فضائل وفوائد
تلخیص : از محمدصادق خان اشاعتی(استاذجامعہ اکل کوا)
اصل مضمون سے پیشتر‘یہ وضاحت مناسب ہے کہ جامعہ اکل کوا کے مدیرِ تعلیم وتنفیذ مولانا حذیفہ بن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی# نے ہم چنداساتذہ ٴجامعہ سے گزارش فرمائی کہ اس وقت امت کو ایمانیات سے متعلق فکر دلانا اور ایمان کی حفاظت وسلامتی کے لیے، ان تک قرآن وسنت کی روشنی میں پیغام پہنچانا عصر حاضرکا اہم ترین تقاضہ اور ہماری بڑی ذمہ داری ہے؛اسی کے پیش ِنظرآپ نے اساتذہ ٴعظام سے درخواست فرمائی کہ ایمانیات پر اپنے مضامین ارسال فرمائیں۔تعمیلِ ارشاد میں راقم نے بھی یہ چند سطور‘ قرآنی آیات‘ احادیث اور واقعات کی روشنی میں ایمان ِمحض اور یقین کامل کے عنوان سے پیش کیا۔
”لاالہ الا اللہ “کا وزن:
سننِ ترمذی اور ابنِ ماجہ شریف کی ایک روایت میں وارد ہے کہ:(قیامت کے دن ) میری امت میں سے ایک شخص کو تمام مخلوق کے سامنے پکارا جائے گا اور اس کے سامنے(اس کے گناہوں کے)ننانوے دفتر(رجسٹر)کھولے جائیں گے،ہر دفتر منتھائے نظر تک بڑا ہوگا ،پھر اللہ تعالی اس بندے سے فرمائیں گے کہ کیا تم ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو؟(کہ کوئی گناہ تم نے نہ کیا ہو اور ویسے ہی لکھ لیا گیاہو)۔
وہ بندہ عرض کرے گا :اے میرے پروردگار ! میں کسی چیز کا انکار نہیں کرسکتا۔پھر اللہ تعالی فرمائیں گے کہ (گناہوں کے)لکھنے والے فرشتوں نے تم پر زیادتی تو نہیں کی (کہ گناہ ایسے ہی لکھ لیے ہوں؟)وہ بندہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار ! کسی فرشتے نے گناہ لکھنے میں مجھ پر ظلم نہیں کیا۔پھر اللہ تعالی فرمائیں گے کہ کیا تیرے پاس گناہوں کا کوئی عذر موجود ہے؟اور کیا تیرے پاس کوئی نیکی موجود ہے؟وہ بندہ بہت ڈرجائے گا اور عرض کریگا : اے میرے پروردگار ! کوئی عذر موجود نہیں ہے اور کوئی نیکی موجود نہیں ہے، اللہ جل شانہ ارشاد فرمائیں گے : نہیں بلکہ تمہاری میرے پاس ایک نیکی موجود ہے اور آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا پھر کاغذ کا ایک پرزہ نکالا جائے گا جس پر تحریر ہوگا،اشھد أن لاالہ الا اللہ وأن محمدا عبدہ ورسولہ۔
وہ بندہ عرض کریگااے میرے پروردگار اتنے سارے گناہوں کے رجسٹروں کے مقابلے میں یہ پرزہ کیا کام دے گا؟اللہ جل شانہ فرمائیں گے کہ آج تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا؛ چنانچہ تمام رجسٹر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں گے اور کا غذ کا وہ پرزہ دوسرے پلڑے میں ۔ رجسٹروں والا پلڑا (ہلکا ہونے کی وجہ سے)اڑنے لگے گا اور اونچا ہوجائیگا، جب کہ پرزے والا پلڑا بھاری ہوجائیگااور جھک جائے گا۔‘
‘رواہ الترمذی وابن ماجة ‘ کذا فی المشکوة وکذا فی کنز العمال(۱:۴۴)
فائدہ: قارئین کرام ‘یہ ہے صرف ایمان کی برکت ! کہ ساری زندگی گناہ کئے ‘ ایک بھی نیکی کاکام نہیں کیا،اللہ تعالی نے صرف ایمان کی برکت سے اس کو نجات عطا فرمادی اور ساری زندگی کے گناہ اس کے ایمان کی برکت سے دھل گئے۔
ایک دوسری حدیث میں وارد ہے کہ:”دوزخ سے ہر ایسے شخص کو نکال لیا جائے گا جس نے لاالہ الا اللہکہا ہو اور اس کے دل میں جو َکے دانے کے برابر بھی ایمان ہو‘ پھر ہر ایسے شخص کو نکال لیا جائیگاجس نے لاالہ الا اللہ کہا ہو اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر بھی ایمان موجود ہو۔“کنز العمال (۱:۴۷)
دوزخ سے سب سے آخر میں سب سے کم ایمان والا رہا ہوگا:
حدیثِ پاک کا خلاصہ ہے‘ حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یقینا اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا اور سب سے آخر میں جنت میں پہنچایا جائے گا یہ ایک شخص ہوگا جو گھٹنوں کے بل چل کر دوزخ سے باہر آئے گا۔اللہ تعالی اس سے فرمائے گا کہ جا اور جنت میں داخل ہوجا‘ وہاں دنیا کی مسافت کے بقدر اور اس سے دس گنا مزید جگہ تیرے لیے (مخصوص کردی گئی )ہے ۔ ایسا شخص انتہائی (حیرت واستعجاب کے عالم )میں کہے گا کہ (پروردگا ر !)کیا آپ مجھ سے مذاق کررہے ہیں ؟ !!یا(یہ کہے گا کہ)آپ مجھ سے مذاق کررہے ہیں‘حالانکہ آپ تو بادشاہوں کے بھی بادشاہ ہیں!؟حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات فرماکر ہنسے؛ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں نظر آنے لگیں‘اور کہاجاتا تھاکہ یہ شخص جنتیوں میں سب سے چھوٹے درجہ کا آدمی ہوگا۔اخرجہ البخاری ومسلم ‘کما فی المشکوة
فائدہ: سبحان اللہ کس قدر اللہ تعالی کی رحمت اور انعامات کی بارش ہے کہ سب سے آخر میں دوزخ سے رہائی پاکر جنت جانے والے ‘ سب سے کم ایمان والے کے اوپر اللہ تعالی کا یہ فضل ہے؛ حالا نکہ اس کے پاس سوائے ایمان کے ایک ذرہ کے کوئی دوسری نیکی نہیں ہے، تو پھر وہ موٴمنین جن کاایمان کامل اور جن کے نامہٴ اعمال نیکیوں سے بھرے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالی کے فضل وانعام کا معاملہ کس قدر ہوگا!!
ادنیٰ ایمان کاثمرہ:
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”اسلام“ بھی اسی طرح پرانا ہوجائے گا جیسے کپڑے کی دھاریاں پرانی ہوجاتی ہیں (لوگوں کو)یہ معلوم نہ ہوگا کہ روزہ کیا ہے اور صدقہ کیا ہے اور احکامِ حج کیا ہیں؟ ․انسانوں کی جماعت میں سے کچھ بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں یہ کہیں گی کہ ہم نے اپنے آباوٴ اجداد کو اس کلمہ لاالہ الاّ اللہُ پر پایا تھا ‘ لہذا ہم بھی یہی کلمہ پڑھتے ہیں․․․․․یہ سن کر صلہ نامی شخص نے عرض کیا کہ انہیں صرف ”لاالہ الا اللہ“ کیا فائدہ دے گا؛ حالانکہ ان کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ روزہ صدقہ اور حج کیا ہے؟․․․․․یہ سن کر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے منہ پھیر لیا ‘ اس شخص نے تین مرتبہ یہ بات کہی ‘ ہرمرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اعراض فرمایا او ر تیسری مرتبہ اس کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اے صلہ ! یہ کلمہ انہیں آگ سے نجات دے گا۔
المستدرک للحاکم (۴:۴۷۳‘۵۴۵)کتاب الفتن والملاحم۔
ایمانِ محض پر نجات کا عجیب واقعہ:
روایات میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا عجیب اور قابل رشک واقعہ ملتا ہے کہ حضرت اسود راعی رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام میں سے ہیں، جنہوں نے اسلام لانے کے بعدایک بھی نماز نہیں پڑھی ‘لیکن نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق وہ سیدھے جنت میں پہنچے‘ ان کا واقعہ یہ ہوا تھا کہ وہ خیبر کے ایک چرواہے تھے اور اجرت پر بکریاں چراتے تھے ‘ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا محاصرہ فرمایا تو ایک دن انہوں نے قلعہ والوں سے جنگی تیاریوں کا سبب پوچھا ‘ انہوں نے بتایا کہ ایک مدعیٴ نبوت سے مقابلہ ہے ‘ ان کے دل میں خیال ہوا کہ ان سے ملنا چاہیے؛چنانچہ وہ ایک دن بکریاں چرانے کے لیے قلعے سے باہر نکلے۔
سامنے نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر فروش تھا، سیدھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے ‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے بارے معلومات حاصل کیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ فرمایا ۔ ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوگئی ،انہوں نے پوچھا کہ اگر میں اسلام لے آوٴں تو صلہ او ر بدلہ کیا ہوگا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت ! ۔انہوں نے کہا کہ میں سیاہ فام اور بدشکل ہوں‘ اور میرے جسم سے بدبوآرہی ہے، کیا پھر بھی اسلام لانے سے میں جنت کا مستحق ہوجاوٴں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ہاں !
اللہ تعالی تمہیں حُسن عطا فرمادے گا ‘ او رتمہارے جسم کی بو خوشبوسے تبدیل ہوجائے گی“یہ سن کر اسود راعی رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے اور عرض کیا کہ یہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں‘ ان کا کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کوقلعہ کی طرف ہنکادو؛ چنانچہ انہونے بکریاں قلعے کی طرف ہنکا دیں ‘ اور وہ سب قلعے میں چلی گئیں ‘ اس کے بعد اسود راعی رضی اللہ تعالی عنہ جہاد ِخیبر میں شریک ہوئے جنگ کے بعد جب شہداء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے گئے ،تو ان میں اسود راعی رضی اللہ عنہ کی لاش بھی تھی ‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے منہ پھیرلیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے وجہ پوچھی تو فرمایا: کہ یہ اس وقت جنت کی دو حوروں کے ساتھ ہیں، اللہ تعالی نے ان کے چہرے کو حسین بنادیا ہے اور جسم کو خوشبوں سے مہکا دیا ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ان کا ذکر کرکے فرمایاکرتے تھے کہ یہ وہ جنتی ہے ،جس نے اللہ کے لیے کوئی نماز نہیں پڑھی ‘ لیکن سیدھا جنت میں پہونچاہے۔
( عیون الاثر لابن سید الناس)
فائدہ :معلوم ہوا، ایک مومن کتنا ہی ادنیٰ ایمان اور عمل میں کمزور ہو، اسے اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ؛بلکہ اپنے ایمان کی سلامتی اور حفاظت کا اہتمام اورکو شش کرتے رہنا چاہئے۔
ضعیف ایمان پر رحمت الہی کا جوش :
قارئین کرام: خود نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان وارشاد سے بھی ادنیٰ اور کمزور ایمان پر اللہ تعالی کی رحمت اور مغفرت کے طفیل دوزخ سے نجات کا ملنا معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
”لا الہ الا اللہ “ کہنے والوں (یعنی مسلمانوں) میں سے کچھ لوگ اپنے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں داخل ہوں گے ۔ لات وعزیٰ کے پجاری ( یعنی کفارو مشرکین )ان سے مخاطب ہوکر کہیں گے کہ تمہارا ”لاالہ الا اللہ“ کہنا تو تمہارے کچھ بھی کام نہ آیا آج بھی ہمارے ساتھ جہنم میں ہو۔ ان کی اس بات پر اللہ جل شانہ کا غضب جوش میں آجائے گا چنانچہ اللہ تعالی ” لاالہ الا اللہ “ کا اقرار کرنے والے ان مسلمانوں کو جھنم سے نکال لیں گے اور ان کو نہر حیات میں ڈال دیں گے (نہر حیات میں غسل کی وجہ سے) اور اپنے جلے ہوئے زخموں سے ایسے ہی صحت یاب ہوجائیں گے جیسے چاند گرہن کے ختم ہونے کے بعد روشن ہوجاتا ہے، پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے ۔
اخرجہ ابونعیم فی ”الحلیة“(۱۰:۲۱۹واخرجہ ابن ابی الدنیاموقوفا باسناد حسن)
رائی کے دانے کے برابر ایمان کی قدر وقیمت:
تھوڑے اورادنی ایمان کی اہمیت اور قدر وقیمت پر ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں پہنچادیا جائے گا‘ تو اللہ تعالی فرمائے گا کہ جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوتو اس کو دوزخ سے نکال لو ‘ چنانچہ ان لوگوں کو دوزخ سے باہر لایا جائے گااور اس وقت ان کی یہ حالت ہوگی کہ وہ جل جلا کر کوئلہ کی طرح ہوگئے ہوں گے پھر ان کو نہر حیات میں ڈالا جائے گا اور وہ (اس نہر سے)اس طرح تر وتازہ نکلیں گے جیسے سیلاب کے کوڑے کچرے میں گھاس کا دانہ اگتا ہے‘ کیاتم نے دیکھا نہیں وہ دانہ کس طرح لپٹا ہو ازرد نکلتا ہے (یعنی کتنا زیادہ تروتازہ اور کتنی جلدی باہر آتا ہے)
(اخرجہ البخاری ومسلم ‘ کذا فی المجمع ۱:۴۱)
قارئین: حدیث ِمذکور سے بھی واضح ہوگیا کہ پچھلی حدیث میں جو فرمایا گیا تھا کہ ” آخری میں ارحم الراحمین اپنی مٹھی بھر کر ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لے گا، جنہوں نے کبھی بھی کوئی نیکی نہیں کی ہوگی ‘ تو وہاں وہی لوگ مراد ہیں، جن کا تعلق اہل ِایمان سے ہوگا ،یہ اور بات ہے کہ ان کے نامہٴ اعمال میں کوئی بھی نیکی یا بھلائی نہیں ہوگی ۔یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ اس موقع پر حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ وہم ہوسکتا ہے کہ وہ کافر لوگ ہوں گے؛ چنانچہ اس بات پر پوری امت کا اجماع ہے کہ کوئی کافر کسی بھی صورت میں دوزخ سے نہیں نکالا جائے گا۔
قارئین مذکورہ سطور میں ہم نے ایمانِ محض یا تھوڑے اور ادنیٰ ایمان کی اہمیت اور اس کے ذریعہ نجات ومغفرت ہونے پر چنداحادیث کامطالعہ کیا۔آئندہ سطور میں ایمان کی افضلیت اور اہمیت پر بھی چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
افضل ترین عمل ایمان ہے:
ایک حدیث شریف میں ہے کہ :”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا،کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان سب سے افضل عمل ہے ۔ عرض کیا گیا کہ پھر کونسا عمل افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ پھر کونسا عمل سب سے افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کے بعد نیکیوں بھرا حج افضل ہے“۔
اخرجہ البخاری ‘ باب من قال ان الایمان ھو العمل
ایمان‘ ماضی کے تمام گناہوں کاکفارہ ہے:
حضرت مکحول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھاآدمی، جس کی دونوں بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آپڑی تھیں اس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ایک ایسا شخص جس نے غداری اور فسق وفجور کیا ‘ اپنی کوئی حاجت نہیں چھوڑی اور نہ ہی کسی حاجت کے طلب کرنے سے باز رہا۔ہر حاجت کو اپنے دائیں ہاتھ سے حاصل کیا،اگر اس کی خطائیں روئے زمین کے تمام باشندوں پر تقسیم کی جائیں، توان سب کو تباہ کردیں گی؛ پس کیا ایسے شخص کے لئے بھی توبہ ہے ؟
جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا! کیا تم اسلام لے آئے ہو؟ تو اس بوڑھے نے کہا بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔اس پر رسول ِاکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ تیری غداریاں اور تیرا فسق وفجور معاف کرنے والا ہے اور تیری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا؛ جب تک کہ تو اس کلمہٴ توحید پر قائم رہے ۔
یہ سن کر اس بوڑھے نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری غداریاں اور میرے فسق وفجور معاف ہوجائیں گے !(بوڑھے نے تعجب سے پوچھا )توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں )تیری غداریاں اور تیرے فسق وفجور معاف ہوجائیں گے۔ اس کے بعد وہ پیٹھ پھیر کر اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کہتا ہوا چل دیا۔
اخرجہ ابن ابی حاتم والطبرانی ‘ کذا فی حیاة الصحابة (۳:۹۱)
قابلِ رشک ایمان کن لوگوں کا ہے؟
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے پوچھا :بتاوٴ! ایمان کے اعتبار سے تم مخلوق میں کس کو زیادہ پسند کرتے ہو؟ یعنی خدا کی مخلوقات میں سے کس مخلوق کے ایمان کو تم بہت قوی اور بہت اچھا سمجھتے ہو؟ بعض صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے جواب دیا ہم تو فرشتوں کے ایمان کو بہت اچھا اور قوی سمجھتے ہیں! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فرشتوں کے ایمان میں کیاعجوبہ پن ہے؟ وہ تو اپنے پروردگار کے پاس ہی رہتے ہیں (یعنی فرشتے مقرب ِبارگاہ خداوندی ہیں اور عالم ِجبروت کے عجائب وغرائب کا ہمہ وقت مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ،اگر ان کا ایمان قوی ہے تو اس میں کیاعجیب وغریب بات ہے!!)
اُنہیں صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے یا دوسرے بعض صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے عرض کیا! توپھر وہ پیغمبر علیھم السلام ہیں کہ ہمارے نزدیک ان کا ایمان بہت اچھا اور قوی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !بھلا وہ شک وشبہ سے دور اور قوی تر ایمان کے حامل کیوں نہیں ہوں گے‘ آسمان سے وحی اترتی ہی ان کے اوپر ۔ اب صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے کہا! تو پھر ہم لوگ ہیں (جن کا ایمان اچھا اور قوی ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! تمہارے ایمان میں کونسی تعجب کی بات ہے، جب میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک ایمان کے اعتبارسے تمام مخلوق میں بڑے اچھے لوگ وہ ہیں جو میرے (زمانہٴ حیات ) کے بعدپیدا ہوں گے (یعنی تابعین اور ان کی اتباع کرنے والے کہ جو نسل درنسل قیامت تک اس دنیا میں آتے رہیں گے) وہ لوگ احکام دین کے مجموعہ مصحف یعنی قرآن پاک پائیں گے اور اس میں جو کچھ مذکور ہے سب پر ایمان لائیں گے۔(المشکوة باب ثواب ھذہ الامة)
ایمان اور یقین:
قارئین کرام :
اللہ ربُّ العز ت نے اس کائنات کو اپنی قدرتِ کاملہ سے پیدا فرمایا اور اس کے چلنے کے کچھ اصول وضوابط متعین فرمادئیے ؛لیکن جب کبھی اللہ تعالی چاہتے ہیں ان اصولوں سے ہٹ کر اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق چیزوں کو استعمال فرماتے ہیں،اسی کو اللہ تعالی کی قدرت کہتے ہیں۔ اوراسی بنیاد پر مومن اور کافر کی زندگی میں فرق ہے۔ کافر کائنات کو ان کے اصولوں کے مطابق چلتا ہوا دیکھ کر یہی سمجھتا ہے کہ بس انہی اصولوں کے مطابق کائنات کو چلناہے؛ جبکہ مومن کی نظر اللہ رب العزت کی ذات پر ہوتی ہے، وہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ رب العزت ہی قادر مطلق ہیں، ہوگا وہی جو اللہ رب العزت کی مرضی اور منشاء ہوگی ۔مومن کی نظر ہمیشہ اللہ رب العزت کی ذات پر جمی رہتی ہے،وہ سمجھتا ہے کہ اللہ رب العزت جو چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔اللہ تعالی سب کچھ کرسکتے ہیں چیزوں کے بغیر اور چیزیں کچھ نہیں کرسکتیں اللہ کے بغیر۔حقیقت میں یہ دل کی ایک کیفیت کا نام ہے ۔ اور اسی کا نام یقین ِکامل بھی ہے۔
شاعر کہتا ہے:
تو عرب ہے یا عجم ہے تیرا لا الہ الا
لغت غریب جب تک تیرا دل نہ دے گواہی
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنے ایمان ویقین کو اتنا مضبوط کرلیا تھا کہ آنکھ کے دیکھنے سے اتنا یقین نہیں ہوتا تھا، جتنا اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمادینے سے ہوتا تھا۔
آئند ہ سطور میں ہم ایمان کی مضبوطی اور یقین کامل پرچند احادیث کا استحضار کرتے چلتے ہیں۔
پہلی حدیث پاک ہے:عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : نجاأول ھذہ الأمة بالیقین والزھد ویھلک آخر ھذہ الأمة بالبخل والأمل۔
” حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ اس امت کے پہلے لوگوں نے یقین اور زہدکی برکت سے نجات حاصل کی اور اس امت کا آخری طبقہ بخل اور لمبی لمبی امیدوں کی بناپر تباہ و برباد ہوگا۔“اخرجہ ابن ابی الدنیا فی کتابہ ”الیقین“
ایمان ویقین سیکھو!:
حضرت خالد بن سعدان فرماتے ہیں کہ :
” تم یقین کو ایسے ہی سیکھو، حیسے تم نے قرآن کریم سیکھا؛ یہاں تک کہ تم یقین کی حقیقت کو اچھی طرح پہچان لواور میں بھی اسی یقین کوسیکھ رہاہوں“ (نفس المصدر)
ایک حدیثِ پاک میں حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ” ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل رہی اور ہماری حالت یہ تھی کہ ہم قوی قسم کے جوان تھے ‘ چنانچہ ہم نے قرآن کریم کو سیکھنے سے پہلے ایمان سیکھا ‘ پھر ہم نے قرآن کریم سیکھا ‘ تو ہمارا ایمان اور بڑھ گیا۔ “سنن ابن ماجہ ص ۷
حضرت ابوالدردا رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ : کیسا بہترین ہے عقل مند لوگوں کا راتوں کو سونا اور ان کا افطار کرنا(نفل روزہ نہ رکھا )اور احمق لوگ راتوں کو (نوافل کے لئے )جاگ کر اور (دن میں )نفلی روزہ رکھ کر کیسے دھوکہ میں پڑے ہوئے۔ایسا شخص جو متقی اور پرہیز گار ہے اور دل میں یقین رکھتا ہے اس ایک ذرہ برابر نیکی بھی ان عبادت گزاروں کے بڑے بڑے پہاڑوں کی مثل عبادت سے افضل ‘ بہتر اور بڑھی ہوئی جو دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں (اور دل میں یقین کی دولت نہیں رکھتے )۔“ ابن ابی الدنیا
صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان ویقین کے سامنے دریا کی بے بسی:
جنگ ِقادسیہ کے موقع پر دشمن تک پہنچنے کے لیے دریائے دجلہ مانع تھا‘ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یہ صورت ِحال دیکھی تو صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں یہ ذرا سا پانی یعنی دریائے دجلہ ان دشمنوں کی طرف عبور کرنے سے مانع ہورہا ہے اور قرآن میں ہے: ”وماکان لنفس ان تموت الا باذن اللہ کتابا موٴجلا“ ”کسی نفس کو یہ اختیار نہیں ہے کہ بغیر حکمِ خداوندی کے مرجائے اور اس کا وقت مقرر کیا گیا ہے“۔
اس کے بعد حضرت حجر بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا گھوڑا دجلہ میں ڈال دیا ،جب انہوں نے گھوڑا دریا میں ڈالا تمام مجاہدین نے اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیا ، دشمنوں نے جب یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ تو جنات اور دیو ہیں؛ چنانچہ ان کو مقابلے کی ہمت نہ ہوئی ،میدان چھوڑ کر بھاگ گئے؛ یوں ان حضرات نے اپنے یقین و ایمان کی برکت سے بغیر جنگ کے فتح حاصل کرلی۔(حیاة الصحابہ)
کیا خوب کسی نے منظر کشی کی ہے
لگاتا تھا تو جب وہ نعرہ تو خیبر توڑدیتا تھا
حکم کرتاتھا جودریا کو تو رستہ چھوڑدیتا تھا
ایمان ویقین کی آگ پر حکمرانی:
صحابہ ٴ کرام رضی اللہ عنہم کے قوی ایمان اور کامل یقین کے سینکڑوں واقعات احادیث و روایات میں مذکور ہیں ۔ ایک اور واقعہ یوں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت معاویہ بن حرمل رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کی، جس میں یہ قصہ بیان کیاکہ ایک مرتبہ مقامِ حرہ (مدینہ کے قریب ایک پتھریلی جگہ )میں ایک آگ ظاہر ہوئی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت تمیم رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جاوٴ! اس آگ کی طرف کھڑے ہوجاوٴ( اور اس کا کچھ بندو بست کرو)حضرت تمیم رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا میں کو ن اور کیا ہوں (جو اس آگ پر اثر ڈال سکوں!)حضر عمر رضی اللہ نے کا فی اصرار کیا تو یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل دیئے ۔حضرت معاویہ بن حرمل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں بھی ان دونوں حضرات کے پیچھے پیچھے ہولیا، یہ دونوں حضرات آگ کی طرف گئے اور آگ کو اپنے ہاتھ سے اس طرح ہانکنا شروع کیا؛ یہاں تک کہ وہ آ گ ایک گھاٹی میں داخل ہوگئی اور حضرت تمیم رضی اللہ عنہ بھی اس کے پیچھے ہولیے ‘حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ فرمانا شروع کیا کہ جس شخص نے حضرت تمیم کو دیکھا اس شخص جیسا نہیں جس نے انہیں دیکھا۔ (یعنی انہیں دیکھنے والا بھی بڑا ہی خوش قسمت ہے) حیاة الصحابہ
سچ ہے کہ
یاد کرتا ہے زمانہ ان انسانوں کو
روک دیتے تھے جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
جنگل کے درندوں پر حضرات صحابہ کے ایمان کا اثر:
ایما ن کی مضبوطی اور یقین کا یہ تاریخی واقعہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہٴ حکومت کا ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد ِحکومت میں شمالی افریقہ کے باقی ماندہ حصے کی فتح کی مہم حضرت عقبہ ابن نافع رضی اللہ تعالی عنہ کو سونپ دی تھی‘ یہ اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ مصر سے نکل کر دادِ شجاعت دیتے ہوئے تونس تک پہنچ گئے اور یہاں قیروان کا مشہور شہر بسایا ، جس کا واقعہ یہ ہے کہ جس جگہ آج قیروان آباد ہے؛وہاں بہت گھنا جنگل تھا ‘ جودرندوں سے بھرا ہوا تھا۔حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ تعالی عنہ نے بربریوں کے شہر وں میں رہنے کے بجائے مسلمانوں کے لیے الگ شہر بسانے کے لئے یہ جگہ منتخب کی ؛تاکہ یہاں مسلمان مکمل اعتماد کے ساتھ اپنی قوت بڑھا سکیں ، ان کے ساتھیوں نے کہا کہ یہ جنگل تو درندوں اور حشرات الارض سے بھرا ہوا ہے؛ لیکن حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک شہر بسانے کے لیے اس سے بہتر کوئی جگہ نہ تھی ‘ اس لیے انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا اور لشکر میں جتنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین تھے ان کو جمع کیا ؛یہ کل اٹھارہ صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین تھے‘ ان کے ساتھ مل کر حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دعا کی اور اس کے بعد یہ آواز لگائی۔
ایتھا السباع والحشرات ‘ نحن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارحلوا عنا‘ فانا نازلون ‘ فمن وجدنا بعد قتلناہ۔
”اے درندواور کیڑو! ہم رسو ل ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں ‘ ہم یہاں بسنا چاہتے ہیں ؛ لہذا تم یہاں سے کوچ کرجاوٴ ‘ اس کے بعد تم میں جو کوئی یہاں نظر آئے گا ہم اسے قتل کردیں گے۔“
اس اعلان کا نتیجہ کیا ہوا ؟ امام ابن جریر طبری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
فلم یبق منھا شئ الاّ خرج ھاربا حتی ان السباع تحمل اولادھا۔
” ان جانوروں میں سے کوئی نہیں بچا ،جو بھاگ نہ گیا ہو؛یہاں تک کہ درندے اپنے بچوں کو اٹھائے لے جارہے تھے۔“
مشہور موٴرخ اور جغرافیہ دان، علامہ زکریا بن محمد قزوینی رحمہ اللہ علیہ (متوفی ۲ ۶۸ہجری)لکھتے ہیں: فرأی الناس ذلک الیوم عجبا لم یروہ قبل ذالک ‘ وکان السبع یحمل اشبالہ۔
” اس کے بعد عقبہ بن نافع رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جنگل کا ٹ کر یہاں شہر قیروان آباد کیا ؛وہاں جامع مسجد بنائی اور اسے شمالی افریقہ میں اپنا مستقر قرار دیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کے دور میں عقبہ بن نافع رضی اللہ تعالی عنہ افریقہ کی امارت سے معزول ہوکر شام میں آباد ہوگئے تھے ‘آخر میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں دوبارہ وہاں بھیجنا چاہا ‘ لیکن آپ کی وفات ہوگئی ۔
سیر اعلام النبلاء(۳:۵۳۳) الکامل لابن الاثیر(۳:۴۲․۴۳)
حضرت فاروق اعظم کے ایمان ویقین کادریاوٴں پر اثر:
قیس بن حجاج کی روایت میں ہے۔ راوی نے کہا: کہ جب مسلمانوں کے ہاتھ مصر فتح ہوچکا تو اہلِ مصر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ مصر کے گورنر تھے ‘ ان دنوں بونہ (جو کہ عجمی مہینوں میں سے ایک مہینہ کانام ہے)شروع ہوچکا تھا۔ اہل مصر نے حضرت عمر وبن عاص رضی اللہ تعالی عنہ (گورنر مصر )کی خدمت میں عرض کیا کہ دریائے نیل کا پانی خشک ہوگیا ہے‘ جب تک ہم ایک رسم نہ کرلیں دریا ئے نیل نہیں بہتا۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت فرمایا کہ وہ رسم کیا ہے؟ اہل مصر نے بتلایا کہ وہ رسم یہ ہے کہ جب اس مہینہ کی بارھویں رات گزرجاتی ہے، تو کہیں سے ایک کنواری لڑکی جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہوتی ہے، اس کو ہم لیتے ہیں اور اس لڑکی کے ماں باپ کو کسی طرح راضی کرلیتے ہیں ‘ پھر اس لڑکی کو جہاں تک ہو سکے بہترین لباس اور زیو ر سے آراستہ و پیراستہ کرکے دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں، اس سے دریا بہنے لگتا ہے۔حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ یہ بات اسلام میں ہرگز نہیں چل سکتی۔ اسلام تو اپنے سے پہلے کی تمام رسوم کو مٹادیتا ہے؛ چنانچہ اہل مصر نے بونہ کے مہینے میں یہ رسم نہ کی اور دریائے نیل کا بہنا بند ہوگیا‘ جب اہل مصر کو پانی کے معاملے میں تنگی پیش آئی تو انہونے جلا وطنی کا ارادہ کرلیا ۔ حضرت ابن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ ساری کیفیت امیر الموٴ منین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی کی خدمت میں لکھ دی، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جوابی خط تحریر فرمایا کہ تم نے اس رسم کے سلسلہ میں جو کچھ کیا ہے وہ درست کیا ہے اور میں نے تمہارے خط میں ایک پرچہ لکھ کر رکھ دیا ہے ‘ خط ملنے پر یہ پرچہ دریا ئے نیل میں ڈالدینا ‘ چنانچہ خط موصول ہونے پر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ پرچہ دریا ئے نیل میں ڈال دیا سنیچر کی صبح اللہ تعالی نے دریائے نیل کو ایسا جاری کردیا کہ سولہ ہاتھ اس کا پانی ایک ہی رات میں چڑھ گیا ۔اور اللہ تعالی نے حضرت عمر کے ایمان ویقین کی برکت سے آج تک اہل مصر کی اس رسم بد کو مٹادیا۔
اخرجہ ابن عساکر۔کذا فی حیاة الصحابة۔(۳:۱۷) حاصل کلام:اللہ رب العزت کے ہاں ایمان کی بہت بڑی قیمت ہے ‘ بلکہ انسان کا مرتبہ ہی اس کے ایمان کی وجہ سے ہے اگر ایمان نہ ہوتو انسان کی کوئی اوقات ہی نہیں۔اورپھر ایمان باللہ کے ساتھ ساتھ اللہ کی ذات کا یقین کامل بھی آجائے تو زندگی میں بھی اللہ تعالی عزتیں عطا فرمائیں گے اور آخرت میں بھی عزتیں عطا فرمائیں گے۔ اللہ تعالی ہمارے ایمان ویقین کی حفاظت فرماکر دنیا وآخرت میں سرخ روئی عطافرمائیں۔آمین۔