ابطالِ دہریت و مادیت

حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی ؒ

                منکرینِ خدا اور مادہ پرست یہ کہتے ہیں کہ یہ کارخانۂ عالم خود بخود چل رہا ہے، کوئی اس کا بنانے والا نہیں۔ تو ہم بندگانِ خدا ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہر لمحہ اور ہر لحظہ جو عالم میں غیرت اور انقلابات اور تنوعات ظہور میں آ رہے ہیں، تو آپ بتلائیں کہ ان کے اندر کونسا دستِ قدرت کار فرما ہے؟

                تو یہ منکرینِ خدا سوچ سوچ کر یہ جواب دیتے ہیں کہ مادۂ عالم قدیم ہے اور اس کی حرکت بھی قدیم ہے اور عالم کے یہ تمام تغیرات اور تنوعات مادہ اور اس کی حرکت سے پیدا ہو رہے ہیں۔

                اور مادہ کے ذرات بسیط ہیں، جن کی شکلیں مختلف ہیں اور چھوٹے چھوٹے اجزائے عالم کی ترکیبی صورت سے پہلے فضائے غیر متناہی میں پھیلے ہوتے تھے اور ان اجزا کو علمی اصطلاح میں’’ دیمقراطیسی اجزا ‘‘کہتے ہیں۔ اور یہ اجزا ہمیشہ حرکت میں رہتے ہیں اور ازل سے حرکت کے ساتھ متحرک ہیں، اور اسی حرکت کے باعث یہ اجزا مختلف ہیئتوں اور طرح طرح کیفیتوں پر جمع ہونے لگے، جن کے امتزاج سے یہ تمام مختلف صورتیں اور تنوعات پیدا ہو گئے اور رفتہ رفتہ یہ عالم پیدا ہوگیا۔

                اور عالم کا ہر تغیر اور ہر تنوع مادہ کے ذاتی خواص میں سے ہے اور ان تمام تغیرات اور تنوعات کی علتِ اولیٰ مادہ ہے۔ کسی خارجی امر کو ان تغیرات میں کوئی دخل نہیں،بل کہ یہ عالم خود بخود اسی طرح سے چلا آرہا ہے اور اسی طرح چلا جائے گا۔

                اور انہی سلسلۂ اسباب کو ہم (منکرینِ خدا) قوانینِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں اور ان قوانینِ فطرت کے بعد ہمیں (منکرینِ خدا) کو خدا کی ضرورت نہیں رہتی۔ مادہ پرستوں کا مایۂ ناز استدلال ختم ہوا۔

                مادیین اور منکرینِ خدا کی یہ تمام تقریر دلپذیر اہلِ عقل کے نزدیک کوئی دلیل نہیں، بل کہ محض ایک خیالی پلاؤ ہے جو دل بہلانے کے لیے پکا لی گئی ہے، اور جتنی باتیں اس من گھڑت دلیل میں ذکر کی گئی ہیں سب بے دلیل ہیں، جن کی حقیقت سوائے ان کے خیال اور وہم کے کچھ بھی نہیں۔

                اس دلیل کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ ان مادیین اور منکرینِ خدا کا نفسِ ناطقہ اور ان کی قوت و ہمیہ اور خیالیہ ان کے مادۂ لسانی کو حرکت میں لے آئی، اور ان کی زبان سے یہ بے تکے الفاظ نکلوائے، جس پر کوئی دلیل نہیں۔

                ان لوگوں نے بلا دلیل کے اپنی عقلوں اور دلوں کو یہ سمجھا لیا ہے کہ ان تنوعات اور تغیراتِ عالم کا سبب مادہ اور اس کے اجزائے بسیط کی حرکتِ قدیمہ ہے۔

                علمائے طبیعیات کے پاس اس امر کا کوئی ثبوت اور کوئی دلیل نہیں کہ کائناتِ عالم کے یہ تغیرات اور تنوعات خواصِ مادہ کے سبب سے ہیں۔

                اہلِ عقل پر مخفی نہیں کہ قدیم چیز کے خواص بھی قدیم ہوتے ہیں، پس اگر ان تغیرات کی علت مادۂ قدیمہ اور اس کی حرکت قدیمہ ہے تو یہ تغیرات بھی قدیم ہونے چاہئیں۔

                حالانکہ ہم کو یہ بات مشاہدہ سے معلوم ہے کہ یہ تمام تغیرات اور تنوعات حادث اور نو پیدا ہیں، جو حال میں پیدا ہوئے ہیں اور ماضی میں کہیں ان کا نام و نشان نہ تھا۔ اور مادیین کے پاس اس امر کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ تغیرات اور تنوعات مادہ کی لوازم اور خواص میں سے ہیں اور نہ ان مادیین کے پاس اس امر کی کوئی دلیل ہے کہ ان اجزائے بسیطہ کے امتزاج میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی اور امتزاج کے لیے اتنے زمانہ کا کیوں انتظار کرنا پڑا۔

منکرینِ خدا سے ایک اہم سوال :

                ہم ان منکرینِ خدا سے یہ سوال کرتے ہیں کہ مادہ اور طبیعت آپ کے نزدیک بھی بے ارادہ اور بے شعور چیز ہیں اور علم اور ادراک سے عاری ہیں۔

                پس مادہ کے غیر شعوری حرکت اور اجزائے بسیطہ کے غیر شعوری امتزاج سے ایک عاقل اور دانا یا فلسفی اور سائنس دان انسان کی صورت کیسے تیار ہو گئی؟ اور جب کہ مادہ اور اس کے خواص اور لوازم اور اس کی حرکت سب کچھ قدیم ہے، تو اس سائنسدان کا تولد 1900ء میں کیوں ہوا؟ اس سے پہلی صدی میں ان کے مادہ قدیمہ کے اجزا میں امتزاج ہو کر ان کی ولادت کیوں نہ ہوگئی؟

                کائناتِ عالم کے تغیرات اور انقلابات کو دیکھتے ہی بالبداہت یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اس عالم کو اس طرح نچانے والا اور ان کا تماشا دکھلانے والا لا محالہ کوئی مدرک اور ذی علم اور انجام بین شئ ہے۔ کسی بے شعور اور بے خبر اور بے ارادہ چیز کا یہ کام نہیں ہے۔

                اور کائنات اور کائناتِ عالم کے یہ عجیب عجیب تماشے نہ اتفاقی ہیں اور نہ کسی غیر شعوری حرکت کا اثر ہیں۔ مادہ کہو یا نیچر کہو، یا ایتھر کہو، یا طبیعت کہو، وہ عقل اور ادراک سے یکسر خالی ہے۔ وہ ان تغییرات و تنوعات کی علت کس طرح بن سکتی ہے؟

                نیز آپ کو بھی اس مادہ اور نیچر کا صرف نام معلوم ہے، حقیقت آپ کو بھی معلوم نہیں، اور نہ آپ کو مادہ کے خواص اور آثار اور لوازم کا علم ہے، اور نہ آپ نے مادہ کی اجزائے بسیطہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اور نہ کسی خورد بین سے آپ کو یہ اجزائے بسیطہ نظر آئے ہیں، اور نہ آپ لوگوں نے کبھی مادہ کی حرکت کا مشاہدہ کیا ہے۔

                اور اگر بفرض محال آپ نے اپنے مادہ کی حرکت کی کوئی جھلک دیکھی بھی ہے، تو اپنے اُس کے ازلی اور ابدی ہونے کا کہاں سے مشاہدہ کر لیا؟ جو شخص ماں کے پیٹ سے پیدا ہوکر سات ستر برس کے بعد قبر کے پیٹ میں پہنچ گیا ہو، تو وہ ازلیت اور ابدیت کا کہاں مشاہدہ کر سکتا ہے؟

                پس جب آپ کو مادہ اور نیچر کی نہ حقیقت اور ماہیت معلوم ، اور نہ اس کی صفت اور حالت معلوم ہے، اور نہ اس کی خاصیت معلوم ہے، اور نہ اس کی حرکت معلوم ہے، اور نہ اس کی حرکت کی کیفیت اور کمیت معلوم ہے، تو آپ نے ایک مجہولِ مطلق چیز کو تغیراتِ عالم کی علت کیسے ٹھہرالیا؟

                نیز مادہ کے اجزائے بسیطہ، جن کو یہ لوگ سالمات اور اجزئے لاتتجزی کہتے ہیں، ان لوگوں نے تو ان اجزائے بسیطہ کی شکل اور صورت بھی نہیں دیکھی کہ وہ ایتھر کس شکل کا ہوتا ہے؛ لہٰذا جب کہ یہ ایتھر ایک غیر محسوس شئ ہے، تو آپ نے اس کو مان کر اپنے قاعدہ مسلمہ سے انحراف کیا کہ جو چیز محسوس نہیں، ہم اُس کے وجود کے قائل نہیں۔ تو پھر آپ اس غیر محسوس ایتھر اور مادہ کے کیسے قائل ہوئے؟

عقل بھی اس بے عقلی پر حیران ہے؟

                نیز علمائے طبیعیین کوئی وجہ اس کی نہیں بتا سکتے کہ اجزائے صغار یا اجزائے تتجزیٰ سالمات جو فضائے محض میں مملو تھے، اور جو آپس میں باہم مشابہ اور مماثل تھے، وہ کیوں ایسے خاص طور سے متصل ہوئے، کہ کچھ تو ان میں سے پہاڑ کی صورت بن گئے اور کچھ ایسی طرح ملے کہ دریا اور سمندر ہوگئے، اور کچھ ان میں سے قسم قسم کے انسان ہوگئے، کوئی خوبصورت اور کوئی بدصورت، اور کوئی عاقل اور کوئی مجنون بن گیا، اور کوئی عاشقِ خدا اور کوئی دشمنِ خدا بن گیا، اور کچھ قسم کے حیوانات بن گئے وغیرہ وغیرہ۔

                کیوں کہ آپ کے نزدیک مسلّم ہے کہ مادہ کے ان اجزائے بسیطہ میں نہ سماعت ہے، اور نہ بصارت ہے، اور عقل و شعور ہے اور نہ گویائی اور شنوائی ہے، تو آپ نے اس اندھے اور بہرے ، گونگے اور بے جان اور بے عقل و بے شعور کی غیر اختیاری حرکت کو تنوعاتِ عالم کا سبب کیسے ٹھہرالیا؟

                باتفاق حکمائے عالم دنیا میں سب سے بہتر اور قیمتی چیز عقل ہے ، عقل اورفہم سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں ، پس مادیین بتلائیں کہ بے شعور مادہ کی غیر شعوری حرکت سے یہ عقل جیسی نعمت کیسے وجود میں آئی؟

                 نیز تمام عقلا اس پر متفق ہیں کہ حروفِ ابجد یہ جن کی تعداد تیس سے زائد نہیں۔ یہی محدود اور معدود حروف تمام تقریروں اور تمام تحریروں کا مادہ ہیں۔ انہی حروف میں تغییر و تبدل اور تنوع سے دنیا کے مختلف مقالے اور مقولے بن رہے ہیں۔

                مادہ سب کا ایک ہے اور صور نوعیہ مختلف ہیں۔ بس ایک عاقل اور دانا تو یہ سمجھتا ہے کہ حروفِ ہجائیہ کے یہ تمام تنوعات اور تغییرات انسان کے نفسِ ناطقہ کے ارادہ اور اختیار کے تابع ہیں۔ وہ جس طرح چاہتا ہے، ان حروف اور الفاظ کو ترکیب دے کر کلام کرتا ہے۔

                لیکن اگر بالفرض کوئی مادہ پرست یہ کہنے لگے کہ دنیا کی تمام قسم قسم کی تقریریں اور تحریریں کسی انسان کے نفسِ ناطقہ کے ارادہ اختیار سے ظہور میں نہیں آرہی ہیں،بل کہ حروفِ ہجائیہ کی حرکت قدیمہ کے بنا پر مقولوں اور مقالوں کے تنوعات اور تغیرات ظہور میں آ رہے ہیں، اور یہ کہے کہ ہمیں ان تقریروں و تحریروں کے لیے بااختیار متکلم کے وجود کے ماننے کی ضرورت نہیں، تمام دنیا کا سلسلۂ کلام ازلی اور ابدی ہے، اور مادۂ کلام یعنی حروفِ ہجائیہ کی حرکتِ قدیمہ سے قوانینِ فطرت کے ماتحت یہ سلسلہ چل رہا ہے، تو سائنس دان حضرات بتلائیں کہ اس شخص کے متعلق بارگاہِ سائنس سے کیا فتویٰ صادر ہوگا؟

                 اور یہ بتلائیں کہ آپ نے جو وجودِ صانع کے انکار پر تقریر کی تھی، اس تقریر میں اوراُس تقریر میں جو اس شخص نے انکارِ متکلم پر تقریر کی ہے، کیا فرق ہے؟ ہمارے اس بیان سے یہ امر بخوبی واضح ہوگیا کہ مادیین نے تنوعاتِ عالم کے سبب بیان کرنے میں جو کہا ہے، وہ دلیل نہیں،بل کہ ایک فرضی افسانہ ہے اور اپنے خیال کی ایک مضحکہ خیز تاویل ہے۔

حادث اور قدیم کا ایک محل میں اجتماع !!

                نیز تمام حکما اس کے قائل ہیں کہ جسم دو چیزوں سے مرکب ہے: ایک مادہ اور ایک صورت سے، اور صورت ن سب کے نزدیک حادث ہے۔ پس اگر مادۂ اجسام کو قدیم مانا جائے تو لازم آئے گا کہ ہر جسم ایسے دو اجزا سے مرکب ہے کہ ایک ان میں سے قدیم ہے اور ایک حادث ہے۔ اس صورت میں حادث اور قدیم کا اجتماع ایک محل میں لازم آئے گا جو سراسر خلاف عقل ہے۔ نیز جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان اجزائے صغار یا سالمات سے جو چیز بنی ہے، اس کی ترتیب اور نظم ایسی ہے جس کو دیکھ کہ عقل حیران رہ جاتی ہے کہ ذرا اس ترتیب میں خلل آجائے تو مقصد حاصل نہیں ہوتا، ایک چھوٹے سے تنکے اور چھوٹے سے بھُنگے سے ہا تھی اور وہیل مچھلی تک دیکھو کہ ان میں وہ تمام اعضا موجود ہیں جن کی ان کو ضرورت ہے، پس ہم کو بے اختیار ماننا پڑتا ہے کہ کسی صاحبِ قدرت و حکمت ہی نے یہ مختلف قسم کے اتصالات ان سالمات میں پیدا کیے ہیں، اور یہ کہہ دینا کہ یہ تمام اتصالات از خود خواص مادہ سے یا اتفاقی طور پر پیدا ہوتے ہیں، محض لغو اور مہمل ہے، کیوں کہ نفس ِمادہ میں بالاتفاق ارادہ اور شعور کا نام و نشان نہیں۔

 خدا کا مان لینا فلاسفہ کے ان عجیب و غریب باتوں کے ماننے سے زیادہ آسان ہے:

                 پھر ایک بے شعور اور بے ارادہ چیز سے یہ عظیم الشان کارخانہ عالم کس طرح وجود میں آیا ،جس کے چھوٹے سے چھوٹے حصہ کو دیکھ کر تمام روئے زمین کے حکما اور عقلا کی عقلیں حیران اور دنگ رہ جاتی ہیں، اور کسی کی یہ مجال نہیں ہوتی کہ اس کارخانہ ٔعالم میں کس قسم کا نقص ثابت کر سکے۔ہر لمحہ اور ہر لحظہ عالم کے عجیب و غریب تغیرات نظروں کے سامنے ہیں۔ کیا یہ سب تغیرات اور یہ خاص خاص افعال، اور یہ خاص خاص اقوال، اور یہ خاص خاص احوال سب خواص مادہ ہی کے سبب سے ہیں؟ مادہ میں یہ قوت کہاں ہے کہ جو ایسی کرشمے د کھلا سکے؟ بل کہ اس عالم کا ایک صانع ہے ،جو صاحب علم و حکمت، اور صاحب قدرت و ارادہ ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے، اس عالم کو پلٹیاں دیتا رہتا ہے۔ وہی اسی عالم کا خدا اور پروردگار ہے۔ خدا کا مان لینا فلاسفہ کے ان عجیب و غریب باتوں کے ماننے سے زیادہ آسان ہے۔

(ماخوذ از:اثبات صانع عالم اورابطال مادیت وماہیت :صفحہ:۹ تا۱۴)