ہماری موت سے پہلے اور بعد کی زندگی میں مکمل کامیابی کا ضابطہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب قرآن مجید میں متعدد مقامات پر، الگ الگ انداز میں دیا گیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان لانا اور اعمالِ صالحہ (نیک اعمال) کا اہتمام کرنا دونوں جہاں کی حقیقی اور ابدی کامیابی کی ضمانت ہے۔
پھر ایمان اور اعمالِ صالحہ دونوں میں بنیادی چیز ایمان ہے، اگر آدمی کے دل میں ایمان ہے تو اس کے اعمال ِصالحہ قابل قبول ہیں،ورنہ اعمالِ صالحہ کے پہاڑ بھی ایمان کے بغیر آخرت میں کسی کام کے نہیں!قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:’’وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہ،، وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘۔
(سورۂ مائدہ،آیت:۵)
ترجمہ:’’اور جو ایمان سے انکار کرے گا تو اس کا عمل ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔’’اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مذہبِ اسلام میں سب سے بنیادی چیز’ایمان‘ ہے۔
ایمان کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقیقتوں کو بغیر دیکھے مان لینے اور دل سے یقین کر لینے کا حکم دیا ہے؛ ان پر دل سے یقین کرنے اور دل کی گہرائیوں میں انہیں جمالینے کا نام ایمان ہے۔
عقیدہ کسے کہتے ہیں؟
’’عقیدہ‘ ‘دل میں جمے ہوئے یقین ہی کو کہتے ہیں، اس کی جمع ’’عقائد‘‘آتی ہے۔دل میں جما ہوا یقین، اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیے ہوئے حقائق کے مطابق ہوتو یہ اسلامی عقیدہ اور ایمان قرار پائے گا۔اور اگر دل کے کسی گوشہ میں خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ سچائیوں کے خلاف یقین راہ پا جائے ،تو اس کا نام باطل اور کفر یہ عقیدہ ہے۔جس طرح اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی حقیقتوں کے خلاف یقین رکھنا کفر ہے؛ اسی طرح ان حقیقتوں پر شک کرنا بھی کفر ہے؛ کیوں کہ شک یقین کی ضد ہے، جب کہ ایمان، خدا اور اس کے رسول کی باتوں پر یقین کا نام ہے۔
عقیدہ کی اہمیت:
اسلام میں عقیدہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے کہ عقیدہ کی درستگی اور بگاڑ پر ہی ایمان وکفر کا مدار ہے،عقیدہ اگر اسلامی ہے تو آدمی مومن ہے ورنہ کافر!ایمان دونوں جہاں کی یقینی کامیابیوں کا ضامن ہے، جب کہ کفر دونوں جہاں کی ناکامی کا قطعی سبب ہے۔
چناں چہ فرض کر لیجیے کہ ایک طرف ایسا آدمی ہے جس کا دل انسانی ہمدردی کے جذبات سے پُر ہے، جو غریبوں، بیواؤں،یتیموں اور مجبوروں کی دل کھول کر امداد کرتا ہو، درجنوں مسجدیں اس نے بنوائی ہوں، دسیوں مسلمانوں کو اس نے حج وعمرے کروائے ہوں،کسی مخلوق کو تکلیف نہ دیتا ہو، اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ کبھی عیدگاہ بھی حاضر ہوجاتا ہو؛لیکن اس کا عقیدہ خراب ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور مخلوق کو بھی معبود مانتا ہواور اسی حالت میں مر جائے اور اس کے احسان مند مسلمان،جن کو اس نے حج وعمرے کروائے،وہ اس کے کفر پر مرنے کا علم رکھنے کے باوجود اگر اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا چاہیں یا صرف دعائے مغفرت ہی کرنے پر اصرار کرنے لگیں ،تو انہیں اسلام ہر گز اس کی اجازت نہیں دیتا؛ بل کہ اس کے لیے دعائے مغفرت کو گناہ قرار دیتا ہے اور پھر آخرت میں یہ کافر ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔
اس کے برعکس دوسری طرف وہ شخص ہے جو صحیح اسلامی عقائد رکھتا ہو،لیکن زندگی بھر میں ایک نماز بھی اس نے نہ پڑھی ہو، نہ ہی کبھی روزہ رکھا ہو؛ بل کہ ایمان کے علاوہ کوئی فرض وواجب اس کی زندگی میں نہ ہو، نیز شرک کو چھوڑ کر ہر کبیرہ گناہ کا وہ عادی بھی ہو اور العیاذ باللہ اسی حالت میں اس کی موت آجائے، تب بھی محض اس کے اسلامی عقائد کی وجہ سے اس کی تجہیز وتکفین اور نمازِ جنازہ کا ادا کرنا مسلمانوں کے ذمہ فرض ہے، اگر کوئی بھی مسلمان اس فرض کو ادا نہ کرے تو سارے مسلمان گناہ گار ہوں گے اور یہ مرنے والا گناہ گار مسلمان ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا، ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں داخل کردیا جائے گا۔اللہ اکبر! یہ ہے اسلام میں عقیدہ کا بنیادی مقام اور اس کی اہمیت! آخرت کے ہمیشہ ہمیش کے انعامات اور کامیابیاں ملتی ہیں تو اِ سی عقیدہ کی درستگی پر۔ اور اگر اگلی لامحدود زندگی کی تباہی وبربادی سامنے آتی ہے تو وہ بھی اسی عقیدہ کے بگاڑ اور فساد کے سبب! یہی وجہ تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد سب سے پہلے عقیدہ کی اصلاح کی دعوت دی؛ بل کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو سب سے پہلے عقائد کی درستگی ہی کی تعلیم دی ہے۔
یہاں پہنچ کر ایک لمحہ کے لئے ہمیں بھی ضرور اپنی حالت پر غور کر لینا چاہیے کہ کیا ہم عقائد کا علم رکھتے ہیں؟کتنے اسلامی عقائد ایسے ہیں جن کے بارے میں آج تک ہم نے سنا بھی نہیں، صرف اس وجہ سے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں؛ اسلام کے بنیادی عقائد سے نا واقفیت پر خدا کی پکڑ سے بچ جائیںگے؟ اللہ تعالی کی طرف سے قرآن ِکریم میں بارہا عقیدہ کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا جانا کیا یونہی ایک اتفاق ہے؟اگر نہیں اور ہر گز نہیںتو ہمیں آج ہی اسلامی عقائد کے علم کی طرف توجہ کرنی ہوگی اور انہیں تسلیم کرتے ہوئے ان کا یقین اپنے دل میں جما لینا ہوگا۔
(بشکریہ عصر حاضر با خبر، پر اثر، نقیب فکر ونظر)