انوار نبوی ا بارہویںقسط:
محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ
نواں سبب، صابرین کے قصوں میں غور وخوض:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیَرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشَرَۃَ عَیْنًا وَاَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتِ الْاَنْصَارِیَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عمرَ بنِ الخطابِ رضی اللّٰہُ عنہُ حتّٰی اذا کانوا بالہِدَّۃِ بینَ عُسَفَانَ ومکۃ َ،ذکروا لَحِيِّ من ہُذَیْلٍ یُقالُ لہم بنو لِحْیَانَ فنفرُوا لہم بقریبٍ مِن مائۃٍِ رجلٍ رامٍ فَاقْتَصُّوْا آثارہم حتی وَجَدُوا مأکلَہُمُ التمرَ فی منزلٍ نَزَلُوْہُ فقالوا تمرٌ یثربَ فاتّبعوا آثارہم، فلما حسّ بہم عاصِمٌ واصحابُہ لَجَؤُا الی موضِعٍ فاحاطَ بہمُ القومُ فقالوا لہم انْزِلُوا فاَعْطَوا باَیْدیکم ولکم العہدُ والمیثاقُ ان لا نقتل منکم احداً فقال عاصمُ بْنُ ثابتٍ: ایُّہا القومُ! امّا انا فلا اُنزل فی ذمۃِ کافرٍ ثُمّ قال اللّٰہم اَخْبِرْ عنَّا نبَیّکَ صلی اللّٰہُ علیہ وسلمَ فرمُوْہم بالنَّبْلِ فقتلوا عاصمًا ونزل الیہم ثلثۃُ نفرٍ علی العہدِ والمیثاقِ منہم خُبَیْبٌ وزَید بْنُ الدَثِنَۃِ ورجلٌ آخرُ فلمَّا اسْتَمْکَنُوا منہم اَطْلَقُوا اَوْتَارَقِسِّیْہِمْ فرَبَطُوہم بہا قال الرجلُ الثالثُ ہذا اوّلُ الغَدَرِ وَاللّٰہِ لا اَصْبَحَکُم اِنَّ لِیْ بہؤلآئِ اُسْوَۃً یُرید القَتْلٰی، فَجرَّرُوْہ وعاَلَجُوْہ فابٰی اَنْ یَّصْحَبَہُم فانْطَلِقَ بِخُبَیْبٍ وزیدِ بْنِ الدَّثِنَۃِ حتّٰی باعُوہُما بعد وَقْعَۃِ بَدَرٍ فاَتْبَاع بَنُو الحارثِ بنِ عامرٍ ابْنِ نوفلِ خُبَیْبًا وکانَ خبیبٌ ہو قتل الحارثَ بنَ عامرٍ یومَ بدرٍ فَلَبِثَ خبیبٌ عندَہم اسیرًا حتی اَجْمَعُوا قَتَلَہُ۔ فاسْتَعارَ مِن بعضِ بَناتِ الحارثِ موسیٰ یستحِدُّ بہا فَاَعَارَتْہُ فَدَرَجَ بُنَیٌّ لہا وَہِیَ غافِلَۃٌ حتیّٰ اَتَاہُ فَوَجَدَتْہُ مُجْلِسَہُ علٰی فَخِذِہ والموسیٰ بیدہٰ قالتْ فَفَزِعْتُ فَزْعَۃً، عرَفَہَا خبیبٌ فقالَ اَتَخْشَیْنَ اَنْ اَقْتُلَہُ ما کنتُ لِاَفْعَلَ ذلکَ قالتْ واللّٰہِ ما رأیتُ اَسیراً قَطُّ خیرًا من خبیبٍ رضی اللّٰہ عنہ واللّٰہ لقد وجدتُہ یومًا یاکلُ قِطُفًا من عِنَبٍ فی یَدِہٖ واِنَّہُ لَمُوْثَقٌ بالحدِیْدِ وما بمکۃ َمِنْ ثَمَرۃٍ وکانتْ تقولُ انہ لَرِزْقٌ رَزَقَہُ اللّٰہ خُبَیْبًا۔
فلمَّا خَرَجُوْا بِہٖ من الحرمِ لِیَقْتُلُوْہ فی الحِلِّ قال لہم خبیبٌ دَعُوْنِیْ اُصَلِّیْ رکعتَیْنِ فَتَرَکُوْہُ فرکعَ رکعتَیْنِ فقالَ واللّٰہِ لولا اَنْ تَحْسَبُوا اَنْ مَاِبْی جَزَعٌ لَّزِدْتُّ، ثُمَّ قال اللّٰہُمَّ احْصِہِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْہُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْہُمْ اَحَدًا ثُمَّ اَنْشَأَ یَقُوْلُ:
فَلَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذٰلِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَأ
یُبَارِکُ عَلٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِی
ثُمَّ قامَ الیہِ ابوسَرْوَعَۃَ عقبۃُ بْنُ الحارثِ فقَتَلَہُ وکان خبیبٌ ہو سَنَّ لکلِ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصلوٰۃَ۔ واَخْبَرَ اَصْحَابَہُ یومَ اُصِیْبُوْا وبَعَثَ نَاسٌ مِن قُرَیْشٍ إلٰی عاصمِ بنِ ثابتٍ حینَ حُدِّثُوا اَنَّہُ قُتِلَ اَنْ یُّوْتُوا بِشَئٍْ مِنْہُ یُعْرَفُ وکان قَتَلَ رَجُلًا عَظِیْمًا مِن عُظَمَائِہم فَبَعَثَ اللّٰہُ لعاصم مِثْلَ الظُّلَّۃِ مِنَ الدُّبُرِ فَحَمَتْہُ مِن رَسُلِہِم فَلَمْ یَقْدِرُوا اَنْ یَّقْطَعُوا مِنْہُ شیئًا وقال کعبُ بنُ مالکٍ ذَکَرُوا مُرَارَۃَ بْنَ الرَّبِیْعِ الْعَمْرِیَّ وَہِلَالُ بْنُ اُمَیَّۃَ الوَاقِفِیَّ رَجُلَیْنِ صَالِحَیْنِ قَدْ شَہِدَ بَدْراً ۔
(بخاری: ۳۵۹۲)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عاشقانہ صبر :
دین اسلام کے استحکام اورفروغ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو تکالیف برداشت کی ہیں ، مصیبتیں اٹھائی ہیں ، پریشانیاں جھیلی ہیں ، قربانیاں دی ہیں اور مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی دامنِ صبر کو چھوڑنا تو در کنار کسی طرح کی کمزوری بھی نہیں آنے دی ۔ اسلامی تاریخ کے صفحات میں ان سرخ رو ہونے والے حضرات کی سنہری تاریخ رقم ہے ، جس میں ہمارے لیے قیمتی اسباق اور حوصلے ہیں ،مشکل حالات میں حفاظت ِایمان کی راہیں ہیں ۔ اسلام اور مسلمانوں کے پنپنے کے گُرہیں ، مایوسی اور خوف کو امید و بیم میں بدلنے کا نسخۂ کیمیا ہے۔ ضعف وپست ہمتی کو قوت اور حوصلہ مندی سے بدلنے کی تدابیر ہیں ۔ دونوں جہانوں میں سرخ روئی کے حصول کے مجرب اسباب ہیں ۔
صابرین صحابہ میں سے چند نمایاں اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم :
حضرت بلال رضی اللہ عنہ ، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا ، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہ ،ان صحابیوں پر تو ہر طرح کی سزاؤں کا تجربہ کیا جاتا ۔ دہلا دینے والی تمام ترتکالیف کو ان پر آزمایا جاتا ، ان کی بساط میں ایذا کی جتنی شکلیں تھیںساری کی ساری ان پر آزماتے، انسان وحیوان کی تمیز کیے بغیر سارے مظالم ان پر ڈھائے جاتے ، لیکن واہ رے! اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ !عاشقین کی ایسی تاریخ دنیا نے نہ دیکھی ہے نہ دیکھے گی(اللہ ہمیں بھی ان عاشقوں کی محبت کے دھول کا کچھ حصہ ہی عطا فرما دے) اس قدر تکالیف کے باوجود بھی ان کے پائے استقامت کو جنبش تک نہ آئی ۔ ان کی زبان پرسوائے’’ احد ،احد اور کلمۂ طیبہ َلا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے علاوہ کوئی اور کلمہ نہ آیا ، تاآں کہ کفار تھک گئے یا ان نبی کے متوالوں نے اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردی اور فروغ اسلام میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔
صحابی رسول حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کا عشق سے لبریز ایمانی واقعہ :
بخاری شریف کی مذکورہ طویل حدیث میں آپ کے ایمان، اعمال،اخلاق،سنت ،شریعت،فکر آخرت، دنیا سے بے رغبتی، نمازِعشق ،حُب ِحبیب صلی اللہ علیہ وسلم ،موت کے آنکھ میں آنکھ ڈالنے والی جرات، دشمن کے بچے سے محبت اور ان خوبیوں پر اللہ کی نعمت ،بے خوفی اورجوانمردی کی عالی صفت، صبر کا اعلی نمونہ اور ان جیسے اور بہترے اوصاف جمیلہ کو بیان کیا ہے ،جو ہمارے اندر صبر پیدا کرنے اور ایمان کو جلا بخشنے کے لیے نہایت مفید ہیں؛نیزدور حاضر کے مجودہ حالات کے پسِ منظر میں ہمارے دل ودماغ پر دستک دینے والے تمام سوالوں ، مایوسی اور خوف وہراس کانہ صرف جواب ؛بل کہ اس کا مکمل مداوا اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
آپ کا عالی صبر اور بے خوفی:
آپ رضی اللہ عنہ قید خانے میں ہیں ،آپ کے قتل اورسولی کے منصوبے کا ہر سو چرچہ ہے اورآپ ان چیزوں کی پرواہ کیے بغیر عشق ِخداوندی اورعشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میںمست یہ اشعار گن گنارہے ہیں :
فَلَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذٰلِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَأ
یُبَارِکُ عَلٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِی
اشعار کا مطلب:
سنو ! جب میں ایمان کے ساتھ شہید کیا جارہا ہوں تو مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ میں کس طرح مارا جارہا ہوں، کیوں کہ میرا یہ شہید کیا جانا اللہ کے لیے ہے ۔ مگر او کافرو! سن لو! خونِ شہید رنگ لائے گا اور اللہ تعالیٰ چاہیںگے تو جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت فرمائیںگے۔
حدیث بالا کا ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمی جاسوس بناکر بھیجے اور ان پر امیر حضرت عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا،جو حضرت عاصم بن عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے نانا لگتے تھے، جن کی ماں کا نام جمیلہ تھا۔ چلتے چلتے یہ لوگ جب ہدّہ کے مقام پرپہنچے ،جو عسفان اور مکہ کے درمیان واقع ہے اورعسفان سے سات میل کے فاصلہ پر ہے۔ توہذیل کے ایک قبیلے جس کو بنو لحیان کہا جاتا ہے، ان کے سامنے ان جاسوسوں کا ذکر ہوا۔ تو سو کے قریب تیراندازان سے لڑنے کے لیے نکلے،پس وہ ان کے نشانات قدم پر چلتے رہے؛ یہاں تک کہ ایک پڑا ؤجہاں وہ اترے تھے۔ ان کے کھانے کی جگہ پر کھجور کو پایا تو کہنے لگے کہ یہ کھجور تویثرب کا ہے اوریہ یثربی لوگ ہیں۔ تو ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوئے پیچھے چل پڑے، جب حضرت عاصم اور ان کے ساتھیوں کو ان دشمنوں کے پیچھا کرنے کا احساس ہوا تو وہ ایک جگہ میں گھس گئے،جس کاقوم نے گھراؤ کرلیا۔ تویہ لوگ ان صحابہ کرام سے کہنے لگے کہ اترآؤ اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر د،و تمہارے لئے عہد وپیان ہے کہ ہم تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے، تو حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ اے قوم ! میں تو ایک کافر کی ذمہ داری میں اترنے کے لیے تیار نہیں ہوں ۔ پھر دعا مانگی کہ اے اللہ ! ہماری طرف سے اپنے نبی کو اطلاع دے دے ، تو دشمنوں نے ان لوگوں کو اپنے تیروں کا نشانہ بنایا اور حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا۔ اورتین آدمی ان کے عہدو پیمان پر اعتبار کرتے ہوئے ان کے پاس اتر آئے ۔ ان میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرا آدمی تھا (وہ عبد اللہ بن طارق رضی اللہ عنہ تھے) ۔ جب ان دشمنوں نے ان حضرات کو پوری طرح قابو میںلے لیا تو اپنی کمانوں کے تانت کھول کران سے ان حضرات کو باندھ دیا ، جس پر تیسرے آدمی حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ پہلا دھوکہ ہے اللہ کی قسم ! میں تو تمہارے ساتھ نہیں چلوں گا ۔ میرے لیے تو ان مقتولین کا نمونہ ہے ۔ چناں چہ انہوں نے انہیں کھینچا اور طرح طرح سے ستایا ، لیکن انہوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا ؛ آخر وہ قتل ہوئے ۔ حضرت خبیب اور زیدبن الدثنہ رضی اللہ عنہما کو لے جایا گیا؛ یہاں تک کہ ان دونوں کو واقعہ بدر کے بعدجاکر بیچ دیا ۔ حضرت خبیبؓ کوحارث بن عامر بن نوفل نے خرید کر لیا ۔ ان حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے حارث بن عامر کو بدر کی لڑائی میں قتل کردیا تھا۔ تو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ ان کے ہاں قیدی بن کر رہے ؛ یہاں تک کہ انہوں نے ان کے قتل کرنے کا پکا ارادہ کرلیا ۔ پس حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے پاکی حاصل کرنے کے لیے حارث کی کسی بیٹی سے استرا مانگا ، جس نے انہیں استرا عاریۃً دے دیا ۔ اس عورت کا ایک چھوٹا بچہ تھا جو چلتے چلتے حضرت خبیب رضی اللہ کے پاس پہنچ گیا ، جس کو انہوںنے اپنی ران پر بٹھا رکھا تھا ، اور استرا حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا ، وہ عورت کہتی ہے کہ میں سخت گھبرا گئی ، میری گھبراہٹ کو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے بھی محسوس کرلیا ، فرمانے لگے کیا تیرا گمان ہے کہ میں اسے قتل کردوںگا ۔ میں ایسا نہیں کروں گا وہ کہتی ہے کہ اللہ کی قسم ! میں نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ سے بہتر قیدی آج تک نہیں دیکھا ۔ واللہ ! میں نے اسے ایک دن دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے، جس سے وہ کھا رہے ہیں، جب کہ وہ زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے ؛حال یہ ہے کہ مکہ میں ان دنوں کوئی پھل نہیں تھا، وہ کہتی تھی یہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق تھا، جس کو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کھا رہے تھے ۔ پس جب وہ لوگ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کوحرم سے نکال کر لے گئے؛ تاکہ حل میں قتل کریں یعنی حرم سے باہر قتل کریں تو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نفل پڑھنے کی اجازت دو، جس پر ان لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا تو آپ نے دو رکعت نماز نفل پڑھ لی اور فرمانے لگے اللہ کی قسم ! اگر تم لوگ میرے ساتھ گھبراہٹ کا گمان نہ کرتے ،تو میں اور زیادہ نماز پڑھتا پھر دعا مانگی ۔ اے اللہ ! ان دشمنانِ خدا و رسول کو گن گن کر تہس نہس کردے اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو قتل کردے ۔ اور ان میں سے کسی کو بھی باقی نہ رہنے دے؛چناںچہ ان کی دعا قبول ہوئی ۔ ایسے ہی یہ لوگ کافر ہوکر قتل ہوئے ۔ ان کی جڑ ونسل باقی نہ رہی ، پھر حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار پڑھنے شروع کیے۔
ترجمہ: جب میں مسلمان ہوکر قتل کیا جارہا ہوں ، تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ اللہ کے راستے میں کون سے پہلو پر میرا قتل ہوگا اوریہ قربانی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو میرے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے بدن کے ہر جوڑ میں برکت عطا فرمادے پھر ابو سروعہ عقبہ بن الحارث اٹھا، جس نے حضرت خبیب رضی اللہ کو قتل کردیا ۔ اور حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے ہر مظلوم مسلمان شخص کے لیے یہ طریقہ جاری کردیا کہ مقتول ہونے سے پہلے وہ دو رکعت نماز ادا کرلے ۔ جس دن ان حضرات کو قتل کیا گیا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب ؓ کو اس کی اطلاع دے دی ۔ قریش کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا گیا ہے، تو ان کے کچھ آدمی اس مقصد کے لیے بھیجے کہ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کے بدن کا کچھ حصہ لایا جائے ، جس سے وہ پہنچانا جائے ، کیوں کہ انہوں نے قریش کے ایک بڑے سردار کو قتل کیا تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں کا ایک جتھہ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کے لیے بھیجا جو چھاتے کی طرح چھاگئے ، جنہوں نے قریش کے قاصدوں سے ان کی نعش کو محفوظ کرلیا کہ وہ لوگ ان کی نعش میں سے کچھ نہ کاٹ سکے ۔ اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے ذکر فرمایا کہ مرارہ بن الربیع العمری رضی اللہ عنہ اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ واقعی نیک بخت آدمی تھے ۔ یہ دونوں بدر میں حاضر تھے ۔ (جاری……)