اردو اور عربی کے ساتھ ناروا سلوک:

            مذکورہ تمہید کے بعد سب سے پہلے نئی قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء میں مسلمانوں کو اپنی تہذیب سے دور کرنے کے لیے ان کی زبانوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا گیا اسے جانتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہفتہ واری دعوت مین جناب محمد محب الحق کا مضمون بہت معلومات افزا اور چونکا دینے والا ہے، جس میں موصوف نے تجزیہ کیا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں اردو اورعربی کے ساتھ کیسا سوتیلا سلوک کیا گیا ہے اور آزادی کے بعد ہی سے اردو کے ساتھ حکومتی سطح پر بھی اور مسلمانوں کی جانب سے بھی تغافل برتا گیا ہے۔ مضمون اگر چہ تفصیلی ہے، مگر آنکھیں کھولنے والا ہے، لہٰذا ہم اسے یہاں نقل کرتے ہیں:

زبان کسی بھی تہذیب کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے:

            زبان صرف ترسیل کا ذریعہ نہیں ہوتی؛ بل کہ کسی فرد یا گروہ کی شناخت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ زبان کا تعلق کسی خاص قوم یا مذہب سے نہیں ہوتا ؛لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر زبان کسی خاص تہذیب و ثقافت، جغرافیائی حدود اور تاریخی پس منظر کی نمائندگی کرتی ہے؛ لہٰذا کسی زبان میں رائج تشبیہات و تلمیحات، استعارے، اشارے و کنایے اور ضرب الامثال وغیرہ کی صحیح تفہیم، اس کے تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی پس منظر میں ہی ممکن ہے؛ یہی وجہ ہے کہ زبانوں کے عروج و زوال کی داستان، قوموں کے عروج و زوال سے جڑی ہوتی ہے۔

            ریٹا مائے براوٴن کے مطابق ”زبان کسی تہذیب کا روڈ میپ ہوتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ اس کے پروردہ کہاں سے وارد ہوئے اور کس جانب گامزن ہیں“۔

            ‘Language is the road map of a culture. It tells you where its people came from and where they are going”

            اردو زبان میں بین العلومی تحقیق (Inter-disciplinary Research) کے فقدان کے سبب زبانوں کے فروغ اور نشو ونما میں سیاسی اقتدار (Political power) اور مملکت و ریاست کے رول پر خاطر خواہ مواد دستیاب نہیں ہے؛ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، ہمیں سیاست میں دل چسپی ہو یا نہ ہو سیاست کو ہم میں دل چسپی ہوتی ہے۔

زبان کسی بھی ملک پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے:

             موجودہ دور میں مملکتوں کو اقتدارِ اعلیٰ حاصل ہے ،جو اپنے جغرافیائی حدود میں کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے کے لیے خود مختار ہیں۔ ایسی حالت میں سماج کے تمام اداروں پر مملکت حکومت کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے؛ لہٰذا کسی ملک کا تعلیمی نظام، درس وتدریس کی زبان اور طریقہٴ کار کا فیصلہ مملکت کرتی ہے، جس کے دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہندستان کی نئی قومی تعلیمی پالیسی۰ ۲۰۲/ کو اس تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

قومی تعلیمی پالیسیکی اصل بنیاد:

            ۲۹/ جولائی۰ ۲۰۲/ کو مرکزی کابینہ نے نئی قومی تعلیمی پالیسی۰ ۲۰۲ کو منظوری دے دی اور ساتھ ہی ساتھ چھیاسٹھ صفحات پر مشتمل اس تعلیمی پالیسی کی تلخیص بھی جاری کر دی، جس میں کہا گیا ہے کہ ”قدیم اور ابدی ہندستانی علوم وافکار اس پالیسی کے وضع کرنے میں مشعلِ راہ رہے ہیں“۔

            ”The rich heritage of ancient and eternal Indian knowledge and thought have been a guiding light for this policy”

نئی تعلیمی پالیسی ایک نظریاتی پہلو کی حامل ہے:

            نئی تعلیمی پالیسی۰ ۲۰۲ کا بغور مطالعہ کریں تو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ یہ ایک نظریاتی تعلیمی پالیسی ہے۔ جس کے بہت ہی دور رس نتائج برآمد ہوں گے؛ لیکن افسوس کہ اردو زبان کے سادہ لوح دانشور اور اخباروں کے کالم نگار، پالیسی میں شامل ذیلی عنوان ”کثیر اللسانیت اور زبان کی قوت“ (Multi lingualism and power of language)کے تحت بظاہر مادری زبانوں کے فروغ پر مسرت کا اظہار کرتے نظر آئے۔

تعلیمی پالیسی کی تلخیص میں اردو کا کہیں ذکر نہیں:

            حالاں کہ یہاں یہ بات قابل ِذکر ہے کہ خالص ہندستانی زبان ہونے کے باوجود پوری تلخیص میں کہیں بھی اردو کا ذکر نہیں ہے، اگرچہ حکومت کی جانب سے اس امر سے متعلق لوگوں کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی؛ چناں چہ ہائر ایجوکیشن سکریٹری امیت کھرے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مجوزہ تعلیمی پالیسی کے پیراگراف ,4.12,22.6 اور22.18میں دستورِ اساسی کے آغاز میں شیڈول میں شامل تمام زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں اردو بھی شامل ہے۔

            ”انہوں نے مزید کہا کہ سازش کے تحت یہ بات بھی چھپائی جا رہی ہے کہ ان پیراگراف میں ہندی کا بھی ذکر نہیں ہے؛ بل کہ آٹھویں شیڈول کی تمام زبانوں کا ذکر ہے؛ حالاں کہ امیت کھرے کی اس بات سے متفق ہونا مشکل ہے؛ کیوں کہ ہندی ملک کی سرکاری زبان ہے اور اس کی اشاعت و ترقی کے لیے حکومت خصوصی طور پر کوشش کرتی رہی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جہاں دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل تقریباً تمام زبانیں مادری زبان کی حیثیت سے اندراج کرانے والے لوگوں کی شرح کے اعتبار سے منفی رجحان پیش کر رہی ہیں؛ وہیں ہندی بولنے والوں کی تعداد میں نہایت ہی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔۱۹۷۱ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں ہندی ۹۹،۳۶فیصد لوگوں کی مادری زبان تھی۔ جو۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں بڑھ کر۴۳،۶۳ لوگوں کی مادری زبان ہو گئی۔ ہندستان کی بہت ساری علاقائی زبان خطرے میں:

            ہندی اور انگریزی کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، اب ماہرین ِلسانیات ملک کی دوسری زبانوں کے مستقبل کو لے کر تشویش کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہندستان کی قابلِ فخر کثیر اللسانیت (Linguistic diversity) کو خطرہ لاحق ہے اور اسی طرح اگر دوسری زبانوں کا زوال ہوتا رہا تو بہت جلد ملک دو لسانی ہو کر رہ جائے گا۔

قومی تعلیمی پالیسی 2020 اور مادری زبانیں:

            قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء میں یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ حکومت نے مادری زبان کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات کہی ہے کہ بچے کے ذہن میں نئے افکار و خیالات دوسری زبانوں کی نسبت مادری زبان میں زیادہ بہتر طریقے سے آتے ہیں۔ واضح طور پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”جہاں تک ممکن ہے پانچویں جماعت تک ،لیکن ترجیحی طور پر آٹھویں جماعت یا اس سے آگے تک کی تعلیم مادری زبان ، گھریلو زبان، مقامی زبان، علاقائی زبان میں ہوگی“۔(پیرا۔۴۰۱۱)

            ”Wherever possible, the medium of instructions until at least Grade 5, but preferably till Grade 8 and beyond, will be the home language/ mother tonguage/ local language/ regional language.”

            مادری زبانوں کے سلسلے میں حکومت کی یہ پالیسی بظاہر ان ہندستانی زبانوں کے حق میں نیک شگون ہے جو پہلے تو استعماری استبداد کا شکار ہوئیں اور اس کے بعد انہیں حکومت کی مسلسل بے حسی کا سامنا کرنا پڑا۔ پرائمری ایجوکیشن کے لیے مادری زبان کو ذریعہٴ تعلیم بنانا یقیناً قابلِ ستائش ہے۔

مادری زبان کے ساتھ مقامی علاقائی زبان کا استعمال کنفیوژن پیدا کرتا ہے:

            لیکن اوپر کے پیراگراف میں مادری زبان کے ساتھ تین اور اصطلاحات :گھریلو زبان (Home language)، مقامی زبان (Local language)، اور علاقائی زبان (Regional language) استعمال کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے کنفیوژن اور تضاد پیدا ہوتا ہے؛ یہاں ایک پریشان کن مرحلہ یہ ہے کہ ان تینوں اصطلاحات کی وضاحت مشکل ہے، کون سی زبان گھریلو، مقامی اور علاقائی ہے؛ اس کا تعیُّن کن بنیادوں پر ہوگا۔

             مادری زبان اور ان تینوں زبانوں میں یکسانیت یا تضاد پائے جانے کی صورت میں ابتدائی تعلیم کی زبان کیا ہوگی؟ لکھنوٴ، دہلی، مراد آباد، حیدر آباد، رامپور، بنگلور، کلکتہ، ممبئی وغیرہ جیسے شہروں کے باشندوں کی مادری گھریلو، مقامی اور علاقائی زبان کا تعین کیسے ہوگا؟

            اتر پردیش، بہار، جھار کھنڈ، مہاراشٹر، تلنگانہ، مدھیہ پردیش وغیرہ جیسی ریاستوں میں، شہریوں کی مادری، گھریلو، مقامی اور علاقائی زبانوں کا تعین کس طرح کیا جائے گا؟ ظاہر سی بات ہے ان باتوں کا تعین اپنے آپ میں ایک دشوار گزار عمل ہے۔

            سوال یہ ہے کہ مادری زبان کے ساتھ ان اصطلاحات کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ایسا دانستہ طور پر کہا گیا ہے، جس کے پیچھے کچھ خاص اغراض و مقاصد ہیں؟ حکومت کو ان باتوں کی وضاحت کرنی چاہیے۔

سہ لسانی فارمولا بھی حیران کن :

            جن طلبہ و طالبات کی مادری زبان اردو ہے، ان کے لیے یہ فارمولا پریشان کن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طالب علم سہ لسانی فارمولے کے تحت جب تین زبانوں کا انتخاب کرے گا، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ انگریزی عالَم کاری (Globalization) کے اس دور میں روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کی وجہ سے طالب علم کی پہلی پسند ہوگی۔ ہندی چوں کہ ملک کی سرکاری زبان ہے، جس کے فروغ کے لیے مرکزی حکومت اور بہت ساری صوبائی حکومتیں مسلسل کوشش کرتی رہتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہندی ملک میں ترسیل کا ذریعہ (Lingua Franca) کی حیثیت حاصل کرتی جا رہی ہے ؛لہٰذا طالب علم اس کی افادیت کے پیش ِنظر ہندی کا انتخاب کرنا چاہے گا؛ ایسی حالت میں تیسری زبان کا مسئلہ اہم ہوگا۔

            تیسری زبان کے طور پر طالب علم ،ظاہر سی بات ہے، اپنے صوبے کی سرکاری زبان کو ترجیح دے گا مثلاً: مغربی بنگال میں رہنے والا طالب علم بنگالی تمل ناڈو میں رہنے والا تمل، کرناٹک میں رہنے والا کنڑ وغیرہ منتخب کرنا چاہے گا۔

اردو کسی بھی صوبے کی مادری زبان نہیں:

             واضح ہو کہ فی الوقت کسی بھی صوبے کی پہلی سرکاری زبان اردو نہیں ہے؛ ایسی حالت میں مادری زبان کی حیثیت سے اردو کا فروغ بہت مشکل ہوگا، جن صوبوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے، ان میں اردو کی کیا حالت ہے ؟اس سے ہم سب واقف ہیں۔

            چوں کہ سہ لسانی فارمولے کا اطلاق سرکاری اور غیر سرکاری یا نجی دونوں طرح کے اسکولوں پر ہوگا۔ (پیرا۔۱۱،۴) اس لیے وہ تعلیمی ادارے جو اردو کے ساتھ فارسی اور عربی کی تعلیم پر زور دیتے ہیں۔ انہیں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

            اس تعلیمی پالیسی میں جو سہ لسانی فار مولا پیش کیا گیا ہے، اس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس سہ لسانی فارمولے کے انتخاب میں صوبوں کو آزادی دی جائے گی اور کسی بھی صوبے پر کوئی بھی زبان جبراً تھوپی نہیں جائے گی۔ سہ لسانی فارمولے کے تعیُّن یا انتخاب میں صوبوں، علاقوں اور یقیناً طلبہ کی پسند کا خیال رکھا جائے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سہ لسانی فار مولے کے انتخاب کے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ ان میں دو زبانیں ہندستانی ہوں۔ (پیرا۔۱۳،۴)

             ”The three language farmula will continue to be implemented …. there will be a greater flexibility in the three language formula and no language will be imposed on any state. The three languages, learned by children, will be the choices of states, regions, and of course the students themselves, so long as at least two of the three languages are native to india.”

            مندرجہ بالا سطروں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ میں صوبائی حکومتوں کا بہت اہم کردار ہو گا اور مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کو درس وتدریس کی زبان کے تعین اور سہ لسانی فارمولے کے نفاذ کے سلسلے میں چند اہم شرائط کے ساتھ خود مختاری عطا کرتی ہے، ظاہر سی بات ہے یہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ اس سے علاقائی اور مقامی زبانوں کا فروغ ممکن ہے، لیکن اردو کا مسئلہ ملک کی دوسری زبانوں سے مختلف ہے؛ کیوں کہ اردو ایک ایسی زبان ہے، جس کے بولنے والے کسی ایک ریاست، خطے یا علاقے میں نہیں رہتے ؛بل کہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں؛ ایسی حالت میں اردو کے سلسلے میں مرکزی حکومت کی جانب سے کوئی مخصوص پالیسی کی ضرورت تھی؛ لیکن خصوصی پالیسی تو کُجا! قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کے دستاویز میں اردو کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔

قومی تعلیمی پالیسی اور کلاسیکی زبانیں:

            اس پالیسی میں کلاسیکی زبانوں کی بقا اور فروغ کی بات کی گئی ہے۔ پیرا ۱۸،۴ میں باضابطہ ملک کی کلاسیکی زبانوں میں تمل، تلگو، کنڑ، ملیالم، اڑیا اور اس کے ساتھ ساتھ پالی، فارسی اور پراکرت کا ذکر کیا گیا ہے۔ سنسکرت کے علاوہ متذکرہ زبانیں بھی اسکولوں میں طلبہ کو مہیا کرائی جائیں گی اور ان زبانوں کے فروغ کی کوشش کی جائے گی۔ فارسی کو ملک کی کلاسیکی زبانوں کی فہرست میں شامل کرنا یقیناً قابلِ ستائش ہے۔

غیر ملکی زبانوں میں عربی کا شامل نہ ہونا:

 قومی تعلیمی پالیسی کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ غیر ملکی زبانوں کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے ،ثانوی سطح پر طلبہ کے لیے انہیں مہیا کرایا گیا ہے۔ پیرا۲۰،۴ میں کہا گیا ہے۔ ”ہندستانی زبانوں اور انگریزی کے علاوہ غیر ملکی زبانیں جیسے کوریائی، جاپانی، تھائی، فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی، پُرتگالی اور روسی بھی ثانوی سطح پر طلبہ کو مہیا کرائی جائیں گی۔“

            ،،In addition to high quality offerings in Indian languages and English, foregion languages, such as Korean, Japanese, Thai, French, German, Spanish, Portuguese, and Russian will be offered at the secondary level…”(para 4.20

            مندرجہ بالا سطروں میں جہاں غیر ملکی زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے ؛وہاں پُرتگالی کے بعد” اور روسی“ تحریر ہے، روس کے بعد وغیرہ تحریر نہیں ہے، اس کا مطلب صاف ہے کہ غیر ملکی زبانوں میں صرف یہی زبانیں دستیاب ہوں گی۔ قابلِ غور ہے کہ غیر ملکی زبانوں میں عربی کا ذکر نہیں ہے؛ جب کہ عربی دنیا کی پانچ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے، عربی کا اس طرح نظر انداز کر دیا جانا سمجھ سے باہر ہے۔ عربی دنیا کے بیس سے زیادہ ممالک کی زبان ہے اور ساتھ ہی ہندستانیوں کی ایک بڑی تعداد عرب ممالک میں ملازمت کرتی ہے، جن کا ملک کی معیشت میں بڑا اہم رول ہے؛ علاوہ ازیں عرب دنیا سے ہندستان کے قدیم دور سے تعلقات رہے ہیں؛ اس لیے عربی کو اس طرح نظر انداز کرنا ملک کے قومی مفاد (National Interest) میں نہیں ہے۔

            غور طلب ہے کہ اردو اور عربی دو ایسی زبانیں ہیں، جن کا قومی تعلیمی پالیسی میں کہیں ذکر نہیں ہے؛ حالاں کہ ملک کے تناظر میں ان دونوں زبانوں کی بڑی اہمیت ہے۔