چوتھی قسط:۱۸ محرم۱۴۴۱ھ (حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تفسیر)
مولانا حکیم فخر الاسلام
۱۲:’’ فطری مذہب ‘‘سے ہم آہنگی کا رجحان:
آیت’’ ولکل و جھۃ‘‘ الخ ( بقرہ:۱۸ )-تفسیر نذیر( ف۲):’’مسلمان جیسے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کی حالت میں مسلمان تھے ویسے ہی کعبہ کی طرف ،ویسے ہی ریل اور کشتی میں ہر طرف ۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:- اگر قبلہ کا علم ہوا اور استقبال پر قدرت ہو،تو پھر ریل اور کشتی وغیرہ میں بھی استقبال فرض ہے ۔ہر طرف (رخ کر کے نماز پڑھ لینا)کیسے جائز ہے؟ اور اگر علم یا قدرت نہیں ،تو ریل اور کشتی کی کوئی تخصیص نہیں ۔پھر یہ کہ عبارت میں ایسی قید بڑھا نا ضرور ی ہے، جس سے اطلاقِ جواز کا شبہ نہ پڑے۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ۳)
۱۳: مفاہمت بین المذاہب کا رجحان:
رکو ع ا؍ کلمہ’’ والمنخنقۃ‘‘(سورہ ٔمائدہ:ع۱)۔ ترجمہ: ’’اور جو گلا گھٹنے سے مر گیا ہو۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت: -ہر چند توجیہ اس کی ہوسکتی ہے ؛مگر ظاہراً اِس سے شبہ پڑتا ہے کہ جو خود گلا گھٹنے سے مر گیا ہو وہ حرام ہے اور جس کا گلا کسی نے گھونٹا ہو اُس کی حرمت سے قرآن ساکت ہو۔ اس شبہ کو تعمیم ترجمہ سے یا مستقل حاشیہ سے اس لیے تصریحاً رفع کرنا ضروری تھا -کہ بعضے لوگ اس زمانہ میں گلاگھونٹی مرغی وغیرہ کو حلال کہتے ہیں-اِس ترجمہ سے اُن(لوگوں) کی تائید کا احتمال ہے جس کاانسداد ایسے موقع پر نقلاً و عقلاً ضروری ہے ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۱۰)
۱۴:تائید باطل بالحق:
آیت’’ ماجعل اللہ علٰی رجل من قلبین فی جوفہ‘‘۔ الخ۔(احزاب :ع۱) تفسیر نذیر (ف۱):’’ہم نے اپنی کتاب محصنات کی لوح کے صفحہ پر اس آیت کا حاصل ترجمہ یوں کر دیا ہے ۔‘‘
ہم معتقد دعوے باطل نہیں ہوتے
سینے میں کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے
استدراکِ حکیم الامت:-’’چوںکہ اس کتاب کا نتیجۂ مضمون تعدد ازواج کی مطلق ممانعت ہے گو شوہر عدل واجب بھی کر سکے ۔اوراُس میں آیت’’ فان خفتم الاتعدلوا و آیت ولن تستطیعواا ن تعدلوا‘‘ کی تفسیر میں تحریف بھی کی گئی ہے۔‘‘
اِس تحریف کی حقیقت حکیم الامتؒ نے الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ میں اِس طرح ظاہر فرمائی ہے:
’’ سید احمد نے کہااورپھر ڈپٹی نذیراحمد نے اِس(شخص) کا اتباع کیا۔یہ دعوی کیا کہ ایک عورت سے زیادہ نکاح کرنا جائز نہیں ۔اور دلیل یہ پیش کی فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً ۔ (آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ)اس سے معلوم ہوا کہ اگر عدل نہ ہوسکے، تواُس کے لیے ایک سے زائد نکاح کرناجائز نہیں۔(یہ دلیل کا)ایک مقدمہ ہوا۔ دوسرا مقدمہ یہ ہے، وہ دوسری جگہ ہے ’’وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّساَئِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ‘‘ اِس سے معلوم ہوا کہ عدل کی قدرت ہی نہیں۔( ایک عورت سے زیادہ نکاح جائز نہ ہونے کے لیے سر سید اور ڈپٹی نظیر احمد نے یہی دلیل پیش کی ہے۔اِس کے دوجواب ہیںـ: ) ایک تو موٹا جواب ہے کہ اللہ میاں کو اتنے ہیر پھیر کی ضرورت ہی کیا تھی صاف کہہ دیتے کہ ایک سے زائد نکاح جائز نہیں ۔دوسرایہ(جواب ہے ) کہ چودہ سوبرس تک کسی نے اس آیت کو نہ سمجھا حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہ سمجھا آپ ہی نے سمجھا۔یہ تو موٹی بات تھی(کہ جسے آپ سمجھ گئے،تو حضورﷺ کیسے نہیں سمجھ پائے؟)۔باقی حقیقت دلیل کی یہ ہے کہ ایک تو ہے عدل فی المعاملہ اور ایک ہے
عدل فی المحبۃ تو ’’فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا فَواَحِدَۃً‘‘ میں جو ممانعت ہے وہ یہ کہ اگر عدل فی المعاملہ نہ ہو سکے۔ تو ایک سے زائد نکاح نہ کرو۔ اور دوسری آیت میں جو ہے ’’وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْا اَنْ تَعْدِلُوْا۔ الآیۃ‘‘ وہاں مراد عدل فی المحبۃ ہے جب یہ اس کی قدرت میں ہے نہیں تو اس پردوسرا مقدمہ ملاتاہوں ’’لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا‘‘ کہ عدل فی المحبت کا حکم ہی نہیں وہ غیر اختیاری ہے۔ جب میل ہوگاایک جانب ہوگا تو فرماتے ہیں ’’فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ‘‘ یعنی محبت کی وجہ سے بعض المیل کی تو اجازت ہے جو کہ عدل فی المعاملہ کو مانع نہیں باقی کل المیل نہ ہو جس سے عدل فی المعاملہ بھی نہ ہوسکے۔ آگے فرماتے ہیں ’’فَتَذَرُوْ ہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ‘‘ ہا ضمیر محال عنہاکی طرف راجع ہے۔ کہ اس کو بالکل معلقہ چھوڑ دو یہ ’’فَتَذَرُوْ ہَا کَا لْمُعَلَّقَۃِ‘‘ صریح قرینہ ہے اس بات کا کہ کل المیل کی ممانعت ہے بعض المیل کی اجازت ہے۔‘‘(ملفوظات ج۱۵ ص۴۷تا۴۸)
لیکن نص سے ثابت شدہ اِس مسئلے کو تو ڈ پٹی نذیر احمد نے یہ کہہ کر اُڑا دیا کہ’’ ہم معتقد دعوے باطل نہیں ہوتے‘‘۔ا ور خود اپنے اِنکارِتعددِ ازواج کے اعتقاد کی-جو در حقیقت باطل عقیدہ ہے- تائید کے لیے کتاب ’’محصنات ‘‘کی لوح پر آیت کا ترجمہ لکھ دیا۔لیکن مضمون کتاب چوں کہ باطل ہے۔’’ اس لیے لوح پر کسی آیت کا ترجمہ لکھنا -جس سے حاصل مضمون کتاب کی تائید ہوتی ہو-نا جائز اور تائید باطل بالحق ہے ۔نہ وہاں لکھنا جائز تھا اور نہ یہاں اُس کی حکایت جائز ہے کہ خواہ مخواہ موہمِ صحتِ کتاب ہے ۔دوسرے یہ کہ حاصل ترجمہ آیت کا مصرع ثانی ہے اور مصرع اول جس میں امکان ِعدل کے دعویٰ ،باطل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔…اِس آیت کے حاصل سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا؛ بل کہ شرع وعقل کے بھی خلاف ہے ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۶،۲۷)
۱۵:مریدینِ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی :
آیت’’ وفدیناہ بذبح عظیم‘‘(صافات:ع۳) تفسیر نذیر(ف۱):’’اور ہمارا ذہن اس طرف منتقل ہواکہ شاید بڑی قربانی سے بقرعید کی قربانی مراد ہو کہ یہ بھی سنت ابراہیمی ہے۔ والعلم عنداللہ۔ ‘‘
استدراکِ حکیم الامت: -فدیہ کہتے ہیں ایک شئے کو دے کر دوسری چیز کو چھڑا لینا اور بچا لینا ۔تو بقرعید کی قربانی جو بعد اس واقعے کے مشروع کی گئی فدیہ اسماعیل علیہ السلام کا ہو سکتی ہے اس لیے یہ انتقا ل ذہنی مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے غلط ہے؛ بل کہ صحیح وہی ہے جو اور مفسرین نے کہا ہے کہ کوئی دنبہ ان کی چھری تلے لا کر رکھ دیا گیا اور اسماعیل علیہ السلام اُٹھا لیے گئے۔ پھر یہ کہ ظاہر الفاظ کو چھوڑ کر ایسی بعید توجیہ کی حاجت ہی کیا ہے ؟کہ قرآن مجید میں کسی عجیب قصے کا مذکور ہونا (کیا)کوئی مضائقہ کی بات ہے جواُس کے بدلنے اور نکالنے کی کوشش کی جائے۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۸)
۱۶:ـاظہارِ تاسف میں اہلِ باطل کی حمایت :
آیت’’ ولما یدخل الایمان فی قلوبکم‘‘(حجرات:۲) تفسیر نذیر(ف۱ ):’’سخت افسوس ہے کہ آج کل مسلمانوں میں یہ فساد کثرت سے شائع ہو گیا ہے کہ بات بات میں مسلمانوںکوکافر بنا دیتے ہیں۔ ‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ علی الاطلاق افسوس کرنا بے جا ہے جیسے لوگوں کا اس آیت میں مذکور ہے کہ باوجود دعویٰ اسلام کے خود اللہ تعالیٰ نے اُن سے ایمان کی نفی فرمائی جن کی حالت اب بھی ایسی ہوگی کہ زبان سے دعویٰ ایمان کا کریں؛ مگر جوعقائد واعمال ایمان کے ہیں اُن کا انکار وتحریف کرتے ہوں۔ اِسی فتویٰ الٰہیہ کے اتباع سے اگر ان کے کفر کا فتویٰ دیا جائے تو کیا افسوس کی بات ہے ؟البتہ بلا دلیل شرعی کسی کی تکفیر کرنا ضرور محل تأسف ہے ۔پس اظہار تأسف میں ایسی قید لگانا واجب ہے۔ ورنہ اہل باطل کی طرف داری کا شبہہ پڑتا ہے بل کہ عام لفظ میں بالیقین اُن کی حمایت داخل ہوئی جاتی ہے ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۰)
۱۷:تفسیر باعثِ غلط اندازی عوام :
آیت ’’یا ایھا النبی اذاطلقتم النساء‘‘(طلاق:ع۱)تفسیر نذیر (ف۱)ـ:’’حدیث میں مردو عورت کو اچھا موقع دیا گیا ہے کہ پھر ملاپ کریں اور مرد اپنی طلاق کو واپس لیں جس کو اصطلاح شرع میں رجوع اور رجعت کہتے ہیں ۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ چوںکہ رجعت ایک خاص قسم طلاق میں جائز ہے اس لیے علی الاطلاق عدت میں رجعت کے جواز کاحکم کرنا غلط و باعث غلط اندازی عوام ہے۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۲،۳۳)
۱۸:اللہ تعالیٰ نے واقعیات کی قسم کھائی ہے نہ کہ فرضیات کی:
آیت’’ والسماء ذات البروج‘‘(بروج)تفسیر نذیر(ف۱):’’آسمان کے بارہ حصے کر رکھے ہیں۔ الخ ۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:- ’’یہ حصے اول تو فرضی ہیں اللہ تعالیٰ نے واقعیات کی قسم کھائی ہے نہ کہ فرضیات کی ۔مترجم صاحب کے اقوال وہی لیے جائیں گے جن کو اہل عرب اپنی اطلاقات میں بھی استعمال کرتے ہوں ۔اور کہیں ثابت نہیں کہ عرب میں بروج سے یہ بارہ حصے سمجھتے بولتے ہوں ۔یہ تو یونانیوں کی اصطلاح ہے (لہذا یونانیوں کے اقوال)قرآن مجید میں کس طرح مراد ہو سکتے ہیں؟بل کہ صحیح معنی بروج کے وہی گنبدہیں جن کی مترجم صاحب نے نفی فرمائی ہے ۔اور مراد اس سے بڑے بڑے کواکب ہیں جیسا کہ ابن عباس کاقول ہے قرآن مجید میں ان کے ساتھ ’’جعل ‘‘بھی متعلق کیا گیا ہے ’’جعل فی السماء بروجا‘‘ جس سے ان کاموجود ہونا ثابت ہے (نہ کہ اجزائے تحلیلیہ ہونااور فرضی ہونا)۔پس جس تفسیر پر یہ محض فرضی ہوں وہ تفسیر صحیح نہیں ہے ۔اور اس میں کسی مفسر کی تقلید کا عذر نہیں ہو سکتا۔ کیوںکہ ایسے امور میں تقلید صحیح نہیں ۔‘‘
(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۴)
۱۹:حدود سے متجاوز تفسیر:
آیت’’ وان لنا للآخرۃ والاولٰی‘‘(واللیل)ٰتفسیر نذیر (ف۲):’’تو جو آدمی دنیا کاخواہاں ہوگا اُس کو دنیا دیں گے اور جو آخرت کاخواہاںہوگا اُس کو آخرت دیں گے اور جو دونوں کا خواہاں ہوگادونوںدیں گے۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’اس آیت میں تو صرف دنیا وآخرت کا مملوک خداوندی ہونا مذکور ہے۔ اُن وعدوں کا کہیںپتہ بھی نہیں(جنہیں تفسیرِ نذیر میں ذکر کیا گیا ہے)۔ اور اگر یوں کہیے کہ غرض اِس اِخبار سے یہی ہو ،سو اِس میں شرط یہ ہے کہ یہ غرض دوسرے نصوص سے خلاف نہ ہو ۔حالاں کہ غور کرنے سے اس میں دو امر خلاف معلوم ہوتے ہیں۔۱: ایک یہ کہ طالب دنیا کودنیا مل جانا ضروری نہیں۔ مشاہدہ اور آیت’’ من کان یرید العاجلۃ عجلنالہ فیھا ما نشاء‘‘ اِس کی دلیل ہے۔ ۲:دوم یہ کہ اِس عبارت سے طالب مجموعہ دنیا و آخرت کی تفضیل طالبِ آخرت پر نکلتی ہے (حالاں کہ)بے انتہاآیات واحادیث اِس کی تکذیب کرتے ہیں ۔اگر آیت حسنہ دارین سے شبہہ ہوتا ہو، تو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا اور چیز ہے اور ’’حسنۃ فی الدنیا‘‘ اور چیزہے کہ وہ عین دین ہے ۔(جس کی تفسیر اعمالِ صالحہ ہے۔دیکھیے بیان القرآن:ربنا اٰتِنا فی الدنیا کی تفسیر )‘‘
(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۴)
۲۰:بے ضرورت مجازی معنی اختیار کرناـ:
آیت ’’فی عمدممددۃ‘‘ (ہمزہ)ترجمۂ نذیر:’’ اور وہ ریگ کے بڑے بڑے ستون کی شکل میں دوزخیوں کو چاروں طرف سے گھیرے ہوگی۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ اِس ترجمے میں بلا دلیل دو مجاز ماننے پڑتے ہیں۔ ایک مجاز بالحذف کہ عمد کا مضاف شکل یا صورت محذوف ہوگا دوسرا مجاز فی المفرد کہ آگ بشکل ستون کے ہوگی ۔چوںکہ معنی حقیقی کے تعذر کی کوئی وجہ عقلی و نقلی نہیں اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں عام مفسرین نے جو معنی لکھے ہیں- کہ جہنم کے اندر یا دروازہ پر بڑے بڑے ستون سچ مچ کے ہوںگے- ظاہر وہی ہے۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۵)
۲۱:لفظی ترجمے سے گریز کی خرابی:
کلمہ’’ اکملت و اتممت ورضیت ‘‘(مائدہ:۱)۔تفسیر نذیر:’’سب کلمات کے ترجمہ میں’’ ہم‘‘ کہا ہے ۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کے لیے بعض جگہ واحد متکلم کی ضمیر اختیار فرمائی ہے اور بعض جگہ جمع متکلم کی، اور ہر مقام پر جداجدا نکتہ ہے۔ گوہم کو بالتفصیل معلوم نہ ہو مگر یہ فرق بالیقین کسی رعایت سے خالی نہیں۔ بس ترجمے میں بھی اس فرق کی رعایت ضروری تھی۔ ورنہ اس نکتے کا ضائع ہونا لازم آئے گا۔ سوایسا تصرف ایسے محفوظ کلام میں گنجائش نہیں رکھتا۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۱۰)
۲۲:ترجمے میں اصطلاحِ شرعی کی ترجیح ضروری ہے:
آیت ’’نکالا من اللہ‘‘(مائدہ:ع۶)۔ترجمۂ نذیر:’’یہ تعزیر اُن کے حق میں خداکی طرف سے ۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:- ’’قرآن مجید کے ترجمہ میں اصطلاح شرعی کی رعایت زیادہ ضروری ہے بہ نسبت اصطلاح عرفی کے۔اور’’ تعزیر‘‘ باصطلاح شریعت مقابل اور قسم ’’حد ‘‘کی ہے ،نہ کہ اُس (حد) کے مرادف یا اُس سے عام۔ جیسا کہ عرف میں ہے۔ ایسے ترجمے سے احکام شرعی میں غلط فہمی کا اندیشہ ہے ۔مثلاً جس شخص نے یہ مسئلہ سنا ہو کہ تعزیر میں تخفیف جائز ہے اور پھر اِس مقام پر ترجمہ میں لفظ تعزیر دیکھے، تو لامحالہ اِس ترجمہ سے جو اِس آیت میں مذکور ہے تخفیف کو جائز سمجھے گا۔ حالاںکہ یہ حد ود میں سے ہے جس میں کوئی تخفیف جائز نہیں۔(اس لیے۔ف) بجائے ’’تعزیر ‘‘کے لفظ سزا لکھنا مناسب تھا۔ وہ(سزا۔ف) عام ہے اور کوئی شرعی اصطلاح بھی نہیں۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۱۰)
۲۳:شوقِ محاورہ میں درست معنی سے اِنحراف:
آیت ’’سمٰعون للکذب‘‘(سورہ ٔمائدہ:ع۶) ترجمہ نذیر:’جھوٹی جھوٹی باتوں کی کنسوئیاں لیتے پھرتے ہیں۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’جھوٹی باتوں سے کس کی باتیں مراد ہیں؟ کافروں کی یا پیغمبر صاحب( ﷺ)اور مسلمانوں کی۔ اگر کافروں کی باتیں مراد ہیں ،توواقعی اُن کے جھوٹ ہونے میں تو کوئی اشکال نہیں؛مگر کنسوئیاں لینا نہیں بنتا ۔کیوںکہ یہ لوگ تو مسلمانوں کی کنسوئیاں لیتے تھے نہ کہ کافروں کی۔ اور وہ (کافر)تو اُن کے بھا ئی بند ہی تھے، (وہاں۔ف)کنسوئیوںکی حاجت ہی کیا ہوتی ۔علاوہ اِس کے یہ ( کافروں کی کنسوئیاں لینا۔ف)واقع بھی نہ تھا۔ اور اگر جناب پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی باتیں مراد ہیں جن کو وہ ٹوہ لگا کر سنتے تھے تو کنسوئیاں لینا تو بن گیا؛ مگر اُن کا جھوٹ ہونا کیا معنی ؟اِس لیے یہ ترجمہ غلط ہے۔ پس ’’سمٰعون‘‘میں اگر کافروں کی باتیں سننا، مذکور سمجھا جائے ،تو کذب سے مراد کافروں کی باتیں ہوںگی اور ترجمہ یوں ہوگا کہ جھوٹی باتوں کے خوب سننے والے ہیں اور اگر یہاں پیغمبر صاحب اور مسلمانوں کے سننے کا ذکر ہے تو کذب مصدر ہوگا اور یوں ترجمہ ہوگا کہ کنسوئیاں لیتے پھرتے ہیں جھوٹ بولنے کی غرض سے ۔اِن دونوں معنوںمیں کوئی اشکال نہیں اور مفسرین نے اِن ہی کو اختیار بھی کیا ہے ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۱۱)
۲۴:منقول ترجمے پر مدار نہ ررکھنے کا نتیجہ:
آیت’’ ولیحکم اہل الانجیل‘‘(سورہ ٔمائدہ:ع۷)ترجمۂ نذیر:’’اور اہل انجیل کو (عیسائی سمجھنے کی حیثیت سے )چاہیے (تھا)۔ ‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ ولیحکم ‘‘صیغہ امر کا ہے جو موضوع ہے معنی حال و مستقبل کے لیے ۔سوماضی سے ترجمہ کرنا صحیح نہیں؛بل کہ اِس کو اپنے معنی پر باقی رکھ کر اور’’ قــلنا‘‘ مقدر مان کر اس کے ترجمہ میں الہلالین ظاہر کردینا چاہیے تھا ۔جیسا اور مفسرین نے کیا ہے، اس طرح :اور ہم نے عیسایئوں کو حکم دیاکہ انجیل والوںکو اس کے مطابق حکم دینا چاہیے ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۱۱)
۲۵:طرزِ کہن میں ہی عافیت :
آیت’’ لا یضر کم من ضل اذا ا ہتدیتم‘‘ ’(سورہ ٔمائدہ:ع۱۴):توضیحِ نذیر:’’اس مقام میں صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’چوںکہ امر بالمعروف بقدر استطاعت واجب ہے اور یہاں اُس کے سقو ط کا شبہہ بظاہر ہوتا ہے جس سے تعارضِ نصوص کا احتمال ہے۔(لہذا۔ف) ایسے موقع پر حاشیہ میں ضروری ہے کہ توضیح کردیاجائے جیسا کہ اور مفسرین نے اِس مقام پر کیا ہے۔ مثال کے لیے صرف حضر ت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کی توضیح پر اکتفاء کیا جاتا ہے وہ فرماتے ہیں: یعنی اگر شما صلاح کردید و شرط امر بالمعروف بجا آور دید مخالفتِ مخالفان ضرر نمی کند ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۱۲)
۲۶:محاورہ کے نام پرمنقول تفسیر سے اِنحراف:
آیت’’ ثم لم تکن فتنتہم‘‘(سورہ ٔانعام :ع۳) ترجمۂ نذیر:’’ پھر اِس سے بڑھ کر اُن کی فضیحت کیا ہوگی؟‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ فتنہ بہ معنی فضیحت مستعمل ہونا محتاجِ دلیل ہے ۔عام مفسرین نے فتنہ کی تفسیر کفر یا کذب سے کی ہے شق اول میں مضاف محذوف ہوگا ’’ای عاقبتہ کفر ہم‘‘ اور شق ثانی میں ان کا عذر و جواب کاذب مراد ہوگا ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۱۲)
۲۷:ترجمہ محاورے کے اعتبار سے درست نہیں :
آیت ’’حِجْر اً محجورا‘‘ (فرقان:ع۳)ترجمۂ نذیر:’’فرشتوں کو دیکھ کر کہیں گے دوردفان۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:- لفظ ’’دوردفان ‘‘وہاں بولا جاتا ہے جہاں قائل مقول لہ(جس کے لیے لفظ استعمال کر رہا ہے) کو حقیر سمجھتا ہو اور یہاں توکفار فرشتوں سے ہیبت کھا کر’’ حِجْراً محجوراً‘‘ کہیں گے ۔اس لیے باعتبار محاورے کے اس مقام پر یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔اور نہ آپ کے ترجمے کو معنی لغوی سے کوئی مناسبت ہے،اس لیے اچھا ترجمہ شاہ عبدالقا در صاحب کا ہے۔ اسی طرح ’’ہبائً منثوراً ‘‘کا ترجمہ بکھری ہوئی دھول محل نظر ہے۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۴)
۲۸:یہ تفسیر غلط ہے:
آیت’’ قُلْ ما یُعؑبَؤُا بِکُمْ رَبِّی‘‘ الخ(فرقان:ع۶) ۔تفسیرِ نذیر (ف۳)’’مطلب یہ ہے کہ پیغمبر وںکے بھیجنے اور کتابوں کے اتارنے سے خداتعالیٰ کی کوئی ذاتی غرض نہیں ہے؛ بلکہ بندے مصیبت پڑے پر اُس کو بلاتے ہیں ،تووہ اُن پر شفقت اور رحمت کا معاملہ فرماتے ہیں اور وہ یہ چاہتا ہے کہ بندے جہنم میں نہ پڑیں۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:۔’’یہ مسلم کہ ِارسالِ رُسُل وکتب میں اللہ تعالی کی کوئی ذاتی غرض نہیں؛ مگر یہ غلط ہے کہ اول بندے مصیبت پڑ ے پر اُس کو بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہدایت و نجات کا سامان عطا فرماتاہے(کیوںکہ۔ف) اِرسال رُسُل تو محض ابتدائی رحمت ہے، خواہ کوئی بندہ اس کی درخواست کرے یا نہ کرے۔ (رہی یہ بات کہ اول بندے مصیبت پڑ ے پر اُس کو بلاتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ ہدایت و نجات کا سامان کرتا ہے،تو۔ف)کیا جو اللہ تعالیٰ سے بالکل غافل ہو، اُس کی ہدایت کے و اسطے رسول نہیںآئے ؟(یقیناً آئے ہیں۔)اس لیے یہ تقریر نہ خود صحیح ہے، نہ آیت کی تفسیربن سکتی ہے -جیساکہ دعویٰ کیا گیا ہے- بل کہ صحیح اور سہل معنی یہ ہیں کہ مطیعین کی حالت بیان فرما کر ارشاد ہے کہ مخالفین سے کہہ دیجیے کہ تم پر جواب تک عذاب نہیں آیا اِس سے یہ نہ سمجھنا کہ خدائے تعالیٰ کے یہاں تمہاری کوئی قدر و منزلت ہے ۔قدرو منزلت کچھ نہیں اور تمہاری کچھ پروا نہیں۔ محض تاخیر عذاب کی یہ وجہ ہے کہ تم اُس کو شدائدمیں پکارتے رہتے ہو، اِس لیے مہربانی رہتی ہے۔ ورنہ تم (عذاب کے)مستحق تو ہو ہی۔ کیوںکہ تکذیب کرتے ہو،تو اب تک نہیں تو آئندہ عذاب آئے گا ۔اِس کی نظیر وہ ہے’’ وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون‘‘ ۔اور دوسرے صحیح معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔مگر مطلب مذکور کسی تفسیر پر بھی محتمل نہیں۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۴)
۲۹:تفسیر غلط ہے:ایضاً رکوع ۵؍آیت’’ ما کان محمد ابااحد‘‘(احزاب:ع۵) توضیحِ نذیر (ف۱):’’بیشک پیغمبر صاحب بتقاضائے بشری اُس وقت بہت ہی مترددہوئے ہوںگے؛ مگر آخر کار اصلاح کا پہلو غالب رہا اور آپ نے خود زینب سے نکاح کر لیا۔ الخ۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:– ظاہر کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تردد میں خود پیغمبر صاحب نے ایک پہلو کو اپنے لیے خود اپنی رائے سے ترجیح دے کر نکاح کر لیا، وحی کو اِس میں دخل نہ تھا۔ حالاں کہ ’’زَوَّجْنٰکَھَا ‘‘نصِ قطعی اِس کے خلاف موجود ہے جس سے ثابت ہے کہ آپ نے اِسی رائے کے خلاف حکم وحی کی تعمیل فرمائی۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۷)
۳۰: ذاتی رائے کو وحی قرار دینا اللہ پر بہتان ہے:
آیت ’’غُلِبَتِ الرُّوْم‘‘(روم:ع۱) تفسیر نذیر (ف۱):’’بالفرض پیغمبرصاحب کی کوئی ذاتی رائے اس بارے میں رہی بھی ہو،تو اُس کو وحی آسمانی قرار دے کر مشتہر کرانا رسالت کی محکم دلیل ہے۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:- ’’اپنی ذاتی رائے کو وحی قرار دینا نعوذ باللہ اِفترا علی اللہ ہے جس کا کسی پیغمبر میں بھی احتمال نہیں۔ یہ فرض ہی، فرضِ محال ہے جس کی اس مقام پر کوئی ضرورت نہیں۔ اور بعد تقدیرِ فرض اِس کو رسالت کی دلیل اور دلیل بھی مستحکم قرار دینا اِس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ افترا علی اللہ -جو منافیٔ رسالت، بل کہ منافیٔ ایمان ہے -رسالت کی دلیل کیوںکر ہو سکتا ہے ؟‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۶)
۳۱:نہ ترجمہ صحیح ،نہ تقریر:
آیت’’ تخافونھم کخیفتکم انفسکم‘‘(روم:ع۴) ترجمۂ نذیر :’’اور تم اُن کی ویسی ہی پروا کرتے ہو جیسی کہ تم اپنی پروا کرتے ہو۔ الخ۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:- ’’پروا کے معنی پر دلالت -جیسا کہ مترجم صاحب نے( ف۱)میں تصریح کردی ہے- ترجمہ خوف کا نہیں۔ پس نہ ترجمہ صحیح ہے، نہ تقریر( ف۱)کی جو اِس(دلالت) پر مبنی ہے۔ بل کہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ:’’ خوف کرتے ہو اُن سے جیسا کہ خوف کرتے ہو اپنے برابر کے لوگوں سے یعنی غلاموں سے ۔مثل احرار معاملہ نہیں کرتے،اُن کو اپنے برابر نہیں سمجھتے۔ کیوںکہ اوپر استفہام انکار ی ہے پھر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس کا مماثل کیوں سمجھتے ہو؟‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۶)
۳۲:ترجمہ غلط،تفسیر متکلم فیہ:
آیت’’ فَتَنّٰہ‘‘(سورہ ص:ع)۔ الخ۔ قولہ فی الترجمہ۔’’ ہم نے اُن کو صرف ایک چقما دیا ہے۔‘‘ الخ۔ تفسیرِ نذیر (ف۱)’’اس مقام پر اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ الخ۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ چقما ترجمہ’’ خداع‘‘ کا ہے’’ فَتَنّا‘‘ کا ترجمہ ہے امتحان اور آزمائش ۔یہ تو ترجمے میں غلطی ہے۔ اور حاشیے میں و ہی مشہور قصہ بیبیوںکا لکھا ہے جس کا کہیں بسند صحیح پتہ نہیں ۔اوراِس میںتقلید کا عذر نہیں ہوسکتا جب کہ دوسرے مقامات پرادنیٰ ادنیٰ شبہات سے اور مفسرین کے خلاف کیا گیا ہے یہ مقام زیادہ نازک ہے۔ بل کہ اس کی بے غبار تفسیر یہ ہے کہ دائود علیہ السلام نے جو ایک فریق کا بیان سن کر فرمایا لَقَدْ ظَلَمَکَ ۔گو مقصود اِس سے قضیہ شرطیہ ہے؛ مگر چوںکہ صورۃً جملہ خبریہ ہے اس لیے دائود علیہ السلام نے اس سے استغفار فرمایا ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۸)
۳۴:محاورہ سمجھنے میں خطا:
آیت ’’غَیْرَ ذِی عِوَج‘‘ (زمر:ع۳)ترجمۂ نذیر: اس میں کسی طرح کی پیچیدگی نہیں۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:- ’’عوج کا ترجمہ ہے ٹیڑھا پن ۔اور ہر چند کہ ٹیڑھا پن کا لفظ اردومحاورہ میںپیچیدگی کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے مگرعربی محاورے میں عوج کے یہ معنی نہیںدیکھے گئے۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۹)
۳۵:ترجمہ غلط :
آیت ’’اصفاکم بالبنین‘‘(زخرف:ع۲) ترجمۂ نذیر: اورتم کوبیٹے دے کر نوازا۔
استدراکِ حکیم الامت:- صفا کے معنی اختیار اور ترجیح کے ہیں نہ بمعنی نوازش ۔(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۹)
۳۶:ترجمہ ناتمام :
آیت’’ تمور السماء مورا‘‘(طور:ع۱) ترجمۂ نذیر:’’ جس دن آسمان (سمندر کے پانی کی طرح لہریں مارنے لگے )
استدراکِ حکیم الامت:- لفظ مور کا استعمال عربی میں نہر کے معنی میں نہیں دیکھا گیا جیسا کہ ترجمہ میں استعمال کیا ۔(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۰)
۳۷:ترجمہ غلط :
آیت’’ وما ء ِِمسکوبِِ‘‘(واقعہ:ع۱) ترجمۂ نذیر: اور پانی کے جھرنوں۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’’’سکب‘‘ کے معنی بہنے کے ہیں جھرنوں کا مفہوم اس میں ماخوذ نہیں۔‘‘
(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۱)
۳۸:ترجمہ غلط ہے:
آیت ’’ونَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ‘‘(واقعہ:ع۳) ترجمۂ نذیر:’’ اور موت تو جب آئے گی تب آئے گی ،ہم تو اس سے بھی زیادہ تم سے نزدیک ہیں۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ یعنی موت بھی اس قدر تم سے نزدیک نہیں جس قدر ہم تم سے نزدیک ہیں یہ مطلب ہوا (ڈپٹی صاحب کے)اِس ترجمہ کا ۔سو کسی طرح یہ ترجمہ اس آیت کا نہیں بن سکتا ۔اگر قرآن کی عبارت یوں ہوتی:’’ نحن اقرب الیکم منہ‘‘ تب یہ معنی درست ہوتے اور ترکیب موجود میں الیہ کی ضمیر صاحب موت کی طرف ہے اور معنی یہ ہیں کہ جو شخص مر رہا ہے اور تم لوگ اس کے پاس بیٹھے ہو ،سو اس شخص سے جس قدر تم لوگ نزدیک ہو ہم تم سے بھی زیادہ اس شخص سے نزدیک ہیں۔‘‘
(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۱)
۳۹:محاورہ کا درست استعمال نہیں ہوا:
آیت ’’ وانزلنا الحدید فیہ باس شدید‘‘ (حدید:ع۲)ترجمۂ نذیر:’’ تو اس میں بڑا خطرہ ہے۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ یہ لفظ ہمارے محاورے میں ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جہاں کسی چیز کی مضرت بیان کرنا مقصود ہو۔ اور یہاں ذکر ہے فوائد کا- جیسا کہ امتنا ن سے معلوم ہوتا ہے -اس لیے یہ ترجمہ نامناسب ہے بل کہ رعب یا دھاک کا ترجمہ بہتر ہے۔‘‘
(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۱)
۴۰:غلطترجمہ اور لازم آنے والی خرابیاں :
آیت ’’ورھبانیۃ ‘‘ا(حدید:ع۴)لخ۔ ترجمۂ نذیر:’’ ترک دنیا۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ ترک دنیا تو ہمیشہ سے فرض رہا اور اب بھی فرض ہے۔ اور رہبانیت پہلے مشروع مخیر تھی اور اب غیر مشروع ۔تو فرض اور غیر فرض بل کہ غیر مشروع کس طرح متحدبالماہیۃ ہو سکتے ہیں۔ اس کا صحیح ترجمہ’’ ترک لذت‘‘ ہے جس کو شریعت میں موجب تقرب جاننا ممنوع کیا گیا ہے ۔اور معالجے کے لیے او ربات ہے۔(لہذا یہ ترجمہ نہ صرف یہ کہ صحیح نہیں) بل کہ اس ترجمے سے آج کل کے ہوس ناکوں کو شبہہ پڑے گا کہ رہبانیت کی حقیقت ترک دنیا ہے اور رہبانیت شریعت میں منفی کی گئی ہے توطلب دنیا مقاصد شریعت سے ہوگا۔ اور اس غلطی میں پڑ کر غیر متناہی تعلیمات نبویہ کی مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے قولاً اور عملًا و اعتقاداً۔‘‘(ایضاًاصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۱)
۴۱:ترجمہ غلط ہے:
آیت’’ فقد موابین یدی نجویٰکم صدقۃ‘‘(مجا دلہ:ع۳ ) ترجمۂ نذیر:’’ توکان میں عرض مطلب کرنے سے پہلے کچھ خیرات لاکر آگے رکھ دیا کرو۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’ تقدم کے معنی آگے رکھنے کے نہیں بل کہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ عرض مطلب کرنے سے پہلے کچھ خیرات دے دیا کرو۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۲)
۴۲:ترجمہ درست نہیں:
آیت’’ وان الظن لا یغنی من الحق‘‘(نجم:ع۲) ترجمۂ نذیر۔:’’ اُن کا حال یہ ہے کہ وہ تو حق بات کے سامنے کچھ بکار آمد نہیں۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت:-’’محاورئہ عربی میں اس ترکیب کے یہ معنی نہیں ہیں بل کہ مراد یہ ہے کہ اٹکل کچھ کام نہیں دیتی یقین کے موقع میں یعنی ظن مثبتِ حق نہیں ہو سکتا ۔یہ نہیں کہ مزاحمِ حق نہیں ہو سکتا۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۱)
۴۳:آیت ’’حتی اتٰنا الیقین ‘‘(مدثر:ع۲)ترجمۂ نذیر:’’یہاں تک (کہ میرے پیچھے آنکھ سے دیکھا تو)ہم کو یقین آیا۔
استدراکِ حکیم الامت:- ترجمہ غلط ہے: یقین آنا بمعنی یقین کرنا اردو کا محاورہ ہے عربی میں مستعمل نہیں اس لیے یہ ترجمہ غلط ہے۔ صحیح معنی یہ ہیں کہ ہم برابر قیامت کے دن کو جھٹلا تے رہے یہاں تک کہ ہم کو موت آ پہونچی۔‘‘ (اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۴)
۴۴:ترجمہ لفظی واجب ہے:
’’آیت ’’کراما کاتبین‘‘ (انفطار:)’ترجمۂ نذیر:’’ کراماً کاتبین دو فرشتے۔‘‘ تفسیر نذیر( ف۴):’’مگر اب ان کانام پڑ گیا ہے اسی سبب سے ہم نے ترجمہ نہیں کیا ۔‘‘
استدراکِ حکیم الامت: -’گو ہمارے عرف میں نام پڑ گیا ہو مگر ترجمے میں تو مدلول قرآنی کا لحاظ واجب ہے سو وہاں صفت ہی مراد ہے تسمیہ مقصود نہیں اس لیے ترجمہ لفظی واجب ہے ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۴)
ڈپٹی نذیر احمد کی تفسیر قرآن کے اُن بہ کثرت مضامین کے یہ چند نمونے ہیں جن کی طرف حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے اِن الفاظ میں اشارہ فرمایا تھا کہ:’’بہ کثرت مضامین خلافِ قواعدِ شرعیہ بھر دیے،جن سے عام مسلمانوں کو بہت مضرت پہنچی۔‘‘حکیم الامت کے اِن استدراکات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ترجمہ و تفسیر کے باب میںقواعدِ عقلیہ و شرعیہ کی پابندی اور اہلِ حق کے اصولوں کی پیروی ضروری ہے ۔اوریہ کہ ڈپٹی نظیر احمد کا ترجمہ اِس باب میں قطعاً غیر معتبرہے۔اور اُس پر اعتماد مستفید کی فکری شبیہ کو مشکوک بنا سکتا ہے۔اِس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکرکر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے جو مورثِ عبرت بھی ہے اور ایک صحیح اصول کی طرف رہنما بھی۔
حکیم الامت ؒفرماتے ہیں:
’’ایک صاحب نے جو ایک معزز عہدہ پر ہیں مجھ کو اول کے چار سیپارے قرآن مجید کے(جس کااُنہوں نے ترجمہ کیا تھا۔ف)…دکھلاکر اس کے متعلق میری رائے دریافت فرمائی ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی رائے عرض کرتا ہو ں …(ترجمہ ۔ف) کی کیفیت اجمالاً تو اس سے ظاہر ہے کہ مترجم نے خطبہ میں یہ شعر لکھا ہے۔
اور وہ ڈپٹی نذیر احمد کا بھی ترجمہ پیش نظر تھاخوب ہی
نیز آل عمران کے آخر میں راَبِطُوْا کے ترجمہ میں جہاں کئی قول نقل کئے ہیں وہا ں یہ شعر بھی ہے:
اور ہیں یوں لکھتے نذیر احمد اسے کہ رہو تیار دشمن کے لئے
اس سے صاف واضح ہے کہ مترجم صاحب ڈپٹی صاحب کے معتقد ہیں اور ڈپٹی صاحب کے ترجمہ و عقیدہ و تحقیق کی کیفیت بندہ کے رسالہ’’ اصلاح ترجمہ دہلویہ ‘‘سے ظاہر ہے۔ پس جس طرح وہ(ترجمہ،ڈپٹی نذیر احمد کا ) معتبر نہیں اُسی طرح اُن کے معتقد کے ترجمہ کا بھی اعتبار نہیںرہا ،کہ غیر معتبر کو معتبر سمجھنا خود دلیل ہے غیر معتبر ہو نے کی۔‘‘
( بوادر لنوادر :جلد ۱،ص۳۱۳)