ملفوظا تِ وستا نوی

طالب علم کو تہجد کا پابند ہونا چاہیے:

            حضرت نے فرمایا :  طالب علم کو تہجد کا پابند ہونا چاہیے اور پوری امت کے خیر کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ تہجد کی نماز پڑھنے کی عادت جس کو طالب علمی کے زمانے میں پڑگئی گویا اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کثیر مل گئی ۔

تہجد کا پابند اچھا اور بڑے کام کا بنتاہے :

            گزشتہ کچھ طالب علم کو میں جانتا ہوں، الحمدللہ وہ تہجد کے بڑے پابند تھے اور ان کو میں نے بہت رونے والا پایا۔ الحمدللہ وہ آج فراغت کے بعد بہت بڑا اور اچھا کام کررہے ہیں ۔

            فراغت کے بعد اگر آپ اچھا کام کرنے کی نیت رکھتے ہیں اور اعلیٰ مقام ومرتبہ پر فائز ہونا چاہتے ہیں، تو آپ کو چاہیے کہ آپ تہجد گزار بنیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

            {وَمِنَ اللَّیْلِ فََتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ صلے ق  عَسیٰ اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا}(الاسراء:۷۹)

نماز تہجد کی پابندی کا آسان طریقہ :

            جو طالب علم تہجد گزار بننا چاہتا ہے، اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ آدھی رات کو اٹھیں ، بل کہ آپ صبح صادق سے آدھا گھنٹہ یا پاؤگھنٹہ پہلے اٹھ جائیں تو آپ تہجد کی نماز میں شریک ہوجائیںگے۔ دو چار رکعت تہجد پڑھیے ، اپنے لیے ، اپنے ماں باپ کے لیے، اپنے اساتذہ کے لیے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے دعائیں کریں۔

 دعا مومنوں کا ہتھیار ہے:

            ’’اَلدُّعَائُ سِلَاحُ الْمُوْمِنِ ‘‘۔ دعا مومنوں کا ہتھیار ہے۔ اگر طالب علم دعا نہیں مانگتاہے تو وہ طالب علم نہیں ہے۔ اللہ کو وہ بندہ بہت مقبول اور پسند یدہ ہے ،جو اللہ سے مانگتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتے۔ دنیا کا دستور الگ ہے ، دنیا میں کسی کے پاس تم مانگو وہ ناراض ہوتا ہے ۔ ارے ہم سے مانگتے ہو؟ ہمارے پاس کیا ہے ؟ ہٹو یہاں سے ! یہ اللہ کا دستور ہے، جو نہیں مانگتے اس سے ناراض ہوتاہے۔

اکابرین کے معمولات:

            میں نے اپنے اکابرین کو بہت قریب سے دیکھا کہ وہ رونے والے بنے ۔ ان کے معمولات ہی میں رونا اور اللہ تعالیٰ سے مانگنا تھا۔اور ان اکابرین اور بزرگانِ دین کی عمریں ساٹھ ستر سال، جن کا چلنا ، اٹھنا اور بیٹھنا مشکل ، لیکن وہ اپنے معمولات کو نہیں چھوڑتے تھے ۔ ہمارے حضرت ناظم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا وضو کررہے ہیں اور ایک حصے کا دانت اور داڑھ بھی نہیں ہے ، لیکن مسواک کی سنت میں نے حضرت کو چھوڑتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ وضو کے لیے جاتے تو فرماتے غلام ! میں کہتا جی حضرت!  مسواک لیجیے !

            طالب علم اتباعِ سنت جتنا کرے گا، اتنا ہی اللہ کا کرم اس کے ساتھ ہوگا۔

            طالب علم کے اندر ہر مواقع پر اتباعِ سنت کا داعیہ پیدا ہونا چاہیے ۔ اٹھتے ، بیٹھتے ، کھاتے پیتے ، سوتے جاگتے ، مسجد میں آتے جاتے گویا ہروقت سنت پر عمل کرنا چاہیے۔

اصلاح کا ایک نرالہ انداز:

            ایک مرتبہ میں حضرت کو لے کر چل رہا تھا کہ مسجد کی طرف حضرت کی نگاہ ایک طالب علم کے اوپر پڑگئی، حضرت نے اس کو بلایا اور کہا کہ بھائی دیکھو میری لنگی ٹخنوں کے نیچے تو نہیں ہے ؟میں بھی چونک گیا ! وہ طالب علم سمجھ گیا اور کہنے لگا حضرت ! بھول ہوگئی ۔ حضرت نے فرمایا : بیٹے ٹخنوں سے نیچے پائجامہ یا لنگی وغیرہ نہیں ہونی چاہیے۔یہ حضرت کی نصیحت تھی ، لہٰذا و ہ طالب علم اس بات کو کبھی نہیں بھولے گا اور میں بھی نہیں بھولوں گا۔اس طرح ہمارے بڑے اپنے بچوں کی اصلاح کرتے تھے ۔

مسواک قوت ِحافظہ کو بڑھاتا ہے :

            جو طالب اپنے آپ کواتباعِ سنت کا عادی بنائے گا اتنا ہی اس کا حافظہ قوی ہوگا ۔ مسواک کرنے سے بھی قوت ِحافظہ میں اضافہ ہوتا ہے۔

            ہمارے طلبہ تو مسواک جانتے ہی نہیں !یہ تو گناہ سمجھتے ہیں ! ہاں بھائی وظیفہ ملے گا تو بریانی کھائیںگے۔ بے چارہ کوئی مسواک بیچنے والا آئے گا تو اس کا مسواک کوئی خریدتا ہی نہیں ۔ اور جامن والا آئے گا تو جامن خرید کر کھاجائیںگے، دانت بھی کالے ہوجائیںگے۔مسواک بھی خریدناچاہیے،اس سے قوت حافظہ بڑھتی ہے ۔ قرآن کی تلاوت سے بھی حافظہ بڑھتا ہے ۔ علمانے لکھا ہے کہ کثرتِ تلاوت حافظہ کو بڑھاتا ہے۔