انقلابی تبدیلی کی ضرورت:

            ان حالات میں اس بات کی شدّت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ جزوقتی مکاتب کے اس پورے نظام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے؛ یہاں دی جانے والی تعلیم کے اثرات کاجائزہ لیاجائے اور اصلاح ِحال کا ایک جامع اور وسیع منصوبہ بنایاجائے۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی، جزوقتی مکاتب کے اساتذہ کی تربیت کے ایک پروگرام کو بروئے کار لایاجائے، جس میں قرآنی تعلیم کے تئیں اِس روایتی انداز کو بدلاجائے،اجتماعی طریقے سے قرآنی تعلیم کی تربیت دی جائے۔ اس بات کی بھی تربیت دی جائے کہ وہ معصوم ذہنوں میں بچپن ہی سے اس بات کو راسخ کریں کہ قرآن کتاب ِہدایت ہے اور بتدریج اِن بچوں کے سن و سال کے لحاظ سے، قرآنی واقعات اور قرآنی احکام ان کے ذہن نشیں کیے جائیں۔

             قرآن مجید کے آخری پارے کی بیشتر سورتیں ؛بل کہ مکمل پارہ ان کو بامعنی یاد کرایاجائے۔ تاکہ نماز میں بار بار پڑھی جانے والی ان سورتوں کے معانی ومطالب بچوں کے ذہن نشیں ہوجائیں اور بڑی عمرمیں پڑھی جانے والی نمازوں میں خشوع پیداہو۔ ان اساتذہ کو تعلیم کے جدید طریقوں کی واقفیت دی جائے، بچوں کی نفسیات سے واقف کرایاجائے ؛تاکہ وہ بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق تعلیم و تربیت کاکام انجام دے سکیں اور مکاتب کانظامِ تعلیم و تربیت بھی پرُکشش اور دل چسپ بن سکے اور ان مکاتب میں بچوں کا رجوع بڑھ سکے اور وہ ذوق و شوق کے ساتھ ان میں شریک ہوسکیں اور قرآنی تعلیم اور دینیات کی تعلیم سے صحیح طورپر فیض یاب ہوسکیں۔

            جزوقتی مکاتب کے اساتذہ کایہ کیمپ، زیادہ سے زیادہ دنوں پر مشتمل ہوسکتاہے، جس میں انھیں مذکورہ بالا چیزوں کے علاوہ، دینیات اور قرآن کی تعلیم کے نمونے کے اسباق، انتظام مدرسہ، کلاسوں کی مناسب درجہ بندی، جزوقتی مکاتب کے انتظامی و دیگر مسائل، سرپرستوں کی حصے داری، مکاتب کے طلبا کے لیے ہم نصابی سرگرمیاں، مکاتب کے طلبا کی حاضری کے مسائل وغیرہ امور و معاملات پر رہ نمائی کی جاسکتی ہے۔

مکاتب کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے لائحہ عمل:

            صورتِ حال کی اس سنگینی کا تقاضاہے کہ جزوقتی مکاتب کے اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ:

            1) جزوقتی مکاتب کے سلسلے کو وسیع کیاجائے۔

            2) ان امور و معاملات میں ملت کے اربابِ حل و عقد دلچسپی لیں۔

            3) جزوقتی مکاتب کے اس پورے نظام کو ملت کے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے ایک وسیع نیٹ ورک کے طورپر قائم کیاجائے؛ تاکہ ملت کاکوئی بچہ ابتدائی دینی تعلیم وتربیت سے محروم نہ ہو۔

            4) جزوقتی مکاتب کے لیے دینی تعلیم و تربیت اور قرآن پڑھنے کاایک جامع نصاب ہو۔

            5) جزوقتی مکاتب کے پورے نظام کو بچے کے لیے پُرکشش اور دل چسپ بنایاجائے ؛تاکہ ان میں بچوں کارجوع بڑھے اور سرپرست بھی ا س کی اہمیت کو محسوس کرسکیں۔

            6) مدارس کے فارغین اور وہ دین دار جو جدید تعلیم یافتہ ہیں، لیکن بچوں کی دینی تعلیم و تربیت سے دلچسپی رکھتے ہیں، وہ اس سلسلے میں پیش قدمی دکھائیں اور اس نظام کو موٴ ثر بنانے میں دلچسپی لیں۔

جزوقتی مکاتب کے معلمین کے ٹریننگ پروگرام کے مقاصد:

            1 ) جزوقتی مکاتب کے معلمین کو اس طرح تربیت دیناکہ وہ اپنی تدریس کو موٴثر بناسکیں۔

            2) جزوقتی مکاتب کے معلمین کو اصول اور طریقہ ہائے تدریس سے واقف کرانا۔

            3) جزوقتی مکاتب کے معلمین کو تدریس ِاسلامیات کے مقاصد سے واقف کرانا ؛اساتذہ میں دینی تعلیم اور جزوقتی مکاتب کی ضرورت و اہمیت کو راسخ کرنا۔

            4) اساتذہ کو بچوں کی نفسیات کاعلم دینا،تاکہ وہ بچوں کی ذہنی وجسمانی کیفیت و صلاحیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے ساتھ مناسب رویہ اختیارکرسکیں؛ نیز ان میں طلبہ کے تئیں، مشفقانہ رویہ اور ہمدردانہ رویہ پیداہو۔

            5) اساتذہ کواسلامی تعلیم کی تاریخ (History of Islamic Education) سے واقف کرنا۔

            6) اساتذہ میں صلاحیت پیداکرنا کہ تعلیم کے مختلف نظریات و تصورات کو وہ اسلامی نظریہٴ تعلیم سے تقابل کرنے کے قابل ہوجائیں۔

            7) اساتذہ میں اپنے مضمون کے تئیں مہارت، دلچسپی کے مضامین ،ناظرہ قرآن، تجوید، دینیات، عربی زبان،اردو ادب میں تخصص کرنے کارجحان پیداکرنا۔

            8) مبادیاتِ ناظرہ، مبادیاتِ عربی،مبادیات ِتجوید سے واقف کروانا۔

            9) اساتذہ کو طلبہ کی عمر اور اکتسابی صلاحیت کی بنیادپر، درجہ بندی کرنے اور اس کے لحاظ سے موزوں ومناسب نصاب کی ترتیب و تشکیل دینے کے قابل بنانا۔

            10)      نصاب کے اہم مشتملات کی تفہیم کرانا اور تقسیم ِنصاب کے لیے میقاتی و سالانہ منصوبہ بندی سے متعلق عملی رہ نمائی کرنا۔

            11)       مکتب چلانے اور ان کے انتظامی امور کے تقاضوں سے اساتذہ کو واقف کرانا۔

            12)      معلمین کی فکری وفنّی لحاظ سے تربیت کرنا؛تاکہ ان کی شخصیت کاارتقا ہو۔

            13)      جانچ کے طریقوں سے واقفیت ؛تاکہ طلبہ کی ترقی کے مراحل و منازل طے کیے جاسکیں۔

            14)      ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کی نشوونما، ان کے اندر اظہارِ خیال کی صلاحیت پیداکرنا، ان کے اندر کاخوف دور کرنا، نشست و گفتگو کے آداب سے انھیں واقف کرانا اور انھیں نظم و ضبط کا پابند بنانا۔

            15)      طلبہ میں اچھی عادت و اطوار،نماز کی پابندی اور طہارت ونظافت جیسی خوبیوں کوپروان چڑھانا۔

            16)      سرپرست حضرات،منتظمین اور دوسرے نمایاں افراد کاتعاون حاصل کرنا۔

عقائد کے تحفظ کے لیے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال:

            ۳- عقائد کے تحفظ کے لیے ،جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے،زندگی میں پیش آنے والے مسائل ِضروریہ پر، پروگرام بناکر جدید ذرائع ابلاغ اورسوشل میڈیا پر ڈالا جائے۔ اب تو آن لائن تعلیم بھی آسان ہوچکی ہے، لہٰذا بڑے اسلامی اداروں کو اپنے اساتذہ کے ذریعہ ڈاکٹر، انجینئر ، وکلا وغیرہ کے لیے آن لائن کورس متعارف کروائے جائیں اور انہیں دینی تعلیمی سے آراستہ کیا جائے۔ امید ہے کہ بڑی حد تک اس کے بھی عمدہ اثرات مرتب ہوں گے۔ ان شا ء اللہ!

            ۴- اردو ہماری بنیادی زبان ہے، اپنے ہر بچے کو اردو اچھی طرح آجائے ،اس کی پلاننگ کرنی چاہیے، ساتھ ہی عربی بھی سیکھنے کا ماحول بنانا چاہیے۔

            ۵- مدارس میں فارغ ہونے والے طلبہ کو معاشرے کی اصلاح کے صحیح طریقے سکھانے چاہیے، تاکہ معاشرے میں جانے کے بعد موٴثر طریقہٴ اصلاح کو اختیار کرنے میں مدد گار ثابت ہو۔

            ۶- صوبائی اور ملکی سطح پر مختلف زبان جاننے والے علما کی ایک جماعت ہو ،جو اسکول کے نصابِ تعلیم پرباریکی کے ساتھ نظر رکھے اور پھر دیگر علما اور مکاتب کے ذمے داروں کو ان تاریخی اور فکری غلطی کی نشاندہی کرے اور اس کی مرادکو واضح کرے۔

            ۵- اسکول اور کالج کے اساتذہ کے لیے، ایسے ورک شاپ ہوں ، جس میں نصاب میں داخل مسلمانوں کو گمراہیوں کے حامل اسباق کو کیسے پڑھایا جائے،کہ گمراہی سے حفاظت ہو، اس کی ٹرینگ دے۔

            ۶- امت کے ہرطبقے کو تزکیہٴ نفس کی جانب توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔ معتبر بزرگوں سے منسلک ہوجائے اور اپنی اچھی بری کیفیت سے انہیں مطلع کرنا چاہیے؛ تاکہ وہ صحیح علاج کرسکیں۔