خطاب وتأثرات=از خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی
بعنوان-تأثرات ِانجمن اصلاح الکلام و تاسیس ِ جامعہ اکل کوا کا بیان
بموقع- اختتامی نشست ا نجمن اصلاح الکلام MARCH 2021
ضبط وترتیب محمد صادق اشاعتی
سالِ گذشتہ رمضان المبارک سے پہلے جو تالا بندی یعنی Lockdown کا زمانہ بیتا اسی دوران سال کے آخر میں جامعہ اکل کوا میں تعلیمی سال کے اختتام پر حسب ِسابق جامعہ اکل کوا میں طلبا کے مابین حضرت رئیس الجامعہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کی صدارت میں انجمن اصلاح الکلام کا مسابقہٴ تقریر وخطابت کا انعقاد عمل میں آیا۔مسابقہ کے اختتام پر صدر محترم حضرت خادم القرآن نے بہت اہم اور بابرکت خطاب فرمایا۔اسی خطاب میں بانی ورئیس الجامعہ نے جامعہ اکل کوا کی بنیاد وتاسیس کے اسباب ومراحل کا اور سنگ بنیاد کا روح پرور پس ِمنظر بیان فرمایا،جسے راقم نے بذریعہ موبائل ضبط ومحفوظ کرلیا ،لہٰذا اب شاہراہ علم کی وساطت سے قارئین کے پیش خدمت کیا جارہا ہے۔
الحمد للّٰہ رب العالمین، والعاقبة للمتقین،والصلوة والسلام علی سید المرسلین،وعلی آلہ وأصحابہ اجمعین الی یوم الدین۔
اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
﴿رَبِّ اشْرَحْ ِلیْ صَدْرِیْ، وَیَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ، یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ﴾
حضرات ِاساتذہٴ کرام اور میرے عزیز طلباء!
آج ہی میں نے انجمن کے ذمہ دار، استاذِ جامعہ حضرت مولانا حسیب صاحب کو بلایا۔ اور تجوید کے صدر قاری وسیم صاحب کو بھی بلایا۔ اور ان دونوں سے یہ کہا کہ آج جمعہ کی رات ہے، انجمن کاپروگرام کیا جاوے، اور جو طلبامنتخب ہوں ان کو موقع دیا جاوے۔ اتفاق سے میں ایک میٹنگ میں بیٹھا تھا، میرے ذہن سے بات نکل گئی، پھر مجھے اچانک بات یاد آئی کہ وہاں تو انجمن چل رہی ہے اور تو یہاں بیٹھا ہے؟ تو میں فوراًآپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔تاخیر پر معذرت چاہوں گا۔
میرے بچو!یہ دینی مدارس،مراکزاور جامعات ؛یہ امت کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔یہ وہ جگہیں ہیں، جہاں انسان بنتے ہیں،جہاں قراء تیار ہوتے ہیں۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں مدرسین بنتے ہیں، یہ وہ جگہیں ہیں، جہاں مقررین بنتے ہیں؛ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں شعرا پیدا ہوتے ہیں۔
مدارس، امت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ امت جب تک اپنے آپ کو ان مدارس سے وابستہ رکھے گی، امت خیر کے ساتھ رہے گی۔ اور ا مت جب تک اپنے نو نہالوں کو ان مکتبوں اور مدرسوں کے حوالہ کرتے رہے گی، ان کے بچے با شعور اور باکمال ہوتے رہیں گے۔ اور وہ ایسے بچے ہوں گے جو اپنے علاقے، شعبہ ، اور اپنے خاندان کی قیادت کریں گے۔ اس ملک کی تاریخ کو آپ دیکھیں گے، اس ملک کے ہمارے جو عظیم ترین ادارے ہیں، ”دار ا لعلوم دیوبند “یہ وہ ادارہ ہے، جس کو ہمارے اکابرین میں حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے سو سال پہلے اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے ”دیوبند“ جیسی جگہ پر قائم کیا۔ اور اس ادارے نے ایسے ایسے لوگ تیار کیے، اور وہ ہندوستان کے مشرق ومغرب ، شمال اورجنوب میں پھیل گئے، اور وہاں پھیل کر وہ بیٹھے نہیں رہے؛ بل کہ ہر ایک نے اپنے اپنے علاقہ میں ”دار العلوم دیوبند“ کے طرز کے ادارے قائم کیے۔
آپ آسام چلے جائیے، بہار چلے جائیے، بنگال چلے جائیے، جھارکھنڈ چلے جائیے؛ ادھر آپ کرناٹک جائیے، آندھرا پردیش، گجرات، مہاراشٹر میں جائیے، ایم پی میں جائیے، جہاں بھی آپ جائیں گے یہ مدارس آپ کو ملیں گے۔
اور یہ مدارس وہ ہیں ، جو حقیقت میں کتاب اللہ قرآن شریف اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لوگوں تک پہنچانے والے ہیں۔
کافی لوگ بیٹھے ہیں، اس میں کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے قرآن ِکریم حفظ کیا ہے، کوئی جامعہ میں حافظ بنے ہیں، کوئی جامعہ کی شاخوں سے حافظ بن کر آئے ہیں۔ کوئی اپنے اپنے علاقے کے مدرسوں میں ناظرہ قرآن کریم پڑھ کر آئے ہیں۔
بہر حال ان مدارس سے ایسے افراد تیار ہوئے ہیں، جنہوں نے کتاب اللہ پر پوری محنت کی، اور یہ محنت بند نہیں ہوئی ہے، بل کہ یہ محنت قیامت تک چلتی رہے گی۔ اور یہ پڑھنے والے لوگ آتے رہیں گے۔ اللہ کی مقدس کتاب کا وعدہ ہے:﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ﴾قرآن اپنے بارے میں کہہ رہا ہے،اللہ فرماتے ہیں:”ہم نے قرآن کریم کو نازل کیا، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“
ابھی اس بچے نے قرآن پڑھا، ہمارے اس جامعہ کے بانیوں میں سے حضرت مولانا یعقوب خانپوری صاحب رحمة اللہ علیہ جن کے انتقال کو انیس (۱۹)سال ہوگئے۔
وہ یہاں آئے تھے دار العلوم کنتھاریہ سے فارغ ہوکر، اور مکرانی پھلی کا مکتب پڑھا رہے تھے، اور اس انداز سے انہوں نے کام کیا کہ اللہ تعالی نے ان لوگوں کی دعا کی برکت سے اور محنت سے اس فقیر کو یہاں بھیج دیا۔
میں یہاں آیا مولانا مختار صاحب اور مولانا سعید صاحب کی دعوت پر، جو ابھی آپ کے ہاں(جامعہ اکل کوا) مدرس ہیں، جو میرے پاس پڑھتے تھے۔ انہوں نے کہا:حضرت آپ” اکل کوا“ چلیے، میں نے کہا:میں اکل کوا نہیں آتا” ہر ٹائم پر مرغی کھلاوٴگے تو میں آوٴں گا“۔ انہوں نے کہا:ہمارے یہاں تو بہت مرغیاں ہیں۔ میں نے ایسے ہی مذاق میں کہا تھا….
تو پھر ایک دن طے ہوا، اس کے بعد میں جمعرات کے دن انکلیشور شہادہ بس میں بیٹھ کر آیا۔ راستے بھی صحیح نہیں تھے، ابھی تو راستے بہترین بنے ہوئے ہیں۔ ہم اکل کوا میں اترے تو دیکھا کہ لائٹ گل تھی، اندھیرا ہی اندھیر،ا ہم نے کہا کہ کہاں جانا ہے؟ تو کہا کہ یہاں سے پیدل جانا ہے مکرانی پھلی۔
اس زمانے میں رکشہ تو تھا ہی نہیں لیکن موٹر سائیکل اسکوٹر بھی نہیں تھے۔ خیر ہم ٹھوکر کھاتے کھاتے پہنچ گئے مکرانی پھلی کی مسجد میں تو دیکھا کہ مکرانی پھلی کی مسجد بھی ایک ویران مسجد جیسی ہے۔ اذان ہوئی تو مسجد میں دو چار بو ڑھے لوگ آئے، ان کے ساتھ عشا کی نماز پڑھی، پھر مولانا مختار صاحب کے ہاں ہم نے جاکر کھانا کھایا۔ پھر دوسرے دن نکلے بازار ،تو دیکھا کہ بازار بھی گُل جیسا ہے، کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ اور عام عادت لوگوں کی یہ تھی کہ ان کے پیر میں چپل بھی نہیں۔
میں نے کہا:چپل ؟تو کہا گیا کہ یہ یہاں کا رواج ہے۔ میں نے کہا:انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پھر بہر حال ہم یہاں جامع مسجد میں آئے۔ جامع مسجد بھی بوسیدہ تھی، یہ تو جامعہ کی برکت سے اللہ نے سب سے پہلے اللہ کا گھر بنا دیا۔” جامع مسجد اکل کوا“جو بنی، وہ جامعہ نے ہی بنائی۔ ہمارے ایک حاجی صاحب تھے حاجی ابراہیم صاحب پانولی والے، جو جامعہ کے اولین ٹرسٹی تھے، میں ان کو پہلے یہاں لایا تھا؛ انہوں نے کہا:کہ یہ مسجد تو بڑی بوسیدہ ہے، اور انہوں نے کہا:کہ ایک صاحب ہیں ہمارے عزیز (ریونین) کے وہ مسجد بنانا چاہتے ہیں۔
میں نے کہا:کہ بڑی اچھی بات ہے، ٹھیک ہے وہ گئے۔پھر انہوں نے مجھ سے آکر بات کی، انہوں نے کہا کہ ہم پہلے آکر جگہ دیکھیں گے، اس بہانے سے وہ مہمان بھی آگئے۔وہ بیچارے سب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اور میں بھی جمعہ کے دن آگیا، کنتھاریہ میں پڑھاتا تھا۔ ہم آئے تو انہوں نے کہا یہ گاوٴں تو بہت غریب گاوٴں ہے۔ خستہ حال ہے، مسجد بنانے کی سخت ضرورت ہے۔
لیکن بات یہ ہے کہ میں نے حضرت عبد الحق میاں صاحب (ان کا انتقال ہوگیا) بہت کام کیا ،انہوں نے مکاتب کا کام کیا۔ مدرسة البنات ہندوستان کا ون نمبر کا مدرسہ ہے ان کا ”ڈھابیل سملک“ میں۔لڑکیوں کا عالی شان مدرسہ بنایا، دس سال اس کے بنانے میں انہوں نے خرچ کیے تھے۔ کہا کہ میں نے میاں صاحب کو بھی کہا ہے، انہوں نے کوئی جگہ طے کرلی ہوگی ،تو یہاں نہیں بنا سکوں گا میں…تو ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ ان کے سامنے بات رکھ دیجئے کہ میں نے جو آپ کو مسجد کے لیے کہا ہے اگر آپ نے وہاں کوئی جگہ طے کر لی ہے تو وہاں۔ ورنہ ہمارے پاس یہاں ”اکل کوا“ میں مسجد بنانا ہے۔
حضرت مولانا عبد الحق صاحب کی قبر کو بھی اللہ نور سے بھر دے۔ بڑے مخلص آدمی تھے، انہوں نے برا نہیں مانا کہ آپ نے مجھے کہا اور پھر جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا:نہیں آپ فکر نہ کریں، میں خود ”اکل کوا“ آوٴں گا اور میں دیکھوں گا اگر یہ جگہ میری جگہ سے اچھی ہے، تو آپ کی مسجد” اکل کوا“ میں بنے گی۔ اور ”ا کل کوا“ کی جگہ سے میری جگہ اچھی ہے تو مسجد میں وہاں بناوٴں گا۔
ان لوگوں نے سب نے تسلیم کر لیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ”اتقوا من فراسة المومن فانہ ینظر بنور اللہ تعالی.“
مومن کی فراست سے بچو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اب مولانا عبد الحق میاں اور ہم دو گاڑیاں آگئیں، میں تو فقیر آدمی تھا، میرے پاس گاڑی کے کرایہ کے پیسے بھی نہیں تھے۔
لیکن ہمارے حافظ ابراہیم پانولی والے اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، انہوں نے مجھے بڑا سہارا دیاکہ گاڑی کرایہ وغیرہ تیرے ذمہ نہیں، وہ سب میں کروں گا۔ میں نے کہا آپ کوہی کرنا پڑے گا، میرے پاس کہاں پیسے ہیں؟ میں ایک مدرس ہوں، میری معمولی تنخواہ ہے۔ اور میں اسی پر گزر بسر کر رہا ہوں۔ کہا:نہیں…آپ فکر نہ کریں۔
اللہ نے جامعہ کو شروع ہی سے ایسے لوگ دے دیے تھے جو دل والے تھے۔
چناں چہ جمعہ کے دن ہم لوگ آئے۔ جمعہ کی نماز میں آگئے۔میاں صاحب نے فوراً جمعہ کے بعد کہا:”آپ کی جگہ میری جگہ سے اچھی ہے،اور آپ کی مسجد اس جگہ بنانا میرے نزدیک بھی بہت ضروری ہے۔“ہم سب خوش ہوگئے کہ چلو میاں صاحب نے فیصلہ کر لیا۔
حاجی صاحب بھی خوش ہوگئے، حافظ صاحب بھی خوش ہوگئے۔ مولانا صاحب اور بستی والے بھی خوش ہوگئے۔ اور مسجد کی بنیاد بھی رکھ دی۔ میں نے کہا:بنیاد رکھ دیجیے،کام چلتا رہے گا۔
ان کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ یہاں یہ نوجوان بچہ مدرسہ کھولنا چاہتا ہے، میرے بزرگ تھے وہ لوگ، میں تو ان کے سامنے بچہ ہی تھا۔ انہوں نے کہا:کہاں مدرسہ کھولنے والا ہے تو؟ چل!مجھے جگہ بتلا۔ اس وقت حاجی یعقوب صاحب اللہ ان کی عمر میں برکت دے، بیچارے صاحبِ فراش ہیں۔ مولانا سعید اور مولانا مختار کے والد انہوں نے اپنے گھر کے سامنے کی زمین تین ایکڑ جامعہ کو وقف کی تھی۔ میں نے کہا:حضرت وہ زمین ادھر ہے۔ کہا کہ چلو مجھے دیکھنا ہے، کیسی جگہ تونے دیکھی ہے۔
مجھے تو کچھ تجربہ بھی نہیں تھا، میں تو مدرسہ سے نکل کر مدرسہ آرہا تھا۔ اس جگہ پر پہنچے تو کہا:یہ جگہ! اس جگہ مدرسہ نہیں بن سکتا۔ بچے بال کھیلیں گے، گلی ڈنڈا کھیلیں گے سیدھا ان کے گھروں میں جائے گا۔ تو روزانہ تیرے کو لڑائی کرنا پڑے گی۔ مدرسہ تو بڑا بننے والا ہے۔
یہ جو میں نے حدیث پڑھی: اتقوا من فراسة المومن فانہ ینظر بنور اللہ تعالی….مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، انہوں نے یہ بات دیکھ لی تھی، کہ یہاں جامعہ بڑا بننے والا ہے، میرے ذہن میں بھی نہیں تھا۔ میں تو سمجھتا تھا کہ سو دو سو بچوں کا مدرسہ کھلے گا۔ مگر میں ایک چھوٹا آدمی تھا، آج بھی چھوٹا ہی ہوں، مگر ان کی فراست…انہوں نے کہا یہ زمین کس کی ہے؟ میں نے کہا یہ زمین یعقوب دادا کی ہے۔
کون ہیں؟ آئیے ادھر….!
یہ زمین آپ کی ہے؟
ہاں….
آپ کی اور کچھ زمین ہے؟
کہا:ہے…چلو!
ہم پورا قافلہ یہاں آئے،روڈ کے اوپر۔پھر ہم اندر آئے۔ یعقوب دادا نے بتایا کہ یہ میری زمین ہے۔کہا کہ یہ زمین ہے یہاں مدرسہ بنے گا۔ پھر حاجی سلیمان جن کی زمین کا پہلا حصہ ہے، جس پر مسجد ہے۔ کہا یہ زمین کس کی ہے؟ حاجی صاحب نے کہا کہ میری ہے، کہا کہ میں نے بھی دے دی مدرسہ کو۔ تو تین ایکڑ انہوں نے دی، اور تین ایکڑ یعقوب دادا نے دی۔ اور تین ایکڑ ہم نے یعقوب دادا سے خریدی۔تو یہ جو پہلا حلقہ ہے یہ پورا دس ایکڑ کا ہے۔ دینیات بلڈنگ کی تین ایکڑ بعد میں خریدی یعقوب دادا کے پاس سے۔
میرے بچو!یہ ہے اللہ والوں کی نگاہ۔اسی سے متعلق میں نے حدیث پڑھی… کہ”اتقوا من فراسة المومن فانہ ینظر بنور اللہ تعالی.“
تو میں عبد الحق میاں صاحب کو بہت یاد کرتاہوں، اور ان کے لیے بہت دعائیں بھی کرتا ہوں۔ وہ حضرت قاری صدیق صاحب باندوی رحمة اللہ علیہ کے رفیقِ درس تھے۔ چناں چہ اللہ نے ہمیں توفیق یہی دی کہ پہلی بلڈنگ جس میں ابھی دفتر ہے، جس میں مشکوة کا درس ہوتا ہے، وہ بلڈنگ بنانے کا پروگرام بنایا۔ تو میں نے حضرت باندوی رحمة اللہ علیہ کے گاوٴں کا سفر کیا۔ (میں اور میرے دوست مولانا ایوب وسلاوی)اور ہم گئے، اور میں نے ان سے کہا(کیوں کہ ان کے بیٹے حبیب وہ میرے ساتھی تھے،مظاہرعلوم میں اور حضرت کو ہم وہاں ملا بھی کرتے تھے)اور میری فراغت کے آٹھ سال بعد میں حضرت کے پاس آیا۔
میں نے حضرت سے کہا:کہ حضرت!مدرسہ کا سنگِ بنیاد رکھنا ہے۔ اور میں آپ کو لینے کے لیے آیا ہوں دعوت دینے کے لیے۔ حضرت نے کہا:بالکل میں تیار ہوں۔
تاریخ طے ہوگئی جمعہ کا دن،تاریخ مجھے یاد بھی نہیں ہے، بلڈنگ پر لکھی ہے۔ حضرت باندوی رحمة اللہ علیہ کا نام اللہ نے ایسا بلند بالا کیا تھا کہ پورے علاقہ میں ایک بہت بڑاکام ہوگیاکہ باندوی رحمة اللہ بزرگ زندہ ولی ہیں، وہ آرہے ہیں۔ گجرات، مہاراشٹر، ایم پی، کرناٹک کے پانچ سو علما آئے۔ عوام الگ…اور یہاں ایک بڑا پنڈال لگایا گیا تھا۔ گجرات سے بسوں کا انتظام کیا تھا۔ یہاں آنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔بسیں آئیں، گاڑیاں آئیں۔ ہجوم آیا۔
علامہ عبد المجید رحمة اللہ میرے جگری دوست تھے، وہ پڑوس میں سے آئے تھے، ان دنوں تقریر کرنے کے لیے، میں نے کہا:ندیم صاحب!میں آپ کے ساتھ سفر میں تھا۔ آپ کو جمعہ کے دن میرے ہاں آنا ہے۔ کہا:سو مرتبہ آنا ہے۔
وہ ایسے زبر دست مقرر تھے۔ ایسا مقرر نہ آپ نے کبھی دیکھا سنا ہوگا، نہ میں نے سنا تھا۔ جمعہ کے دن پروگرام رکھا گیا اور سارے لوگ آگئے۔ اور جمعہ سے پہلے سب نے کھانا وانا کھالیا، اور جمعہ کی نماز ندیم صاحب نے پڑھائی۔ (جامع مسجد اکل کوا میں) اور حضرت نے بھی جمعہ کی نماز غالباً وہیں پڑھی۔
پھر قافلہ یہاں آیا۔ پروگرام ہوا، میرے استاذ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب، حضرت مولانا ذو الفقار صاحب، مولانا شیر علی صاحب، مولانا بیمات صاحب، حضرت اجمیری صاحب، مولانا احمد اللہ صاحب،گجرات کے کوئی شیخ الحدیث باقی نہیں تھے۔ مولانا ایوب صاحب اعظمی بھی آئے۔
ان کو دعوت دینے کے لیے گئے تو کہا:میں تو بیمار ہوں، مجھے تو چکر آتے ہیں، میں نے کہا حضرت فکر نہ کریں آپ کو تو آنا ہی پڑے گا،تو کہا کہ چل تو مانے گا نہیں،میں آوٴں گا۔ یعنی سارے شیخ الحدیث آگئے، یہ اللہ کی طرف سے ایک شان ہوتی ہے،اللہ تعالی اس ادارے کو ایسا بلند بنانے والے تھے، تو اللہ نے اس کے یومِ تاسیس کو تاریخی اور یادگار بنادیا۔
علامہ عبد المجید ندیم رحمة اللہ علیہ….ان کا نام پیش ہوا کہ عبد المجید صاحب اپنے خیالات کو ظاہر کریں گے، ان کا خطبہ سننے جیسا ہے۔ مولانا حسیب!کبھی بچوں کو ندیم صاحب کی تقریریں سناؤ۔ یہ بچے بیچارے کیا جانیں، کیوں کہ یہ بات ہے انیس سو بیاسی (1982)کی۔بیالیس سال ہوگئے۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیت پڑھی :﴿ربنا انی أسکنت من ذریتی بواد غیر زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوة﴾انہوں نے ایسا پڑھا کہ سارے علما دنگ رہ گئے۔ انہوں نے پہاڑ کا منظر کھینچا ،سامنے پہاڑ کا منظر نظر آتا تھا۔ قرآن کریم نے جو بیت اللہ کا منظر کھینچا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب تعمیر بیت اللہ کا حکم ہوا، اور انہوں نے اپنے اہل خانہ کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑا اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ منظر کھینچا۔
وہ تقریر سننے جیسی ہے۔ تو مولانا شیر علی میرے استاذ محترم تھے، فلاح دارین کے مدرس تھے، وہ تو حضرت پر ایسے فدا ہوگئے کہ شام کو جہاں ندیم صاحب کی تقریر ہوتی تھی، مولانا شیر علی وہاں پہنچ جاتے تھے۔اور سب ہی علما لٹو ہو گئے تھے۔
تو میرے بچو!آج میرے دماغ میں معلوم نہیں کیا بات آئی، آج میں نے آپ کے سامنے جامعہ کی تاسیس کا پس منظر آپ کو بیان کر دیا ہے کہ جامعہ ایسے ہی نہیں بنا ہے، روحانیت والے لوگوں نے اس کو قائم کیا ہے۔ اور اس کی بنیاد میں حضرت باندوی جیسی بے لوث شخصیت آگئی کہ جن کا نام سنتے ہی لوگ عوام،خواص، امرا، فقراسارے لوگ ٹوٹ پڑے۔
اتنا بڑا مجمع سب کے کھانے پینے کا نظام کیا کرنے کا؟ لیکن اللہ جزائے خیر دے ہمارے سورت کے دوستوں کو۔سورت کے دوستوں نے کہا:بالکل فکر نہیں…ہم سب کو بریانی اور شولہ کھلائیں گے۔ شولہ اس زمانہ میں یہاں تھا ہی نہیں۔اور وہ سورت سے ساری چیزیں لائے۔برتن، چمچ اور باورچی بھی اور بڑے بڑے تاجر لوگ۔ کہا کہ آپ اپنے جلسہ کا پروگرام کیجیے سارے مہمانوں کو کھلانا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ اس جامعہ کی ایک شان بنانے والا تھا۔ تو اس کی سنگ بنیاد بھی شان والی ہی ہوئی۔ سب کا کھانا بہترین بریانی۔سورت کی بریانی اور سورت کا شولہ سب خوش ہوگئے۔ گجراتی لوگ بھی کہنے لگے کہ یہاں کیسا شولہ آگیا۔ میں نے کہا:یہ بزرگوں کی کرامت ہے، جب اہل اللہ آگئے، تو اللہ کی رحمت بھی جوش میں آئی۔اور اللہ نے ان کے لیے سارا انتظام کر دیا۔ وہ بیچارے سارے اللہ کی رحمت میں چلے گئے۔ محمد بھائی سونی والے تھے۔ بڑے اونچے لمبے تڑنگے آدمی میرے بڑے جگری دوست تھے۔ اور بہت بڑے تاجر تھے، توبہر حال ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس میں جن لوگوں نے مدد کی تھی سب اللہ کے ہاں چلے گئے۔ تو اللہ تعالی ان سب کی بال بال مغفرت فرمائے۔
سب وعدہ کرو کہ ہر بچہ ایک ایک قرآن شریف پڑھے روزانہ ایک پارہ کر کر۔ اور جامعہ کے شروع سے آج تک جتنے معاونین محسنین ہیں، مخیرین ہوں، یا دینی تعلق رکھنے والے، ان سب کی روحوں کو اس کا ثواب بخش دو۔ وعدہ کرو اللہ کے گھر میں وعدہ ہور ہا ہے۔ تمہارے لیے ایک قرآن پڑھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ ایک مہینہ کی مدت میں ایک قرآن آپ پڑھ لینا اور اپنی اپنی جگہ پر ان کے لیے دعا کر دینا۔ ہمارے حضرت باندوی رحمة اللہ علیہ،حضرت اجمیری رحمة اللہ علیہ، مولانا احمد اللہ صاحب، مولانا اجمیری صاحب،حضرت مولانا عبد اللہ صاحب، حضرت مولانا ذوالفقار صاحب،عبد المجید ندیم صاحب کا بھی انتقال ہوگیا۔ میں ایک مرتبہ حرم شریف میں بیٹھا تھا، انہوں نے دور سے دیکھ لیا، میرے پیچھے آئے اور زور سے دھکہ مارا، کہا اچھا ویرانوں میں ہم کو بلایا اور جب بہار آگئی تو یاد بھی نہیں کرتا۔
میں نے کہا:معاف کیجئے آپ ایسی جگہ رہتے ہیں،میں تو آپ کو بہت بلانا چاہوں، لیکن ہمارے اور تمہارے تعلق اتنا کشیدہ ہیں کہ ہم آپ کو بار بار نہیں بلا سکتے ہیں۔ پھر ہم کینیڈا گئے، کینیڈا والوں نے ہم کو دعوت دی ایک مسجد کی سنگ بنیاد کے لیے، میں مولانا ذوالفقار صاحب اور عبد المجید ندیم صاحب ہم تینوں ایک پروگرام میں وہاں دس دن ساتھ رہے۔ بہت اچھا رہا، بڑے اچھے آدمی تھے۔ بیچارو ں کا انتقال ہوگیا۔
میرے بچو!بات یہ ہے کہ یہ اکابرین کے ہاتھ کی بنیاد ہے، اور یہ اکابرین کی دعائیں ہیں۔ ان کی دعاؤں کی برکت ہے کہ اتنا بڑا مجمع یہاں ”اکل کوا“ جیسی” بوادِِ غیر ذی زرع“ میں بیٹھا ہوا ہے۔اور اتنے بڑے اساتذہٴ کرام کی جماعت یہاں آباد ہے۔ ھذا من فضل ربی…یہ میرے رب کا فضل ہے، اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے، کمال صرف اللہ ہی کا ہے، اللہ ہی نے اس کو بنایا ہے۔ اور اللہ ہی اس کو باقی رکھے گا۔ اور جو یہاں پڑھے گا وہ بھی چمکے گا، کیوں کہ ان سب کے لیے بزرگوں نے دعائیں کی ہیں کہ ،مدرسہ میں جو بھی آئے گا، پڑھے گا، پڑھائے گا، دے گا، دلائے گا سب کے لیے اس وقت دعا ہو رہی ہے۔
میرے بچو!یہ میں نے آج آپ کے سامنے جامعہ کی مختصر سی تاریخ بیان کر دی ہے۔ آپ لوگوں نے سنی بھی ہوگی، لیکن میری زبانی آپ لوگوں نے آج سنی ہے۔ اور میں نے آپ سے وعدہ لیا ہے کہ ہر طالب علم ایک قرآن شریف ایک مہینہ، دو مہینہ، میں بھی پڑھ کر ہمارے جتنے مشائخین حقہ یہاں سنگ بنیاد میں آئے تھے،اور جتنے مخیرین جنہوں نے جامعہ کا تعاون کیا۔
ہم بیٹھے تھے جدہ کے اندر میمنی والے، میں نے کہا:مسجد، تو بولے کہ مسجد ہماری طرف سے۔آپ کیوں فکر کر رہے ہیں۔ اس زمانہ میں پچیس (25)لاکھ کی مسجد بنی تھی، پہلا حصہ۔اس کے بعد طلبا کی تعداد بڑھ گئی ہمارے دوست فرید اور اقبال آئے، انہوں نے کہا کہ آپ بڑھا دو آگے۔ہم پیسے دے دیں گے۔
اس جامعہ کی یہ کرامت ہے کہ ایک ایک بلڈنگ ایک ایک بندے نے اخلاص کے ساتھ بغیر اپنے نام ونمود کے بنادی ہے، تو آگے کی بنی ہے پچیس لاکھ کی،دو ہی آدمیوں نے بنوائی ہے۔
﴿ھذا من فضل ربی لیبلونی ااشکر ام اکفرoومن یشکرفانما یشکر لنفسہ﴾
تو اللہ کا شکر ادا کرو! اللہ تم سے بھی ایسا کام لے گا۔وما ذلک علی اللہ بعزیز.اللہ کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں ہے، اللہ کے خزانہ میں تو بے شمار لوگ ہیں۔آپ جیسے نیک صالح بچے سب عہد کرو کہ ہم قرآن کی خدمت کریں گے۔ بولو! ان شاء اللہ۔
ہم قرآن کی خدمت کریں گے میرے بچو! جو قرآن کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے، وہ کبھی بھوکا نہیں مرے گا، وہ کبھی برہنہ نہیں رہے گا، اسے کوئی تکلیف نہیں آئے گی۔
میری فراغت کو پچاس سال ہوگئے، پچاس سال میں سے بیالیس سال یہاں ہو گئے ہیں، لیکن کبھی بھوکا نہیں رہا، اور کبھی بدن سے کپڑے نہیں نکلے اور کبھی قرض بھی نہیں ہوا، نہ میرا ہوا، نہ جامعہ کا ہوا۔ سامنے کی بلڈنگ حاجی عبد اللطیف صاحب نے بنادی ایک ایک بندے نے کام کردیا۔
دار العلوم کی بلڈنگ ایک آدمی نے بنادی تین کروڑ روپئے کی بنی، زامبیا کے آدمی نے۔ دینیات کی بلڈنگ فرید اقبال بھائی نے،ان کی ایک زمین تھی، کہا میں نے دے دی تو بیچ کر بنالے۔ اٹھارہ کروڑ روپئے کی بلڈنگ۔
تو اللہ تعالیٰ اس ادارے سے آپ جیسے نیک صالح بچوں کو بنانا چاہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اسباب دے دیے۔ورنہ آج کسی گھر میں ایک دروازہ بٹھانا ہو تو اس کے لیے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔
﴿ ھذا من فضل ربی لیبلونی ااشکر ام اکفر.ومن یشکرفانما یشکر لنفسہ﴾
وصفِ شکر پیدا کرو، ماں باپ کا شکر، اساتذہ کا شکر، جامعہ کے معاونین کا شکر، جامعہ کے خادمین کا شکر، جو جتنا شکر ادا کرے گا اپنے اساتذہ کا ،اپنے بڑوں کا ،اللہ اس کو نوازے گا۔ میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں میں کبھی دعا میں اساتذہ کو بھولتا نہیں، میرے وہ استاذ جن سے میں نے الف ،با پڑھا ہے، احسن القواعد پڑھا، میں ان کے لیے بھی روزانہ بلا ناغہ دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ محسن کا احسان نہیں بھولنا چاہیے۔ جس نے ہم پر احسان کیا، کسی نے کھلایا، کسی نے پلایا، میں سناتا رہتا ہوں کہ میرے والد کے دوست نے مجھے دیڑھ سو روپئے دیے اور کہا کہ تجھے سہارنپور جانا ہے، اللہ اکبر!میں ان کے لیے بہت دعا کرتا ہوں ۔اے اللہ! انہوں نے مجھے دیڑھ سو روپئے دیے۔میرے پاس ایک پیسہ نہیں تھا، اور میں شیخ کے پاس گیا، میں بزرگوں کو ملا۔ تو آج بھی میں ان کے لیے دعا کرتا رہتا ہوں۔
کبھی محسن کا احسان نہ بھولنا۔ایک مرتبہ چھٹی ہوئی میرے پاس پیسے نہیں تھے، استاذ نے دیکھا کہ کیوں گھوم رہا ہے، گھر نہیں جا رہا ہے، میں نے کہا کرایہ نہیں ہے۔ اللہ اکبر!انہوں نے پانچ روپے میرے کو دیے؛ حالاں کہ میرا کرایہ پچاس پیسے تھا۔ ان کے لیے بھی دعا کرتا ہوں۔
مولانا فاروق صاحب ابھی وہ لندن میں ہیں، میرے بچو! تمہیں اگر زندگی میں کچھ دیکھنا ہو تو ﴿ لان شکرتم لازیدنکم ولان کفرتم ان عذابی لشدید ﴾ آیت کریمہ پر عمل کرو۔
وما علینا الاالمبین۔