پہلی قسط:
حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒکی تحریر وتقریر کی روشنی میں
حذیفہ بن مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ
(رئیس جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)
اس دور میں دہریت ،الحاد اور ایتھیزم کا دور دورہ ہے،مسلم عوام تو عوام خواص کہے جانے والے بعض حفاظ اور مدارس کے طلبہ وطالبات کے واقعات بھی اب ارتداد کے تعلق سے بکثرت سننے آرہے ہیں،اور امت کا ایک بڑا طبقہ علما اور اکابر کی کتابوںکے مطالعہ سے دور اور عقائد سے عدم واقفیت کی بنیادپر،نیز سوشل میڈیاکے پلیٹ فارم سے اغیار اور ایکس مسلم وغیرہ کے اعتراضات سن کر شکوک وشبہات میں مبتلا ہے ، تعلیمی ادارے اور دیگر دنیوی مشاغل کے موقع پر غیروں کے ساتھ کثرتِ اختلاط اور مرعوبیت کی وبا سم قاتل ثابت ہورہی ہے،پہلے خیالات مکدر ہورہے ہیں،پھر افکارمتأثر اورمادہ پرستی کا آخری وار ان کو بالآخر اسلام سے محروم کیے دے رہا ہے۔ اللہ ہماری اور تمام مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ دوسری طرف قادیانیت، شکیلیت، احمدیت،غامدیت،مرزائیت جیسے بے شماراسلامی لبادے اوڑھے قذاق ِایمان واسلام نے قرآن وحدیث کی غلط تشریح کے ذریعہ کفر وزندقہ کا بازار گرم کررکھا ہے اور ایسی ضلالت وگمراہی پھیلا رکھی ہے کہ الامان والحفیظ۔
ایسے ماحول اور حالات میں ہم علما،طلبہ، اساتذہ ،ائمہ،خطباء ،دعات اور ہر شعبے سے منسلک وارثین انبیاء کی سب سے بڑی ذمے داری ہے کہ ہم عقائد پر بھر پور محنت کریں ،خود بھی اکابر کو پڑھیں اور ہر شعبے سے منسلک امت مسلمہ تک صحیح عقیدے کو پہنچائیں ، عقائد اسلام کی حقانیت ان کے ذہن میں دلائل کی روشنی میں رچا اور بسا دیں،سائنٹیزم کے فتنے سے امت کے پڑھے لکھے طبقے کو آگاہ کریں،اور اسی لائن سے اس کا علاج کریں،غرض اس وقت’’ تحفظ ِعقائد اسلامیہ ‘‘کو ایک تحریک اور مشن کے طور پر عمل میں لانا ہوگا ،ہر سو اس کی فضا قائم کرنی ہوگی ،جس وقت جو فتنہ جس شدت کے ساتھ اٹھے ،اسے اسی قوت کے ساتھ دبانا ضروری ہے۔
ہمارے یہاں ابھی ششماہی امتحان کے موقع پر ۲۰؍یوم کی چھٹی ہوتی ہے،بندے کی ہمیشہ سے یہ فکر رہی ہے کہ ہمارے طلبہ ،اپنی تعطیلات کو کار آمد بنائیں اور طالب علمی کے دور سے ہی امت میں دین ودعوت کا کام کریں،بریں بنا ہم شاہراہ کا خاص نمبر عام طور سے رمضان کے تعطیلات پر نکالتے ہیں ،لیکن فتنے کے اس دور میں عقائد پر محنت بہت ضروری ہوگئی ہے ،اور عقل پرستی کے اس دور میں ضرورت ہے کہ عقل ونقل ہر دو کی روشنی میں امت کی رہنمائی کی جائے۔رمضان ۱۴۴۶ھ کے موقع پر بھی۲۵۶ صفحات پر مشتمل ’’تحفظ عقائد اسلامیہ‘‘ کا نمبر نکالا گیا تھا، جس میں ایمان پر ثابت قدمی اور فلاح ِدین ودنیا کے لیے، جن بنیادی امور سے واقفیت ضروری تھی ،اسے بیان کیا گیا ہے۔اسی طرح ایمان واسلام اور عقیدے سے متعلق ضروری وبنیادی اصطلاحات کی تعریفات اور اس سے واقفیات کروائی گئی ہے اور اسی طرح عصر حاضر میں اسلام کو ڈھا دینے والے نظریات : الحاد،سیکولرزم، لبرلزم، ہیومینزم، سوشیلزم، نیشنلزم، میٹریلزم، ڈارونزم، فرائڈزم، ڈیموکرسی، کمیونزم، کیپیٹیلزم وغیرہ کی تعریفات اور تنقیصات اس میں ضروری تفصیلات کے ساتھ بیان کردی گئی ہیں۔
رسالہ ہذا میں عقلی اعتبار سے اثباتِ توحید ورسالت ،آخرت ومعاد کا التزام کیا جارہا ہے،حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف’’ حجۃ الاسلام‘‘ میں بڑی مضبوطی کے ساتھ ان چیزوں کوبیان کیا ہے ، جسے بندے نے نہایت مفید اور ضروری جانا ،کیوں کہ حجۃ الاسلام نے جن اصولوں کو بنیاد بناکر گفتگو کی ہے ،انہیں کوئی چیلینج نہیں کرسکتا وہ مسلم ہیں ،ہاں البتہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اسے کچھ سہل انداز میں عصر حاضر کے مثالوں سے سمجھایا جائے ،جس کی بندے نے اپنی اس تحریر میں اپنی سی کوشش کی ہے ،اور اسے حکیم فخر الاسلام صاحب جو ایک عرصے سے حضرت نانوتوی اور حضرت تھانوی رحمہما اللہ پر نہایت مضبوط اور مقبول کا م کررہے ہیں نے کافی پسند کیا اور اس طرح کی چیزوں کوامت میں لانے کی خواہش بھی ظاہر کی ،بریں بنا اس کی پہلی کڑی نظر قارئین ہے ۔
تخلیق خداوندی اور انسان کا مقصد ِحیات :
حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس اہم بحث کو چند نکات اور عقلی مسلمات کی روشنی میں چھیڑا ہے :پہلا نکتہ:
اللہ رب العزت نے اس دنیا اور اس میں بس رہی تمام مخلوقات کو بنایا اور اسی دنیا میں انسان کو پیدا کیا۔ اور اللہ رب العزت’’علیم، حکیم اور خبیر‘‘ ہیں، اور اصول ہے کہ حکیم کا کوئی بھی کام علم، حکمت اور بصیرت سے خالی نہیں ہوتا۔ اسی اصول کے تحت، انسان کی پیدائش بھی کسی عظیم مقصد کے تحت کی گئی ہے۔
دوسرے نکتے میں حضرت نے ارشاد فرمایا: کہ
اس روئے زمین پر جتنی بھی مخلوقات ہیں، ہر ایک کی تخلیق کا کوئی نہ کوئی مقصد اور غرض و غایت ہے؛ جب یہ بات دیگر مخلوقات کے لیے درست ہے، تو پھر انسان کی بھی کوئی نہ کوئی غرض و غایت ضرور ہونی چاہیے۔
انسان کی محتاجی اور بندگی کا مقصد:
تیسرے نمبر پر، حضرت نے ایک اور انتہائی قیمتی بات ارشاد فرمائی:
٭…انسان اللہ کی مخلوق ہے، اور اس کے مخلوق ہونے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اور ہر کام میں کسی کا محتاج ہوتا ہے۔ محتاجگی اور نیازمندی انسان کے وجود کا لازمی حصہ ہے، اس کے برعکس، اللہ رب العزت’’خالق‘‘ اور’’غنی‘‘ ہیں، یعنی وہ ہر چیز سے بے نیاز ہیں، انہیں کسی کی کوئی ضرورت نہیں۔
جب کہ انسان ہر وقت کسی نہ کسی چیز کا محتاج ہے: اگر وہ سانس نہ لے تو مر جائے، پانی نہ پیے تو جان نکل جائے، کچھ دن تک کھانا نہ ملے تو روح کا ساتھ چھوٹ جائے، اور اگر نیند پوری نہ ہو تو پاگل پن کے دورے پڑنے لگیں۔ یہ محتاجی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انسان مخلوق ہے، معبود نہیں؛ کیوں کہ مخلوق ہمیشہ محتاج ہوتی ہے، جب کہ خالق یعنی اللہ بے نیاز ہے۔
اللہ کو کھانے، پینے اور سونے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید میں ہے:
{لَا تَاْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلَا نَوْمٌ}۔
(سورۃ البقرہ:۲۵۵)
یعنی’’نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند‘‘۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان مخلوق ہے، معبود نہیں، بل کہ وہ’عابد‘ (عبادت کرنے والا) ہے۔ ہاں لیکن وہ مخلوق کی عبادت نہیں کرے گا، جس پر وہ خود قابو پالیتا ہے اور وہ خود محتاج ہیں؛ بل کہ اپنے خالق کی عبادت کرے گا جو بے نیاز ہے۔ اور خالق کی عبادت میں بھی خالق کا کوئی فائدہ نہیں، بل کہ اس میں خود انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے۔
عبادت اور اطاعت کا فائدہ انسان کے لیے:
آیے ہم اسے حجۃ الاسلام ؒکے ذکر کردہ ایک سادہ اور مؤثر مثال سے سمجھتے ہیں: کہ
جب آپ کسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور وہ آپ کو علاج کے سلسلے میں یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر آپ کو کھانسی ہو رہی ہے تو ٹھنڈا پانی نہ پئیں، تو اس ہدایت پر عمل کرنے سے کسے فائدہ ہوتا ہے؟ فائدہ ہمیں ہی ہوتا ہے، کیوں کہ ہماری بیماری جلد ٹھیک ہو جائے گی۔اور اگر ہم ٹھنڈے پانی سے پرہیز نہیں کرتے اور اسے پیتے ہیں تو نقصان کس کا ہوگا؟ نقصان بھی ہمارا ہی ہوگا۔
اس مثال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح ڈاکٹر کی بتائی ہوئی بات پر عمل کرنے سے مریض کا اپنا فائدہ ہے اور عمل نہ کرنے سے مریض کا اپنا ہی نقصان ہے، بالکل اسی طرح اللہ کی عبادت اور اطاعت کرنے میں بھی بندے کا اپنا فائدہ ہے اور اس کی نافرمانی کرنے میں بھی بندے کا اپنا ہی نقصان ہے۔
عقلِ انسانی اور ہدایتِ دنیوی :
اس کے بعد، حجۃ الاسلام ؒنے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے ہر انسان کو عقل سے نوازا ہے، اگرچہ اللہ نے اپنی تمام مخلوقات کو کسی نہ کسی درجے کی سمجھ دی ہے، لیکن انسان کی عقل سب سے اعلیٰ ہے۔ آپ دنیا کے تمام پرندوں، درندوں، چرندوں، اور دیگر مخلوقات کو دیکھ لیں، اللہ نے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ سمجھ عطا کی ہے۔
قرآنِ کریم بھی اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اسے ہدایت دی۔
{الَّذِیْ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقہٗ ثُمَّ ھَدی}۔
(سورۂ طہ:۵۰)
ہمارے علما نے ہدایت کی دو اقسام بیان کی ہیں:
ایک ہے’’ہدایتِ دنیوی‘‘، یہ وہ ہدایت ہے جو دنیاوی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عطا کی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر، پرندوں کو دیکھیں، جب وہ انڈے دیتے ہیں اور ان سے بچے نکلتے ہیں تو وہ بہت کمزور ہوتے ہیں اور خود کھانا نہیں کھا سکتے، اللہ نے ان کے ماں باپ کو یہ سمجھ عطا کی ہے کہ انہیں اپنے بچوں کو کھانا لا کر کھلانا ہے۔ یہ ہدایتِ دنیوی ہے، جو کھانے پینے جیسی بنیادی ضروریات کے لیے دی گئی ہے۔
عقلِ انسانی اور ہدایتِ اخروی :
دوسری مخلوقات کے برعکس، انسان کے پاس ایک’’اضافی عقل‘‘ ہے جسے’’ہدایتِ اخروی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ہدایت اللہ رب العزت نے انسان کو دی ہے اور اس کے مقصد کے لیے اسے وافر عقل عطا فرمائی ہے۔ یہ اضافی عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کا بھی کوئی خاص کام اور وظیفہ ہونا چاہیے۔ اللہ نے انسان کو یہ زائد عقل بے مقصد نہیں دی، بل کہ اس کا ایک عظیم مقصد ہے۔
عقل کا مقصد،معرفتِ رب اور معرفتِ نفس :
عقل کا سب سے پہلا کام اپنے رب کی معرفت حاصل کرنا ہے اور دوسرے نمبر پر اپنی ذات کی معرفت(پہچان)کا حصول ہے۔ انسان کو یہ زیادہ عقل اس لیے دی گئی تاکہ وہ اس کے ذریعے اللہ کو پہچانے اور جب اللہ کو پہچان لے تو پھر اس کی اطاعت میں پوری طرح لگ جائے۔
اسی لیے فرمایا گیا ہے ’’مَنْ عَرَفَ رَبَّہُ فَقَدْ عَرَفَ نَفْسَہُ‘‘ (جس نے اپنے رب کو پہچان لیا، اس نے اپنی ذات کو بھی پہچان لیا)۔
(حلیۃ الاولیاء: جلد۱۰۔ص:۲۰۸،سھل بن عبداللہ)
اس کے برعکس، جو شخص اپنے رب کو نہیں پہچان پایا، وہ اپنے آپ کو بھی نہیں پہچان سکتا۔ قرآنِ کریم میں ہے: {نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسَاہُمْ اَنْفُسَہُم}۔
(سورۃ الحشر: ۱۹)
یعنی’’’انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، تو اللہ نے بھی انہیں ان کی ذات سے غافل کر دیا‘‘۔
فلسفۂ قدیم اور جدید کا موازنہ :
حجۃ الاسلام کے حاشیہ میں حکیم فخر الاسلام صاحب نے یہ لکھا ہے کہ اس بحث کو سمجھنے کے لیے سب سے اہم چیز فلسفے کی دو اقسام کو سمجھنا ہے۔
ایک ہے: ’’فلسفۂ قدیم‘‘، جسے’’ حکمتِ یونان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اور دوسرا ہے ’’فلسفہ ٔجدید‘‘، جسے ’’سائنس‘‘ کہتے ہیں۔
فلسفۂ جدید کے بانی، رینے ڈیکارٹ، اور ان کی فکری غلطی :
فلسفۂ جدید کا بانی اور مدوّن’’رینے ڈیکارٹ‘‘(Descartes Ren) ہے۔ اس نے سب سے بڑی غلطی یہی کی کہ وہ کہتا ہے:
’’انسان کے پاس عقل تو ہے، لیکن اس عقل سے انسان سوائے اپنی ذات کے کسی اور کو نہیں پہچان سکتا۔‘‘ اسی سوچ سے الحاد کی بنیاد پڑی۔
رینے ڈیکارٹ نے کہا: ’’میں سوچ رہا ہوں کہ میں ہوں، اس لیے میں ہوں‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف اپنے بارے میں تو یقین سے کہہ سکتا ہے کہ وہ موجود ہے، لیکن اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کے وجود کے بارے میں وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا؛ اسی شک کی وجہ سے جدید سائنس دانوں کو’’شاکین‘‘ یعنی شک کرنے والا گروہ کہا جاتا ہے۔
فلسفۂ یونان اور سوفسطائیہ کا فکری مغالطہ :
ہمارے علما نے یہ بھی لکھا ہے کہ فلسفۂ یونان کے دور میں’’سوفسطائیہ‘‘ نامی ایک جماعت گزری ہے، جو یہ دعویٰ کرتی تھی کہ دنیا میں کوئی بھی چیز حقیقت نہیں رکھتی۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ’’آپ کو ایسا لگتا ہے کہ سورج ہے مگر وہ نہیں ہے، انسان نظر آ رہا ہے مگر وہ بھی نہیں ہے‘‘۔
جب لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو ان کا جواب تھا کہ’’آپ سوچ رہے ہیں کہ فلاں چیز ہے، اس لیے وہ ہے‘‘۔
اس کے جواب میں لوگوں نے ایک دلیل پیش کی کہ جب انسان پانی پیتا ہے تو تھوڑی دیر بعد اس کا پیٹ بھر جاتا ہے اور وہ مزید نہیں پی سکتا، اگر یہ سب کچھ صرف ایک خیال ہوتا تو پھر پیاس کا کوئی احساس ہی نہ ہوتا اور انسان پیتے ہی چلا جاتا۔ یہ جسمانی اور مادی حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ اشیا حقیقت میں موجود ہیں۔
امام بزدویؒ کی’’اصول الدین‘‘ اور قدیم علمِ کلام :
امام بزدویؒ نے’’اصول الدین‘‘ کے نام سے ایک بہترین کتاب لکھی۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اللہ کی وحدانیت اور وجود کو ثابت کرنے سے پہلے گیارہ اہم مباحث کو ذکر کیا گیا ہے۔
جب میں نے حکیم فخر الاسلام صاحب کو اس کتاب کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا کہ’’واقعی، میں نے قدیم فلسفے میں یہ چیزیں پڑھی ہیں۔ آپ فوراً مجھے امام بزدویؒ کی یہ کتاب بھیجئے، میں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے کن مباحث کو چھیڑا ہے‘‘۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ امام بزدویؒ پانچویں صدی ہجری کے تھے، یعنی آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے کے۔ وہ متکلم نہیں بل کہ فقیہ تھے، اصولِ فقہ اور فقہ کے آدمی تھے، لیکن قرونِ اولیٰ کے بزرگ ہر فن کے ماہر ہوتے تھے۔آپ کی یہ کتاب بڑی شانداراور آسان ہے! اس کتاب کو پڑھ کریہ خیال ہوا کہ مدارس میں’’پنجم‘‘ اور’’مشکوٰۃ‘‘ کے سال یہ کتاب پڑھائی جانی چاہیے؛ تاکہ طلبہ کو علمِ کلام اور اس کی اہمیت سمجھ آئے آپ نے اپنی اس کتاب میں علم کلام کے دقیق مباحث کو نہایت سہل انداز میں بیان کردیا ہے۔ وہ ایک یا ڈیڑھ صفحے میں ایک ایک بحث کو بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی پرانے زمانے کے تمام فرقوں کا رد بھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اسلام کے بعد آنے والے معتزلہ، مجسّمہ، حشویہ، جسدیہ، روافض، اور دیگر تمام فرقوں کا رد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کا صحیح مسلک کیا ہے اور دوسرے فرقے اس بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہمارے بزرگوں کو بہترین جزا عطا فرمائے کہ انہوں نے ان تمام مباحث کو بیان کیا۔
مقصدِ تخلیقِ انسانی اصولِ ہشتگانہ کی روشنی میں :
گذشتہ ابتدائی صفحات میں مقصد ِتخلیق انسانی ودیگر مخلوقات کے مقاصد ِتخلیق اور انسان کی محتاجگی کو اختصاراً بیان کیا گیا تھا ؛یہاں پر اصول ِہشتگانہ کے تحت تکرار مفیدکے طور پر قدرے تفصیل اور کچھ الگ انداز میں دوبارہ قارئین کے پیش خدمت کیا جارہا ہے،تاکہ یہ باتیں ہمیں اچھی طرح ذہن نشیں ہو جائیں۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے’’اصولِ ہشتگانہ‘‘ (آٹھ اصول) بیان کیے اور انہیں عقل سے ثابت کیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اگر ان آٹھ اصولوں کو سمجھ لیا جائے تو اسلام کی حقانیت ثابت ہو جاتی ہے۔
پہلا اصول: اصولِ افادیت (Utilitarianism)
آٹھ اصولوں میں سے پہلا اصول ’’اصولِ افادیت‘‘ (utilitarianism) ہے۔ اس کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز کسی نہ کسی کے کام کی ہے۔ اسی طرح، انسان کو بھی کسی نہ کسی کے کام کا ہونا چاہیے۔ یہ ممکن نہیں کہ دنیا کی تمام چیزیں انسان کے فائدے کے لیے ہوں اور خود انسان کی تخلیق کا کوئی مقصد نہ ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق اور مالک کے لیے بنایا گیا ہے۔
دوسرا اصول: حکیم کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا:
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ’’حکیم‘‘ ہیں اور ایک حکیم کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا؛ لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ نے انسان کو بے مقصد پیدا کیا ہو۔
اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اس نے انسان کو کسی نہ کسی مصلحت اور مقصد کے تحت بنایا ہے، اور وہ مقصد اللہ کی اطاعت ہے۔
تیسرا اصول:حادث کے لیے محدث کا ہونا ضروری ہے:
تیسری بات یہ ہے کہ انسان ایک مخلوق ہے، یعنی وہ’’حادث‘‘ ہے؛ وہ پیدا ہوا ہے، ہمیشہ سے موجود نہیں تھا،پوری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے۔ جب انسان ایک حادث ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی ہستی ضرور ہونی چاہیے، جس نے اسے وجود بخشا؛لہٰذا یہ بات بھی تقاضا کرتی ہے کہ انسان مخلوق ہے اور اس کا کوئی خالق ہونا ضروری ہے۔ عقل بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے۔
چوتھا اصول: عبادت کا فائدہ انسان کو ہی ہوتا ہے:
چوتھی اہم بات یہ ہے کہ انسان جو کچھ بھی عبادت کرتا ہے، اس کا فائدہ خود انسان کو ہی پہنچتا ہے، اللہ کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور نہ اللہ کو اس کی غرض ہے؛ جیسا کہ حضرت نے حکیم کی مثال سے وضاحت فرمائی کہ اگر آپ کسی حکیم کی بتائی ہوئی بات پر عمل کریں گے تو اس کا فائدہ آپ کو ہوگا، اور اگر آپ ڈاکٹر یا حکیم کی بات پر عمل نہیں کریں گے تو نقصان بھی آپ کا ہی ہوگا۔
پانچواں اصول: انسان کی محتاجی اور بندگی:
آخر میں، حضرت نے اس پوری بحث کو سمیٹتے ہوئے ایک اور اہم بات بیان کی۔ انسان ہر وقت اور ہر حال میں محتاج، حاجت مند اور ضرورت مند ہے۔ بچپن میں اسے ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے، اور بڑے ہونے پر نوکری، کھانے پینے جیسی بنیادی ضروریات کا محتاج ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، خالق اور معبود کسی کا محتاج نہیں ہوتا، وہ ہر ایک سے بے نیاز ہے؛ لہٰذا انسان خالق یا معبود نہیں ہو سکتا۔
خلاصہ :
ان تمام اصولوں کی روشنی میں عقل یہ تقاضا کرتی ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو عقل دے کر اپنی تمام مخلوقات میں افضل بنایا اور اپنی اطاعت کے لیے پیدا کیا؛جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا کہ عقل کا سب سے پہلا کام اپنے خالق کی معرفت حاصل کرنا ہے، اور اس کے بعد اپنی ذات کو پہچاننا ہے۔
حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا قول :
اصولِ ہشت گانہ سے پہلے حکیم فخر الاسلام صاحب نے حکیم الامت مجددالملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ایک انتہائی قیمتی بات بیان کی ہے۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ’’جب میں نے شریعت کو پڑھا تو میں نے پوری شریعت کو’عقلِ سلیم‘ کے مطابق پایا‘‘۔
پھر انہیں تعجب ہوا کہ جب شریعت عقلِ سلیم اور فطرتِ سلیمہ کے مطابق ہے، تو یہ لوگوں کو سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟ وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ دنیا میں عقلِ سلیم اور فطرتِ سلیمہ کے حامل لوگ بہت کم ہیں۔
عمل اور حکمت کا تعلق :
حضرت تھانویؒ نے مزید فرمایا: کہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پہلے وہ شریعت کی حکمتوں کو سمجھیں اور اس کے بعد عمل کریں؛ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان شریعت پر عمل کرنا شروع کرتا ہے، تو اس کی حکمتیں خود بخود سمجھ میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
لہٰذا انسان کو پہلے حکمت جاننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، بل کہ شریعت پر عمل شروع کر دینا چاہیے۔ اس سے اللہ رب العزت خود اس پر حکمتوں کو’’منکشف‘‘ (ظاہر) کر دیتے ہیں اور اسے ساری چیزیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔
عقل کے بعد نبوت کی کیا ضرورت :
اللہ نے انسان کو عقل دی تو نبی کی ضرورت نہیں تھی۔ انسان صرف عقل سے بھی ہدایت پا سکتا تھا، لیکن چوں کہ دنیا میں آنے کے بعد اسے اچھا ماحول نہیں ملتا، اور اس کے پیچھے شیطان اور نفس لگا ہوا ہے، اس لیے اس کے عقلِ سلیم پر پردے پڑ جاتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ نبیوں کی ضرورت پڑی۔
ورنہ نبوت اور رسالت کے بغیر بھی صرف عقل سے انسان ہدایت پاسکتا تھا، مگر اس کے باوجود، اللہ نے انسان پر رحم کیا اور نبیوں کو بھیج کر اسے ہدایت کا صحیح راستہ دکھایا۔
یہاں حکیم الامت مجددالملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات بالکل درست واقع ہوتی ہے۔
انسان کا وجود اور شریعت کا کردار:
حضرت فرماتے ہیں کہ انسان دراصل تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے:
(۱)انسان کا جسم۔(باڈی)
(۲)انسان کی فطرت، طبیعت اور نفس۔
(۳)انسان کی عقل ۔
جب انسان اپنے جسم واعضاء سے کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ایک طرف اس کی عقل کچھ کہتی ہے اور دوسری طرف اس کا نفس کچھ اور کہتا ہے۔ انسان ان دونوں کے درمیان پریشان ہو جاتا ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’شریعت و طریقت‘‘ میں اس کو ایک عجیب انداز میں سمجھایا ہے، جب انسان پر کوئی غم یا مصیبت آتی ہے، تو اس کا نفس کہتا ہے کہ خوب غم مناؤ، کپڑے پھاڑو، چیخو چلاؤ اور اپنی پریشانی کا اظہار کرو، لیکن اس کی عقل کہتی ہے کہ یہ سب کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟ انسان ان دونوں کے درمیان یہ سوچتا رہتا ہے کہ کیا کرے۔ عقل کی مانے یا نفس کی؟
ایسے موقع پر شریعت بیچ میں آتی ہے اور دونوں کی رعایت کرتی ہے؛ عقل کی بھی اور نفس کی بھی اور صحیح طریقہ بتاتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور شریعت کا تواز ن:
آپ اکے صاحبزادے کے انتقال پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو گئے۔ فوراً ایک صحابی نے سوال کیا:’’یا رسول اللہ! آپ تو نوحہ کرنے سے منع فرماتے ہیں، اور آپ رو رہے ہیں؟‘‘
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ:ایک ہے غم کا اظہار اور دوسرا ہے غم پر واویلا۔ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ شریعت نوحہ کرنے، کپڑے پھاڑنے اور چیخنے چلانے سے منع کرتی ہے۔
انسان ایک حساس مخلوق ہے ،اسے تکلیف تو ہوگی؛ لہٰذا، جو میرا رونا ہے، یہ نوحہ نہیں ہے۔ نوحہ منع ہے، لیکن رونا شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔ اس طرح شریعت نے اظہار غم میں ایک توازن قائم کر کے بتایا ہے۔(یہ ایک حدیث کا مفہوم ہے)
(سنن ابی داؤد:3، صفحہ: 193، 20 – کتاب الجنائز، باب فی البکاء علی المیت)
خوشی کا اظہار اور شریعت کا تواز ن:
جب انسان کو کوئی خوشی ملتی ہے، اس کی من چاہی چیز مل جاتی ہے، تو اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ اچھلے، کودے، چیخے، چلائے، ناچے، پٹاخے پھوڑے، تالیاں اور سیٹیاں بجائے، لیکن شریعت کہتی ہے کہ خوشی کا اظہار کرو، اس کی اجازت ہے،اور اس کے لیے تم الحمدللہ، سبحان اللہ، اور اللہ اکبر کہہ سکتے ہو، مگر یہ حرکتیں نہیں کر سکتے۔ اس طرح شریعت خوشی کے اظہار میں بھی ایک توازن قائم کرتی ہے۔
انسان میںتین قوتیں ہیں:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور عجیب بات ارشاد فرمائی، کہ انسان کے اندر تین قوتیں ہیں:
(۱)قوتِ عقلیہ (عقل کی قوت)
(۲)قوتِ شہویہ (خواہشات کی قوت)
(۳)قوتِ غضبیہ (غصے کی قوت)
انسان اپنی پوری زندگی انہی تین قوتوں کے مطابق گزارتا ہے۔
عقل کا بے جا استعمال اور ’’جزبرہ‘‘:
اس کے بعد حضرت فرماتے ہیں کہ اگر انسان اپنی عقل کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرے اور وحی الٰہی کو چھوڑ دے تو وہ’’جزبرہ‘‘ کا شکار ہو جاتا ہے۔’’جزبرہ‘‘ کا مطلب ہے ضرورت سے زیادہ ایڈوانس ہونا۔
حکما ء اور فلسفیوں نے صرف اپنی عقل کی بنیاد پر یہ سوچا کہ دنیا ایسی ہے، آسمان ایسا ہے اور زمین ایسی ہے۔ یہ تمام سائنس دان اور فلسفی اسی’’جزبرہ‘‘ کا شکار ہیں کہ انہوں نے وحی سے کٹ کر صرف اپنی عقل کی روشنی میں چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور عقل کے استعمال میں افراط (حد سے تجاوز) کر گئے۔ اسی افراط کو’’جزبرہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
عقل میں اعتدال اور ’’حکمت‘‘:
اس کے بعد حضرت تھانوی ؒفرماتے ہیں کہ اگر انسان اپنی عقل میں اعتدال رکھے، یعنی وحی الٰہی اور فطرتِ سلیمہ کے مطابق چلے تو یہ ’حکمت‘‘ کہلاتا ہے۔ عقل کی یہ قوت مطلوب ہے۔
عقل کا عدم استعمال، جہالت اور سفاہت :
اگر انسان اپنی عقل کا استعمال نہ کرے، یعنی اس میں تفریط (کمی) کرے، تو پھر’’جہالت اور سفاہت‘‘ پیدا ہوتی ہے۔اس طرح عقل کے تین درجات ہیں:
(۱)جزبرہ: عقل کا ضرورت سے زیادہ اور وحی سے کٹ کر استعمال کرنا۔
(۲)حکمت: عقل کا اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا۔
(۳)جہالت اور سفاہت: عقل کا بالکل استعمال نہ کرنا۔
مطلوب اور صحیح درجہ حکمت ہے جو اعتدال سے پیدا ہوتی ہے، اور یہ اعتدال شریعت کی پیروی سے حاصل ہوتا ہے؛ لہٰذا نہ تو’’جزبرہ‘‘ کا شکار ہونا چاہیے اور نہ ہی جہالت و سفاہت کا، بل کہ حکمت کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس طرح قوتِ عقلیہ کا اعتدال ہی حکمت ہے۔
قوتِ شہویہ کی تین حالتیں:
اللہ رب العزت نے انسان کو دوسری قوت’’قوتِ شہویہ‘‘ (شہوانیت) عطا فرمائی ہے۔ اس میں بھی یا تو افراط (حد سے تجاوز)، تفریط (کمی)، یا اعتدال ہوتا ہے۔
(۱)افراط: جب قوتِ شہویہ میں افراط ہو تا ہے تو انسان فسق و فجور کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ حلال اور حرام کی تمیز کیے بغیر زندگی گزارتا ہے۔ اجنبیہ اور بیوی اس کی نظر میں برابر ہو جاتی ہیں، اور وہ مال کمانے میں سود اور حرام کی پروا نہیں کرتا۔
( ۲)اعتدال:جب قوتِ شہویہ میں اعتدال پیدا ہوتا ہے تو اسے’’عفت‘‘ کہا جاتا ہے۔
(۳)تفریط:اور اگر قوتِ شہویہ میں تفریط ہو جائے، یعنی انسان اپنی شہوانی قوت کا استعمال ہی نہ کرے تو اسے’’جمود‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس حالت میں انسان بے حس ہو جاتا ہے، اسے دنیا میں ہونے والے اچھے یا برے واقعات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چاہے وہ دین کے معاملے میں ہوں یا دنیا کے۔
قوتِ غضبیہ،تین حالتیں:
تیسری قوت جو اللہ نے انسان کو عطا کی ہے، وہ’’قوتِ غضبیہ‘‘ یعنی غصے کی قوت ہے۔ اس میں بھی تین حالتیں ہوتی ہیں:
(۱)افراط: جب قوتِ غضبیہ میں افراط ہو جائے تو اسے ’’تہوُّر‘‘ (یعنی ضرورت سے زیادہ جوش) کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں انسان ظلم پر آمادہ ہوتا ہے اور لوگوں پر ظلم کرتا ہے۔
(۲)اعتدال: جب قوتِ غضبیہ میں اعتدال ہو، یعنی انسان اپنی اس قوت کو شریعت کے مطابق استعمال کرے تو اسے’’شجاعت‘‘ کہا جاتا ہے۔
(۳)تفریط: اور اگر انسان اپنی قوتِ غضبیہ کا بالکل استعمال ہی نہ کرے، یعنی اسے غصہ ہی نہ آئے تو اسے’’جبن‘‘ بزدلی کہا جاتا ہے۔
تمہید کا خلاصہ :
اس تمہید کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر انسان اپنی عقل کو شریعت کے مطابق استعمال کرے تو اس میں حکمت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح، اگر وہ اپنی شہوانیت کو شریعت کے مطابق استعمال کرے تو عفت اور پاکدامنی حاصل ہوتی ہے۔ اور اپنے غضب کو شریعت کے مطابق استعمال کرے تو انسان میں شجاعت پیدا ہوتی ہے۔
اس کے برعکس، اگر ان تینوں قوتوں (عقل، شہوت، اور غضب) میں افراط (حد سے تجاوز) یا تفریط (کمی) ہو جائے تو انسان بھٹکتا رہتا ہے۔اسی لیے، جتنے بھی حکما اور فلسفی ہیں، وہ سب’’جزبرہ‘‘ (عقل کا حد سے زیادہ استعمال) کے شکار ہیں، اور جو لوگ بت پرستی یا الحاد کی طرف مائل ہیں، وہ سب’’سفاہت اور جہالت‘‘ کے شکار ہیں؛لہٰذا، ہمیں حکمت کو سمجھنا اور اپنانا چاہیے۔
اللہ کی اطاعت کا حصول :
اللہ کی اطاعت انسان کو دو چیزوں سے حاصل ہوتی ہے:
(۱)اللہ کی معرفت: اسی لیے{الحمد للّٰہ رب العالمین}اور {قل ہو اللّٰہ احد} جیسی سورتوں میں اللہ کا تعارف کرایا گیا ہے؛ تاکہ انسان چھوٹی سورتوں کے ذریعے بھی اللہ کی پہچان حاصل کر سکے۔ قرآن میں مختلف مقامات پر اللہ نے اپنا تعارف تفصیل سے کروایا ہے، لیکن سورۂ اخلاص ’’قل ہو اللہ احد‘‘ میں اللہ کا سب سے جامع تعارف ہے۔
(۲)اپنی معرفت: جب انسان اللہ کو پہچانتا ہے تو اسے اپنی ذات کی پہچان بھی حاصل ہوتی ہے۔
جب انسان کو اللہ اور اپنی معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے لیے ہدایت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے، پھر اس کے لیے مجاہدہ کرنا، نماز پڑھنا، دین کا علم حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا، راتوں کو جاگنا، تلاوت کرنا اور تسبیح پڑھنا سب کچھ سہل ہو جاتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اس کے لیے اس لیے آسان ہوتی ہیں کہ وہ اللہ کی حقیقت اور اپنی معرفت کو جان لیتا ہے۔
وہ اپنی حقیقت کو یوں سمجھتا ہے کہ میرا کوئی کام اللہ کے حکم کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا، اور اللہ کی حقیقت یہ ہے کہ سارا اختیار اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ جو وہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ حدیثِ پاک میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی منقول ہے کہ جب کوئی ناگوار چیز پیش آتی تو صحابہ پوچھتے:’’اے اللہ کے رسول! ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’ما شاء اللہ کان وما لم یشأ لم یکن‘‘ (جو اللہ نے چاہا وہ ہوا، اور جو نہیں چاہا وہ ہرگز نہیں ہوتا)۔
ہم اس چیز کو دل سے بھی مانتے ہیں اور زبان سے بھی کہتے ہیں، مگر اس پر جیسا یقین ہونا چاہیے، ویسا یقین ہمیں حاصل نہیں ہوتا۔
جب انسان اپنی عقل کا صحیح استعمال کر کے اللہ اور اپنی معرفت حاصل کر لے تو اس کے لیے ہدایت کی راہ آسان ہو جاتی ہے۔
انسان کی گمراہی کی دو وجوہات :
حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے انسان کے گمراہ ہونے کی دو اہم وجوہات بیان کی ہیں:
(۱) خواہشات کا غلبہ: انسان کی گمراہی کی ایک بنیادی وجہ خواہشات کا غالب آنا ہے۔
نفسانی خواہشات کے غالب آنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کو اچھی صحبت نہیں ملتی، وہ دین کا علم حاصل نہیں کرتا، اور صرف اپنی دنیاوی راحت اور فائدہ سوچتا ہے، اپنی آخرت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ جب خواہشات اس پر غالب ہو جاتی ہیں تو اس کی اصلاح نہ صرف مشکل بل کہ ناممکن ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں، ساری دنیا کی دلیل بھی اس کے سامنے پیش کر دی جائے تو وہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے انسان کو اپنی خواہشات قابو میں رکھنا چاہیے انہیں اپنے اوپر غالب نہیں آنے دینا چاہیے، کیوں کہ جب یہ غالب آ جاتی ہیں تو ہدایت کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔
(۲) ہدایت کو غلط طریقے سے اختیار کرنا: انسان ہدایت پر تو آنا چاہتا ہے، لیکن وہ اس کے لیے غلط طریقہ اختیار کرتا ہے، وہ دین کا علم مستند لوگوں، مستند کتابوں اور مستند راستوں سے حاصل نہیں کرتا۔
خواہشات کا غلبہ، غلط سمت میں سفر:
جس انسان پر خواہشات غالب آ جاتی ہیں، اس کی مثال اس مسافر کی سی ہے، جسے ایک مقام پر جانا ہے لیکن وہ اس کے مخالف سمت میں نکل جاتا ہے۔ وہ کتنا بھی ماہر اور ہوشیار ہو، وہ اپنی منزل تک کبھی نہیں پہنچ سکتا؛اسی طرح، کفر، شرک اور نفاق انسان کو اس کی منزل کے مخالف سمت میں لے جاتے ہیں۔
جب انسان کو اللہ اور اپنی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اسے صراطِ مستقیم کا علم ہو جاتا ہے اور وہ یہ جان لیتا ہے کہ منزل تک پہنچنے کا یہی ایک راستہ ہے، لیکن جب وہ خواہشات کے غلبے میں آ کر یہ راستہ چھوڑ دیتا ہے اور دوسری سمت میں چلنا شروع کر دیتا ہے تو وہ قیامت تک بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ کافر اور مشرک کتنا بھی مجاہدہ اور محنت کر لیں، لیکن صحیح سمت نہ ہونے کی وجہ سے وہ کہیں کے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔
غلط طریقے سے سفر،بدعت کا راستہ :
دوسری مثال ان لوگوں کی ہے جو راستے پر تو صحیح چلتے ہیں مگر صحیح طریقے سے نہیں۔ یہ ایسے شخص کی طرح ہیں جسے گاڑی چلانی نہیں آتی یا وہ لاپرواہی سے چلاتا ہے۔ وہ راستے میں گرتا پڑتا، حادثات کا شکار ہوتا ہوا منزل تک پہنچتا ہے، اور اگر کوئی بڑا حادثہ ہو جائے تو وہ اپنی منزل سے کوسوں دور ہو جاتا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو بدعت کے راستے پر چلتے ہیں، ایسا ممکن ہے کہ بدعت انہیں کفر اور شرک کی طرف لے جائے، اللہ حفاظت فرمائے۔
جنت تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ :
حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ اللہ اور جنت تک پہنچنے کا کوئی دوسرا راستہ نہ تو ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ} ۔
(سورۃ آلِ عمران: 31)
یعنی’’اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا‘‘۔
اس طرح حضرت نے بتایا کہ انسان کو کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور کن کن وجوہات کی بنا پر وہ راستہ بھٹک سکتا ہے۔ یہ تو تمہیدی باتیں تھیں۔ اب اس کے بعد حضرت نے اصل کتاب شروع کیا ہے۔
اسلام کے دو بنیادی عقائد:
اصل کتاب شروع کرنے سے پہلے حضرت نے فرمایا :کہ اسلام کے اصل عقائد صرف دو ہیں، باقی سب انہی سے جڑے ہوئے ہیں:
(۱)… ’’لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ : کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ یعنی توحید اور وحدانیت۔
(۲)…’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ : کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
یہ دو بنیادی عقائد ہیں۔ جب یہ سمجھ میں آ جائیں گے تو دوسرے تمام عقائد کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔پھر حضرت ان دونوں کو سمجھانے کے لیے آٹھ مباحث کا ذکر کرتے ہیں۔
اللہ کی وحدانیت کی تفہیم :
اللہ کی وحدانیت کو سمجھنے کے لیے تین چیزوں کو سمجھنا ضروری ہے:
(۱)…اللہ کا ثبوت ۔
(۲)…اللہ کی وحدانیت ۔
(۳)…اللہ کا واجب الاطاعت ہونا۔
رسالت کی تفہیم :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو سمجھنے میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
(۱)…رسالت کی ضرورت کیوں ہے؟
(۲)…رسالت کی علامات کیا ہیں؟
(۳)…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ثابت کرنا۔
(۴)…حضور کے خاتم الانبیاء ہونے کو ثابت کرنا۔
(۵)…حضور کی بعثت کے بعد آپ کی اتباع میں نجات کا منحصر ہونا۔
توحید ورسالت سے متعلق یہ آٹھ بنیادی اصول ہیں۔
پہلی بحث،اللہ کے وجود کو ثابت کرنا:
سب سے پہلی بحث جو ذکر کی گئی، وہ اللہ رب العزت کے وجود کو ثابت کرنا ہے۔ جو لوگ’’جزبرہ‘‘ یعنی عقل کے افراط کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، اور اپنے آپ کو فلسفی یا سائنس دان کہتے ہیں، ان کو سمجھانے کے لیے سب سے پہلے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اللہ کا وجود ہے، کیوں کہ وہ سرے سے اللہ کے وجود کو ہی نہیں مانتے۔
ہم اور آپ شاید یہ سوچیں کہ یہ کتنے بے وقوف لوگ ہیں جن کی سمجھ میں اللہ کا وجود بھی نہیں آتا۔ ہمارے لیے یہ بات آسان ہے کیوں کہ الحمدللہ، ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن وہ ایسے ماحول میں آنکھ کھولتے ہیں جہاں انہیں الحاد اور بے دینی کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا خود بخود بن گئی؟ جبکہ ایک چھوٹی سی سوئی بھی خود بخود نہیں بن سکتی، ایک روپے کا قلم بھی خود بخود نہیں بن سکتا، تو اتنی بڑی دنیا کیسے خود بخود بن جائے گی؟ وہ خود کو بہت عقل مند سمجھتے ہیں، حالاںکہ حقیقت میں ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے۔
اس لیے سب سے پہلے اللہ کے وجود کو ثابت کرنا ضروری ہے۔ حضرت نے اللہ کے وجود پر بہت ہی اچھے انداز میں بحث کی ہے۔
دوسری بحث، اللہ کا وجود کیسے ثابت ہو گا؟
اس کے بعد، حضرت نے دوسری بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے وجود کو کیسے ثابت کیا جائے۔ جب آپ یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ انسان کا وجود ہے، تو اس کے لیے کسی’’موجد‘‘ (وجود دینے والے) کا ہونا بھی ضروری ہے۔
فلسفہ اور سائنس کے دلدادہ کچھ بے وقوف لوگ، جنہیں ’’سوفسطائیہ‘‘ (یعنی’’عندیہ‘‘ اور’’عنادیہ‘‘ ہٹ دھرم) کہا جاتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کسی چیز کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ جب آپ کسی چیز کی حقیقت کو ہی نہیں مانیں گے تو اس کے وجود کی بحث ہی نہیں ہو سکے گی۔ وجود کی بحث تو تب ہوگی جب آپ کسی چیز کی حقیقت کو تسلیم کریں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ’’یہ زمین نہیں، صرف ایک خیال ہے‘‘، حالاں کہ وہ اس پر چلتے ہیں، کھودتے ہیں، اور عمارتیں بناتے ہیں۔ اسی ضد کی وجہ سے ان کا نام ’’عنادیہ‘‘ بھی ہے۔
بہرحال، ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دینی خیرخواہی کے طور پر انہیں سمجھانے کی کوشش کریں۔ اس کوشش میں سب سے پہلے ہم اللہ کے وجود کو ثابت کرتے ہیں کہ جب چیزوں کا وجود ہے، تو ہر وجود کے لیے کسی موجد کا ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ یہ مان لیں کہ یہ ممبر موجود ہے تو آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ مٹی خود بخود جمع ہو کر ممبر بن گئی، تو سامنے والا استہزاء ًکہے گا کہ یہ بڑا عقلمند آدمی ہے۔ یہ قیامت تک محال ہے کہ کوئی بھی چیز خود بخود وجود میں آ جائے۔
سائنس دانوں کا انکارِ وجودِ باری تعالیٰ، ایک سائنسی استہزاء:
خود ایک سائنس دان کہتا ہے کہ اسے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ اللہ کے وجود کو کیوں نہیں مانتے۔ وہ اس بات کو ایک عجیب مثال سے سمجھاتا ہے:
’’دنیا کے بارے میں اتنی معلومات ہونے کے باوجود اللہ کے وجود کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدمی کہے کہ میں نے روشنائی اور کچھ کاغذ ایک جگہ رکھے، اور اچانک گرمی سے ایک دھماکہ ہوا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک پوری ڈکشنری تیار ہو چکی ہے‘‘۔
کوئی بھی عقل مند آدمی اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔
یہ دنیا اس ڈکشنری سے بھی زیادہ منظم اور باقاعدہ ہے۔ چاند اور سورج اگر اپنی جگہ سے ایک بال برابر بھی ہٹ جائیں تو زمین پر زندگی ممکن نہیں رہے گی۔ سائنسی تحقیق بھی یہی کہتی ہے؛لہٰذا، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا خود بخود بن گئی، یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ روشنائی اور کاغذ کے دھماکے سے ڈکشنری بن گئی۔ کوئی عقلمند اسے تسلیم نہیں کر سکتا۔ ہاں، اگر کوئی عقل کا اندھا اور بے وقوف ہو تو وہ یہ بات مان سکتا ہے کہ یہ دنیا خود بخود وجود میں آ گئی اور اس کا کوئی بنانے والا یا موجد نہیں ہے۔
ان سے پوچھیں کہ یہ دنیا کیسے بنی؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ایک عظیم دھماکے کی وجہ سے وجود میں آئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پہلے مٹی، پانی اور آگ کا ایک بڑا سا گولہ گھوم رہا تھا۔ پھر اس میں گرمی پیدا ہوئی (حالانکہ انہیں یہ نہیں معلوم کہ سورج کے بغیر گرمی کہاں سے آئی)، پھر ایک عظیم دھماکہ ہوا، جو نیچے آیا وہ مٹی بن گیا اور جو اوپر گیا وہ سورج اور چاند بن گئے۔ کوئی بھی عقلمند آدمی اس بے بنیاد بات کو تسلیم نہیں کر سکتا۔
انہوں نے بلاوجہ کی یہ بحثیں چھیڑ رکھی ہیں اور لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اس پر ہزاروں صفحات کی کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو’’روشن خیال‘‘ کہتے ہیں، وہ حقیقت میں’’تاریک خیال‘‘ ہیں۔
نظریۂ ارتقا اور انسان کی تخلیق :
ان سے پوچھیں کہ انسان کیسے بنا؟ تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے پانی میں جرثومہ بنا، پھر اس سے مینڈک، پھر مگرمچھ، پھر کتا، بلی، بندر اور آخر میں انسان بن گیا۔ یعنی جتنی بھی ذلیل مخلوق ہے، سب کو انسان کا آبا و اجداد قرار دیا۔
جب کہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں روح پھونکی۔ ہم حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں، جن کے بارے میں اللہ نے قرآن میں تمام تفصیلات بیان کی ہیں۔
یہ تمام بحثیں اسی سے متعلق ہیں کہ پہلے اللہ کے وجود کو تسلیم کیا جائے، پھر اس کی وحدانیت کو۔ جب اللہ کے وجود اور وحدانیت کو تسلیم کر لیا جائے تو اسے واجب الاطاعت بھی ماننا پڑے گا۔ جب وہی پیدا کرنے والا اور کائنات کو چلانے والا ہے تو اس کے علاوہ کسی اور کی اطاعت کیوں کی جائے؟
اگر کوئی ہندوستان میں رہے اور یہاں کے آئین کے خلاف کام کرے تو لوگ اسے کیا کہیں گے؟ اسی طرح، جو شخص اللہ کی بنائی ہوئی دنیا میں رہے اور اس کی اطاعت نہ کرے، اس کی وحدانیت کو تسلیم نہ کرے، تو اسے کیا کہا جائے گا؟
ایک بزرگ کی حکایت:
ایک بزرگ کے پاس ایک آدمی آیا اور گناہ کرنے کی اجازت چاہی۔ بزرگ نے اس سے کہا کہ:
(۱)…اللہ کی دی ہوئی نعمتیں استعمال کرنا چھوڑ دو۔ اس پر اس آدمی نے کہا کہ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ میں زندہ کیسے رہوں گا؟‘‘
(۲)…تو پھر ایسی جگہ چلے جائو ، جہاں اللہ تجھے نہ دیکھے، یہ زمین و آسمان چھوڑ دو۔ آدمی نے جواب دیا کہ’’ایسی کون سی جگہ ہو سکتی ہے جہاں اللہ نہ دیکھے؟‘‘
(۳)…ایسا مقام تلاش کر و، جہاں تمہیں کسی چیز کی ضرورت نہ پڑے۔
جب وہ آدمی ان تمام باتوں سے انکار کر گیا تو بزرگ نے فرمایا کہ جب تم یہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تو پھر خاموشی سے اللہ کی اطاعت کرو۔ گناہ کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے یہاں صرف ایک ہی راستہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے، اللہ کو پہچانے اور اسی راستے پر چلے۔
حضرت نے فرمایا کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کے واجب الوجود ہونے کو تسلیم کیا جائے۔ انسان کے لیے یہ دو بنیادی عقیدے اور ان سے جڑے ہوئے حقائق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’حجۃ الاسلام‘‘ میں انسان کے مقصدِ تخلیق کو بیان کرنے کے بعد، اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو جو عقلِ وافر عطا فرمائی ہے، اگر انسان اس کا صحیح استعمال کرے تو یہی عقل اسے اللہ کی اطاعت کی طرف مائل کرتی ہے۔