معارفِ با ند ویؒ

طلبہ پرا گرمحنت کی جائے تو آج بھی کام کے بن سکتے ہیں:

            فرمایا: کارخانوں میں عمدہ سے عمدہ سامان تیار ہوتے ہیں۔ کپڑے ایک سے ایک ڈیزائن دار بنتے ہیں، لیکن مدارس سے طلبہ ایک سے ایک اوراچھے کیوں نہیں نکلتے؟ اس لیے کہ کپڑا بنانے میں محنت کی جاتی ہے، اس کی نگرانی کی جاتی ہے، خرابی ہو تو اس کی اصلاح کی جاتی ہے یہ نہیں کہ دھا گہ ٹوٹ رہا ہے تو ٹوٹتار ہے اور کپڑا بنتارہے، کپڑے میں چیر آرہی ہے تو آتی رہے اور اسی طرح کپڑا تیار ہوتا رہے۔لیپ پوت کر نہیں رکھ دیتے، بل کہ جو خرابی ہوئی ہے اس کو فو راً درست کیا جاتا ہے، تب جا کر عمدہ کپڑا تیار ہوتاہے۔ اوپر سے محض پالش نہیں کر دی جاتی کہ اس کا لیبل تو بڑا خو ش نما اور اندر خراب مال۔ بل کہ خرابی کوفوراً دور کیا جاتا ہے، محنت کی جاتی ہے ، نگرانی کی جاتی ہے، اپنے کو کھپایا جاتا ہے؛ تب جا کرعمدہ مال تیار ہوتا ہے۔

            طلبہ میں بھی اگر اسی طرح محنت کی جائے، ان کی نگہداشت کی جائے، ان کو بنانے کی فکر اور کوشش کی جائے، اپنے کو کھپایا جائے، تو ان کی اصلاح کیوں نہیں ہوسکتی اور وہ کیوں نہیں بن سکتے؟ جب لوہے پرمحنت کی جاتی ہے تو لوہا بن جاتا ہے مٹی پر محنت کی جائے تو وہ بن جاتی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان پر محنت کی جائے اور وہ نہ بنے، اس کو بنانے کی کوشش تو کی جائے ۔محض پالش کر دینے سے کام نہیںچلے گا، آج کل مدارس میں طلبہ کی اصلاح کی طرف توجہ تو ہوتی نہیں بس اوپر سے پالش کر دی جاتی ہے کہ اتنے لڑ کے فارغ ہوئے، سالانہ جلسہ ہوا اشتہار چھاپ دیا کہ فارغ ہونے والے طلبہ کی تعداد ڈیڑھ سو ہے، ان کی دستار بندی ہورہی ہے، پگڑی باندھی جارہی ہے، سند دی جارہی ہے اور آتا جاتا خاک نہیں۔ عمل کے میدان میں بالکل کورے یہ پالش نہیں تو اور کیا ہے؟ اشتہار چھپا ہوا کہ مدرسہ میں بہت ترقی ہورہی ہے۔ دو ہزار طلبہ ہیں، دورۂ حدیث تک تعلیم ہے، اتنے کمرے ہیں، مدرسہ ترقی پر ہے۔ ماشاء اللہ !ماشاء اللہ! بس یہ پالش ہوگئی۔ اس سے کچھ نہیں ہوتا طلبہ کو بنانے کی کوشش کی جائے کہ طلبہ کچھ کام کے نکلیں، یہ ہے ترقی، اگر واقعی طلبہ پر محنت کی جائے تو کیسے نہ بنیں گے؟