}۔ (العادیات)

                ترجمہ :  قسم ہے ان گھوڑوں کی جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں ، پھر ان گھوڑوں کی جو ٹاپ مارکر آگ نکالتے ہیں ، پھران گھوڑوں کی جو صبح کی وقت حملہ کرکے گردو غبار اڑاتے ہیں اور دشمنوں کے بیچ گھس جاتے ہیں ۔ یقینا انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے اور وہ خود اس پر شاہد ہے اور وہ مال کی محبت میں بڑا ٹھوس ہے ۔

تذکیر وفوائد :

                الحمد للہ ہم اہل ایمان ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کے پابند ہیں ، ہم کو ہر قدم پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا اور اشارے کو دیکھنا ہوگا ۔اس کے منشا کے بغیر ہم کو کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے ۔

اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے ایک اہم حکم قسم ہے :

                ایمان والوں کو حکم ہے کہ غیر اللہ کی قسم نہ کھائیں ، ارشادِ نبوی ہے :

                  ’’ من حلف لغیر اللہ فقد اشرک ‘‘  (مسند احمد)

                جس نے غیر کی کی قسم کھائی اس نے شرک کیا ۔

                 کوئی مومن اپنے ماں باپ یا دوست کی قسم نہ کھائے ۔ خواہ وہ کتنے ہی عزیز اور قریب کیوں نہ ہو ں ، کتنے ہی محترم ومقدس کیوں نہ ہو ں؛اسی لیے کعبۃ اللہ کی بھی قسم کھانا جائز نہیں ہے ۔ ایمان والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے صفات کی قسم کھاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کو حق ہے جس چیز کی چاہے قسم کھائے :

                امام غزالی ؒ فرماتے ہیں : ’’ ان اللہ تعالیٰ یقسم بما شاء ان یحلف ‘‘ اللہ تعالیٰ کو حق ہے جس چیز کی چاہے وہ قسم کھائے ۔

                چناںچہ اس نے کبھی رات کی قسم ، کبھی دن کی قسم ، کہیں انجیر وزیتون کی قسم ،کہیں شہرِ مکہ کی قسم ، کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرِ مبارک کی قسم کھائی؛ جس چیز کی عظمت اور افادیت کو بتلاناچـاہا ،اس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھا لی  اور ا ن قسموں سے اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ کسی طرح بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی بات اترجائے ۔

                ایک اعرابی جب قرآن کریم کی قسموں کو سنتا ہے تو وہ ایمان لے آتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے ساتھ کس قدر شفقت اور رحم ہے؛ وہ چاہتا ہے کہ بندے کسی طرح میری بات مان لیں ۔ آج ہم بھی اپنی کوئی بات منوانا چاہتے ہیں تو قسم کھاکر کہتے ہیں ، لیکن یاد رہے بات بات میں قسم سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ زیادہ قسمیں کھانا جھوٹے ہونے کی نشانی ہے اور کافروں کے اوصاف میں سے ہے ،اللہ تعالیٰ نے مشرکینِ مکہ کے ایک بڑے رئیس اور متمول شخص ولید بن مغیرہ کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا :

                {وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلاَّفٍ مُّہِیْنٍ} (القلم)

                 آپ بہت قسم کھانے والے ذلیل شخص کی اطاعت نہ کیجیے ۔

گھوڑے کے چند اوصاف کی قسم :

                اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو شکر گزا ری اور وفاداری سکھانے کے لیے گھوڑے کے چند اوصاف ذکرکے ہی اس کی قسم کھائی ۔ دیکھو! ایک گھوڑا اپنے مالک کا کتنا بڑا شکر گزار اور وفادار ہے ،وہ اپنے مالک کے اشارے پر ہاپتے ہوئے دوڑتا ہے ،دوڑتے دوڑتے جب اس کے کھر چٹانوں اور پتھروں سے ٹکراتے ہیں، تو آگ نکلتی ہے ؛ پھر آگے بڑھتے ہوئے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے ۔ خوب گرد و غبار اڑاتے اڑاتے دشمنوں کی صفوں کے بیچ میں گھس جاتا ہے؛ مزید برآں وہ خون دیکھ کر ذرہ برابر نہیں گھبراتا؛ بل کہ اپنے مالک کے دشمنوں پر حملے کے لیے موقعہ فراہم کرتا ہے ؛بسا اوقات اپنی جان تک قربان کردیتا ہے ۔

                وہ گھوڑا اپنے مالک کے لیے اتنی بڑی قربانی پیش کرتا ہے؛ حالاں کہ اس مالک نے اس کے لیے کیا کیا ؟ صرف کھانا اور چارہ پیش کیا اور وہ چارہ بھی مالک کا نہیں؛ بل کہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے ،مالک کا ہاتھ صرف اس کے لیے ذریعہ بنا۔ ایک معمولی سا جانورہے ، اپنے مجازی مالک کے لیے ایسی وفاداری پیش کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ تو ہم سب کے حقیقی مالک ہیں ، ساری نعمتوں کے خالق بھی ہیں اور ساری نعمتیں پیش کررہا ہے ، تو کیا ہم اس مالک حقیقی کے ایسے وفادار اور شکر گزار نہ بنیں! ضرور بننا چاہیے، لیکن ہم نہیں بن پارہے ہیں ، اسی لیے اللہ تعالیٰ یہ شکایت کرتے ہیں:

                {وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ }(السبا) 

                میرے بندوں میں شکر گزار کم ہیں ۔

ہرزبان پر ناشکری کے بول :

                آج ہر عام و خاص کی زبان پرناشکری کے الفاظ ہیں ۔ عالم غیر عالم ، تاجر و ملازم جس کو دیکھو ناشکری میں مبتلاہے ۔کوئی جی ایس ٹی کی شکایت کررہا ہے ، کوئی حاکمِ وقت کی مذمت کررہا ہے ، لیکن اپنے اعمال واوصاف کی کوتاہی پرنظر رکھنے والے کم ہیں۔ کتنے زمانے خوشحالی کے گزرے ہیں ، لیکن تھوڑی بیماری ، پریشانی آتی ہے ، ناشکری شروع کردیتے ہیں ؛اس مالک نے ہمیشہ کتنی اچھی اچھی نعمتیں کھلائیں ،کتنی میٹھی میٹھی چیزیں کھلائیں ، لیکن ایک قاش کڑوا آجائے تو ناشکری شروع کردیتے ہیں ،ایک ملازم اپنے سیٹھ کی شکایت شروع کردیتا ہے ، ایک مدرس اپنے ناظم ومہتمم کی شکایت شروع کردیتا ہے ؛یہ ایک ناشکری اور بڑی بے وفائی ہے ۔

شکر گزاری کا طریقہ:

                آئیے !ہم اللہ تعالیٰ کا شکر گزاربندہ بنیں ۔ ہم ہمیشہ اس کی اطاعت کریں ، عبادت اور اعمالِ صالحہ میںاپنا وقت لگائیں ۔ علما فرماتے ہیں: کہ اصل شکر زبانی نہیں بل کہ عملی شکر ہے کہ ہم اپنے اعضا و جسمانی قوت کو صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگائیں ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرنے میں لگائیں، جن کی زندگی ہم سب کے لیے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے ۔ ہر آدمی ہر خوشحال شخص اپنے مناسب ِحال عملی شکر کرے؛ مالدار مال کو صحیح جگہ پر لگائے ، جوان اپنی جوانی کو صحیح جگہ پر کھپائے ،طاقتور اپنی طاقت کو صحیح جگہ خرچ کرے ، بااثر لوگ اپنے اثر ورسوخ کو صحیح اور مناسب موقعوں پر استعمال کریں۔ یہ عملی شکرہے اوراسی پر نعمت وصلاحیت کی بڑھوتری کا وعدہ ہے ۔

                { لَئِنْ  شَکَرْتُمْ   لَاَزِیْدَنَّکُمْ   وَلَئِنْ  کَفَرْتُمْ  اِنَّ  عَذَابِیْ لَشَدِیْد’‘}(ابراہیم:۷)

                اگر تم شکر گزاری کروگے تو ہم ضرورنعمت میں اضافہ کریںگے۔ اور اگر ناشکری کروگے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔

مال کی محبت :

                انسان کی دوسری بڑی کمزوری کو اللہ تعالیٰ نے ذکرکیا: { وَاِنَّہٗ  لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْد’‘  }انسان  مال کی محبت میں بڑا ٹھوس ہے ۔ مال کی شدید محبت ام السیئات ہے ، اس کی وجہ سے حرص و طمع ، حسد وبغض ، غرور وتکبر اور دیگر بڑے بڑے رذائل پیدا ہوتے ہیں ، اسی محبت کی بنیا د پر انسان مال خرچ کرنا نہیں چاہتا ہے ۔ آج مال خرچ کرنے کے کتنے مواقع موجود ہیں ،کتنے دیہات آج مساجد ومدارس سے خالی ہیں ، کتنے لوگ پانی کے حصول کے لیے پریشان ہیں ،کتنے لوگ علاج ومعالجہ کے ضرورت مند ہیں ، کتنے مدار س ترقی سے محروم ہیں ؛ امت کی جانب سے بر وقت مالی مساعدہ نہ ملنے کی وجہ سے کتنے مدارس بند ہونے کے قریب ہیں ؛لیکن امت کا ایک بڑا طبقہ اپنے مال کو روکے ہوئے ہے، مال بینکوں میں سڑ رہے ہیں ، یا وہ مال فضول عیاشیوں میں خرچ ہورہے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صدقہ و خیرات کرکے کنگال وفقیر ہوجائیںگے ۔ ہر گز نہیں ۔

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

                 ’’ انفق یا بلال ولا تخش من ذی العرش اقلالا ‘‘(الترغیب والترہیب)

                 اے بلال خرچ کر اور عرش والے سے کمی کا اندیشہ مت کر ۔

                حدیث میں آیا ہے کہ روزانہ دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ، ان میں سے ایک دعا دیتا ہے :

                 ’’ اللہم اعط منفقا خلفا ‘‘۔(البخاری)اے اللہ خرچ کرنے والے کو اس کا عوض دیدے ۔

                دوسرا بددعا کرتا ہے : ’’ اللہم اعط ممسکا تلفا ‘‘۔(البخاری)اے اللہ روکنے والے کے مال کو ضائع کردے ۔

طلبۂ کرام کے لیے ایک بڑا سبق :

                طلبہ کرام بھی اپنے اندر شکر گزاری کا جذبہ پیدا کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری تعلیم وتربیت کا کتنا اچھاادارہ اور دینی ماحول عطا کیا ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسانِ عظیم ہزاروں کے بیچ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اپنی کتاب کی تعلیم کے لیے چنا ۔بصورت دیگر ہم کیسے گندے ماحول میں پڑے رہتے ؟پھر ان اربابِ مدارس کا احسان ہے کہ تعلیم و تربیت کے علاوہ ہماری ہر چھوٹی بڑی ضرورت کی فکر کرتے ہیں ۔ پہلے زمانے میں ایسا نہ تھا حالاں کہ مسلمانوں کی حکومت تھی، لیکن اس وقت بھی طلبہ کے قیام و طعام کا ایسا معقول نظم نہیں تھا۔آج اربابِ مدارس ایک ایک روپے کے لیے شہر و دیہات کی خاک چھانتے پھرتے ہیں کہ ہمارے طلبہ کی ہرطرح کی ضرورت پوری ہوجائے ۔ ان اربابِ مدارس کا بھی احسان مانیں ، ہر گز ہرگز ان کے ساتھ کسی طرح کی بے وفائی نہ کریں ۔ اساتذہ ٔ کرام خصوصاً ذمہ داروں کا احترام کریں ۔قانون شکنی اور گناہوں والے ماحول سے دور رہیں ۔

                دوسرے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کریں ، عالم اور مال کا جوڑ ہی نہیں ،اگر اللہ تعالیٰ ہم سے مال کموانا چاہتے تو کسی اور لائن میں رکھتے ۔ طالب علم تو یہ کہتا ہے: ’’ مالی وللدنیا ‘‘ ، مجھے دنیا سے کیا مطلب ، مال اور دنیا کی محبت سے دل میں قساوت اور سختی آتی ہے ، پھر پڑھائی میں جی نہیں لگتا ،طبیعت بے زار ہونے لگتی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کے علم کے ہم وارث ہیں ، ان کو حکم ملا :

                  {وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ  اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا} (طٰہٰ:۱۳۱)

                 آپ ہزگز اپنی آنکھ نہ اٹھائیں قسم قسم کی عشرت والی چیزوں کی طرف، جس سے ہم نے اہل دنیا کو لطف اندوز کیا ہے ،یہ تو بس دنیوی زندگی کی ایک آزمائش ہے ۔

                ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ، مجھے ایسا عمل بتادیجیے کہ اللہ تعالیٰ محبت کرے اور لوگ بھی محبت کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

                 ’’ ازہد فی الدنیا یحبک اللہ وازہد فیما عند الناس یحبک الناس ‘‘ (ابن ماجہ )

                 تو دنیا سے بے رغبتی رکھ اللہ تعالیٰ تجھے محبوب بنالیںگے اور تولوگوں کی چیزوں سے بے رغبتی رکھ تو لوگ بھی تجھے سے محبت کریںگے ۔

                اللہ تعالیٰ ہمارے اندر شکر گزاری پیدا فرمادے اور مال کی ایسی بری محبت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔