حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی ؒ
بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم
الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِینَ، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِ الأَوَّلِینَ وَالْآخِرِینَ، سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِہِ وَأَصْحَابِہِ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّاتِہِ أَجْمَعِینَ، وَعَلَیْنَا مَعَہُمْ، یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔ اَمَّا بَعْد!
دنیا کیا ہے؟
حق اور باطل کا ایک بازار ہے، جس میں عطر اور گلاب بھی ہے اور پیخانہ اور پیشاب بھی ہے۔ صدق اور امانت بھی ہے اور کذب اور خیانت بھی ہے۔ اور قسم قسم کی مخلوق اس بازار میں جمع ہے، اپنی اپنی عقل کے مطابق خریداری میں مشغول ہیں۔ اور ہر ایک عقل و دانش کا مدعی ہے اور دوسرے کو پاگل اور بے عقل بتلا رہا ہے۔
اس بازار میں دو گروہ ہیں:
ایک گروہ اہلِ مذہب، یعنی خدا کے ماننے والوں کا ہے۔
اور دوسرا گروہ دہریہ اور لامذہب لوگوں کا ہے۔
اہلِ مذہب وہ لوگ ہیں کہ جو انسان کو اپنے وجود میں کسی واجب الوجود اور واہب الوجود کا محتاج سمجھتے ہیں اور اس کے وجود کے قائل ہیں۔
اور دہریہ اور لامذہب وہ لوگ ہیں ،جو وجودِ صانع کے منکر ہیں اور اپنے کو اور کسی چیز کو وجود میں کسی کا محتاج نہیں سمجھتے کہ اُس کے سامنے سر جھکائیں اور اس کے احکام کے پابند ہوں۔ کیونکہ جو شخص اپنے کو کسی کا محتاج ہی نہ سمجھے تو پھر وہ کسی بات میں اس کا پابند کیوں ہو؟ دہریہ، ناستک، مادہ پرست، ملحد، منکرِ خدا اور لامذہب وغیرہ ان لوگوں کے نام ہیں۔
ان لامذہبوں کا مذہب یہ ہے کہ یہ تمام عالم ایک خودرو کارخانہ ہے، جو قانونِ طبعی سے چل رہا ہے۔ اور بالفاظِ دیگر یہ کارخانہ مادہ اور طبیعت اور نیچر اور ایتھر کی حرکت سے چل رہا ہے، یعنی دنیا آپ سے آپ بن گئی۔ اس کا بنانے والا کوئی نہیں، ہمیشہ سے خود بخود بنتی اور بگڑتی چلی آتی ہے اور ہمیشہ اسی طرح چلتی رہے گی۔
{قَالُوا مَا ہِیَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا إِلَّا الدَّہْرُ}
(سورۃ الجاثیۃ:۲۴)
دہریہ (منکرینِ خدا) یہ کہتے ہیں کہ ہماری تو یہی دنیاوی زندگانی ہے اور اسی دنیا میں مرتے ہیں اور جیتے رہیں گے، اور زمانہ ہی ہم کو ایک خاص مدت گزرنے کے بعد ہلاک کر دیتا ہے۔
یعنی نہ کوئی خدا ہے اور نہ کوئی یومِ آخر اور یومِ جزا و سزا ہے۔ یہ لامذہب اور منکرینِ خدا، یعنی فرقۂ دہریہ جو مذہب اور مذہبی عقائد کا منکر ہے، اس کے تمام انکارات کے اصل الاصول صرف ایک ہی انکار ہے، یعنی خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کا انکار، اور باقی انکارات اسی ایک انکار کی فرع ہیں۔
اور اس لامذہب فرقہ کا دوسرا بنیادی اصول وحی اور الہام کا انکار ہے۔ اس گروہ کا گمان یہ ہے کہ حواسِ خمسہ ظاہری کے علاوہ اور کوئی ذریعۂ علم نہیں۔ اور اسی بنا پر یہ گروہ انبیاء و رسل، ملائکہ اور کتبِ سماویہ کا منکر ہے۔
اور اس فرقۂ دہریہ کا تیسرا بنیادی اصول بعث بعد الموت، یعنی یومِ آخرت اور جزا و سزا کا انکار ہے۔ یہ لوگ نہ حلال و حرام کی تقسیم کے قائل ہیں اور نہ جزا و سزا کے قائل ہیں۔ ہر انسان اپنی خواہشات اور خیالات میں آزاد ہے، جو چاہے کرے۔ ان لوگوں کے نزدیک حشر و نشر کوئی چیز نہیں۔ گویا جس طرح ایک حیوان اپنی خواہشوں میں آزاد ہے اور کسی قانون کا پابند نہیں، اسی طرح انسان بھی آزاد ہے۔
۱۔ (اسلام یہ بتاتا ہے) کہ یہ کارخانۂ عالم خودرو نہیں، بل کہ اس کا ایک بنانے والا، وجود میں لانے والا، پرورش کرنے والا اور تھامنے والا ہے۔ اسی کو ہم خدا کہتے ہیں۔
۲۔ (نیز اسلام یہ بتاتا ہے) کہ انسانی علم کے ذرائع عام طور پر جو حواسِ خمسہ ظاہری ہیں، لیکن ان کے علاوہ ادراک کا ایک اور نہایت زبردست ذریعہ بھی ہے۔ وہ وحی اور الہام ہے، جو ان حواسِ خمسہ ظاہری سے بالاتر ہے۔ نیز اسلام یہ بتلاتا ہے کہ انسان اپنے خالق کے احکام کا پابند ہے، حیوان کی طرح آزاد نہیں۔
۳۔ (اسلام یہ بتاتا ہے) کہ اس تمام کارخانۂ عالم کا وجود عارضی ہے، سب کو ایک دن فنا ہے۔ اور پھر اس فنا کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے، اور اسی کا نام قیامت اور حشر و نشر ہے۔ اس دن اعمال کے مطابق جزا و سزا ملے گی۔
فرقۂ دہریہ اگرچہ مذہب کو نہیں مانتا، مگر علم اور عقل کی جیت سے تو انکار نہیں کر سکتا۔
کیونکہ یہ فرقۂ دہریہ جو خدا تعالیٰ، انبیاء و رسل، وحی و الہام، کتبِ سماویہ، یومِ آخرت اور جزا و سزا کا منکر ہے، وہ اپنے آپ کو فلسفی اور عقل کا پیرو سمجھتا ہے۔
معلوم ہوا کہ عقل اس کے نزدیک بھی حجت ہے۔
ہم ان شاء اللہ تعالیٰ، دلائلِ عقلیہ اور نقلیہ سے یہ ثابت کر دیں گے کہ یہی مدعیانِ عقل کا گروہ سب سے زیادہ عقل کا دشمن اور فلسفہ و حکمت سے نا آشنا ہے۔
فَأَقُولُ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیقُ، وَبِیَدِہِ أَزِمَّۃُ التَّحْقِیقِ، وَہُوَ الْہَادِی إِلَی سَوَائِ الطَّرِیقِ۔
قرآنِ کریم کی تعلیم:
قرآنِ کریم کی بے شمار آیتوں میں غور و فکر اور عقل سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے (جس کا دہریہ بھی انکار نہیں کر سکتے) کہ: اے انسانو! اپنی ذات و صفات میں اور کائناتِ عالم کے حالات میں غور و فکر اور تفکر و تدبر سے کام لو؛تاکہ اس غور و فکر سے تم کو خالقِ کائنات کی معرفت حاصل ہو۔ اس کے بارے میں ایک ہزار سے زیادہ آیتیں وارد ہیں۔
اس بارے میں قرآنِ کریم کی تعلیم دو قسموں پر منقسم ہے:
۱۔احقاقِ حق۔
۲۔ ابطالِ باطل۔
{لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ}
(سورۃ الأنفال:۸)
احقاقِ حق سے مراد امورِ حقہ اور واقعیہ کو ثابت کرنا ہے۔ اور ابطالِ باطل سے غلط اور خلافِ واقع امور کو رد کرنا مراد ہے۔
مطلب یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور اسلام خاص طور پر دو قسم کی باتوں کی تعلیم دیتا ہے:
۱۔ احقاقِ حق۔
۲۔ ابطالِ باطل۔
قسمِ اول کا حاصل یہ ہے کہ اسلام صحیح اور واقعی اعتقادات اور نظریات کو سکھلاتا ہے، جو عقل اور فطرتِ سلیمہ کے مطابق ہیں، اور دلائلِ عقلیہ و براہینِ ساطعہ سے ان کو ثابت کرتا ہے اور سمجھاتا ہے۔
اور قسمِ دوم کا حاصل یہ ہے کہ اسلام باطل عقائد اور غلط نظریات کے بطلان کو دلیل اور برہان سے واضح کرتا ہے اور اہلِ عقل و دانش کو ان سے احتراز کا حکم دیتا ہے۔
قسمِ اوّل کی تشریح:
علومِ اسلام کی پہلی قسم یہ ہے کہ کائناتِ عالم یعنی آسمان اور زمین، شجر و حجر، انسان اور حیوان سب پر ایک نگاہ ڈالو اور عقل و دماغ سے کام لے کر ان میں غور و فکر کرو تاکہ تم کو کائنات کے خالق اور موجد کی معرفت حاصل ہو کہ یہ کائنات کس طرح وجود میں آئیں؟ آیا خود بخود موجود ہو گئیں یا کسی قدیر علیم اور عزیز حکیم نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے ان کو وجود عطا کیا ہے۔
قَالَ تَعَالٰی: {قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ}۔
(یونس: ۱۰۱)
{أَوَلَمْ یَنْظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ}۔
(الاعراف: ۱۸۵)
{إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ، الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلٰی جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}۔
(آل عمران: ۱۹۰)
قرآنِ کریم میں اس قسم کی چھ سو پچاس آیتیں ہیں جن سب کا مقصد یہ ہے کہ کائناتِ عالم میں نظر و فکر کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کائنات کے خالق اور مدبر کو پہچانو اور اس کی عظمت و جلال کے سامنے سر جھکاؤ۔
اس تفکر و تدبر سے محض کائناتِ عالم کا پہچاننا مقصود نہیں کہ لیل و نہار، شمس و قمر، کواکب و نجوم، فلکیات، معدنیات، نباتات، حیوانات اور نفسیات کی تحقیقات و اکتشافات میں حیران و سرگرداں رہو اور خالقِ کائنات سے کوئی واسطہ اور سروکار نہ ہو۔
حق جل شانہ نے اس آیت میں {اولوا الألباب} (کامل العقل) ان متفکرین فی خلق السموات والأرض کو فرمایا ہے کہ آسمان و زمین میں غور و فکر کر کے اس کے خالق و صانع کا پتہ لگائیں اور آسمان و زمین میں تفکر کے بعد یہ کہیں: {رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا} الخ۔ (آل عمران: ۱۹۱)
خوب سمجھ لو کہ جس نے اپنی ساری عمر عزیز صرف کر کے آسمان و زمین کی چند چیزوں کی ناتمام بل کہ برائے نام کچھ معلومات فراہم کر لیں، وہ کہنے کو سائنسدان بن گیا، مگر حقیقت میں وہ اولوا الألباب یعنی عاقلوں میں سے نہیں بل کہ نادان ہے۔ عمر تو ساری دو چار مصنوعات کے پیچھے گنوا دی اور صانع کا پتہ نہ چلا۔
اور قرآنِ کریم میں غور و فکر نہ کرنے والوں کو جو ڈانٹ بتائی(پلائی) گئی سو اس تہدید کی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر تم کائناتِ عالم کو چشمِ بصیرت سے دیکھتے تو ہماری معرفت حاصل ہو جاتی۔ تم ہم سے غافل اور منحرف کیوں رہے؟ تہدید اور توبیخ کی یہ وجہ نہیں کہ تم نے آسمان و زمین کو کیوں نہیں پہچانا اور معدنیات و نباتات کے منافع و فوائد کا کیوں تجربہ نہیں کیا۔
خوب سمجھ لو کہ سوائے خدا تعالیٰ کے اور اس کے احکام کے کسی چیز کا جاننا ضروری نہیں۔ سب ہیچ ہے، سب ہیچ ہے۔
کائنات کے عجائب وغرائب پر کیسی نظر ہو:
شاہی محل میں جب کوئی بادشاہ کا مہمان جاتا ہے تو شاہی محل کے عجائب و غرائب پر اس لیے نظر ڈالتا ہے کہ اس سے بادشاہ کی شانِ عظمت و جلال کو پہچان سکے۔ اور شاہی محل میں جب چور داخل ہوتا ہے تو وہ شاہی محل کے خزائن و دفائن کو نہایت دقیق و عمیق نظر سے دیکھتا ہے۔ اس نظر و فکر سے چور کا مقصود بادشاہ کی عظمت و جلال کو دیکھنا نہیں ہوتا ،بل کہ اپنے منافع و فوائد کے لیے شاہی محل کی چیزوں کو نہایت غور سے دیکھتا ہے۔
اسی طرح سمجھو کہ مشرق و مغرب کے یہ سائنسدان جو آسمان و زمین کی چیزوں میں غور و فکر کر رہے ہیں، ان کی نظر سارقانہ نظر ہے۔ اپنے فائدہ کے لیے ان کی تحقیق میں سرگرداں ہیں اور جس خداوندِ پروردگار نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں، اس ذاتِ بابرکات سے ان سائنسدانوں کا کوئی تعلق نہیں اور نہ اس سے تعلق کی ان کو کوئی فکر ہے۔
ان سائنسدانوں کی مثال اُس نادان فقیر کی سی ہے کہ جس بھوکے فقیر کو کسی سخی و کریم نے ایک شیر مال دے دیا تو وہ بھوکا فقیر اس شیر مال پر ایسا گرا کہ اس سخی و کریم کو تو بھول گیا اور شیر مال کی تحقیق میں پڑ گیا کہ کیمیاوی طریق پر اس کی تحلیل کرنی چاہیے؛ تاکہ اس کی شیرینی اور لذت کی حقیقت دریافت ہو سکے۔
قرآنِ کریم اہلِ عقل و اہلِ فہم کو حکم دیتا ہے کہ کائناتِ عالم میں غور و فکر کرو تاکہ تم پر یہ واضح ہو جائے کہ اس عالم کا کوئی بنانے والا اور بنا کر تھامنے والا بھی ہے اور اسی ذات پر ان تمام اعلان اور تغییرات کا سلسلہ منتہی ہوتا ہے۔
فرقۂ دہریہ:
یہ کہتا ہے کہ اس کارخانۂ عالم کا نہ کوئی بنانے والا ہے، نہ کوئی چلانے والا ہے اور نہ کوئی تھامنے والا ہے۔ یہ ایک خودرو کارخانہ ہے جو مادہ اور ایتھر کی حرکت سے چل رہا ہے۔
اور موجوداتِ عالم کا تمام سلسلہ مادہ اور اس کی حرکت پر منتہی ہے۔ فرقۂ دہریہ کا یہ ایک عناب شناپ محض دعویٰ ہے ،جس پر دلیل کوئی نہیں۔
علومِ اسلام کی قسمِ دوم
ابطالِ باطل اور اس کی تشریح:
علومِ اسلام کی دوسری قسم یہ ہے کہ اسلام مضرِ عقل اور مفسدِ فطرت باتوں کے ترک کا حکم دیتا ہے، یعنی جو چیزیں خلافِ عقل اور خلافِ فطرت ہیں اُن سے اجتناب اور پرہیز کا ہے، اور خرافات و اوہام پرستی سے احتراز کا حکم دیتا ہے۔
مثلاً شرک اور بت پرستی، کوکب پرستی، وہم پرستی اور نفس پرستی پر قرآنِ کریم ملامت اور سرزنش کرتا ہے اور دلائلِ عقلیہ و فطریہ سے ان امور کا باطل اور غلط ہونا بیان کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک کرنا، بتوں کو پوجنا، نجوم و کواکب کو، اور مادہ و ایتھر کو مدبرِ عالم سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ قرآنِ کریم اس قسم کی خلافِ عقل چیزوں کا شد و مد کے ساتھ رد کرتا ہے۔
غرض یہ کہ جس طرح اسلام حق کو ثابت کرتا ہے، اسی طرح باطل اور خلافِ عقل نظریات کا دلائلِ عقلیہ و فطریہ سے بطلان ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً دہریت، قدامتِ مادہ، عقیدۂ تثلیث اور عقیدۂ شرک کی بیخ کنی کرتا ہے اور یہ بتلاتا ہے کہ قدمِ عالم، تثلیث، شرک، انکارِ وحی و الہام اور انکارِ معاد و جزا یہ سب باتیں خلافِ عقل ہیں۔
{لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ}
(الانفال:۸)
بت پرستی کی مذمت:
قرآنِ کریم جا بجا بت پرستی کی مذموم حرکت پر ملامت کرتا ہے کہ تم نے ان حقیر اور بے حقیقت مورتیوں میں کیا بات دیکھی ہے کہ جو ان کی پرستش کرتے ہو؟ یہ بت تم کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ کوئی ضرر۔ تم بڑے ہی نادان ہو کہ
{أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ، وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ}
(الصافات: ۹۵)
حقیر چیزوں کو تم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور تراشا ہے، انہی کی تم عبادت کرتے ہو! اور کہیں فرماتا ہے کہ ’’اُف ہے تمہاری اس بے عقلی پر۔‘‘(اُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ)
(الانبیاء: ۶۷)
اور جا بجا یہود و نصاریٰ کا رد فرمایا کہ جو عزیر اور مسیح کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ قرآن اُن کے رد سے بھرا پڑا ہے اور دلائل و براہین سے عقیدۂ ابنیت کا بطلان واضح کیا ہے۔
اور قرآنِ کریم میں ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے مابین، اور موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے مابین جو مکالمہ ہوا، اس کو اس لیے ذکر کیا تاکہ دنیا کو حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا نظر آجائے اور باطل، گمراہی اور وہم پرستی کو ترک کر کے علم و حکمت کی راہ اختیار کریں۔
((ماخوذ از:اثبات صانع عالم اورابطال مادیت وماہیت :صفحہ۲ تا۹))