طلبہ کی اقسام ثلاثہ:
حضرت مولانا علی محمد صاحب تراجوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ طالب علم تین قسم کے ہر صف میں ہوتے ہیں ۔ ایک بہت ذہین قسم کے ہوتے ہیں ۔ دوسرے متوسط استعداد کے ہوتے ہیں ۔اور تیسرے اس سے کمزور ذہن کے ہوتے ہیں۔ تو جو اعلیٰ قسم کی استعداد کا لڑکا ہے، وہ تو استاد کی پہلی مرتبہ کی تقریرسے بات سمجھ جاتا ہے، متوسط درجہ کو دو مرتبہ سمجھانا پڑتا ہے اور جو تیسرے درجہ کا ہے اس کو تین مرتبہ سمجھانا پڑتا ہے۔ تو استاد کو ناراض نہیں ہونا چاہیے کہ یہ سوال کیوں کرتا ہے؟ اور ہمارا وقت کیوں ضائع کرتا ہے؟
اب سبق شروع ہو گا:
ہم جب دیو بند میں مولانا شیخ محمودؒ کے پاس عربی زبان سیکھتے تھے تو ایک صاحب ریٹائرڈ ہو کر آئے۔ پہلے وہ مجسٹریٹ تھے، سفید داڑھی ہوگئی، پھر ان کو شوق ہوا کہ مجھے مولوی بننا ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ ایک آدمی مجسٹریٹ تھا، کرسی پر بیٹھتا تھا اور بڑی عمر میں جب ریٹائرڈ ہو گیا تو اس کو مولوی بننے کا شوق ہوا۔ اور انہوں نے میزان سے شروع کیا اور چھوٹے بچوں کی جماعت کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ان کو یہ زعم نہیں تھا کہ میں اتنابڑا آدی ہوں؛حالاںکہ ان کے لڑکے اس وقت پاکستان میں بڑے بڑے عہدے پر تھے۔ تو وہ شخ محمود کے پاس بھی ہمارے ساتھ آیا کرتے تھے، اب وہ بار بار پوچھتے اور کہتے: ’’شیخ أنا مافہمت‘‘۔ تو شیخ محمودان کو بار بار سمجھاتے، جس میں کافی وقت لگ جاتا، ہمارے کچھ ساتھی بہت ناراض ہوتے تھے کہ یہ بڑے میاں آتے ہیں اور بار بار پوچھ کر ہمارا وقت ضائع کرتے ہیں۔جب شیخ کو یہ بات معلوم ہوئی، تو کہا کہ یہ بیچارا علم کے شوق میں آیا ہے، یہ اگر پانچ مرتبہ بھی پوچھے گا ،تو میں بتاؤں گا اوربعض مرتبہ تو ایسا ہوتا تھا کہ وہ تاخیر سے آتے تو شیخ سبق نہیں شروع کرتے تھے ۔وہ کہتے تھے کہ ’’ لم یحضر ابوکم نظام الدین‘‘ تمہارے اباشیخ نظام الدین اب تک نہیں آئے، وہ آئیں گے تب سبق شروع ہوگا۔شیخ محمود ان کی اتنی رعایت کرتے تھے، جب وہ آ جاتے تھے تو پھر مسکرا کر کہتے کہجاء ابو کم تمہارے ابا آگئے اب سبق شروع ہوگا۔
میرے بھائیو! محنت سے پڑھواور جب تک سبق سمجھ میں نہ آئے،تب تک آگے نہ بڑھو، تقوی کے ساتھ رہو، یہ علوم جو مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں، وہ صرف ظاہری علوم حاصل کرنے کے لیے نہیں پڑھائے جاتے؛ بل کہ باطنی علم تقویٰ و طہارت اور باطنی تزکیہ کے لیے بھی پڑھائے جاتے ہیں۔