ایک یار غار داغ مفارقت دے گیا

 نثار احمد کرالوی

خادم شعبہٴ تحفیظ القرآن الکریم جامعہ اکل کوا   

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ القائل:الذین اذا اصابتہم مصیبة قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون۔

            اس عاجز کے لیے پریشانی یہ ہے کہ وہ نہ تو قلم کار ہے اور نہ مضمون نگارکہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی مظاہری سے متعلق ماہرانہ انداز میں اپنی معلومات حوالہٴ قرطاس کرسکے ۔لیکن دلی جذبات اور قلبی احساسات الفاظ کی بندش کے محتاج نہیں ہوا کرتے۔ اور جب اپنوں سے متعلق جذبات کا اظہار کرنا مقصود ہو تو قلم خود ہی زبان بن جاتی ہے۔یہی کچھ معاملہ مجھ بے بضاعت کے ساتھ بھی ہے کہ سمجھ میں کچھ نہیں آتاکہ اپنے دل کے درد اور فکری غم کو کن الفاظ میں بیان کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا ہمیں واضح سبق دیتی ہے کہ یہ دائمی نہیں ہے اور کسی بھی وقت بلاوا آسکتا ہے۔یہ دنیا آزمائشوں سے بھری ہوتی ہے، کامیاب وہی ہے کہ جو ہمت وحوصلہ رکھتے ہوئے ہمیشہ تیاری میں رہے۔

            یہاں تبدیلیاں فطرت کا ایک حصہ ہیں۔ اسی وجہ سے انسان بڑے سے بڑے رنج وغم کے حادثہ کو قضا وقدر کا فیصلہ سمجھ کر برداشت کرتاہے۔

            خانوادہٴ جامعہ؛ گذشتہ دنوں دل کو دہلانے والے واقعہ سے دو چا رہے ۔یعنی کہ ہم سب کے چہیتے اور کرم فرما حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی مظاہری استاذ حدیث وتفسیر جامعہ اکل کوا مختصر علالت کے بعد اپنے رب حقیقی سے جاملے، جن کو اب قلم رحمة اللہ لکھنے پر مجبور ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حضرت فلاحی سے میرے تعلقات:

            مولانا رحمة اللہ علیہ سے میرے تعلقات یقینا محبتانہ، دلبرانہ اور برادرانہ تھے۔ میں اپنے لیے مولانا کی وفات کا حادثہ ایک گھریلو حادثہ شمار کرتا ہوں۔ اس لیے کہ مولاناسے میرے تعلق کی نوعیت ہی کچھ ایسی تھی۔ مولاناکے ساتھ میرے دوستانہ تعلقات کے علاوہ برادرانہ اور گھریلو بھی تھے۔ مرحوم کے ساتھ میرے بے شمار اسفار بھی ہوئے، میرے گھر کی ہر خوشی و غمی کے موقع پر صرف ایک درخواست پر حاضر ہوجایا کرتے تھے۔ میں اپنے ذاتی معاملات میں بھی مشورے کیا کرتااور مولانا مرحوم بھی اپنا دل نکال کر رکھ دیتے تھے۔ مشورہ دینے میں مولانا نے اپنی عرفی شخصیت کا لحاظ نہیں رکھا ،بل کہ ایک بھائی کی طرح مثبت، منفی ہر پہلو سے مشورہ دیا کرتے اور معاملہ کی نوعیت کو سمجھاتے تھے۔ میرے نزدیک مولانا مرحوم کے مشورہ کی بہت اہمیت ہوتی تھی، شاید ہی کوئی ذاتی یا جامعہ کا پروگرام مرحوم کے مشورہ کے بغیر ہوتاہو۔ مولانا فلاحی کی کسر نفسی کا یہ عالم تھا کہ بعض دفعہ اپنے ذاتی معاملات میں بھی ہم جیسوں سے مشورے کیاکرتے تھے، کیوں کہ خورد نوازی ان کا امتیازی وصف تھا۔چھوٹوں کی حوصلہ افزائی ان کی بنیادی صفت وخاصیت تھی، یتیموں،بیماروں اور غرباکی دادرسی کرنا ان کی ضرورتوں کو اپنی ضرورت سمجھنا اور اس کی فکر کرنا ان کا گویا کہ مشغلہ ہی تھا۔

بیان وتقریر سے باہر عملی زندگی:

            مرحوم سے جس نے بھی جس معاملہ میں بھی مشورہ طلب کیا اس کو وہ اپنا کام سمجھتے اور حتی المقدر اس کو پایہٴ تکمیل تک پہونچانے کی فکر کیا کرتے تھے۔ ہم نے محبت کرنے والوں کو تودیکھا ہے، لیکن دل وجان سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے کم ہی نظر آتے ہیں۔ضرورت مندوں کی ضروریات پر تقریر کرتے ہوئے تو بہت سوں کو دیکھا ہے، لیکن ان ضرورتوں کی تکمیل کرنے والے بہت کم دیکھے ہیں۔ بیماروں کی بیماری پر اشک باری کرنے والے بھی دیکھے ہیں، لیکن حقیقتاً عملی شکل میں تیمار داری کرنے والے بہت کم ملیں گے۔پریشان حال لوگوں کے قصے سنانے والے بھی ملیں گے، لیکن ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کے اسباب مہیا کرنے والے خال خال ہی ملیں گے۔یہ وہ صفات ہیں ،جن کو مجھ جیسے بے بضاعت نے مولانا مرحوم کی زندگی میں بدرجہٴ اتم پایا ہے۔ یہ سطریں کوئی تکلفانہ جملہ بندش نہیں ہیں، بل کہ حقیقت کی عکاس ہیں۔اس لیے کہ میں شاہدِ عدل ہوں، ایسی ہی شخصیت کے بارے میں کسی نے بہت خوب کہا:

آدمی آدمی سے ملتا ہے

دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

نائب رئیس جامعہ سے مولانا مرحوم کا تعلق:

            مولانا مرحوم کو نائب رئیس الجامعہ حضرت حافظ اسحق صاحب وستانوی سے گہرا دلی تعلق اور محبتانہ ربط تھا۔جب مولانا فلاحی صاحب حضرت حافظ صاحب کے پاس تشریف لاتے تو مجھے بھی ملاقات کا شرف عطا فرماتے اور پھر دل کی بات کہتے اور سنتے۔

            حضرت نائب رئیس الجامعہ کو بھی مرحوم جناب مولانا فلاحی صاحب سے والہانہ قلبی تعلق تھا۔ جیسے ہی انتقال کی خبر سنی تو گویا حافظ صاحب کا دل ٹوٹ گیا۔ عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی، لیکن ظاہر ہے کہ اللہ کے فیصلہ کے سامنے لب کشائی کسے ہوسکتی ہے؟

جامعہ اور مولانا مرحوم:

            جامعہ میں دورہٴ حدیث تک کتابوں کی تدریس ان سے وابستہ تھی ۔ہر شخص میں اللہ نے کچھ خوبیاں رکھی ہیں، مولانا مرحوم میں اللہ پاک نے بہت سی ایسی خوبیاں اور صفات رکھی تھیں، جن کا ادراک ہم جیسے بھی کیا کرتے تھے۔ اپنی ذمہ داریوں سے مولانا نے کبھی پہلوتہی نہیں کی ، بل کہ تمام ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ وہ امتحانات کی ذمہ داریاں ہوں یا درسی ذمہ داریاں۔ کسی جگہ تقریر کرنے جانا ہو یا کسی جلسہ کی نظامت کرنی ہو، پابندیٴ وقت ان کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ اسی لیے ان کو حضرت رئیس الجامعہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کا اعتماد وبھروسہ حاصل تھا۔ وہ موقع محل کے اعتبار سے جامع گفتگو کیا کرتے تھے، اس لیے کہ ان کی پرورش خاندانی بزرگ شخصیت خود ان کے بھائی جناب مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری دامت برکاتہم کے زیرِ سایہ ہوئی۔ اپنے اکابر اساتذہ کرام سے بھی زندگی کا بہترین سبق سیکھا تھا، بس ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ پاک نے مولانا فلاحی کو ان گنت خوبیاں عطا فرمائی تھیں، اس کے باوجود مولانا مرحوم کبر سے عجب جیسی صفات مذمومہ سے پاک تھے۔نہایت ہی مخلصانہ طور پر آپ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے تھے۔ بس روٴف الرحیم سے یہ امید اور یقین رکھتے ہیں اللہ پاک فلاحی کو فلاحِ عقبیٰ عطا فرمائے۔

            اللہ پاک مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔نیز اللہ پاک آپ کی تمام تر کاوشوں اور بے لوث دینی خدمات کو قبولیت سے سرفراز فرمائے۔ آمین ثم آمین ۔